Sahi-Bukhari:
Good Manners and Form (Al-Adab)
(Chapter: The Kunyah of Al-Mushrik)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور مسور بن مخرمہ نے کہا کہ میں نے نبی کریم ﷺ سے سنا ، آپ نے فر مایا ، ہاں یہ ہو سکتا ہے کہ ابو طالب کا بیٹا میری بیٹی کو طلاق دے دے ۔حضرت امام بخاری نے اس حدیث سے یہ ثابت کیا کہ مشرک شخص کو اس کی کنیت سے یاد کر سکتے ہیں۔ کیونکہ آنحضرت ﷺ نے ابو طالب کا بیٹا کہا۔ ابو طالب کنیت تھی اور وہ مشرک رہ کر مرے تھے۔ روایت ذیل میں ترجمہ باب اس سے نکلتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عبداللہ بن ابی منافق کو اس کی کنیت ابو الحباب سے ذکر فرمایا۔
6207.
حضرت اسامہ بن زید ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ ایک دفعہ گدھے پر سوار ہوئے جس پر فدک کی نبی ہوئی چادر بچھی تھی جبکہ اسامہ آپ کے پیچھے سوار تھے۔ آپ ﷺ قبیلہ حارث بن خزرج میں حضرت سعد بن عبادہ ؓ کی عیادت (بیمار پرسی) کے لیے تشریف لے جا رہے تھے یہ واقعہ غزوہ بدر سے پہلے کا ہے۔ دونوں حضرات چلتے رہے حتٰی کہ ایک مجلس کے پاس سے گزرے جس میں عبداللہ بن ابی ابن سلول بھی تھا جبکہ وہ ابھی مسلمان نہیں ہوا تھا۔ اس مجلس میں کچھ مسلمان بھی تھے، بتوں کی پرستش کرنے والے مشرک اور یہودی بھی تھے۔ مسلمانوں میں حضرت عبداللہ بن رواحہ ؓ بھی موجود تھے، جب مجلس پر سواری کا غبار اڑکر پڑا تو عبداللہ بن ابی نے چادر سے اپنی ناک ڈھانپ لی اور کہنے لگا: ہم پر غبار نہ اڑاؤ۔ رسول اللہ ﷺ نے اہل مجلس کو سلام کہا۔ پھر وہاں ٹھہر گئے اور سواری سے اترے اور انہیں اللہ کے دین کی دعوت دی، نیز انہیں قرآن پڑھ کر سنایا۔ عبداللہ بن ابی نے کہا: بھلے آدمی! جو کچھ تم نے پڑھ کر سنایا ہے اس سے بہتر کوئی کلا م نہیں ہو سکتا اگرچہ حق ہے مگر ہماری مجالس میں آ کر اس کی وجہ سے ہمیں اذیت نہ دیا کرو، ہاں جو تمہارے پاس آئے اسے یہ قصے سنا دیا کرو۔ حضرت عبداللہ بن رواحہ ؓ نے کہا: کیوں نہیں: اللہ کے رسول! آپ ہماری مجالس میں تشریف لایا کریں۔ ہم اسے پسند کرتے ہیں اس معاملے میں مسلمانوں، مشرکین اور یہودیوں کا باہمی جھگڑا ہو گیا۔ قریب تھا کہ وہ ایک دوسرے کے ساتھ لڑائی پر اتر آئیں لیکن رسول اللہ ﷺ خاموش کراتے رہے۔ آخر جب تمام لوگ خاموش ہو گئے تو رسول اللہ ﷺ اپنی سواری پر بیٹھ کر (وہاں سے) تشریف لے گئے۔ جب سعد بن عبادہ ؓ کے پاس پہنچی تو رسول اللہ ﷺ نے انہیں فرمایا: اے سعد! تم نے نہیں سنا کہ آج ابو حباب نے کس طرح کی باتیں کی ہیں؟ آپ کا ارشاد عبداللہ بن ابی کی طرف تھا۔ اس نے ایسا ایسا کہا ہے۔ سعد بن عبادہ ؓ نےکہا: اللہ کے رسول! میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں آپ اسے معاف کر دیں اور اس سے درگزر فرمائیں۔ اس ذات کی قسم جس نے آپ پر کتاب نازل کی ہے! اللہ تعالٰی نے آپ کو حق دیا ہے جو آپ پر اتارا ہے آپ کے تشریف لانے سے پہلے اس بستی (مدینہ طیبہ) کے باشندے اس امر متفق ہو گئے تھے کہ اس کے سر پر تاج رکھیں اور اسے سرداروں کی سی پگڑی باندھیں لیکن اللہ تعالٰی نے سچا کلام دے آپ کو یہاں بھیج دیا۔ وہ اس بات سے چڑ گیا اور جو کچھ آپ نے آج ملاحظہ فرمایا ہے وہ اس جلن کی وجہ سے ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے اسے (عبداللہ بن ابی کو) معاف کر دیا۔ رسول اللہ ﷺ اور آپ کے صحابہ کرام اللہ کے حکم کے مطابق مشرکین اور اہل کتاب سے اسی طرح درگزر کیا کرتے تھے اور ان کی طرف سے پہنچے والی تکلیفوں پر صبر کیا کرتے تھے جس طرح انہیں اللہ نے حکم دیا تھا۔ ارشاد باری تعالٰی ہے: تم یقیناً ان لوگوں سے جنہیں تم سے پہلے کتاب دی گئی ہے (تکلیف دو باتیں) ضرور سنو گے۔ دوسرے مقام پر فرمایا: ”اہل کتاب یہ خواہش کرتے ہیں (کہ تم کو ایمان لانے کے بعد کافر بنا دیں)“ چنانچہ رسول اللہ ﷺ انہیں معاف کرنے کے لیے اللہ کے حکم مطابق عمل کیا کرتے تھے انہیں معاف کرنے کے لیے اللہ کےحکم کے مطابق عمل کیا کرتے تھے حتٰی کہ آپ کو ان کے خلاف جہاد کرنے کی اجازت دی گئی۔ پھر جب رسول اللہ ﷺ نے غزوہ بدر لڑا اور اللہ کے حکم سے اس میں کفار کے بڑے بڑے بہادر اور قریش کے سردار قتل کیے گئے تو رسول اللہ ﷺ اپنے صحابہ کرام کے ساتھ فتح مند ہو کر اور مال غنیمت لے کر لوٹے ان کے ساتھ کافروں کے بڑے بڑے سرغنے اور قریش کے سردار قیدی بھی تھے۔ اس وقت عبداللہ بن ابی اور اس کے مشرک ساتھیوں اور دیگر بت پرستوں نے کہا: اب اسلام کا معاملہ کامیاب ہوگیا ہے۔ چنانچہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے اسلام پر بیعت کرلی اور( بظاہر ) مسلمان ہوگئے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5981
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6207
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
6207
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
6207
تمہید کتاب
اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہدایت اور دین حق دے کر بھیجا ہے۔اس دین میں حق بنیادی چیز توحید وایمان کی دعوت ہے۔جو خوش قسمت شخص نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اس بنیادی دعوت کو قبول کرلے اسے عملی زندگی گزارنے کے لیے ہدایات دی جاتی ہیں۔ان ہدایات کو دوحصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ ان میں بتایا جاتا ہے کہ بندوں پر اللہ تعالیٰ کا کیا حق ہے؟اور اس سلسلے میں بندوں کے فرائض وواجبات کیا ہیں؟پھر ان حقوق واجبات کو ادا کرنے کے لیے کیا کرنا چاہیے؟٭ وہ ہدایات جن کا تعلق بندوں پر بندوں کے حقوق سے ہے،یعنی دوسرے بندوں کے کیا حقوق ہیں؟اور اس دنیا میں جب ایک انسان دوسرے سے کوئی معاملہ کرتا ہے تو اسے کیا رویہ اختیار کرنا چاہیے؟پھر اس کے متعلق اللہ تعالیٰ کے کیا احکام ہیں؟انھیں حقوق العباد کہتے ہیں۔حقوق العباد کا معاملہ اس اعتبار سے زیادہ اہمیت کا حامل ہے کہ اگر ان حقوق کی ادائیگی میں کوتاہی ہوجائے،یعنی کسی بندے کی حق تلفی یا اس پر ظلم وزیادتی ہوجائے تو اس کی تلافی کا معاملہ اللہ تعالیٰ نے اپنے ہاتھ میں نہیں رکھا بلکہ تلافی کی یہ صورت ہے کہ دنیا میں اس بندے کا حق ادا کردیا جائے یا اس سے معافی حاصل کرلی جائے۔