باب:اللہ تعالیٰ کا سورۂ نور میں یہ فرمانہ اے ایمان والو! تم اپنے ( خاص ) گھروں کے سوا دوسرے گھروں میں مت داخل ہو جب تک کہ اجازت نہ حاصل کرلو اور ان کے رہنے والوں کو سلام کرلو۔ تمہارے حق میں یہی بہتر ہے تاکہ تم خیال رکھو۔
)
Sahi-Bukhari:
Asking Permission
(Chapter: "... Enter not a house other than your own...")
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
پھر اگر ان میں تمہیں کوئی ( آدمی ) نہ معلوم ہوتو بھی ان میں نہ داخل ہوجب تک کہ تم کو اجازت نہ مل جائے اور اگر تم سے کہہ دیا جائے کہ لوٹ جاؤ تو ( بلاخفتگی ) واپس لوٹ آیا کرو۔ یہی تمہارے حق میں زیادہ صفائی کی بات ہے اور اللہ تمہارے اعمال کو خوب جانتا ہے۔ تم پر کوئی گناہ اس میں نہیں ہے کہ تم ان مکانات میں داخل ہو جاؤ ( جن میں ) کوئی رہتا نہ ہو اور ان میں تمہارا کچھ مال ہو اور اللہ جانتا ہے جو کچھ تم ظاہر کرتے ہواور جو کچھ تم چھپاتے ہو ۔ “اور سعید بن ابی الحسن نے ( اپنے بھائی ) حسن بصری سے کہا کہ عجمی عورتیں سینہ اور سر کھولے رہتی ہیں ۔ تو حسن بصرینے کہا کہ ان سے اپنی نگاہ پھیر لو، اللہ تعالیٰ فرماتاہے ” مومنوں سے کہہ دیجئے کہ اپنی نظریں نیچی رکھیں اور اپنی شرم گا ہوں کی حفاظت کریں۔ “ قتادہ نے کہا کہ اس سے مراد یہ ہے کہ جوان کے لئے جائز نہیں ہے ( اس سے حفاظت کریں ) اور آپ کہہ دیجئے ایمان والیوں سے کہ اپنی نظریں نیچی رکھیں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں اور اپنے سنگا ر ظاہر نہ ہونے دیں۔ ” خائنۃالاعین “ سے مراد اس چیز کی طرف دیکھنا ہے ، جس سے منع کیا گیا ہے ۔ زہری نے نابالغ لڑکیوں کو دیکھنے کے سلسلہ میں کہا کہ ان کی بھی کسی ایسی چیز کی طرف نظر نہ کرنی چاہئے جسے دیکھنے سے شہوت نفسانی پیداہوسکتی ہو۔ خواہ وہ لڑکی چھوٹی ہی کیوں نہ ہو۔ عطاءنے ان لونڈیوں کی طرف نظر کرنے کو مکروہ کہا ہے ، جو مکہ میں بیچی جاتی ہیں ۔ ہاں اگر انہیں خرید نے کا ارادہ ہو تو جائز ہے۔ ( الحمد للہ اب مکہ میں ایسے بازار ختم ہوچکے ہیں
6229.
