Sahi-Bukhari:
Asking Permission
(Chapter: To greet and ask permission thrice)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
6245.
حضرت ابو خدری ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ میں انصار کی ایک مجلس میں تھا کہ اچانک وہاں حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ تشریف لائے گویا وہ گھبرائے ہوئے تھے انہوں نے کہا: میں نے حضرت عمر بن خطاب ؓ کے ہاں تین مرتبہ اندر آنے کی اجازت طلب کی لیکن مجھے اجازت نہ دی گئی تو میں واپس چلا آیا۔ اب انہوں نے دریافت کیا ہے تمہارے لیے اندر آنے میں کیا بات مانع تھی؟ میں نے کہا: میں نے تین بار اجازت مانگی تھی، مجھے اجازت نہ دی گئی تو میں واپس چلا آیا کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے: ”جب تم میں سے کوئی کسی سے تین مرتبہ اجازت طلب کرے اور اجازت نہ ملے تو واپس چلا جائے۔“ حضرت عمر بن خطاب ؓ نے کہا: اللہ کی قسم! تمہیں اس حدیث کے متعلق کوئی گواہ پیش کرنا ہوگا۔ کیا تم میں سے کوئی ایسا ہے جس نے یہ حدیث نبی ﷺ سے سنی ہو؟ حضرت ابی کعب ؓ نے کہا: اللہ کی قسم! تمہارے ساتھ اس قوم کا سب سے چھوٹا تھا اس لیے میں اٹھ کر ان کے ساتھ چلا گیا اور حضرت عمر ؓ سے عرض کیا: واقعی نبی ﷺ نے ایسا فرمایا ہےحضرت عبداللہ بن مبارک نے کہا: مجھے سفیان بن عیینہ نے خبر دی، انہوں نے کہا: مجھ سے یزید بن خصیفہ نے حضرت بسر بن سعد سے بیان کیا۔ انہوں نے کہا کہ میں نے حضرت ابو سعید خدری ؓ سے یہ حدیث سنی۔
تشریح:
(1) کسی کے گھر میں داخل ہونے کے لیے اجازت طلب کرنے کا شرعی طریقہ یہ ہے کہ دروازے کے ایک طرف کھڑے ہو کر تین مرتبہ سلام کہے، پھر اجازت طلب کرے، خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی اس کا اہتمام کرتے تھے۔ (سنن أبي داود، الأدب،حدیث:5186) دستک کے جواب میں دستک دینے والا اپنا نام یا عرف بتائے ''میں، میں'' کہنا خلاف ادب اور ناکافی تعارف ہے۔ دستک دینے یا گھنٹی بجانے میں بے ادبی اور بدتمیزی کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہیے۔ اگر اجازت یا جواب نہ ملے تو بلاوجہ ناراض ہونے کے بجائے واپس آ جانا چاہیے جیسا کہ حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کے واقعے سے معلوم ہوتا ہے۔ (2) حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی سختی بھی برموقع تھی تاکہ لوگ یقین و اعتماد کے بغیر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کچھ منسوب نہ کرنے لگیں اگرچہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنی کمی کا اعتراف کیا اور حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کے ساتھ ہونے والے مناقشے کی تلافی بھی فرما دی تھی، چنانچہ انہوں نے فرمایا: کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان مجھ سے مخفی رہا ہے، ہاں مجھے بازار کے تجارتی مشاغل نے مصروف رکھا، بہرحال اے ابو موسیٰ! تم جب چاہو سلام کہہ کر آ جایا کرو اور اجازت نہ مانگا کرو۔ (سنن أبي داود، الأدب:حدیث:5182) (3) ایک دوسری روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ کوفے میں لوگ حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کے دروازے پر کھڑے رہتے تھے جب وہ کوفہ کے گورنر تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس انداز سے ان کی تربیت کرنا چاہی کہ جس طرح تجھے باہر کھڑا رہنے سے تکلیف ہوئی ہے اسی طرح تجھے لوگوں کی تکلیف کا احساس کرنا چاہیے۔ (الأدب المفرد، حدیث:1073) اس کے علاوہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ اس وقت اپنے خلافت کے معاملات میں مصروف بھی تھے۔ (فتح الباري:35/11)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6019
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6245
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
6245
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
6245
تمہید کتاب