اگر دونوں صورتوں میں سے کوئی صورت نہ بن سکی تو آخرت میں اپنی نیکیاں دے کر یا اس کی برائیاں لے کر معاملہ طے کیا جائے گا لیکن وہاں یہ سودا بہت مہنگا پڑے گا کیونکہ محنت ومشقت سے کمائی ہوئی اپنی نیکیوں سے ہاتھ دھونا پڑیں گے اور ناکردہ گناہوں کو اپنے کھاتے میں ڈالنا ہوگا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: "جس کسی نے اپنی بھائی کے ساتھ ظلم وزیادتی کی ہو،اس کی عزت پر حملہ کیا ہو یا کسی دوسرے معاملے میں اس کی حق تلفی کی ہو تو اسے چاہیے کہ یوم آخرت سے پہلے پہلے اسی زندگی میں اس کے ساتھ اپنا معاملہ صاف کرلے۔آخرت میں کسی کے پاس درہم ودینار نہیں ہوں گے بلکہ اس کے پاس اگر نیک اعمال ہیں تو بقدر ظلم،مظلوم کو اس کے نیک اعمال دیے جائیں گے اور اگر نیکیوں سے خالی ہاتھ ہوگا تو مظلوم کے کچھ گناہ اس پر لاددیے جائیں گے۔"(صحیح البخاری، المظالم، حدیث:2449)پھر حقوق العباد کے دوحصے حسب ذیل ہیں:٭ ایک وہ حقوق ہیں جن کا تعلق آپس کے لین دین اور معاملات سے ہے، مثلاً: خریدوفروخت، تجارت وزراعت، قرض وامانت، ہبہ ووصیت،محنت ومزدوری یا آپس کے اختلافات اور جھگڑوں میں عدل وانصاف اور شہادت ووکالت سے متعلق ہیں۔انھیں مالی حقوق یا معاملات کا نام دیا جاتا ہے۔٭دوسرے وہ حقوق ہیں جن کا تعلق معاشرتی آداب واحکام سے ہے، مثلاً: والدین، زوجین، عزیزو اقارب، چھوٹوں، بڑوں، پڑوسیوں، محتاج لوگوں اور ضرورت مند کے ساتھ کیا رویہ اور کیسا برتاؤ ہونا چاہیے ۔اس کے علاوہ آپس میں ملنے جلنے،اٹھنے بیٹھنے کے مواقع پر کن آداب واحکام کی پابندی ضروری ہے۔ان حقوق کو ہم آداب واخلاق یا معاشرت کا نام دیتے ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب الادب میں حقوق العباد کے اس دوسرے حصے کو بیان کیا ہے۔ادب کے لغوی معنی ہیں جمع کرنا۔لوگوں کو طعام کے لیے جمع کرنا اور انھیں کھانے کے لیے بلانے کے معنی میں بھی یہ لفظ استعمال ہوتا ہے،اسی لیے خوشی کے موقع پر جو کھانا تیار کیا جاتا ہے اسے عربی زبان میں مادبه کہتے ہیں۔لفظ ادب بھی مأدبہ سے ماخوز ہے کیونکہ اس میں اخلاق حسنہ کو اختیار کرنے کی دعوت دی جاتی ہے۔حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں: "قابل تعریف گفتارو کردار کو عمل میں لانے کا نام ادب ہے" کچھ حضرات نے کہا ہے کہ اچھے اخلاق اختیار کرنا ادب ہے جبکہ کچھ اہل علم کا خیال ہے کہ چھوٹے سے نرمی اور بڑے کی تعظیم ادب ہے۔"(فتح الباری:10/491) اسلامی تعلیمات سے مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام کا نظام ادب وترتیت نہایت جامع، ہمہ گیر اور انتہائی مؤثر ہے۔دنیا کا کوئی بھی مذہب اس طرح کی جامع تعلیمات پیش کرنے سے قاصر ہے کیونکہ اسلام میں زندگی کے ہر گوشے کے متعلق آداب موجود ہیں۔حافظ ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "دین اسلام سراپا ادب ہے۔"(مدارج الساکین:2/363)اس طرح انھوں نے امام عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ کا ایک انتہائی خوبصورت اور قیمتی مقولہ پیش کیا ہے: "ہمیں بہت زیادہ علم کے بجائے تھوڑے سے ادب کی زیادہ ضرورت ہے۔"(مدارج الساکین:2/356)امام بخاری رحمہ اللہ نے اس سلسلے میں ہماری مکمل رہنمائی فرمائی ہے۔انھوں نے ایک جامع نظام اخلاق و آداب امت کے حوالے کیا ہے جسے ہم دوحصوں میں تقسیم کرتے ہیں:٭ آدابِ حقوق٭ اخلاق وکردار۔ ان کی پیش کردہ احادیث دو طرح کی ہیں:ایک وہ جن میں اصولی طور پر اخلاق وآداب پر زور دیا گیا ہے اور ان کی اہمیت وفضیلت اور ان کا غیر معمولی اخروی ثواب بیان کیا گیا ہے۔دوسری وہ احادیث ہیں جن میں خاص خاص حقوق وآداب اختیار کرنے یا بعض اخلاق وکردار سے بچنے کی تاکید بیان ہوئی ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے نظام اخلاق وآداب کے لیے دو سوچھپن (256) مرفوع احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں پھچتر (75) معلق اور ایک صداکیاسی(81) احادیث متصل سند سے بیان کی ہیں،پھر ان میں دوسو ایک(201) حدیثیں مکرر ہیں اور باقی پچپن(55) احادیث خالص ہیں۔امام مسلم رحمہ اللہ نے انیس (19) احادیث کے علاوہ امام بخاری رحمہ اللہ کی پیش کردہ احادیث کو بیان کیا ہے،پھر انھوں نے مرفوع احادیث کے علاوہ مختلف صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام رحمہ اللہ سے منقول گیارہ(11) آثار پیش کیے ہیں۔آپ کی فقاہت اور قوت استنباط کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ ان احادیث وآثار سے بیسوں آداب واخلاق کو ثابت کرتے ہوئے ایک سو اٹھائیس (128) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں۔بہرحال آداب زندگی کو اختیار کرنا اخروی سعادت کا باعث ہے۔انھیں اختیار کرنے سے قلبی سکون اور راحت ملتی ہے،اس کے علاوہ دوسرے لوگوں کے لیے بھی راحت وچین کا سامان مہیا ہوگا اور ان آداب سے محرومی اخروی سعادت سے محرومی کا ذریعہ ہے،نیز دنیاوی زندگی بھی بے چینی سے گزرے گی اور دوسروں کی زندگیاں بھی بے مزہ اور تلخ ہوں گی۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اچھے اخلاق وآداب بجالانے کی توفیق دے اور برے کردار وگفتار سے ہمیں محفوظ رکھےقارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ پیش کردہ احادیث کا مطالعہ خالص " علمی سیر" کے طور پر ہر گز نہ کریں بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اپنے ایمانی تعلق کو تازہ کرنے، ان پر عمل کرنے اور ان سے ہدایت حاصل کرنے کی نیت سے پڑھیں۔اگر ایسا کیا گیا تو امید ہے کہ ان انوار برکات سے ہم جلد مالا مال ہوں گے جن کی ہمیں دنیا وآخرت میں بہت ضرورت ہے۔
تمہید باب
مشرک انسان کو اس کی کنیت سے یاد کیا جا سکتا ہے، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو ابو طالب کا بیٹا کہا اور ابو طالب شرک کی حالت میں مرا تھا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مذکورہ الفاظ اس وقت فرمائے تھے جب انہوں نے ابو جہل کی بیٹی سے نکاح کا ارادہ کیا تھا۔ (صحیح البخاری،النکاح، حدیث:5230)
اور مسور بن مخرمہ نے کہا کہ میں نے نبی کریم ﷺ سے سنا ، آپ نے فر مایا ، ہاں یہ ہو سکتا ہے کہ ابو طالب کا بیٹا میری بیٹی کو طلاق دے دے ۔حضرت امام بخاری نے اس حدیث سے یہ ثابت کیا کہ مشرک شخص کو اس کی کنیت سے یاد کر سکتے ہیں۔ کیونکہ آنحضرت ﷺ نے ابو طالب کا بیٹا کہا۔ ابو طالب کنیت تھی اور وہ مشرک رہ کر مرے تھے۔ روایت ذیل میں ترجمہ باب اس سے نکلتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عبداللہ بن ابی منافق کو اس کی کنیت ابو الحباب سے ذکر فرمایا۔