حضرت ابو سعید خدری ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: ”تم خود کو راستوں پر بیٹھنے سے دور رکھو۔“ صحابہ کرام ؓ نے عرض کی: اللہ کے رسول! ہمارے لیے راستوں میں بیٹھنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں۔ ہم وہاں روز مرہ کی گفتگو کیا کرتے ہیں، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اچھا جب تم ان مجالس میں بیٹھنا ہی چاہتے ہو تو راستے کا حق کیا ہے؟ آپ نے فرمایا: ”(غیر محرم سے) نظر جھکائے رکھنا، (لوگوں کی) اذیت رسانی سے باز رہنا، سلام کا جواب دینا، اچھے کاموں کا حکم دینا اور برے کاموں سے روکنا۔“
تشریح:
(1) انسان کی یہ فطرت ہے کہ جب وہ کھانے پینے کی پسندیدہ چیز دیکھتا ہے تو اسے کھانے کی اس میں خواہش پیدا ہوتی ہے، اسی طرح یہ بھی ہوتا ہے کہ کسی غیر محرم عورت کو دیکھنے سے شہوانی تقاضا پیدا ہو جاتا ہے یا کم از کم انسان اس وقت بے چینی میں ضرور مبتلا ہو جاتا ہے، اس لیے ایسے حالات میں بندۂ مسلم کو نگاہ بچا کر رکھنے کا حکم ہے۔ قرآن مجید میں عورتوں اور مردوں کو الگ الگ نگاہیں نیچی رکھنے کا حکم دیا گیا ہے۔ اگر کسی کی اچانک نظر پڑ جائے تو نگاہیں دوسری جانب پھیر لینے کا حکم ہے، چنانچہ حضرت جریر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اچانک نظر پڑ جانے کے متعلق سوال کیا تو آپ نے فرمایا: ''مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں ادھر سے نگاہیں دوسری طرف پھیر لوں۔'' (مسند أحمد:4/358) کسی کے گھر میں تاک جھانک کرنا اتنا شدید جرم ہے کہ اگر صاحب خانہ اس جرم کی پاداش میں کسی بھی چیز سے نظر باز کی آنکھ پھوڑ دے تو اس پر کوئی تاوان نہیں ہے۔ (مسند أحمد:181/5) (2) حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے دیگر روایات کے پیش نظر چودہ امور کی نشاندہی کی ہے جو راستے کے حقوق سے متعلق ہیں، ان کی تفصیل حسب ذیل ہے: ٭ نگاہیں نیچی رکھنا۔ ٭ دوسروں کو تکلیف دینے سے باز رہنا۔ ٭ سلام کا جواب دینا۔ ٭ بھلے کاموں کا حکم دینا۔ ٭ برے کاموں سے روکنا۔ ٭ پریشان حال لوگوں کی مدد کرنا۔ ٭ بھٹکے مسافر کو راستہ بتانا۔ ٭ چھینک کا جواب دینا۔ ٭ مظلوم کی مدد کرنا۔ ٭ سلام کو عام کرنا۔ ٭ بوجھ اٹھانے والے کا ہاتھ بٹانا۔ ٭ اچھی گفتگو کرنا۔ ٭ بکثرت ذکر الٰہی میں مصروف رہنا۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے ان امور کو تین عربی ابیات میں جمع کیا ہے۔ (فتح الباري:16/11)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6003
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6229
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
6229
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
6229
تمہید کتاب
