باب:اللہ تعالیٰ کا سورۂ نور میں یہ فرمانہ اے ایمان والو! تم اپنے ( خاص ) گھروں کے سوا دوسرے گھروں میں مت داخل ہو جب تک کہ اجازت نہ حاصل کرلو اور ان کے رہنے والوں کو سلام کرلو۔ تمہارے حق میں یہی بہتر ہے تاکہ تم خیال رکھو۔
)
Sahi-Bukhari:
Asking Permission
(Chapter: "... Enter not a house other than your own...")
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
پھر اگر ان میں تمہیں کوئی ( آدمی ) نہ معلوم ہوتو بھی ان میں نہ داخل ہوجب تک کہ تم کو اجازت نہ مل جائے اور اگر تم سے کہہ دیا جائے کہ لوٹ جاؤ تو ( بلاخفتگی ) واپس لوٹ آیا کرو۔ یہی تمہارے حق میں زیادہ صفائی کی بات ہے اور اللہ تمہارے اعمال کو خوب جانتا ہے۔ تم پر کوئی گناہ اس میں نہیں ہے کہ تم ان مکانات میں داخل ہو جاؤ ( جن میں ) کوئی رہتا نہ ہو اور ان میں تمہارا کچھ مال ہو اور اللہ جانتا ہے جو کچھ تم ظاہر کرتے ہواور جو کچھ تم چھپاتے ہو ۔ “اور سعید بن ابی الحسن نے ( اپنے بھائی ) حسن بصری سے کہا کہ عجمی عورتیں سینہ اور سر کھولے رہتی ہیں ۔ تو حسن بصرینے کہا کہ ان سے اپنی نگاہ پھیر لو، اللہ تعالیٰ فرماتاہے ” مومنوں سے کہہ دیجئے کہ اپنی نظریں نیچی رکھیں اور اپنی شرم گا ہوں کی حفاظت کریں۔ “ قتادہ نے کہا کہ اس سے مراد یہ ہے کہ جوان کے لئے جائز نہیں ہے ( اس سے حفاظت کریں ) اور آپ کہہ دیجئے ایمان والیوں سے کہ اپنی نظریں نیچی رکھیں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں اور اپنے سنگا ر ظاہر نہ ہونے دیں۔ ” خائنۃالاعین “ سے مراد اس چیز کی طرف دیکھنا ہے ، جس سے منع کیا گیا ہے ۔ زہری نے نابالغ لڑکیوں کو دیکھنے کے سلسلہ میں کہا کہ ان کی بھی کسی ایسی چیز کی طرف نظر نہ کرنی چاہئے جسے دیکھنے سے شہوت نفسانی پیداہوسکتی ہو۔ خواہ وہ لڑکی چھوٹی ہی کیوں نہ ہو۔ عطاءنے ان لونڈیوں کی طرف نظر کرنے کو مکروہ کہا ہے ، جو مکہ میں بیچی جاتی ہیں ۔ ہاں اگر انہیں خرید نے کا ارادہ ہو تو جائز ہے۔ ( الحمد للہ اب مکہ میں ایسے بازار ختم ہوچکے ہیں
6228.
حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے حضرت فضل بن عباس ؓ کو قربانی کے دن اپنے پیچھے سواری کی پشت پر بٹھایا۔ حضرت فضل ؓ بہت خوبصورت نوجوان تھے۔ نبی ﷺ لوگوں کو مسائل کا جواب دینے کے لیے ٹھہرے ہوئے تھے کہ اس دوران میں قبیلہ خثعم کی ایک خوبرو عورت بھی رسول اللہ ﷺ سے کوئی مسئلہ پوچھنے آئی تو فضل بن عباس ؓ نے اسے دیکھنا شروع کر دیا کیونکہ اس کا حسن و جمال انہیں بہت پسند آرہا تھا نبی ﷺ نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو فضل بن عباس ؓ اسے دیکھ رہے تھے۔ آپ نے پیچھے کی طرف سے ہاتھ لے جا کر فضل ؓ کی ٹھوڑی پکڑی اور ان کا چہرہ اسے دیکھنے سے دوسری طرف کر دیا۔ اس عورت نے عرض کی: اللہ کے رسول! اللہ کی طرف سے عائد کردہ فریضہ حج نے میرے بوڑھے باپ کو پالیا ہے جبکہ وہ سواری پر سیدھا نہیں بیٹھ سکتا، کیا اگر میں اس کی طرف سے حج کر لوں تو اس کی طرف سے یہ فریضہ ادا ہو جائے گا؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ”ہاں“
تشریح:
