Sahi-Bukhari:
Good Manners and Form (Al-Adab)
(Chapter: To change a name for better name)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
6191.
حضرت سہل بن سعد ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ منذر بن ابو اسید ؓ جب پیدا ہوئے تو انہیں نبی ﷺ کی خدمت میں لایا گیا۔ آپ ﷺ نے اسے اپنی رانوں پر رکھ لیا اور حضرت ابو اسید ؓ بھی بیٹھے ہوئے تھے۔ نبی ﷺ کسی کام میں مشغول ہو گئے تو حضرت ابو اسید ؓ نے اپنے بیٹے کے متعلق حکم دیا کہ اسےاٹھا لیا جائے، چنانچہ بچے کو آپ کی ران سے اٹھا لیا گیا۔ پھر نبی ﷺ اس کام سے فارغ ہوئے تو فرمایا: ”بچہ کہاں ہے؟“ حضرت ابو اسید ؓ نے کہا: اللہ کے رسول! ہم نے اسے گھر بھیج دیا ہے۔ آپ نے پوچھا: ”اس کا نام کیا ہے؟“ عرض کی: فلاں ہے۔ آپ نے فرمایا: ”لیکن اس کا نام منذر ہے۔“ چنانچہ اسی دن آپ نے اس کا نام منذر رکھ دیا۔
تشریح:
(1) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نیک فالی کے طور پر بچے کا نام منذر رکھا تاکہ اللہ تعالیٰ اسے علم کی دولت عطا فرمائے اور وہ اپنی قوم کو برے انجام سے آگاہ کرے۔ (2) روایات سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ بئر معونہ میں اس کے خاندان کے ایک بزرگ منذر بن عمرو ساعدی رضی اللہ عنہ شہید کر دیے گئے تھے تو انہی کے نام پر ان کا نام رکھ دیا گیا تھا۔ (صحیح البخاري،المغازي، حدیث:4093)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5965
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6191
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
6191
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
6191
تمہید کتاب
اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہدایت اور دین حق دے کر بھیجا ہے۔اس دین میں حق بنیادی چیز توحید وایمان کی دعوت ہے۔جو خوش قسمت شخص نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اس بنیادی دعوت کو قبول کرلے اسے عملی زندگی گزارنے کے لیے ہدایات دی جاتی ہیں۔ان ہدایات کو دوحصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ ان میں بتایا جاتا ہے کہ بندوں پر اللہ تعالیٰ کا کیا حق ہے؟اور اس سلسلے میں بندوں کے فرائض وواجبات کیا ہیں؟پھر ان حقوق واجبات کو ادا کرنے کے لیے کیا کرنا چاہیے؟٭ وہ ہدایات جن کا تعلق بندوں پر بندوں کے حقوق سے ہے،یعنی دوسرے بندوں کے کیا حقوق ہیں؟اور اس دنیا میں جب ایک انسان دوسرے سے کوئی معاملہ کرتا ہے تو اسے کیا رویہ اختیار کرنا چاہیے؟پھر اس کے متعلق اللہ تعالیٰ کے کیا احکام ہیں؟انھیں حقوق العباد کہتے ہیں۔حقوق العباد کا معاملہ اس اعتبار سے زیادہ اہمیت کا حامل ہے کہ اگر ان حقوق کی ادائیگی میں کوتاہی ہوجائے،یعنی کسی بندے کی حق تلفی یا اس پر ظلم وزیادتی ہوجائے تو اس کی تلافی کا معاملہ اللہ تعالیٰ نے اپنے ہاتھ میں نہیں رکھا بلکہ تلافی کی یہ صورت ہے کہ دنیا میں اس بندے کا حق ادا کردیا جائے یا اس سے معافی حاصل کرلی جائے۔اگر دونوں صورتوں میں سے کوئی صورت نہ بن سکی تو آخرت میں اپنی نیکیاں دے کر یا اس کی برائیاں لے کر معاملہ طے کیا جائے گا لیکن وہاں یہ سودا بہت مہنگا پڑے گا کیونکہ محنت ومشقت سے کمائی ہوئی اپنی نیکیوں سے ہاتھ دھونا پڑیں گے اور ناکردہ گناہوں کو اپنے کھاتے میں ڈالنا ہوگا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: "جس کسی نے اپنی بھائی کے ساتھ ظلم وزیادتی کی ہو،اس کی عزت پر حملہ کیا ہو یا کسی دوسرے معاملے میں اس کی حق تلفی کی ہو تو اسے چاہیے کہ یوم آخرت سے پہلے پہلے اسی زندگی میں اس کے ساتھ اپنا معاملہ صاف کرلے۔آخرت میں کسی کے پاس درہم ودینار نہیں ہوں گے بلکہ اس کے پاس اگر نیک اعمال ہیں تو بقدر ظلم،مظلوم کو اس کے نیک اعمال دیے جائیں گے اور اگر نیکیوں سے خالی ہاتھ ہوگا تو مظلوم کے کچھ گناہ اس پر لاددیے جائیں گے۔"