لغت کے اعتبار سے ''استئذان'' کے معنی اجازت طلب کرنا ہیں۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اس کے اصطلاحی معنی ان الفاظ میں بیان کیے ہیں: ایسی جگہ آنے کی اجازت لینا کہ اجازت لینے والا اس کا مالک نہیں ہے۔ (فتح الباری:5/11) عرب معاشرے میں یہ عام دستور تھا کہ لوگ ایک دوسرے کے گھروں میں بلاجھجک داخل ہو جاتے تھے۔ اسلام نے ایسی آزاد آمدورفت پر پابندی لگائی ہے جیسا کہ درج ذیل واقعے سے ظاہر ہوتا ہے:حضرت صفوان بن امیہ رضی اللہ عنہ نے حضرت کلدہ بن حنبل رضی اللہ عنہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے دودھ، ہرن کا بچہ اور ککڑیاں دے کر بھیجا جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ کی بالائی جانب رہائش رکھے ہوئے تھے۔ وہ آپ کی رہائش گاہ میں اجازت اور سلام کے بغیر جا داخل ہوا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''پیچھے ہٹو اور السلام علیکم کہو۔'' یہ واقعہ صفوان بن امیہ رضی اللہ عنہ کے مسلمان ہونے کے بعد کا ہے۔ (سنن ابی داود، الادب، حدیث:5176)شریعت نے اس سلسلے میں کچھ فرائض و واجبات کی نشاندہی کی ہے۔ اس عنوان کے تحت امام بخاری رحمہ اللہ نے تین قسم کے آداب سے امت مسلمہ کو آگاہ کیا ہے جن کی تفصیل حسب ذیل ہے:٭ گھروں میں آنے جانے کے آداب: قرآن کریم میں اس کے متعلق ایک ہدایت بیان کی گئی ہے: ''اے ایمان والو! اپنے گھروں کے علاوہ (دوسروں کے) گھروں میں جاؤ تو جب تک تم اہل خانہ سے اجازت نہ لے لو اور انہیں سلام نہ کر لو وہاں داخل نہ ہوا کرو۔'' (النور24: 27) آیت کریمہ میں اپنے گھروں سے مراد صرف وہ گھر ہے جہاں اس کی بیوی رہتی ہو۔ وہاں شوہر ہر وقت بلا جھجک داخل ہو سکتا ہے، لیکن اپنی ماں اور بیٹیوں کے گھروں میں داخل ہونے سے پہلے استیناس ضروری ہے۔ اس استیناس کے معنی کسی سے مانوس ہونا یا اسے مانوس کرنا یا اس سے اجازت لینا ہیں۔ اس کا مطلب کوئی بھی ایسا کام کرنا ہے جس سے اہل خانہ کو علم ہو جائے کہ دروازے پر فلاں شخص کھڑا اندر آنے کی اجازت طلب کر رہا ہے۔٭ ملاقات کے آداب: دنیا کی تمام مہذب قوموں میں ملاقات کے وقت جذبات کے اظہار اور ایک دوسرے کو مانوس کرنے کے لیے کوئی خاص کلمہ کہنے کا رواج رہا ہے اور آج بھی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے وقت عربوں میں بھی ملاقات کے وقت اسی قسم کے مختلف کلمات کہنے کا رواج تھا لیکن جب اسلام آیا تو ان کلمات کے بجائے اہل ایمان کو السلام علیکم کی تعلیم دی گئی۔ اس جامع دعائیہ کلمے میں چھوٹوں کے لیے شفقت و محبت بھی ہے اور بڑوں کے لیے اس میں اکرام و احترام اور تعظیم بھی ہے۔٭ آداب مجلس: کسی خاص مسئلے پر غوروفکر اور سوچ بچار کرنے کے لیے مخصوص لوگوں کو دعوت دی جاتی ہے۔ اس قسم کی مجالس کے کچھ آداب ہوتے ہیں۔ پھر یہ مجالس کئی قسم کی ہیں: کچھ سرعام ہوتی ہیں اور ہر ایک کو وہاں آنے کی دعوت ہوتی ہے اور کچھ خاص ہوتی ہیں جس میں ہر ایرے غیرے کو آنے کی اجازت نہیں ہوتی۔ مجالس میں زیر بحث مسائل عام بھی ہو سکتے ہیں اور کچھ مسائل بطور امانت خاص ہوتے ہیں۔ اس قسم کے بیسیوں آداب ہیں جو مجالس سے متعلق ہیں۔ہم آداب زیارت و ملاقات اور آداب مجلس کو معاشرتی آداب کا نام دیتے ہیں جسے امام بخاری رحمہ اللہ نے بڑی تفصیل سے بیان کیا ہے۔ ان آداب کی مناسبت سے معانقہ (گلے ملنا)، مصافحہ (ہاتھ ملانا) اور استقبال وغیرہ کے آداب بھی بیان ہوئے ہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے ان آداب کو بیان کرنے کے لیے پچاسی (85) مرفوع احادیث کا انتخاب کیا ہے۔ ان میں بارہ (12) احادیث معلق اور باقی تہتر (73) احادیث متصل سند سے بیان کی ہیں، پھر ان میں پینسٹھ (65) احادیث مکرر اور بیس (20) احادیث خالص ہیں۔ ان احادیث میں سے پانچ (5) کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی اپنی صحیح میں بیان کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ مختلف صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین سے مروی سات آثار بھی بیان کیے ہیں، پھر ان احادیث و آثار پر امام صاحب نے تریپن (53) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جو ان کی فقاہت و باریک بینی کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ ہم اللہ تعالیٰ کی توفیق سے ان احادیث کی وضاحت کرتے ہوئے مختلف فوائد سے قارئین کو آگاہ کریں گے۔دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ان معاشرتی آداب پر عمل کرنے کی توفیق دے تاکہ ہم معاشرے میں بہترین انسان اور اچھے مسلمان ثابت ہوں۔ آمین ثم آمین
تمہید باب
عنوان میں ذکر کردہ پوری آیات کا ترجمہ یہ ہے: ''اے ایمان والو! اپنے گھروں کے سوا دوسروں کے گھروں میں داخل نہ ہوا کرو حتی کہ تم اجازت لے لو اور گھر والوں کو سلام کرو۔ یہ بات تمہارے لیے بہتر ہے۔ توقع ہے کہ تم اسے یاد رکھو گے۔ پھر اگر ان میں کسی کو نہ پاؤ تو ان میں داخل نہ ہو حتی کہ تمہیں اجازت دے دی جائے اور اگر تمہیں کہا جائے کہ لوٹ جاؤ تو لوٹ آؤ، یہ تمہارے لیے زیادہ پاکیزہ طریقہ ہے اور جو تم کرتے ہو اللہ اسے خوب جانتا ہے۔ البتہ بے آباد گھروں میں داخل ہونے پر تم پر کوئی گناہ نہیں اور ان میں تمہارے فائدے کی کوئی چیز ہو اور اللہ جانتا ہے جو تم ظاہر کرتے ہو اور جو تم چھپاتے ہو۔'' (النور24: 27-29) امام بخاری رحمہ اللہ نے مختلف اقوال اس لیے ذکر کیے ہیں تاکہ اجازت طلب کرنے کا مقصد بیان کیا جائے۔ وہ یہ ہے کہ اگر صاحب خانہ کے گھر میں اجازت لے کر داخل ہو تو جس کی طرف صاحب خانہ نظر کرنا پسند نہیں کرتا اسے نہ دیکھا جائے، اگر نظر بازی سے نہیں بچنا تو اجازت لینے کا کوئی فائدہ نہیں۔
پھر اگر ان میں تمہیں کوئی ( آدمی ) نہ معلوم ہوتو بھی ان میں نہ داخل ہوجب تک کہ تم کو اجازت نہ مل جائے اور اگر تم سے کہہ دیا جائے کہ لوٹ جاؤ تو ( بلاخفتگی ) واپس لوٹ آیا کرو۔ یہی تمہارے حق میں زیادہ صفائی کی بات ہے اور اللہ تمہارے اعمال کو خوب جانتا ہے۔ تم پر کوئی گناہ اس میں نہیں ہے کہ تم ان مکانات میں داخل ہو جاؤ ( جن میں ) کوئی رہتا نہ ہو اور ان میں تمہارا کچھ مال ہو اور اللہ جانتا ہے جو کچھ تم ظاہر کرتے ہواور جو کچھ تم چھپاتے ہو ۔ “اور سعید بن ابی الحسن نے ( اپنے بھائی ) حسن بصری سے کہا کہ عجمی عورتیں سینہ اور سر کھولے رہتی ہیں ۔ تو حسن بصرینے کہا کہ ان سے اپنی نگاہ پھیر لو، اللہ تعالیٰ فرماتاہے ” مومنوں سے کہہ دیجئے کہ اپنی نظریں نیچی رکھیں اور اپنی شرم گا ہوں کی حفاظت کریں۔ “ قتادہ نے کہا کہ اس سے مراد یہ ہے کہ جوان کے لئے جائز نہیں ہے ( اس سے حفاظت کریں ) اور آپ کہہ دیجئے ایمان والیوں سے کہ اپنی نظریں نیچی رکھیں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں اور اپنے سنگا ر ظاہر نہ ہونے دیں۔ ” خائنۃالاعین “ سے مراد اس چیز کی طرف دیکھنا ہے ، جس سے منع کیا گیا ہے ۔ زہری نے نابالغ لڑکیوں کو دیکھنے کے سلسلہ میں کہا کہ ان کی بھی کسی ایسی چیز کی طرف نظر نہ کرنی چاہئے جسے دیکھنے سے شہوت نفسانی پیداہوسکتی ہو۔ خواہ وہ لڑکی چھوٹی ہی کیوں نہ ہو۔ عطاءنے ان لونڈیوں کی طرف نظر کرنے کو مکروہ کہا ہے ، جو مکہ میں بیچی جاتی ہیں ۔ ہاں اگر انہیں خرید نے کا ارادہ ہو تو جائز ہے۔ ( الحمد للہ اب مکہ میں ایسے بازار ختم ہوچکے ہیں
حدیث ترجمہ:
حضرت ابو سعید خدری ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: ”تم خود کو راستوں پر بیٹھنے سے دور رکھو۔“ صحابہ کرام ؓ نے عرض کی: اللہ کے رسول! ہمارے لیے راستوں میں بیٹھنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں۔ ہم وہاں روز مرہ کی گفتگو کیا کرتے ہیں، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اچھا جب تم ان مجالس میں بیٹھنا ہی چاہتے ہو تو راستے کا حق کیا ہے؟ آپ نے فرمایا: ”(غیر محرم سے) نظر جھکائے رکھنا، (لوگوں کی) اذیت رسانی سے باز رہنا، سلام کا جواب دینا، اچھے کاموں کا حکم دینا اور برے کاموں سے روکنا۔“
حدیث حاشیہ:
(1) انسان کی یہ فطرت ہے کہ جب وہ کھانے پینے کی پسندیدہ چیز دیکھتا ہے تو اسے کھانے کی اس میں خواہش پیدا ہوتی ہے، اسی طرح یہ بھی ہوتا ہے کہ کسی غیر محرم عورت کو دیکھنے سے شہوانی تقاضا پیدا ہو جاتا ہے یا کم از کم انسان اس وقت بے چینی میں ضرور مبتلا ہو جاتا ہے، اس لیے ایسے حالات میں بندۂ مسلم کو نگاہ بچا کر رکھنے کا حکم ہے۔ قرآن مجید میں عورتوں اور مردوں کو الگ الگ نگاہیں نیچی رکھنے کا حکم دیا گیا ہے۔ اگر کسی کی اچانک نظر پڑ جائے تو نگاہیں دوسری جانب پھیر لینے کا حکم ہے، چنانچہ حضرت جریر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اچانک نظر پڑ جانے کے متعلق سوال کیا تو آپ نے فرمایا: ''مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں ادھر سے نگاہیں دوسری طرف پھیر لوں۔'' (مسند أحمد:4/358) کسی کے گھر میں تاک جھانک کرنا اتنا شدید جرم ہے کہ اگر صاحب خانہ اس جرم کی پاداش میں کسی بھی چیز سے نظر باز کی آنکھ پھوڑ دے تو اس پر کوئی تاوان نہیں ہے۔ (مسند أحمد:181/5) (2) حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے دیگر روایات کے پیش نظر چودہ امور کی نشاندہی کی ہے جو راستے کے حقوق سے متعلق ہیں، ان کی تفصیل حسب ذیل ہے: ٭ نگاہیں نیچی رکھنا۔ ٭ دوسروں کو تکلیف دینے سے باز رہنا۔ ٭ سلام کا جواب دینا۔ ٭ بھلے کاموں کا حکم دینا۔ ٭ برے کاموں سے روکنا۔ ٭ پریشان حال لوگوں کی مدد کرنا۔ ٭ بھٹکے مسافر کو راستہ بتانا۔ ٭ چھینک کا جواب دینا۔ ٭ مظلوم کی مدد کرنا۔ ٭ سلام کو عام کرنا۔ ٭ بوجھ اٹھانے والے کا ہاتھ بٹانا۔ ٭ اچھی گفتگو کرنا۔ ٭ بکثرت ذکر الٰہی میں مصروف رہنا۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے ان امور کو تین عربی ابیات میں جمع کیا ہے۔ (فتح الباري:16/11)
