Sahi-Bukhari:
Good Manners and Form (Al-Adab)
(Chapter: Lampooning Al-Mushrikin)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
6151.
حضرت ہثم بن ابو سنان سے روایت ہے انہوں نے حضرت ابو ہریرہ ؓ سے سنا وہ واقعات بیان کرتے ہوئے نبی ﷺ کا تذکرہ کر رہے تھے کہ ایک دفعہ آپ ﷺ فرمایا: ”تمہارے بھائی نے کوئی بری بات نہیں کہی۔“ آپ کا اشارہ حضرت عبداللہ بن رواحہ ؓ کی طرف تھا انہوں نے یہ شعر کہے تھے: یہ ہیں اللہ کے رسول جو اللہ کی کتاب کی تلاوت کرتے ہیں۔ جس وقت فجر کے وقت روشنی کھل جاتی ہے۔ انہوں نے ہمیں گمراہی کے بعد ہدایت کا راستہ دکھایا، ہمارے دل یقین کرتے ہیں کہ آپ نے جو کچھ فرمایا ہو کر رہے گا۔ آپ رات اس طرح گزارتے ہیں کہ آپ کا پہلو بستر سے جدا رہتا ہے جبکہ کافروں کی خواب گاہیں ان کے بوجھ سے بوجھل ہوتی ہیں عقیل نے زہری سے روایت کرنے میں یونس کی متابعت کی ہے۔ زبیدی نے زہری سے، انہوں نے سعید اور اعرج سے انہوں نے حضرت ابو ہریرہ ؓ سے اس حدیث کو روایت کیا۔
تشریح:
مشرکین کے خلاف زبان سے جہاد کرنے کی عملی صورت اس حدیث میں بیان ہوئی ہے۔ حضرت عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ نے ایک ہی شعر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعریف اور مشرکین کی مذمت فرمائی ہے، یہ اس بات کی دلیل ہے کہ انہیں شعر گوئی پر بہت دسترس اور قدرت حاصل تھی۔ سیدنا عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ نے پہلے شعر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی علمی حالت کو بیان کیا ہے کہ آپ کو کتاب اللہ سے بہت دلچسپی ہے جبکہ تیسرے شعر میں آپ کی عملی کیفیت کا ذکر ہے کہ آپ رات کو اٹھ کر اپنے رب کے حضور راز و نیاز کرتے ہیں۔ دوسرے شعر میں یہ اشارہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دوسروں کو بھی کامل کرتے ہیں، یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم علم و عمل میں کامل اور دوسروں کو مکمل کرنے والے ہیں۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5925
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6151
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
6151
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
6151
تمہید کتاب
اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہدایت اور دین حق دے کر بھیجا ہے۔اس دین میں حق بنیادی چیز توحید وایمان کی دعوت ہے۔جو خوش قسمت شخص نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اس بنیادی دعوت کو قبول کرلے اسے عملی زندگی گزارنے کے لیے ہدایات دی جاتی ہیں۔ان ہدایات کو دوحصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ ان میں بتایا جاتا ہے کہ بندوں پر اللہ تعالیٰ کا کیا حق ہے؟اور اس سلسلے میں بندوں کے فرائض وواجبات کیا ہیں؟پھر ان حقوق واجبات کو ادا کرنے کے لیے کیا کرنا چاہیے؟٭ وہ ہدایات جن کا تعلق بندوں پر بندوں کے حقوق سے ہے،یعنی دوسرے بندوں کے کیا حقوق ہیں؟اور اس دنیا میں جب ایک انسان دوسرے سے کوئی معاملہ کرتا ہے تو اسے کیا رویہ اختیار کرنا چاہیے؟پھر اس کے متعلق اللہ تعالیٰ کے کیا احکام ہیں؟انھیں حقوق العباد کہتے ہیں۔حقوق العباد کا معاملہ اس اعتبار سے زیادہ اہمیت کا حامل ہے کہ اگر ان حقوق کی ادائیگی میں کوتاہی ہوجائے،یعنی کسی بندے کی حق تلفی یا اس پر ظلم وزیادتی ہوجائے تو اس کی تلافی کا معاملہ اللہ تعالیٰ نے اپنے ہاتھ میں نہیں رکھا بلکہ تلافی کی یہ صورت ہے کہ دنیا میں اس بندے کا حق ادا کردیا جائے یا اس سے معافی حاصل کرلی جائے۔