(صحیح البخاری، المظالم، حدیث:2449)پھر حقوق العباد کے دوحصے حسب ذیل ہیں:٭ ایک وہ حقوق ہیں جن کا تعلق آپس کے لین دین اور معاملات سے ہے، مثلاً: خریدوفروخت، تجارت وزراعت، قرض وامانت، ہبہ ووصیت،محنت ومزدوری یا آپس کے اختلافات اور جھگڑوں میں عدل وانصاف اور شہادت ووکالت سے متعلق ہیں۔انھیں مالی حقوق یا معاملات کا نام دیا جاتا ہے۔٭دوسرے وہ حقوق ہیں جن کا تعلق معاشرتی آداب واحکام سے ہے، مثلاً: والدین، زوجین، عزیزو اقارب، چھوٹوں، بڑوں، پڑوسیوں، محتاج لوگوں اور ضرورت مند کے ساتھ کیا رویہ اور کیسا برتاؤ ہونا چاہیے ۔اس کے علاوہ آپس میں ملنے جلنے،اٹھنے بیٹھنے کے مواقع پر کن آداب واحکام کی پابندی ضروری ہے۔ان حقوق کو ہم آداب واخلاق یا معاشرت کا نام دیتے ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب الادب میں حقوق العباد کے اس دوسرے حصے کو بیان کیا ہے۔ادب کے لغوی معنی ہیں جمع کرنا۔لوگوں کو طعام کے لیے جمع کرنا اور انھیں کھانے کے لیے بلانے کے معنی میں بھی یہ لفظ استعمال ہوتا ہے،اسی لیے خوشی کے موقع پر جو کھانا تیار کیا جاتا ہے اسے عربی زبان میں مادبه کہتے ہیں۔لفظ ادب بھی مأدبہ سے ماخوز ہے کیونکہ اس میں اخلاق حسنہ کو اختیار کرنے کی دعوت دی جاتی ہے۔حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں: "قابل تعریف گفتارو کردار کو عمل میں لانے کا نام ادب ہے" کچھ حضرات نے کہا ہے کہ اچھے اخلاق اختیار کرنا ادب ہے جبکہ کچھ اہل علم کا خیال ہے کہ چھوٹے سے نرمی اور بڑے کی تعظیم ادب ہے۔"(فتح الباری:10/491) اسلامی تعلیمات سے مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام کا نظام ادب وترتیت نہایت جامع، ہمہ گیر اور انتہائی مؤثر ہے۔دنیا کا کوئی بھی مذہب اس طرح کی جامع تعلیمات پیش کرنے سے قاصر ہے کیونکہ اسلام میں زندگی کے ہر گوشے کے متعلق آداب موجود ہیں۔حافظ ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "دین اسلام سراپا ادب ہے۔"(مدارج الساکین:2/363)اس طرح انھوں نے امام عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ کا ایک انتہائی خوبصورت اور قیمتی مقولہ پیش کیا ہے: "ہمیں بہت زیادہ علم کے بجائے تھوڑے سے ادب کی زیادہ ضرورت ہے۔"(مدارج الساکین:2/356)امام بخاری رحمہ اللہ نے اس سلسلے میں ہماری مکمل رہنمائی فرمائی ہے۔انھوں نے ایک جامع نظام اخلاق و آداب امت کے حوالے کیا ہے جسے ہم دوحصوں میں تقسیم کرتے ہیں:٭ آدابِ حقوق٭ اخلاق وکردار۔ ان کی پیش کردہ احادیث دو طرح کی ہیں:ایک وہ جن میں اصولی طور پر اخلاق وآداب پر زور دیا گیا ہے اور ان کی اہمیت وفضیلت اور ان کا غیر معمولی اخروی ثواب بیان کیا گیا ہے۔دوسری وہ احادیث ہیں جن میں خاص خاص حقوق وآداب اختیار کرنے یا بعض اخلاق وکردار سے بچنے کی تاکید بیان ہوئی ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے نظام اخلاق وآداب کے لیے دو سوچھپن (256) مرفوع احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں پھچتر (75) معلق اور ایک صداکیاسی(81) احادیث متصل سند سے بیان کی ہیں،پھر ان میں دوسو ایک(201) حدیثیں مکرر ہیں اور باقی پچپن(55) احادیث خالص ہیں۔امام مسلم رحمہ اللہ نے انیس (19) احادیث کے علاوہ امام بخاری رحمہ اللہ کی پیش کردہ احادیث کو بیان کیا ہے،پھر انھوں نے مرفوع احادیث کے علاوہ مختلف صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام رحمہ اللہ سے منقول گیارہ(11) آثار پیش کیے ہیں۔آپ کی فقاہت اور قوت استنباط کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ ان احادیث وآثار سے بیسوں آداب واخلاق کو ثابت کرتے ہوئے ایک سو اٹھائیس (128) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں۔بہرحال آداب زندگی کو اختیار کرنا اخروی سعادت کا باعث ہے۔