ترجمۃ الباب:
حضرت سعید بن ابو حسن نے حضرت حسن بصری سے کہا کہ عجمی عورتیں اپنے سینےاور سر کو برہنہ رکھتی ہیں۔ حسن بصری نے فرمایا: تم اپنی نظر ان سے پھیر لو، ارشاد باری تعالٰی ہے: ”آپ اہل ایمان سے کہہ دیں کہ وہ اپنی نطریں نیچی رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں۔“ حضرت قتادہ نے کہا: اس سے مراد یہ ہے کہ جو ان کے لیے حلال نہیں ان سے شرمگاہوں کی حفاظت کریں نیز اللہ تعالٰی نے فرمایا: آپ اہل ایمان خواتین سے کہہ دیں کہ وہ اپنی نگاہوں کو نیچا رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاطت کریں۔ ”خائنہ الاعین“ آنکھوں کی خیانت سے مراد اس چیز کو دیکھنا ہے جس سے منع کیا گیاامام زہری نے نابالغ لڑکیوں کو دیکنھے کی بابت فرمایا کہ ان کی بھی کسی ایسی چیز کو نہیں دیکھنا چاہیے جسے دیکھنے سے شہوت نفسانی پیدا ہونے کا اندیشہ ہو، خواہ وہ چھوٹی ہی کیوں نہ ہوںحضرت عطاء نے ان لونڈیوں کو دیکھنا مکروہ کہا جو مکہ مکرمہ میں فروخت کی جاتی تھیں ہاں اگر انہیں خریدنے کا ارادہ ہوتو انہیں دیکھنا جائز ہے
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبد اللہ بن محمد نے بیان کیا، انہوںنے کہا ہم کو ابو عامر نے خبر دی، انہوں نے کہا ہم سے زہیر نے بیان کیا، ان سے زید بن اسلم نے بیان کیا، ان سے عطاء بن یسار نے بیان کیا اور ان سے ابوسعید خدری ؓ نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا راستوں پر بیٹھنے سے بچو! صحابہ نے عرض کیا یارسول اللہ ! ہماری یہ مجلس تو بہت ضروری ہیں، ہم وہیں روزمرہ گفتگو کیا کرتے ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ اچھا جب تم ان مجلسوں میں بیٹھنا ہی چاہتے ہو تو راستے کا حق ادا کیا کرو یعنی راستے کو اس کا حق دو۔ صحابہ نے عرض کیا، راستے کا حق کیا ہے یا رسول اللہ! فرمایا (غیرمحرم عورتوں کو دیکھنے سے) نظرنیچی رکھنا، راہ گیروں کو نہ ستانا، سلام کا جواب دینا، بھلائی کا حکم دینا اور برائی سے روکنا۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Sa'id Al-Khudri(RA): The Prophet (ﷺ) said, 'Beware! Avoid sitting on the roads." They (the people) said, "O Allah s Apostle (ﷺ) ! We can't help sitting (on the roads) as these are (our places) here we have talks." The Prophet (ﷺ) said, ' l f you refuse but to sit, then pay the road its right ' They said, "What is the right of the road, O Allah's Apostle?" He said, 'Lowering your gaze, refraining from harming others, returning greeting, and enjoining what is good, and forbidding what is evil."