(1) اس حدیث کی عنوان سے مطابقت یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت فضل بن عباس رضی اللہ عنہ کو عملی طور پر ایک غیر محرم عورت کو دیکھنے سے منع فرمایا۔ بہرحال اہل ایمان کو نگاہیں نیچی رکھنے کا حکم دیا گیا ہے تاکہ وہ نظر بازی کے زہریلے اور خطرناک فتنے سے محفوظ رہیں۔ (2) اس حدیث سے کچھ اہل علم نے یہ مسئلہ کشید کیا ہے کہ عورت کے لیے چہرے کا پردہ ضروری نہیں کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس عورت کو پردہ کرنے کا حکم نہیں دیا بلکہ حضرت فضل بن عباس رضی اللہ عنہ کا چہرہ دوسری طرف پھیرا ہے۔ اگر چہرے کا پردہ واجب ہوتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اسے چہرہ ڈھانپنے کا ضرور حکم دیتے جیسا کہ شارح صحیح بخاری ابن بطال کے انداز سے معلوم ہوتا ہے۔ (فتح الباري:11/14) لیکن یہ موقف عقلی اور نقلی لحاظ سے محل نظر ہے کیونکہ عورت کا چہرہ ہی وہ چیز ہے جو مرد کے لیے عورت کے تمام بدن سے زیادہ پرکشش ہے۔ اگر چہرے ہی کو حجاب سے مستثنیٰ قرار دیا جائے تو پھر حجاب کے دوسرے احکام کا کیا فائدہ ہے؟ اور نقلی لحاظ سے اس لیے غلط ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا عمل اس توجیہ کے خلاف ہے، چنانچہ واقعۂ افک سے متعلق حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا بیان حسب ذیل ہے: ’’میں اسی جگہ بیٹھی رہی۔ اتنے میں میری آنکھ لگ گئی۔ اچانک ایک آدمی صفوان بن معطل رضی اللہ عنہ اس مقام پر آیا اور دیکھا کہ کوئی سو رہا ہے۔ اس نے مجھے دیکھتے ہی پہچان لیا کیونکہ حجاب کا حکم نازل ہونے سے پہلے اس نے مجھے دیکھا تھا۔ مجھے دیکھتے ہی إنا لله و إنا إليه راجعون پڑھا تو میری آنکھ کھل گئی۔ میں نے فوراً اپنا چہرہ اپنی چادر سے ڈھانپ لیا۔‘‘ (صحیح البخاري، المغازي، حدیث:4141) حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا تو پردے کے معاملے میں اس قدر سخت تھیں کہ حالت احرام میں بھی اجنبی لوگوں سے اپنا چہرہ چھپا لیتی تھیں، چنانچہ بیان کرتی ہیں کہ مردوں کے قافلے ہمارے پاس سے گزرتے تھے جبکہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حالتِ احرام میں ہوتی تھیں۔ جب وہ ہمارے برابر آتے تو ہم اپنے سروں پر سے اوڑھنیاں اپنے چہروں پر گرا لیتی تھیں اور جب وہ گزر جاتے تو ہم پھر چہروں کو کھول لیتی تھیں۔ (مسند أحمد:30/6) اس حدیث پر امام ابو داود رحمہ اللہ نے ان الفاظ میں عنوان قائم کیا ہے: (باب في المحرمة تغطي وجهها) ’’عورت حالت احرام میں اپنے چہرے کو ڈھانپے۔‘‘ (سنن أبي داود، المناسك، باب:33) امام ابن ماجہ رحمہ اللہ نے اس حدیث پر یوں عنوان قائم کیا ہے: (باب المحرمة تسدل الثوب علي وجهها) ’’محرمہ عورت بھی اپنے چہرے پر کپڑا لٹکائے۔‘‘ (سنن ابن ماجة، المناسك، باب:23) حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی طرح ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے بھی اسی طرح کا بیان مروی ہے کہ ہم حالت احرام میں اجنبی لوگوں سے چہرہ ڈھانپ لیتی تھیں۔ (سنن الدار قطني:295/2، الحج، حدیث:263) حضرت اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ وہ حالت احرام میں اجنبی مردوں سے اپنے چہرے کو چھپاتی تھیں۔ (المستدرك للحاکم:454/1) قرآن کریم نے ایک پیغمبر زادی کے متعلق فرمایا ہے: ’’ان دنوں میں سے ایک باحیا طریقے سے چلتی ہوئی آئی۔‘‘(القصص22: 25) باحیا طریقے سے چلنے کی کیفیت ان الفاظ میں بیان ہوئی ہے کہ وہ اپنا ہاتھ چہرے پر رکھے ہوئے آئی تھی۔ (المستدرك للحاکم:441/2) (3) اس سلسلے میں قرآن کریم کی ایک واضح نص ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’اے نبی! اپنی بیویوں، اپنی بیٹیوں اور ایمانداروں کی خواتین سے کہہ دیں کہ وہ اپنی چادروں کے پلو اپنے اوپر لٹکا لیا کریں اس طرح زیادہ توقع ہے کہ وہ پہچان لی جائیں اور انہیں ایذا نہ دی جائے۔‘‘(الأحزاب33: 59) اس آیت کریمہ میں تمام اہل ایمان خواتین سے کہا گیا ہے کہ وہ باہر نکلتے وقت اپنی چادریں اپنے سر کے اوپر سے نیچے لٹکا لیا کریں، یعنی گھونگھٹ نکال لیا کریں۔ لغوی اعتبار سے اس آیت کے یہی معنی ہیں کیونکہ ''أدنیٰ'' کے لغوی معنی ہیں: قریب کرنا، جھکانا اور لٹکانا ہے۔ جب اس کے بعد ''عَلٰی'' آ جائے تو اس کے معنی ارخاء، یعنی اوپر سے نیچے لٹکانے کے لیے مختص ہو جاتا ہے اور جب نیچے لٹکانا معنی ہوں تو اس کا مطلب سر سے نیچے لٹکانا ہو گا جس میں چہرے کا پردہ خود بخود آ جاتا ہے۔ (4) مذکورہ حدیث سے چہرے کے پردے کا عدم وجوب ثابت کرنا اس لیے محل نظر ہے کہ خثعمیہ عورت کا چہرہ نہ چھپانا کسی ضرورت و افادیت کی بنا پر تھا جیسا کہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے ایک حدیث کے حوالے سے اس کی وضاحت کی ہے، وہ لکھتے ہیں: ''فضل بن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے سواری پر بیٹھا ہوا تھا۔ اچانک ایک دیہاتی سامنے آیا جس کے ساتھ اس کی خوبصورت لڑکی تھی اور وہ اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں پیش کرنا چاہتا تھا تاکہ آپ اس سے نکاح کر لیں۔ اس کا مقصد یہ تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی گفتگو سنیں اور اسے خود دیکھ لیں۔ (فتح الباري:89/4) ایسی ضرورت و افادیت کے لیے عورت کا چہرہ ننگا کرنا جائز ہے۔ چونکہ حضرت فضل رضی اللہ عنہ کا دیکھنا جائز نہ تھا، اس لیے انہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عملی طور پر منع کر دیا۔ واللہ أعلم (5) ستر و حجاب کے سلسلے میں چند استثنائی صورتیں حسب ذیل ہیں: ٭ اتفاقات: یہ کئی طرح کے ہو سکتے ہیں، مثلاً: (ا) راستے میں مرد وغیرہ نہ ہونے کی صورت میں عورت کا پردہ اٹھا لینا، پھر اتفاقاً کسی مرد کا سامنے آ جانا۔ (ب) ہوا کے جھونکے سے عورت کا کپڑا اڑ جانا اور اس کی زینت یا چہرے کا ننگا ہو جانا۔ (ج) چھت پر چڑھتے وقت اچانک کسی دوسرے گھر کے صحن میں نظر پڑ جانا۔ ایسے حالات میں اتفاقاً پہلی نظر معاف ہے۔ اس کے بعد دوسری نظر قابل گرفت ہے۔ ٭ افادیت: کسی افادیت کے پیش نظر عورت کا چہرہ ننگا کرنا جائز ہے، مثلاً: منگنی سے پیشتر، ہونے والے میاں بیوی کو ایک نظر دیکھ لینا شرعاً جائز ہے۔ اس افادیت کی بنا پر عورت اپنا چہرہ ننگا کر سکتی ہے۔ ٭ ضرورت: کسی خاص ضرورت کی وجہ سے چہرہ ننگا کرنا، مثلاً: طبیب کے سامنے علاج کی غرض سے چہرہ یا ہاتھ یا جسم کا کوئی بھی حصہ بے نقاب کرنا، اسی طرح جنگ کے وقت اگر عورتوں کی ضرورت ہو تو حسب ضرورت ستر و حجاب (پردے) کے احکام میں نرمی ہو سکتی ہے۔ ٭ اضطرار: کیس مجبوری کی بنا پر چہرہ کھولنا جائز ہے، مثلاً: کسی کے گھر میں آگ لگ جائے یا سیلاب کی صورت ہو یا مکان کی چھت گر جائے تو ایسی صورت میں ستر و حجاب کے احکام ختم ہو جاتے ہیں۔ واللہ أعلم
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6002
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6228
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
6228
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
6228
تمہید کتاب
لغت کے اعتبار سے ''استئذان'' کے معنی اجازت طلب کرنا ہیں۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اس کے اصطلاحی معنی ان الفاظ میں بیان کیے ہیں: ایسی جگہ آنے کی اجازت لینا کہ اجازت لینے والا اس کا مالک نہیں ہے۔ (فتح الباری:5/11) عرب معاشرے میں یہ عام دستور تھا کہ لوگ ایک دوسرے کے گھروں میں بلاجھجک داخل ہو جاتے تھے۔ اسلام نے ایسی آزاد آمدورفت پر پابندی لگائی ہے جیسا کہ درج ذیل واقعے سے ظاہر ہوتا ہے:حضرت صفوان بن امیہ رضی اللہ عنہ نے حضرت کلدہ بن حنبل رضی اللہ عنہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے دودھ، ہرن کا بچہ اور ککڑیاں دے کر بھیجا جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ کی بالائی جانب رہائش رکھے ہوئے تھے۔ وہ آپ کی رہائش گاہ میں اجازت اور سلام کے بغیر جا داخل ہوا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''پیچھے ہٹو اور السلام علیکم کہو۔'' یہ واقعہ صفوان بن امیہ رضی اللہ عنہ کے مسلمان ہونے کے بعد کا ہے۔ (سنن ابی داود، الادب، حدیث:5176)شریعت نے اس سلسلے میں کچھ فرائض و واجبات کی نشاندہی کی ہے۔ اس عنوان کے تحت امام بخاری رحمہ اللہ نے تین قسم کے آداب سے امت مسلمہ کو آگاہ کیا ہے جن کی تفصیل حسب ذیل ہے:٭ گھروں میں آنے جانے کے آداب: قرآن کریم میں اس کے متعلق ایک ہدایت بیان کی گئی ہے: ''اے ایمان والو! اپنے گھروں کے علاوہ (دوسروں کے) گھروں میں جاؤ تو جب تک تم اہل خانہ سے اجازت نہ لے لو اور انہیں سلام نہ کر لو وہاں داخل نہ ہوا کرو۔'' (النور24: 27) آیت کریمہ میں اپنے گھروں سے مراد صرف وہ گھر ہے جہاں اس کی بیوی رہتی ہو۔ وہاں شوہر ہر وقت بلا جھجک داخل ہو سکتا ہے، لیکن اپنی ماں اور بیٹیوں کے گھروں میں داخل ہونے سے پہلے استیناس ضروری ہے۔ اس استیناس کے معنی کسی سے مانوس ہونا یا اسے مانوس کرنا یا اس سے اجازت لینا ہیں۔ اس کا مطلب کوئی بھی ایسا کام کرنا ہے جس سے اہل خانہ کو علم ہو جائے کہ دروازے پر فلاں شخص کھڑا اندر آنے کی اجازت طلب کر رہا ہے۔٭ ملاقات کے آداب: دنیا کی تمام مہذب قوموں میں ملاقات کے وقت جذبات کے اظہار اور ایک دوسرے کو مانوس کرنے کے لیے کوئی خاص کلمہ کہنے کا رواج رہا ہے اور آج بھی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے وقت عربوں میں بھی ملاقات کے وقت اسی قسم کے مختلف کلمات کہنے کا رواج تھا لیکن جب اسلام آیا تو ان کلمات کے بجائے اہل ایمان کو السلام علیکم کی تعلیم دی گئی۔ اس جامع دعائیہ کلمے میں چھوٹوں کے لیے شفقت و محبت بھی ہے اور بڑوں کے لیے اس میں اکرام و احترام اور تعظیم بھی ہے۔٭ آداب مجلس: کسی خاص مسئلے پر غوروفکر اور سوچ بچار کرنے کے لیے مخصوص لوگوں کو دعوت دی جاتی ہے۔ اس قسم کی مجالس کے کچھ آداب ہوتے ہیں۔ پھر یہ مجالس کئی قسم کی ہیں: کچھ سرعام ہوتی ہیں اور ہر ایک کو وہاں آنے کی دعوت ہوتی ہے اور کچھ خاص ہوتی ہیں جس میں ہر ایرے غیرے کو آنے کی اجازت نہیں ہوتی۔ مجالس میں زیر بحث مسائل عام بھی ہو سکتے ہیں اور کچھ مسائل بطور امانت خاص ہوتے ہیں۔ اس قسم کے بیسیوں آداب ہیں جو مجالس سے متعلق ہیں۔ہم آداب زیارت و ملاقات اور آداب مجلس کو معاشرتی آداب کا نام دیتے ہیں جسے امام بخاری رحمہ اللہ نے بڑی تفصیل سے بیان کیا ہے۔ ان آداب کی مناسبت سے معانقہ (گلے ملنا)، مصافحہ (ہاتھ ملانا) اور استقبال وغیرہ کے آداب بھی بیان ہوئے ہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے ان آداب کو بیان کرنے کے لیے پچاسی (85) مرفوع احادیث کا انتخاب کیا ہے۔ ان میں بارہ (12) احادیث معلق اور باقی تہتر (73) احادیث متصل سند سے بیان کی ہیں، پھر ان میں پینسٹھ (65) احادیث مکرر اور بیس (20) احادیث خالص ہیں۔ ان احادیث میں سے پانچ (5) کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی اپنی صحیح میں بیان کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ مختلف صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین سے مروی سات آثار بھی بیان کیے ہیں، پھر ان احادیث و آثار پر امام صاحب نے تریپن (53) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جو ان کی فقاہت و باریک بینی کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ ہم اللہ تعالیٰ کی توفیق سے ان احادیث کی وضاحت کرتے ہوئے مختلف فوائد سے قارئین کو آگاہ کریں گے۔دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ان معاشرتی آداب پر عمل کرنے کی توفیق دے تاکہ ہم معاشرے میں بہترین انسان اور اچھے مسلمان ثابت ہوں۔ آمین ثم آمین