انھیں اختیار کرنے سے قلبی سکون اور راحت ملتی ہے،اس کے علاوہ دوسرے لوگوں کے لیے بھی راحت وچین کا سامان مہیا ہوگا اور ان آداب سے محرومی اخروی سعادت سے محرومی کا ذریعہ ہے،نیز دنیاوی زندگی بھی بے چینی سے گزرے گی اور دوسروں کی زندگیاں بھی بے مزہ اور تلخ ہوں گی۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اچھے اخلاق وآداب بجالانے کی توفیق دے اور برے کردار وگفتار سے ہمیں محفوظ رکھےقارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ پیش کردہ احادیث کا مطالعہ خالص " علمی سیر" کے طور پر ہر گز نہ کریں بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اپنے ایمانی تعلق کو تازہ کرنے، ان پر عمل کرنے اور ان سے ہدایت حاصل کرنے کی نیت سے پڑھیں۔اگر ایسا کیا گیا تو امید ہے کہ ان انوار برکات سے ہم جلد مالا مال ہوں گے جن کی ہمیں دنیا وآخرت میں بہت ضرورت ہے۔
تمہید باب
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت مبارک تھی کہ آپ برا نام تبدیل کر دیا کرتے تھے جیسا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے آپ کا معمول بیان کیا ہے۔ (جامع الترمذی، الادب، حدیث:2839)
حضرت سہل بن سعد ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ منذر بن ابو اسید ؓ جب پیدا ہوئے تو انہیں نبی ﷺ کی خدمت میں لایا گیا۔ آپ ﷺ نے اسے اپنی رانوں پر رکھ لیا اور حضرت ابو اسید ؓ بھی بیٹھے ہوئے تھے۔ نبی ﷺ کسی کام میں مشغول ہو گئے تو حضرت ابو اسید ؓ نے اپنے بیٹے کے متعلق حکم دیا کہ اسےاٹھا لیا جائے، چنانچہ بچے کو آپ کی ران سے اٹھا لیا گیا۔ پھر نبی ﷺ اس کام سے فارغ ہوئے تو فرمایا: ”بچہ کہاں ہے؟“ حضرت ابو اسید ؓ نے کہا: اللہ کے رسول! ہم نے اسے گھر بھیج دیا ہے۔ آپ نے پوچھا: ”اس کا نام کیا ہے؟“ عرض کی: فلاں ہے۔ آپ نے فرمایا: ”لیکن اس کا نام منذر ہے۔“ چنانچہ اسی دن آپ نے اس کا نام منذر رکھ دیا۔
حدیث حاشیہ:
(1) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نیک فالی کے طور پر بچے کا نام منذر رکھا تاکہ اللہ تعالیٰ اسے علم کی دولت عطا فرمائے اور وہ اپنی قوم کو برے انجام سے آگاہ کرے۔ (2) روایات سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ بئر معونہ میں اس کے خاندان کے ایک بزرگ منذر بن عمرو ساعدی رضی اللہ عنہ شہید کر دیے گئے تھے تو انہی کے نام پر ان کا نام رکھ دیا گیا تھا۔ (صحیح البخاري،المغازي، حدیث:4093)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے سعید بن ابی مریم نے بیان کیا، کہا ہم سے ابو غسان نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے ابو حازم نے بیان کیا اور ان سے سہل ؓ نے بیان کیا کہ منذر بن ابی اسید ؓ کی ولادت ہوئی تو انہیں نبی کریم ﷺ کے پاس لایا گیا۔ آنحضرت ﷺ نے بچہ کو اپنی ران پر رکھ لیا۔ ابو اسید ؓ بیٹھے ہوئے تھے۔ حضور اکرم ﷺ کسی چیز میں جو سامنے تھی مصروف ہو گئے (اور بچہ کی طرف توجہ ہٹ گئی) ابو اسید ؓ نے بچہ کے متعلق حکم دیا اور آنحضرت ﷺ کی ران سے اٹھا لیا گیا۔ پھر جب آنحضرت ﷺ متوجہ ہوئے تو فرمایا، بچہ کہاں ہے؟ ابو اسید ؓ نے عرض کیا، یا رسول اللہ! ہم نے اسے گھر بھیج دیا۔ آنحضرت ﷺ نے پوچھا۔ اس کا نام کیا ہے؟ عرض کیا کہ فلاں۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا، بلکہ اس کا نام ”منذر“ ہے۔ چنانچہ اسی دن آنحضور ﷺ نے ان کا یہی نام منذر رکھا۔
حدیث حاشیہ:
منذر گنہگار وں کو عذاب الہٰی سے ڈرانے والا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Sahl (RA) : When Al-Mundhir bin Abu Usaid was born, he was brought to the Prophet (ﷺ) who placed him on his thigh. While Abu Usaid was sitting there, the Prophet (ﷺ) was busy with something in his hands so Abu Usaid told someone to take his son from the thigh of the Prophet (ﷺ) . When the Prophet (ﷺ) finished his job (with which he was busy), he said, "Where is the boy?" Abu Usaid replied, "We have sent him home." The Prophet (ﷺ) said, "What is his name?" Abu Usaid said, "(His name is) so-and-so. " The Prophet (ﷺ) said, "No, his name is Al-Mundhir." So he called him Al-Mundhir from that day.