لغت کے اعتبار سے ''استئذان'' کے معنی اجازت طلب کرنا ہیں۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اس کے اصطلاحی معنی ان الفاظ میں بیان کیے ہیں: ایسی جگہ آنے کی اجازت لینا کہ اجازت لینے والا اس کا مالک نہیں ہے۔ (فتح الباری:5/11) عرب معاشرے میں یہ عام دستور تھا کہ لوگ ایک دوسرے کے گھروں میں بلاجھجک داخل ہو جاتے تھے۔ اسلام نے ایسی آزاد آمدورفت پر پابندی لگائی ہے جیسا کہ درج ذیل واقعے سے ظاہر ہوتا ہے:حضرت صفوان بن امیہ رضی اللہ عنہ نے حضرت کلدہ بن حنبل رضی اللہ عنہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے دودھ، ہرن کا بچہ اور ککڑیاں دے کر بھیجا جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ کی بالائی جانب رہائش رکھے ہوئے تھے۔ وہ آپ کی رہائش گاہ میں اجازت اور سلام کے بغیر جا داخل ہوا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''پیچھے ہٹو اور السلام علیکم کہو۔'' یہ واقعہ صفوان بن امیہ رضی اللہ عنہ کے مسلمان ہونے کے بعد کا ہے۔ (سنن ابی داود، الادب، حدیث:5176)شریعت نے اس سلسلے میں کچھ فرائض و واجبات کی نشاندہی کی ہے۔ اس عنوان کے تحت امام بخاری رحمہ اللہ نے تین قسم کے آداب سے امت مسلمہ کو آگاہ کیا ہے جن کی تفصیل حسب ذیل ہے:٭ گھروں میں آنے جانے کے آداب: قرآن کریم میں اس کے متعلق ایک ہدایت بیان کی گئی ہے: ''اے ایمان والو! اپنے گھروں کے علاوہ (دوسروں کے) گھروں میں جاؤ تو جب تک تم اہل خانہ سے اجازت نہ لے لو اور انہیں سلام نہ کر لو وہاں داخل نہ ہوا کرو۔'' (النور24: 27) آیت کریمہ میں اپنے گھروں سے مراد صرف وہ گھر ہے جہاں اس کی بیوی رہتی ہو۔ وہاں شوہر ہر وقت بلا جھجک داخل ہو سکتا ہے، لیکن اپنی ماں اور بیٹیوں کے گھروں میں داخل ہونے سے پہلے استیناس ضروری ہے۔ اس استیناس کے معنی کسی سے مانوس ہونا یا اسے مانوس کرنا یا اس سے اجازت لینا ہیں۔ اس کا مطلب کوئی بھی ایسا کام کرنا ہے جس سے اہل خانہ کو علم ہو جائے کہ دروازے پر فلاں شخص کھڑا اندر آنے کی اجازت طلب کر رہا ہے۔٭ ملاقات کے آداب: دنیا کی تمام مہذب قوموں میں ملاقات کے وقت جذبات کے اظہار اور ایک دوسرے کو مانوس کرنے کے لیے کوئی خاص کلمہ کہنے کا رواج رہا ہے اور آج بھی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے وقت عربوں میں بھی ملاقات کے وقت اسی قسم کے مختلف کلمات کہنے کا رواج تھا لیکن جب اسلام آیا تو ان کلمات کے بجائے اہل ایمان کو السلام علیکم کی تعلیم دی گئی۔ اس جامع دعائیہ کلمے میں چھوٹوں کے لیے شفقت و محبت بھی ہے اور بڑوں کے لیے اس میں اکرام و احترام اور تعظیم بھی ہے۔٭ آداب مجلس: کسی خاص مسئلے پر غوروفکر اور سوچ بچار کرنے کے لیے مخصوص لوگوں کو دعوت دی جاتی ہے۔ اس قسم کی مجالس کے کچھ آداب ہوتے ہیں۔ پھر یہ مجالس کئی قسم کی ہیں: کچھ سرعام ہوتی ہیں اور ہر ایک کو وہاں آنے کی دعوت ہوتی ہے اور کچھ خاص ہوتی ہیں جس میں ہر ایرے غیرے کو آنے کی اجازت نہیں ہوتی۔ مجالس میں زیر بحث مسائل عام بھی ہو سکتے ہیں اور کچھ مسائل بطور امانت خاص ہوتے ہیں۔ اس قسم کے بیسیوں آداب ہیں جو مجالس سے متعلق ہیں۔ہم آداب زیارت و ملاقات اور آداب مجلس کو معاشرتی آداب کا نام دیتے ہیں جسے امام بخاری رحمہ اللہ نے بڑی تفصیل سے بیان کیا ہے۔ ان آداب کی مناسبت سے معانقہ (گلے ملنا)، مصافحہ (ہاتھ ملانا) اور استقبال وغیرہ کے آداب بھی بیان ہوئے ہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے ان آداب کو بیان کرنے کے لیے پچاسی (85) مرفوع احادیث کا انتخاب کیا ہے۔ ان میں بارہ (12) احادیث معلق اور باقی تہتر (73) احادیث متصل سند سے بیان کی ہیں، پھر ان میں پینسٹھ (65) احادیث مکرر اور بیس (20) احادیث خالص ہیں۔ ان احادیث میں سے پانچ (5) کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی اپنی صحیح میں بیان کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ مختلف صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین سے مروی سات آثار بھی بیان کیے ہیں، پھر ان احادیث و آثار پر امام صاحب نے تریپن (53) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جو ان کی فقاہت و باریک بینی کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ ہم اللہ تعالیٰ کی توفیق سے ان احادیث کی وضاحت کرتے ہوئے مختلف فوائد سے قارئین کو آگاہ کریں گے۔دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ان معاشرتی آداب پر عمل کرنے کی توفیق دے تاکہ ہم معاشرے میں بہترین انسان اور اچھے مسلمان ثابت ہوں۔ آمین ثم آمین