تمہید باب
عنوان میں ذکر کردہ پوری آیات کا ترجمہ یہ ہے: ''اے ایمان والو! اپنے گھروں کے سوا دوسروں کے گھروں میں داخل نہ ہوا کرو حتی کہ تم اجازت لے لو اور گھر والوں کو سلام کرو۔ یہ بات تمہارے لیے بہتر ہے۔ توقع ہے کہ تم اسے یاد رکھو گے۔ پھر اگر ان میں کسی کو نہ پاؤ تو ان میں داخل نہ ہو حتی کہ تمہیں اجازت دے دی جائے اور اگر تمہیں کہا جائے کہ لوٹ جاؤ تو لوٹ آؤ، یہ تمہارے لیے زیادہ پاکیزہ طریقہ ہے اور جو تم کرتے ہو اللہ اسے خوب جانتا ہے۔ البتہ بے آباد گھروں میں داخل ہونے پر تم پر کوئی گناہ نہیں اور ان میں تمہارے فائدے کی کوئی چیز ہو اور اللہ جانتا ہے جو تم ظاہر کرتے ہو اور جو تم چھپاتے ہو۔'' (النور24: 27-29) امام بخاری رحمہ اللہ نے مختلف اقوال اس لیے ذکر کیے ہیں تاکہ اجازت طلب کرنے کا مقصد بیان کیا جائے۔ وہ یہ ہے کہ اگر صاحب خانہ کے گھر میں اجازت لے کر داخل ہو تو جس کی طرف صاحب خانہ نظر کرنا پسند نہیں کرتا اسے نہ دیکھا جائے، اگر نظر بازی سے نہیں بچنا تو اجازت لینے کا کوئی فائدہ نہیں۔
پھر اگر ان میں تمہیں کوئی ( آدمی ) نہ معلوم ہوتو بھی ان میں نہ داخل ہوجب تک کہ تم کو اجازت نہ مل جائے اور اگر تم سے کہہ دیا جائے کہ لوٹ جاؤ تو ( بلاخفتگی ) واپس لوٹ آیا کرو۔ یہی تمہارے حق میں زیادہ صفائی کی بات ہے اور اللہ تمہارے اعمال کو خوب جانتا ہے۔ تم پر کوئی گناہ اس میں نہیں ہے کہ تم ان مکانات میں داخل ہو جاؤ ( جن میں ) کوئی رہتا نہ ہو اور ان میں تمہارا کچھ مال ہو اور اللہ جانتا ہے جو کچھ تم ظاہر کرتے ہواور جو کچھ تم چھپاتے ہو ۔ “اور سعید بن ابی الحسن نے ( اپنے بھائی ) حسن بصری سے کہا کہ عجمی عورتیں سینہ اور سر کھولے رہتی ہیں ۔ تو حسن بصرینے کہا کہ ان سے اپنی نگاہ پھیر لو، اللہ تعالیٰ فرماتاہے ” مومنوں سے کہہ دیجئے کہ اپنی نظریں نیچی رکھیں اور اپنی شرم گا ہوں کی حفاظت کریں۔ “ قتادہ نے کہا کہ اس سے مراد یہ ہے کہ جوان کے لئے جائز نہیں ہے ( اس سے حفاظت کریں ) اور آپ کہہ دیجئے ایمان والیوں سے کہ اپنی نظریں نیچی رکھیں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں اور اپنے سنگا ر ظاہر نہ ہونے دیں۔ ” خائنۃالاعین “ سے مراد اس چیز کی طرف دیکھنا ہے ، جس سے منع کیا گیا ہے ۔ زہری نے نابالغ لڑکیوں کو دیکھنے کے سلسلہ میں کہا کہ ان کی بھی کسی ایسی چیز کی طرف نظر نہ کرنی چاہئے جسے دیکھنے سے شہوت نفسانی پیداہوسکتی ہو۔ خواہ وہ لڑکی چھوٹی ہی کیوں نہ ہو۔ عطاءنے ان لونڈیوں کی طرف نظر کرنے کو مکروہ کہا ہے ، جو مکہ میں بیچی جاتی ہیں ۔ ہاں اگر انہیں خرید نے کا ارادہ ہو تو جائز ہے۔ ( الحمد للہ اب مکہ میں ایسے بازار ختم ہوچکے ہیں
حدیث ترجمہ:
حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے حضرت فضل بن عباس ؓ کو قربانی کے دن اپنے پیچھے سواری کی پشت پر بٹھایا۔ حضرت فضل ؓ بہت خوبصورت نوجوان تھے۔ نبی ﷺ لوگوں کو مسائل کا جواب دینے کے لیے ٹھہرے ہوئے تھے کہ اس دوران میں قبیلہ خثعم کی ایک خوبرو عورت بھی رسول اللہ ﷺ سے کوئی مسئلہ پوچھنے آئی تو فضل بن عباس ؓ نے اسے دیکھنا شروع کر دیا کیونکہ اس کا حسن و جمال انہیں بہت پسند آرہا تھا نبی ﷺ نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو فضل بن عباس ؓ اسے دیکھ رہے تھے۔ آپ نے پیچھے کی طرف سے ہاتھ لے جا کر فضل ؓ کی ٹھوڑی پکڑی اور ان کا چہرہ اسے دیکھنے سے دوسری طرف کر دیا۔ اس عورت نے عرض کی: اللہ کے رسول! اللہ کی طرف سے عائد کردہ فریضہ حج نے میرے بوڑھے باپ کو پالیا ہے جبکہ وہ سواری پر سیدھا نہیں بیٹھ سکتا، کیا اگر میں اس کی طرف سے حج کر لوں تو اس کی طرف سے یہ فریضہ ادا ہو جائے گا؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ”ہاں“