حدیث ترجمہ:
حضرت اسامہ بن زید ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ ایک دفعہ گدھے پر سوار ہوئے جس پر فدک کی نبی ہوئی چادر بچھی تھی جبکہ اسامہ آپ کے پیچھے سوار تھے۔ آپ ﷺ قبیلہ حارث بن خزرج میں حضرت سعد بن عبادہ ؓ کی عیادت (بیمار پرسی) کے لیے تشریف لے جا رہے تھے یہ واقعہ غزوہ بدر سے پہلے کا ہے۔ دونوں حضرات چلتے رہے حتٰی کہ ایک مجلس کے پاس سے گزرے جس میں عبداللہ بن ابی ابن سلول بھی تھا جبکہ وہ ابھی مسلمان نہیں ہوا تھا۔ اس مجلس میں کچھ مسلمان بھی تھے، بتوں کی پرستش کرنے والے مشرک اور یہودی بھی تھے۔ مسلمانوں میں حضرت عبداللہ بن رواحہ ؓ بھی موجود تھے، جب مجلس پر سواری کا غبار اڑکر پڑا تو عبداللہ بن ابی نے چادر سے اپنی ناک ڈھانپ لی اور کہنے لگا: ہم پر غبار نہ اڑاؤ۔ رسول اللہ ﷺ نے اہل مجلس کو سلام کہا۔ پھر وہاں ٹھہر گئے اور سواری سے اترے اور انہیں اللہ کے دین کی دعوت دی، نیز انہیں قرآن پڑھ کر سنایا۔ عبداللہ بن ابی نے کہا: بھلے آدمی! جو کچھ تم نے پڑھ کر سنایا ہے اس سے بہتر کوئی کلا م نہیں ہو سکتا اگرچہ حق ہے مگر ہماری مجالس میں آ کر اس کی وجہ سے ہمیں اذیت نہ دیا کرو، ہاں جو تمہارے پاس آئے اسے یہ قصے سنا دیا کرو۔ حضرت عبداللہ بن رواحہ ؓ نے کہا: کیوں نہیں: اللہ کے رسول! آپ ہماری مجالس میں تشریف لایا کریں۔ ہم اسے پسند کرتے ہیں اس معاملے میں مسلمانوں، مشرکین اور یہودیوں کا باہمی جھگڑا ہو گیا۔ قریب تھا کہ وہ ایک دوسرے کے ساتھ لڑائی پر اتر آئیں لیکن رسول اللہ ﷺ خاموش کراتے رہے۔ آخر جب تمام لوگ خاموش ہو گئے تو رسول اللہ ﷺ اپنی سواری پر بیٹھ کر (وہاں سے) تشریف لے گئے۔ جب سعد بن عبادہ ؓ کے پاس پہنچی تو رسول اللہ ﷺ نے انہیں فرمایا: اے سعد! تم نے نہیں سنا کہ آج ابو حباب نے کس طرح کی باتیں کی ہیں؟ آپ کا ارشاد عبداللہ بن ابی کی طرف تھا۔ اس نے ایسا ایسا کہا ہے۔ سعد بن عبادہ ؓ نےکہا: اللہ کے رسول! میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں آپ اسے معاف کر دیں اور اس سے درگزر فرمائیں۔ اس ذات کی قسم جس نے آپ پر کتاب نازل کی ہے! اللہ تعالٰی نے آپ کو حق دیا ہے جو آپ پر اتارا ہے آپ کے تشریف لانے سے پہلے اس بستی (مدینہ طیبہ) کے باشندے اس امر متفق ہو گئے تھے کہ اس کے سر پر تاج رکھیں اور اسے سرداروں کی سی پگڑی باندھیں لیکن اللہ تعالٰی نے سچا کلام دے آپ کو یہاں بھیج دیا۔ وہ اس بات سے چڑ گیا اور جو کچھ آپ نے آج ملاحظہ فرمایا ہے وہ اس جلن کی وجہ سے ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے اسے (عبداللہ بن ابی کو) معاف کر دیا۔ رسول اللہ ﷺ اور آپ کے صحابہ کرام اللہ کے حکم کے مطابق مشرکین اور اہل کتاب سے اسی طرح درگزر کیا کرتے تھے اور ان کی طرف سے پہنچے والی تکلیفوں پر صبر کیا کرتے تھے جس طرح انہیں اللہ نے حکم دیا تھا۔ ارشاد باری تعالٰی ہے: تم یقیناً ان لوگوں سے جنہیں تم سے پہلے کتاب دی گئی ہے (تکلیف دو باتیں) ضرور سنو گے۔ دوسرے مقام پر فرمایا: ”اہل کتاب یہ خواہش کرتے ہیں (کہ تم کو ایمان لانے کے بعد کافر بنا دیں)“ چنانچہ رسول اللہ ﷺ انہیں معاف کرنے کے لیے اللہ کے حکم مطابق عمل کیا کرتے تھے انہیں معاف کرنے کے لیے اللہ کےحکم کے مطابق عمل کیا کرتے تھے حتٰی کہ آپ کو ان کے خلاف جہاد کرنے کی اجازت دی گئی۔ پھر جب رسول اللہ ﷺ نے غزوہ بدر لڑا اور اللہ کے حکم سے اس میں کفار کے بڑے بڑے بہادر اور قریش کے سردار قتل کیے گئے تو رسول اللہ ﷺ اپنے صحابہ کرام کے ساتھ فتح مند ہو کر اور مال غنیمت لے کر لوٹے ان کے ساتھ کافروں کے بڑے بڑے سرغنے اور قریش کے سردار قیدی بھی تھے۔ اس وقت عبداللہ بن ابی اور اس کے مشرک ساتھیوں اور دیگر بت پرستوں نے کہا: اب اسلام کا معاملہ کامیاب ہوگیا ہے۔ چنانچہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے اسلام پر بیعت کرلی اور( بظاہر ) مسلمان ہوگئے۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حضرت مسور ؓ کہتے ہیں کہ میں نے نبی ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا: ”مگر یہ کہ ابن ابی طالب چاہے۔“
حدیث ترجمہ:
ہم سے ابو الیمان نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم کو شعیب نے خبر دی، انہیں زہری نے (دوسری سند) اور ہم سے اسماعیل بن ابی اویس نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھ سے میرے بھائی عبدالحمید نے بیان کیا، ان سے سلیمان نے بیان کیا، ان سے محمد بن ابی عتیق نے بیان کیا، ان سے ابن ابی شہاب نے بیان کیا، ان سے عروہ بن زبیر نے اور انہیں اسامہ بن زید ؓ نے خبر دی کہ رسول اللہ ﷺ ایک گدھے پر سوار ہوئے جس پر فدک کا بنا ہوا ایک کپڑا بچھا ہوا تھا، اسامہ آپ کے پیچھے سوار تھے۔ آنحضرت ﷺ بنی حارث بن خزرج میں سعد بن عبادہ ؓ کی عیادت کے لئے تشریف لے جا رہے تھے، یہ واقعہ غزوئہ بدر سے پہلے کا ہے یہ دونوں روانہ ہوئے اور راستے میں ایک مجلس سے گزرے جس میں عبداللہ بن ابی ابن سلول بھی تھا۔ عبداللہ نے ابھی تک اپنے اسلام کا اعلان نہیں کیا تھا۔ اس مجلس میں کچھ مسلمان بھی تھے۔ بتوں کی پرستش کرنے والے کچھ مشرکین بھی تھے اور کچھ یہودی بھی تھے۔ مسلمان شرکاء میں عبداللہ بن رواحہ بھی تھے۔ جب مجلس پر (آنحضور ﷺ کی) سواری کا غبار اڑ کر پڑا تو عبداللہ بن ابی نے اپنی چادر ناک پر رکھ لی اور کہنے لگا کہ ہم پر غبار نہ اڑاؤ، اس کے بعد حضور ﷺ نے (قریب پہنچنے کے بعد) انہیں سلام کیا اور کھڑے ہو گئے۔ پھر سواری سے اتر کر انہیں اللہ کی طرف بلایا اور قران مجید کی آیتیں انہیں پڑھ کر سنائیں۔ اس پر عبداللہ بن ابی ابن سلول نے کہا کہ بھلے آدمی جو کلام تم نے پڑھا اس سے بہتر کلام نہیں ہو سکتا۔ اگر چہ واقعی یہ حق ہے مگر ہماری مجلسوں میں آکر اس کی وجہ سے ہمیں تکلیف نہ دیا کرو۔ جو تمہارے پاس جائے بس اس کو یہ قصے سنا دیا کرو۔ عبداللہ بن رواحہ ؓ نے عرض کیا ضرور یا رسول اللہ! آپ ہماری مجلسوں میں بھی تشریف لایا کریں کیونکہ ہم اسے پسند کرتے ہیں۔ اس معاملہ پر مسلمانوں، مشرکوں اور یہودیوں کا جھگڑا ہوگیا اور قریب تھا کہ ایک دوسرے کے خلاف ہاتھ اٹھا دیں۔ لیکن آنحضرت ﷺ انہیں خاموش کرتے رہے آخر جب سب لوگ خاموش ہو گئے تو آنحضرت ﷺ اپنی سواری پر بیٹھے اور روانہ ہوئے۔ جب سعد بن عبادہ کے یہاں پہنچے تو ان سے فرمایا کہ اے سعد! تم نے نہیں سنا آج ابو حباب نے کس طرح باتیں کی ہیں۔ آپ کا اشارہ عبداللہ بن ابی کی طرف تھا کہ اس نے یہ باتیں کہی ہیں سعد بن عبادہ ؓ بولے، میرا باپ آپ پر صدقے ہوا یا رسول اللہ! آپ اسے معاف فرما دیں اور اس سے در گذر فرمائیں، اس ذات کی قسم جس نے آپ پر کتاب نازل کی ہے اللہ نے آپ کو سچا کلام دے کر یہاں بھیجا جو آپ پر اتارا۔ آپ کے تشریف لانے سے پہلے اس شہر (مدینہ منورہ) کے باشندے اس پر متفق ہو گئے تھے کہ اسے (عبداللہ بن ابی کو) شاہی تاج پہنا دیں اور شاہی عمامہ باندھ دیں لیکن اللہ نے سچا کلام دے کر آپ کو یہاں بھیج دیا اور یہ تجویز موقوف رہی تو وہ اس کی وجہ سے چڑ گیا اور جو کچھ آپ نے آج ملاحظہ کیا، وہ اسی جلن کی وجہ سے ہے۔ آنحضرت ﷺ نے عبداللہ بن ابی کو معاف کردیا۔ آنحضرت ﷺ اور آپ کے صحابہ مشرکین اور اہل کتاب سے جیسا کہ انہیں اللہ تعالیٰ نے حکم دیا تھا۔ درگزر کیا کرتے تھے اور ان کی طرف سے پہنچنے والی تکلیفوں پر صبر کیا کرتے تھے، اللہ تعالیٰ نے بھی ارشاد فرمایا ہے کہ ”تم ان لوگوں سے جنہیں کتاب دی گئی ہے (اذیت دہ باتیں) سنو گے۔“ دوسرے موقع پر ارشاد فرمایا بہت سے اہل کتاب خواہش رکھتے ہیں الخ۔ چنانچہ حضور اکرم ﷺ انہیں معاف کرنے کے لئے اللہ کے حکم کے مطابق توجیہ کیا کرتے تھے۔ بالآخر آپ کو (جنگ کی) اجازت دی گئی۔ جب آنحضرت ﷺ نے غزوئہ بدر کیا اور اللہ کے حکم سے اس میں کفار کے بڑے بڑے بہادر اور قریش کے سردار قتل کئے گئے تو آنحضرت ﷺ اپنے صحابہ کے ساتھ فتح مند اور غنیمت کا مال لئے ہوئے واپس ہوئے، ان کے ساتھ کفار قریش کے کتنے ہی بہادر سردار قید بھی کر کے لائے تو اس وقت عبداللہ بن ابی بن سلول اور اس کے بت پرست مشرک ساتھی کہنے لگے کہ اب ان کا کام جم گیا تو آنحضرت ﷺ سے بیعت کر لو، اس وقت انہوں نے اسلام پر بیعت کی اور بظاہر مسلمان ہو گئے (مگر دل میں نفاق رہا)
حدیث حاشیہ:
سند میں عروہ بن زبیر فقہائے سبعہ مدینہ سے ہیں جن کے اسماء گرامی اس نظم میں ہیں۔ إذا قیل من في العلم سبعة أبحر روایتھم لیست عن العلم خارجة فقل ھم عبیداللہ عروة قاسم سعید أبو بکر سلیمان خارجة۔ یہ ساتوں بزرگ مدینہ طیبہ میں ایک ہی زمانے میں تھے۔ اکثر ان میں سے 94ھ میں فوت ہوئے تو اس سال کا نام ہی عام الفقہاء پڑ گیا آخر باری باری 106ھ یا 107ھ تک سب رخصت ہوگئے۔ رحمهم اللہ أجمعین۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Usama bin Zaid (RA) : That Allah's Apostle (ﷺ) rode over a donkey covered with a Fadakiya (velvet sheet) and Usama was riding behind him. He was visiting Sa'd bin 'Ubadah (who was sick) in the dwelling place of Bani Al-Harith bin Al-Khazraj and this incident happened before the battle of Badr. They proceeded till they passed by a gathering in which 'Abdullah bin Ubai bin Salul was present., and that was before 'Abdullah bin Ubat embraced Islam. In that gathering there were Muslims, pagan idolators and Jews, and among the Muslims there was 'Abdullah bin Rawaha. When a cloud of dust raised by (the movement of) the animal covered that gathering, 'Abdullah bin Ubai covered his nose with his