تمہید باب
سلام اور اجازت طلبی بیک وقت ہو یا الگ الگ، دونوں کا ایک ہی حکم ہے۔ حدیث انس رضی اللہ عنہ میں سلام کا بیان ہے جبکہ حدیث ابی موسیٰ رضی اللہ عنہ میں صرف اجازت طلبی کا ذکر ہے، اگرچہ بعض روایات میں سلام اور اجازت طلبی دونوں کا یکجا ذکر بھی آیا ہے۔ (فتح الباری11/34)
حضرت ابو خدری ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ میں انصار کی ایک مجلس میں تھا کہ اچانک وہاں حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ تشریف لائے گویا وہ گھبرائے ہوئے تھے انہوں نے کہا: میں نے حضرت عمر بن خطاب ؓ کے ہاں تین مرتبہ اندر آنے کی اجازت طلب کی لیکن مجھے اجازت نہ دی گئی تو میں واپس چلا آیا۔ اب انہوں نے دریافت کیا ہے تمہارے لیے اندر آنے میں کیا بات مانع تھی؟ میں نے کہا: میں نے تین بار اجازت مانگی تھی، مجھے اجازت نہ دی گئی تو میں واپس چلا آیا کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے: ”جب تم میں سے کوئی کسی سے تین مرتبہ اجازت طلب کرے اور اجازت نہ ملے تو واپس چلا جائے۔“ حضرت عمر بن خطاب ؓ نے کہا: اللہ کی قسم! تمہیں اس حدیث کے متعلق کوئی گواہ پیش کرنا ہوگا۔ کیا تم میں سے کوئی ایسا ہے جس نے یہ حدیث نبی ﷺ سے سنی ہو؟ حضرت ابی کعب ؓ نے کہا: اللہ کی قسم! تمہارے ساتھ اس قوم کا سب سے چھوٹا تھا اس لیے میں اٹھ کر ان کے ساتھ چلا گیا اور حضرت عمر ؓ سے عرض کیا: واقعی نبی ﷺ نے ایسا فرمایا ہےحضرت عبداللہ بن مبارک نے کہا: مجھے سفیان بن عیینہ نے خبر دی، انہوں نے کہا: مجھ سے یزید بن خصیفہ نے حضرت بسر بن سعد سے بیان کیا۔ انہوں نے کہا کہ میں نے حضرت ابو سعید خدری ؓ سے یہ حدیث سنی۔
حدیث حاشیہ:
(1) کسی کے گھر میں داخل ہونے کے لیے اجازت طلب کرنے کا شرعی طریقہ یہ ہے کہ دروازے کے ایک طرف کھڑے ہو کر تین مرتبہ سلام کہے، پھر اجازت طلب کرے، خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی اس کا اہتمام کرتے تھے۔ (سنن أبي داود، الأدب،حدیث:5186) دستک کے جواب میں دستک دینے والا اپنا نام یا عرف بتائے ''میں، میں'' کہنا خلاف ادب اور ناکافی تعارف ہے۔ دستک دینے یا گھنٹی بجانے میں بے ادبی اور بدتمیزی کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہیے۔ اگر اجازت یا جواب نہ ملے تو بلاوجہ ناراض ہونے کے بجائے واپس آ جانا چاہیے جیسا کہ حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کے واقعے سے معلوم ہوتا ہے۔ (2) حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی سختی بھی برموقع تھی تاکہ لوگ یقین و اعتماد کے بغیر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کچھ منسوب نہ کرنے لگیں اگرچہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنی کمی کا اعتراف کیا اور حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کے ساتھ ہونے والے مناقشے کی تلافی بھی فرما دی تھی، چنانچہ انہوں نے فرمایا: کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان مجھ سے مخفی رہا ہے، ہاں مجھے بازار کے تجارتی مشاغل نے مصروف رکھا، بہرحال اے ابو موسیٰ! تم جب چاہو سلام کہہ کر آ جایا کرو اور اجازت نہ مانگا کرو۔ (سنن أبي داود، الأدب:حدیث:5182) (3) ایک دوسری روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ کوفے میں لوگ حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کے دروازے پر کھڑے رہتے تھے جب وہ کوفہ کے گورنر تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس انداز سے ان کی تربیت کرنا چاہی کہ جس طرح تجھے باہر کھڑا رہنے سے تکلیف ہوئی ہے اسی طرح تجھے لوگوں کی تکلیف کا احساس کرنا چاہیے۔ (الأدب المفرد، حدیث:1073) اس کے علاوہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ اس وقت اپنے خلافت کے معاملات میں مصروف بھی تھے۔ (فتح الباري:35/11)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے علی بن عبد اللہ نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان نے بیان کیا، کہا ہم سے یزید بن خصیفہ نے بیان کیا ان سے بسر بن سعید اور ان سے ابو سعید خدری ؓ نے بیان کیا کہ میں انصار کی ایک مجلس میں تھا کہ ابو موسی ؓ تشریف لائے جیسے گھبرائے ہوئے ہوں۔ انہوں نے کہا کہ میں عمر ؓ کے یہاں تین مرتبہ اندر آنے کی اجازت چاہی لیکن مجھے کوئی جواب نہیں ملا، اس لئے واپس چلا آیا (حضرت عمر ؓ کو معلوم ہوا) تو انہوں نے دریافت کیا کہ (اندر آنے میں) کیا بات مانع تھی؟ میں نے کہا کہ میں نے تین مرتبہ اندر آنے کی اجازت مانگی اور جب مجھے کوئی جواب نہیں ملا تو واپس چلا گیا اور رسو ل اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ: جب تم میں سے کوئی کسی سے تین مرتبہ اجازت چاہے اور اجا زت نہ ملے تو واپس چلا جانا چاہئے حضرت عمر ؓ نے کہا واللہ! تمہیں اس حدیث کی صحت کے لئے کوئی گواہ لانا ہو گا۔ (ابو موسی ؓ نے مجلس والوں سے پوچھا) کیا تم ميں کوئی ایسا ہے جس نے آنحضرت ﷺ سے یہ حدیث سنی ہو؟ ابی بن کعب ؓ نے کہا کہ اللہ کی قسم! تمہارے ساتھ (اس کی گواہی دینے کے سوا) جماعت میں سب سے کم عمر شخص کے کوئی اور نہیں کھڑا ہو گا۔ ابو سعید نے کہا اور میں ہی جماعت کا وہ سب سے کم عمر آدمی تھا میں ان کے ساتھ اٹھ کھڑا ہوگیا اور عمر ؓ سے کہا کہ واقعی نبی کریم ﷺ نے ایسا فرمایا ہے۔ اور ابن المبارک نے بیان کیا کہ مجھ کو سفیان بن عیینہ نے خبر دی، کہا مجھ سے یزید بن خصیفہ نے بیان کیا، انہوں نے بسر بن سعید سے، کہا میں نے ابو سعید ؓ سے سنا پھر یہی حدیث نقل کی۔
حدیث حاشیہ:
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس گواہی کے بعد فورا اس حدیث کو تسلیم کر لیا۔ مومن کی شان یہی ہونی چاہئے رضي اللہ عنه و أرضاہ۔ پس بسر کا سماع ابو سعید سے ثابت ہوا اس روایت سے یہ بھی ثابت ہوا کہ ایک راوی کی روایت بھی جب وہ ثقہ ہو حجت ہے اور قیاس کو اس کے مقابل ترک کرد ین گے۔ اہل حدیث کا یہی قول ہے۔ بعض نسخوں میں یہ عبارت زائد ہے قال أبو عبد اللہ أراد عمر أن تبثت التثبت لأن لا یجیز خبر الواحد یعنی امام بخاری نے کہا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جو ابو موسی سے گواہ لانے کو کہا تو ان کا مطلب یہ تھا کہ حدیث کی اور زیادہ مضبوطی ہو جائے یہ سبب نہیں تھا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ ایک صحابی کی روایت کردہ حدیث کو صحیح نہں سمجھتے تھے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Sa'id Al-Khudri(RA): While I was present in one of the gatherings of the Ansar, Abu Musa (RA) came as if he was scared, and said, "I asked permission to enter upon 'Umar three times, but I was not given the permission, so I returned." (When 'Umar came to know about it) he said to Abu Musa (RA), "Why did you not enter?'. Abu Musa (RA) replied, "I asked permission three times, and I was not given it, so I returned, for Allah's Apostle (ﷺ) said, "If anyone of you asks the permission to enter thrice, and the permission is not given, then he should return.' " 'Umar said, "By Allah! We will ask Abu Musa (RA) to bring witnesses for it." (Abu Musa (RA) went to a gathering of the Ansar and said). "Did anyone of you hear this from the Prophet (ﷺ) ?" Ubai bin Ka'b (RA) said, "By Allah, none will go with you but the youngest of the people (as a witness)." (Abu Said) was the youngest of them, so I went with Abu Musa (RA) and informed 'Umar that the Prophet (ﷺ) had said so. (See Hadith No. 277, Vol. 3)