حدیث حاشیہ:
(1) اس حدیث کی عنوان سے مطابقت یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت فضل بن عباس رضی اللہ عنہ کو عملی طور پر ایک غیر محرم عورت کو دیکھنے سے منع فرمایا۔ بہرحال اہل ایمان کو نگاہیں نیچی رکھنے کا حکم دیا گیا ہے تاکہ وہ نظر بازی کے زہریلے اور خطرناک فتنے سے محفوظ رہیں۔ (2) اس حدیث سے کچھ اہل علم نے یہ مسئلہ کشید کیا ہے کہ عورت کے لیے چہرے کا پردہ ضروری نہیں کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس عورت کو پردہ کرنے کا حکم نہیں دیا بلکہ حضرت فضل بن عباس رضی اللہ عنہ کا چہرہ دوسری طرف پھیرا ہے۔ اگر چہرے کا پردہ واجب ہوتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اسے چہرہ ڈھانپنے کا ضرور حکم دیتے جیسا کہ شارح صحیح بخاری ابن بطال کے انداز سے معلوم ہوتا ہے۔ (فتح الباري:11/14) لیکن یہ موقف عقلی اور نقلی لحاظ سے محل نظر ہے کیونکہ عورت کا چہرہ ہی وہ چیز ہے جو مرد کے لیے عورت کے تمام بدن سے زیادہ پرکشش ہے۔ اگر چہرے ہی کو حجاب سے مستثنیٰ قرار دیا جائے تو پھر حجاب کے دوسرے احکام کا کیا فائدہ ہے؟ اور نقلی لحاظ سے اس لیے غلط ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا عمل اس توجیہ کے خلاف ہے، چنانچہ واقعۂ افک سے متعلق حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا بیان حسب ذیل ہے: ’’میں اسی جگہ بیٹھی رہی۔ اتنے میں میری آنکھ لگ گئی۔ اچانک ایک آدمی صفوان بن معطل رضی اللہ عنہ اس مقام پر آیا اور دیکھا کہ کوئی سو رہا ہے۔ اس نے مجھے دیکھتے ہی پہچان لیا کیونکہ حجاب کا حکم نازل ہونے سے پہلے اس نے مجھے دیکھا تھا۔ مجھے دیکھتے ہی إنا لله و إنا إليه راجعون پڑھا تو میری آنکھ کھل گئی۔ میں نے فوراً اپنا چہرہ اپنی چادر سے ڈھانپ لیا۔‘‘ (صحیح البخاري، المغازي، حدیث:4141) حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا تو پردے کے معاملے میں اس قدر سخت تھیں کہ حالت احرام میں بھی اجنبی لوگوں سے اپنا چہرہ چھپا لیتی تھیں، چنانچہ بیان کرتی ہیں کہ مردوں کے قافلے ہمارے پاس سے گزرتے تھے جبکہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حالتِ احرام میں ہوتی تھیں۔ جب وہ ہمارے برابر آتے تو ہم اپنے سروں پر سے اوڑھنیاں اپنے چہروں پر گرا لیتی تھیں اور جب وہ گزر جاتے تو ہم پھر چہروں کو کھول لیتی تھیں۔ (مسند أحمد:30/6) اس حدیث پر امام ابو داود رحمہ اللہ نے ان الفاظ میں عنوان قائم کیا ہے: (باب في المحرمة تغطي وجهها) ’’عورت حالت احرام میں اپنے چہرے کو ڈھانپے۔‘‘ (سنن أبي داود، المناسك، باب:33) امام ابن ماجہ رحمہ اللہ نے اس حدیث پر یوں عنوان قائم کیا ہے: (باب المحرمة تسدل الثوب علي وجهها) ’’محرمہ عورت بھی اپنے چہرے پر کپڑا لٹکائے۔‘‘ (سنن ابن ماجة، المناسك، باب:23) حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی طرح ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے بھی اسی طرح کا بیان مروی ہے کہ ہم حالت احرام میں اجنبی لوگوں سے چہرہ ڈھانپ لیتی تھیں۔ (سنن الدار قطني:295/2، الحج، حدیث:263) حضرت اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ وہ حالت احرام میں اجنبی مردوں سے اپنے چہرے کو چھپاتی تھیں۔ (المستدرك للحاکم:454/1) قرآن کریم نے ایک پیغمبر زادی کے متعلق فرمایا ہے: ’’ان دنوں میں سے ایک باحیا طریقے سے چلتی ہوئی آئی۔‘‘(القصص22: 25) باحیا طریقے سے چلنے کی کیفیت ان الفاظ میں بیان ہوئی ہے کہ وہ اپنا ہاتھ چہرے پر رکھے ہوئے آئی تھی۔ (المستدرك للحاکم:441/2) (3) اس سلسلے میں قرآن کریم کی ایک واضح نص ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’اے نبی! اپنی بیویوں، اپنی بیٹیوں اور ایمانداروں کی خواتین سے کہہ دیں کہ وہ اپنی چادروں کے پلو اپنے اوپر لٹکا لیا کریں اس طرح زیادہ توقع ہے کہ وہ پہچان لی جائیں اور انہیں ایذا نہ دی جائے۔‘‘(الأحزاب33: 59) اس آیت کریمہ میں تمام اہل ایمان خواتین سے کہا گیا ہے کہ وہ باہر نکلتے وقت اپنی چادریں اپنے سر کے اوپر سے نیچے لٹکا لیا کریں، یعنی گھونگھٹ نکال لیا کریں۔ لغوی اعتبار سے اس آیت کے یہی معنی ہیں کیونکہ ''أدنیٰ'' کے لغوی معنی ہیں: قریب کرنا، جھکانا اور لٹکانا ہے۔ جب اس کے بعد ''عَلٰی'' آ جائے تو اس کے معنی ارخاء، یعنی اوپر سے نیچے لٹکانے کے لیے مختص ہو جاتا ہے اور جب نیچے لٹکانا معنی ہوں تو اس کا مطلب سر سے نیچے لٹکانا ہو گا جس میں چہرے کا پردہ خود بخود آ جاتا ہے۔ (4) مذکورہ حدیث سے چہرے کے پردے کا عدم وجوب ثابت کرنا اس لیے محل نظر ہے کہ خثعمیہ عورت کا چہرہ نہ چھپانا کسی ضرورت و افادیت کی بنا پر تھا جیسا کہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے ایک حدیث کے حوالے سے اس کی وضاحت کی ہے، وہ لکھتے ہیں: ''فضل بن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے سواری پر بیٹھا ہوا تھا۔ اچانک ایک دیہاتی سامنے آیا جس کے ساتھ اس کی خوبصورت لڑکی تھی اور وہ اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں پیش کرنا چاہتا تھا تاکہ آپ اس سے نکاح کر لیں۔ اس کا مقصد یہ تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی گفتگو سنیں اور اسے خود دیکھ لیں۔ (فتح الباري:89/4) ایسی ضرورت و افادیت کے لیے عورت کا چہرہ ننگا کرنا جائز ہے۔ چونکہ حضرت فضل رضی اللہ عنہ کا دیکھنا جائز نہ تھا، اس لیے انہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عملی طور پر منع کر دیا۔ واللہ أعلم (5) ستر و حجاب کے سلسلے میں چند استثنائی صورتیں حسب ذیل ہیں: ٭ اتفاقات: یہ کئی طرح کے ہو سکتے ہیں، مثلاً: (ا) راستے میں مرد وغیرہ نہ ہونے کی صورت میں عورت کا پردہ اٹھا لینا، پھر اتفاقاً کسی مرد کا سامنے آ جانا۔ (ب) ہوا کے جھونکے سے عورت کا کپڑا اڑ جانا اور اس کی زینت یا چہرے کا ننگا ہو جانا۔ (ج) چھت پر چڑھتے وقت اچانک کسی دوسرے گھر کے صحن میں نظر پڑ جانا۔ ایسے حالات میں اتفاقاً پہلی نظر معاف ہے۔ اس کے بعد دوسری نظر قابل گرفت ہے۔ ٭ افادیت: کسی افادیت کے پیش نظر عورت کا چہرہ ننگا کرنا جائز ہے، مثلاً: منگنی سے پیشتر، ہونے والے میاں بیوی کو ایک نظر دیکھ لینا شرعاً جائز ہے۔ اس افادیت کی بنا پر عورت اپنا چہرہ ننگا کر سکتی ہے۔ ٭ ضرورت: کسی خاص ضرورت کی وجہ سے چہرہ ننگا کرنا، مثلاً: طبیب کے سامنے علاج کی غرض سے چہرہ یا ہاتھ یا جسم کا کوئی بھی حصہ بے نقاب کرنا، اسی طرح جنگ کے وقت اگر عورتوں کی ضرورت ہو تو حسب ضرورت ستر و حجاب (پردے) کے احکام میں نرمی ہو سکتی ہے۔ ٭ اضطرار: کیس مجبوری کی بنا پر چہرہ کھولنا جائز ہے، مثلاً: کسی کے گھر میں آگ لگ جائے یا سیلاب کی صورت ہو یا مکان کی چھت گر جائے تو ایسی صورت میں ستر و حجاب کے احکام ختم ہو جاتے ہیں۔ واللہ أعلم
ترجمۃ الباب:
حضرت سعید بن ابو حسن نے حضرت حسن بصری سے کہا کہ عجمی عورتیں اپنے سینےاور سر کو برہنہ رکھتی ہیں۔ حسن بصری نے فرمایا: تم اپنی نظر ان سے پھیر لو، ارشاد باری تعالٰی ہے: ”آپ اہل ایمان سے کہہ دیں کہ وہ اپنی نطریں نیچی رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں۔“ حضرت قتادہ نے کہا: اس سے مراد یہ ہے کہ جو ان کے لیے حلال نہیں ان سے شرمگاہوں کی حفاظت کریں نیز اللہ تعالٰی نے فرمایا: آپ اہل ایمان خواتین سے کہہ دیں کہ وہ اپنی نگاہوں کو نیچا رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاطت کریں۔ ”خائنہ الاعین“ آنکھوں کی خیانت سے مراد اس چیز کو دیکھنا ہے جس سے منع کیا گیاامام زہری نے نابالغ لڑکیوں کو دیکنھے کی بابت فرمایا کہ ان کی بھی کسی ایسی چیز کو نہیں دیکھنا چاہیے جسے دیکھنے سے شہوت نفسانی پیدا ہونے کا اندیشہ ہو، خواہ وہ چھوٹی ہی کیوں نہ ہوںحضرت عطاء نے ان لونڈیوں کو دیکھنا مکروہ کہا جو مکہ مکرمہ میں فروخت کی جاتی تھیں ہاں اگر انہیں خریدنے کا ارادہ ہوتو انہیں دیکھنا جائز ہے
حدیث ترجمہ:
ہم سے ابو الیمان نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم کو شعیب نے خبر دی، ان سے زہری نے بیان کیا، انہیں سلیمان بن یسار نے خبر دی اور انہیں حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ نے خبر دی، انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت فضل بن عباس ؓ کو قربانی کے دن اپنی سواری پر اپنے پیچھے بٹھایا۔ وہ خوبصورت گورے مرد تھے۔ حضور اکرم ﷺ لوگو ں کو مسائل بتانے کے لئے کھڑے ہوگئے۔ اسی دوران میں قبیلہ خثعم کی ایک خوبصورت عورت بھی آنحضرت ﷺ سے مسئلہ پوچھنے آئی۔ فضل بھی اس عورت کو دیکھنے لگے۔ اس کا حسن وجمال ان کو بھلا معلوم ہوا۔ آنحضرت ﷺ نے مڑ کر دیکھا تو فضل اسے دیکھ رہے تھے۔ آنحضرت ﷺ نے اپنا ہاتھ پیچھے لے جا کر فضل کی ٹھوڑی پکڑی اور ان کا چہرہ دوسری طرف کر دیا۔ پھر اس عورت نے کہا، یا رسول اللہ حج کے بارے میں اللہ کا جو اپنے بندوں پر فریضہ ہے وہ میرے والد پر لاگو ہوتا ہے، جو بہت بوڑھے ہو چکے ہیں اور سواری پر سیدھے نہیں بیٹھ سکتے۔ کیا اگر میں ان کی طرف سے حج کر لوں تو ان کا حج ادا ہو جائے گا؟ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ ہاں ہو جائے گا۔
حدیث حاشیہ:
حدیث کی باب سے مطابقت یہ ہے کہ آپ نے فضل بن عباس رضی اللہ عنہما کو غیر عورت کی طرف دیکھنے سے منع فرمایا تھا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Abdullah bin 'Abbas (RA) : Al-Fadl bin 'Abbas rode behind the Prophet (ﷺ) as his companion rider on the back portion of his she camel on the Day of Nahr (slaughtering of sacrifice, 10th Dhul-Hijja) and Al-Fadl was a handsome man. The Prophet (ﷺ) stopped to give the people verdicts. In the meantime, a beautiful woman From the tribe of Khath'am came, asking the verdict of Allah's Apostle. Al-Fadl started looking at her as her beauty attracted him. The Prophet (ﷺ) looked behind while Al-Fadl was looking at her; so the Prophet (ﷺ) held out his hand backwards and caught the chin of Al-Fadl and turned his face (to the owner sides in order that he should not gaze at her. She said, "O Allah's Apostle (ﷺ) ! The obligation of Performing Hajj enjoined by Allah on His worshipers, has become due (compulsory) on my father who is an old man and who cannot sit firmly on the riding animal. Will it be sufficient that I perform Hajj on his behalf?" He said, "Yes."