garment and said, "Do not cover us with dust." Allah's Apostle (ﷺ) greeted them, stopped, dismounted and invited them to Allah (i.e. to embrace Islam) and recited to them the Holy Qur'an. On that 'Abdullah bin Ubai bin Salul said to him, "O man! There is nothing better than what you say, if it is the truth. So do not trouble us with it in our gatherings, but if somebody comes to you, you can preach to him." On that 'Abdullah bin Rawaha said "Yes, O Allah's Apostle (ﷺ) ! Call on us in our gathering, for we love that." So the Muslims, the pagans and the Jews started abusing one another till they were about to fight with one another. Allah's Apostle (ﷺ) kept on quietening them till all of them became quiet, and then Allah's Apostle (ﷺ) rode his animal and proceeded till he entered upon Sa'd bin 'Ubadah. Allah's Apostle (ﷺ) said, "O Sa'd! Didn't you hear what Abu Habab said?" (meaning 'Abdullah bin Unbar). "He said so-and-so." Sa'd bin Ubadah said, "O Allah's Apostle (ﷺ) ! Let my father be sacrificed for you ! Excuse and forgive him for, by Him Who revealed to you the Book, Allah sent the Truth which was revealed to you at the time when the people of this town had decided to crown him ('Abdullah bin Ubai) as their ruler. So when Allah had prevented that with the Truth He had given you, he was choked by that, and that caused him to behave in such an impolite manner which you had noticed." So Allah's Apostle (ﷺ) excused him. (It was the custom of) Allah's Apostle (ﷺ) and his companions to excuse the pagans and the people of the scripture (Christians and Jews) as Allah ordered them, and they used to be patient when annoyed (by them). Allah said: 'You shall certainly hear much that will grieve you from those who received the Scripture before you.....and from the pagans (3.186) He also said: 'Many of the people of the scripture wish that if they could turn you away as disbelievers after you have believed. .... (2.109) So Allah's Apostle (ﷺ) used to apply what Allah had ordered him by excusing them till he was allowed to fight against them. When Allah's Apostle (ﷺ) had fought the battle of Badr and Allah killed whomever He killed among the chiefs of the infidels and the nobles of Quraish, and Allah's Apostle (ﷺ) and his companions had returned with victory and booty, bringing with them some of the chiefs of the infidels and the nobles of the Quraish as captives. 'Abdullah bin Ubai bin Salul and the pagan idolators who were with him, said, "This matter (Islam) has now brought out its face (triumphed), so give Allah's Apostle (ﷺ) the pledge of allegiance (for embracing Islam.)". Then they became Muslims.