اگر دونوں صورتوں میں سے کوئی صورت نہ بن سکی تو آخرت میں اپنی نیکیاں دے کر یا اس کی برائیاں لے کر معاملہ طے کیا جائے گا لیکن وہاں یہ سودا بہت مہنگا پڑے گا کیونکہ محنت ومشقت سے کمائی ہوئی اپنی نیکیوں سے ہاتھ دھونا پڑیں گے اور ناکردہ گناہوں کو اپنے کھاتے میں ڈالنا ہوگا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: "جس کسی نے اپنی بھائی کے ساتھ ظلم وزیادتی کی ہو،اس کی عزت پر حملہ کیا ہو یا کسی دوسرے معاملے میں اس کی حق تلفی کی ہو تو اسے چاہیے کہ یوم آخرت سے پہلے پہلے اسی زندگی میں اس کے ساتھ اپنا معاملہ صاف کرلے۔آخرت میں کسی کے پاس درہم ودینار نہیں ہوں گے بلکہ اس کے پاس اگر نیک اعمال ہیں تو بقدر ظلم،مظلوم کو اس کے نیک اعمال دیے جائیں گے اور اگر نیکیوں سے خالی ہاتھ ہوگا تو مظلوم کے کچھ گناہ اس پر لاددیے جائیں گے۔"(صحیح البخاری، المظالم، حدیث:2449)پھر حقوق العباد کے دوحصے حسب ذیل ہیں:٭ ایک وہ حقوق ہیں جن کا تعلق آپس کے لین دین اور معاملات سے ہے، مثلاً: خریدوفروخت، تجارت وزراعت، قرض وامانت، ہبہ ووصیت،محنت ومزدوری یا آپس کے اختلافات اور جھگڑوں میں عدل وانصاف اور شہادت ووکالت سے متعلق ہیں۔انھیں مالی حقوق یا معاملات کا نام دیا جاتا ہے۔٭دوسرے وہ حقوق ہیں جن کا تعلق معاشرتی آداب واحکام سے ہے، مثلاً: والدین، زوجین، عزیزو اقارب، چھوٹوں، بڑوں، پڑوسیوں، محتاج لوگوں اور ضرورت مند کے ساتھ کیا رویہ اور کیسا برتاؤ ہونا چاہیے ۔اس کے علاوہ آپس میں ملنے جلنے،اٹھنے بیٹھنے کے مواقع پر کن آداب واحکام کی پابندی ضروری ہے۔ان حقوق کو ہم آداب واخلاق یا معاشرت کا نام دیتے ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب الادب میں حقوق العباد کے اس دوسرے حصے کو بیان کیا ہے۔ادب کے لغوی معنی ہیں جمع کرنا۔لوگوں کو طعام کے لیے جمع کرنا اور انھیں کھانے کے لیے بلانے کے معنی میں بھی یہ لفظ استعمال ہوتا ہے،اسی لیے خوشی کے موقع پر جو کھانا تیار کیا جاتا ہے اسے عربی زبان میں مادبه کہتے ہیں۔لفظ ادب بھی مأدبہ سے ماخوز ہے کیونکہ اس میں اخلاق حسنہ کو اختیار کرنے کی دعوت دی جاتی ہے۔حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں: "قابل تعریف گفتارو کردار کو عمل میں لانے کا نام ادب ہے" کچھ حضرات نے کہا ہے کہ اچھے اخلاق اختیار کرنا ادب ہے جبکہ کچھ اہل علم کا خیال ہے کہ چھوٹے سے نرمی اور بڑے کی تعظیم ادب ہے۔"(فتح الباری:10/491) اسلامی تعلیمات سے مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام کا نظام ادب وترتیت نہایت جامع، ہمہ گیر اور انتہائی مؤثر ہے۔دنیا کا کوئی بھی مذہب اس طرح کی جامع تعلیمات پیش کرنے سے قاصر ہے کیونکہ اسلام میں زندگی کے ہر گوشے کے متعلق آداب موجود ہیں۔حافظ ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "دین اسلام سراپا ادب ہے۔"(مدارج الساکین:2/363)اس طرح انھوں نے امام عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ کا ایک انتہائی خوبصورت اور قیمتی مقولہ پیش کیا ہے: "ہمیں بہت زیادہ علم کے بجائے تھوڑے سے ادب کی زیادہ ضرورت ہے۔"(مدارج الساکین:2/356)امام بخاری رحمہ اللہ نے اس سلسلے میں ہماری مکمل رہنمائی فرمائی ہے۔انھوں نے ایک جامع نظام اخلاق و آداب امت کے حوالے کیا ہے جسے ہم دوحصوں میں تقسیم کرتے ہیں:٭ آدابِ حقوق٭ اخلاق وکردار۔ ان کی پیش کردہ احادیث دو طرح کی ہیں:ایک وہ جن میں اصولی طور پر اخلاق وآداب پر زور دیا گیا ہے اور ان کی اہمیت وفضیلت اور ان کا غیر معمولی اخروی ثواب بیان کیا گیا ہے۔دوسری وہ احادیث ہیں جن میں خاص خاص حقوق وآداب اختیار کرنے یا بعض اخلاق وکردار سے بچنے کی تاکید بیان ہوئی ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے نظام اخلاق وآداب کے لیے دو سوچھپن (256) مرفوع احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں پھچتر (75) معلق اور ایک صداکیاسی(81) احادیث متصل سند سے بیان کی ہیں،پھر ان میں دوسو ایک(201) حدیثیں مکرر ہیں اور باقی پچپن(55) احادیث خالص ہیں۔امام مسلم رحمہ اللہ نے انیس (19) احادیث کے علاوہ امام بخاری رحمہ اللہ کی پیش کردہ احادیث کو بیان کیا ہے،پھر انھوں نے مرفوع احادیث کے علاوہ مختلف صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام رحمہ اللہ سے منقول گیارہ(11) آثار پیش کیے ہیں۔آپ کی فقاہت اور قوت استنباط کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ ان احادیث وآثار سے بیسوں آداب واخلاق کو ثابت کرتے ہوئے ایک سو اٹھائیس (128) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں۔بہرحال آداب زندگی کو اختیار کرنا اخروی سعادت کا باعث ہے۔انھیں اختیار کرنے سے قلبی سکون اور راحت ملتی ہے،اس کے علاوہ دوسرے لوگوں کے لیے بھی راحت وچین کا سامان مہیا ہوگا اور ان آداب سے محرومی اخروی سعادت سے محرومی کا ذریعہ ہے،نیز دنیاوی زندگی بھی بے چینی سے گزرے گی اور دوسروں کی زندگیاں بھی بے مزہ اور تلخ ہوں گی۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اچھے اخلاق وآداب بجالانے کی توفیق دے اور برے کردار وگفتار سے ہمیں محفوظ رکھےقارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ پیش کردہ احادیث کا مطالعہ خالص " علمی سیر" کے طور پر ہر گز نہ کریں بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اپنے ایمانی تعلق کو تازہ کرنے، ان پر عمل کرنے اور ان سے ہدایت حاصل کرنے کی نیت سے پڑھیں۔اگر ایسا کیا گیا تو امید ہے کہ ان انوار برکات سے ہم جلد مالا مال ہوں گے جن کی ہمیں دنیا وآخرت میں بہت ضرورت ہے۔
تمہید باب
ہجا اور ہجو کے ایک ہی معنی ہیں کہ اشعار کے ذریعے سے کسی کی مذمت کی جائے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: ''اپنی زبانوں کے ساتھ مشرکین سے جہاد کرو۔'' (مسند احمد:3/153) یعنی اگر مشرکین اپنے اشعار سے تمہاری ہجو کریں تو تم بھی ایسا کرو۔ اپنے اشعار سے ان کی ہجو کرنے کی تمہیں اجازت ہے۔
حضرت ہثم بن ابو سنان سے روایت ہے انہوں نے حضرت ابو ہریرہ ؓ سے سنا وہ واقعات بیان کرتے ہوئے نبی ﷺ کا تذکرہ کر رہے تھے کہ ایک دفعہ آپ ﷺ فرمایا: ”تمہارے بھائی نے کوئی بری بات نہیں کہی۔“ آپ کا اشارہ حضرت عبداللہ بن رواحہ ؓ کی طرف تھا انہوں نے یہ شعر کہے تھے: یہ ہیں اللہ کے رسول جو اللہ کی کتاب کی تلاوت کرتے ہیں۔ جس وقت فجر کے وقت روشنی کھل جاتی ہے۔ انہوں نے ہمیں گمراہی کے بعد ہدایت کا راستہ دکھایا، ہمارے دل یقین کرتے ہیں کہ آپ نے جو کچھ فرمایا ہو کر رہے گا۔ آپ رات اس طرح گزارتے ہیں کہ آپ کا پہلو بستر سے جدا رہتا ہے جبکہ کافروں کی خواب گاہیں ان کے بوجھ سے بوجھل ہوتی ہیں عقیل نے زہری سے روایت کرنے میں یونس کی متابعت کی ہے۔ زبیدی نے زہری سے، انہوں نے سعید اور اعرج سے انہوں نے حضرت ابو ہریرہ ؓ سے اس حدیث کو روایت کیا۔
حدیث حاشیہ:
مشرکین کے خلاف زبان سے جہاد کرنے کی عملی صورت اس حدیث میں بیان ہوئی ہے۔ حضرت عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ نے ایک ہی شعر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعریف اور مشرکین کی مذمت فرمائی ہے، یہ اس بات کی دلیل ہے کہ انہیں شعر گوئی پر بہت دسترس اور قدرت حاصل تھی۔ سیدنا عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ نے پہلے شعر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی علمی حالت کو بیان کیا ہے کہ آپ کو کتاب اللہ سے بہت دلچسپی ہے جبکہ تیسرے شعر میں آپ کی عملی کیفیت کا ذکر ہے کہ آپ رات کو اٹھ کر اپنے رب کے حضور راز و نیاز کرتے ہیں۔ دوسرے شعر میں یہ اشارہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دوسروں کو بھی کامل کرتے ہیں، یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم علم و عمل میں کامل اور دوسروں کو مکمل کرنے والے ہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے اصبغ بن فرج نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے عبداللہ بن وہب نے بیان کیا، کہا کہ مجھے یونس نے خبر دی، انہیں ابن شہاب نے، انہیں ہشیم بن ابی سنان نے خبر دی کہ انہوں نے حضرت ابو ہریرہ ؓ سے سنا وہ حالات اور قصص کے تحت رسول کریم ﷺ کا تذکرہ کر رہے تھے۔ کہ ایک دفعہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا تمہارے ایک بھائی نے کوئی بری بات نہیں کہی۔ آپ کا اشارہ ابن رواحہ کی طرف تھا (اپنے اشعار میں) انہوں نے یوں کہا تھا: ”اور ہم میں اللہ کے رسول ہیں جو اس کی کتاب کی تلاوت کرتے ہیں، اس وقت جب فجر کی روشنی پھوٹ کر پھیل جاتی ہے۔ ہمیں انہوں نے گمراہی کے بعد ہدایت کا راستہ دکھایا۔ پس ہمارے دل اس امر پر یقین رکھتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے جو کچھ فرمایا وہ ضرور واقع ہوگا۔ آپ رات اس طرح گزارتے ہیں کہ ان کا پہلو بستر سے جدا رہتا ہے (یعنی جاگ کر) جب کہ کافروں کے بوجھ سے ان کی خواب گاہیں بوجھل ہوئی رہتی ہیں۔“ یونس کے ساتھ اس حدیث کو عقیل نے بھی زہری سے روایت کیا اور محمد بن ولید زبیدی نے زہری سے، انہوں نے سعید بن مسیب سے اور عبدالرحمن اعرج سے انہوں نے ابو ہریرہ ؓ سے اس حدیث کو روایت کیا۔
حدیث حاشیہ:
حضرت مولانا وحیدالزماں مرحوم نے اشعار میں ان کا ترجمہ کیا ہے۔ ایک پیغمبر خدا کا پڑھتا ہے اس کی کتاب اور سناتا ہے ہمیں جب صبح کی پوپھٹتی ہے ہم تو اندھے تھے اسی نے راستہ بتلایا دیا بات ہے یقینی دل میں جا کر کھیتی ہے رات کو رکھتا ہے پہلو اپنے بستر سے الگ کافروں کی خواب گاہ کو نیند بھاری کرتی ہے پہلے شعر میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے علم کی طرف اشارہ ہے اورتیسرے میں آپ کے عمل کی طرف اشارہ ہے پس آپ علم اور عمل ہر لحاظ سے کامل ومکمل ہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Al-Haitham bin Abu Sinan (RA) : that he heard Abu Hurairah (RA) in his narration, mentioning that the Prophet (ﷺ) said, "A Muslim brother of yours who does not say dirty words." and by that he meant Ibn Rawaha, "said (in verse): 'We have Allah's Apostle (ﷺ) with us who recites the Holy Qur'an in the early morning time. He gave us guidance and light while we were blind and astray, so our hearts are sure that whatever he says, will certainly happen. He does not touch his bed at night, being busy in worshipping Allah while the pagans are sound asleep in their beds.' "