باب: نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے کہ اپنے سردار کو لینے کے لئے اٹھو
)
Sahi-Bukhari:
Asking Permission
(Chapter: "Get up for your chief!")
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
6262.
حضرت ابو سعید خدری ؓ سے روایت ہے کہ اہل قریظہ۔ حضرت سعد بن معاذ ؓ کو ثالث بنانے پر تیار ہوگئے تو نبی ﷺ نے انہیں پیغام بھیجا۔ جب وہ آئے تو آپ ﷺ نے فرمایا: ”اپنے سردار یا اپنی بہتر شخصیت کو لینے کے لیے اٹھو۔“ بہرحال وہ نبی ﷺ کے پاس بیٹھ گئے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”یہ لوگ (بنو قریظہ کے یہوری) تمہارے فیصلے پر راضی ہو کر قلعے سے اتر آئے ہیں۔“ حضرت سعد ؓ نے کہا: میں یہ فیصلہ دیتا ہوں کہ ان میں سے جو جنگجو ہیں انہیں قتل کر دیا جائے اور ان کے بچوں اور عورتوں کو قیدی بنا لیا جائے آپ ﷺ نے فرمایا: ”آپ نے وہی فیصلہ کیا ہے جو اللہ تعالٰی نے کیا تھا۔“ ابو عبداللہ (امام بخاری رحمہ اللہ) نے کہا: میرے بعض ساتھیوں نے ابوالولید کے واسطے سے حضرت ابو سعید رضی اللہ عنہ کے قول سے إلیٰ حکمك تک بیان کیا ہے یعنی شروع سے لے کر إلیٰ حکمك تک روایت نقل کی ہے بعد والا حصہ نہیں۔
تشریح:
(1) حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ قبیلۂ اوس کے سردار تھے اور یہ قبیلۂ بنو قریظہ کا حلیف تھا جبکہ انصار کا دوسرا قبیلہ خزرج بنو نضیر کا حلیف تھا۔ چونکہ حضرت سعد رضی اللہ عنہ بنو قریظہ کے حلیف تھے، اس لیے انھوں نے حضرت سعد رضی اللہ عنہ کو ثالث بنایا۔ (2) غزوۂ احزاب میں حضرت سعد رضی اللہ عنہ تیر لگنے سے زخمی ہوگئے تھے، اس لیے وہ گدھے پر سوار ہو کر فیصلہ کرنے کے لیے آئے۔ ان حالات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تم اپنے سردار کی طرف کھڑے ہو جاؤ اور انھیں آرام کے ساتھ سواری سے اتارو۔‘‘ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث میں کسی کی آمد پر احترامًا کھڑے ہونے کی شرعی حیثیت بیان کی ہے۔ ہمارے رجحان کے مطابق قیام، یعنی کھڑے ہونے کی تین قسمیں ہیں: ٭قیالہ: کوئی بڑا آدمی آئے اور بیٹھے ہوئے لوگ اپنی اپنی جگہ پر کھڑے ہو جائیں، پھر جب وہ اجازت دے یا خود بیٹھ جائے تو دوسرے بیٹھیں۔ اس قسم کی تعظیم بجا لانا ایک عجمی انداز ہے جس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے، حدیث میں ہے: ’’جو شخص یہ پسند کرتا ہو کہ لوگ اس کے لیے سراپا کھڑے رہیں تو اسے چاہیے کہ وہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنا لے۔‘‘ (جامع الترمذی، الاستیذان، حدیث:2755) ٭قیام علیہ: بڑا آدمی بیٹھا ہوا ہو اور لوگ داست بستہ، یعنی ہاتھ باندھے اس کے احترام میں کھڑے رہیں اور بڑا آدمی اس انداز سے کھڑے رہنے کو اپنی عظمت خیال کرتا ہو، ایسا کرنا بھی ناجائز اور حرام ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: ’’اہل فارس اور اہل روم اپنے بادشاہوں کے لیے دست بستہ کھڑے رہتے ہیں جبکہ وہ بیٹھے ہوتے ہیں، ایسا مت کیا کرو۔‘‘ (صحیح مسلم، الصلاة، حدیث:928(413)٭ قیام الیہ: آگے بڑھ کر استقبال کرنا، شریعت نے اسے جائز قرار دیا ہے، چنانچہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا جب بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آتیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم آگے بڑھ کر ان کا استقبال کرتے اور اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی جب ان کے ہاں جاتے تو وہ بھی آپ کا آگے بڑھ کر استقبال کرتیں۔ (سنن أبی داود، الأدب، حدیث:5217) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سعد رضی اللہ عنہ کے متعلق جو انصار سے فرمایا تھا تو اس کا مطلب بھی آگے بڑھ کر ان کا استقبال کرنا اور انھیں سواری سے اترنے میں مدد دینا تھا جیسا کہ ایک روایت میں اس کی صراحت ہے۔ (مسند أحمد:141/6، 142) (3) ہمارے ہاں سکولوں میں اساتذہ کی آمد پر لڑکوں اور لڑکیوں کا کھڑے ہونا اور حکم عدولی کرنے والے کو سزا دینا قیام،یعنی کھڑے ہونے کی پہلی قسم ہے جو شرعاً جائز نہیں۔اس سے پرہیز کرنا ضروری ہے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6036
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6262
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
6262
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
6262
تمہید کتاب
لغت کے اعتبار سے ''استئذان'' کے معنی اجازت طلب کرنا ہیں۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اس کے اصطلاحی معنی ان الفاظ میں بیان کیے ہیں: ایسی جگہ آنے کی اجازت لینا کہ اجازت لینے والا اس کا مالک نہیں ہے۔ (فتح الباری:5/11) عرب معاشرے میں یہ عام دستور تھا کہ لوگ ایک دوسرے کے گھروں میں بلاجھجک داخل ہو جاتے تھے۔ اسلام نے ایسی آزاد آمدورفت پر پابندی لگائی ہے جیسا کہ درج ذیل واقعے سے ظاہر ہوتا ہے:حضرت صفوان بن امیہ رضی اللہ عنہ نے حضرت کلدہ بن حنبل رضی اللہ عنہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے دودھ، ہرن کا بچہ اور ککڑیاں دے کر بھیجا جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ کی بالائی جانب رہائش رکھے ہوئے تھے۔ وہ آپ کی رہائش گاہ میں اجازت اور سلام کے بغیر جا داخل ہوا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''پیچھے ہٹو اور السلام علیکم کہو۔'' یہ واقعہ صفوان بن امیہ رضی اللہ عنہ کے مسلمان ہونے کے بعد کا ہے۔ (سنن ابی داود، الادب، حدیث:5176)شریعت نے اس سلسلے میں کچھ فرائض و واجبات کی نشاندہی کی ہے۔ اس عنوان کے تحت امام بخاری رحمہ اللہ نے تین قسم کے آداب سے امت مسلمہ کو آگاہ کیا ہے جن کی تفصیل حسب ذیل ہے:٭ گھروں میں آنے جانے کے آداب: قرآن کریم میں اس کے متعلق ایک ہدایت بیان کی گئی ہے: ''اے ایمان والو! اپنے گھروں کے علاوہ (دوسروں کے) گھروں میں جاؤ تو جب تک تم اہل خانہ سے اجازت نہ لے لو اور انہیں سلام نہ کر لو وہاں داخل نہ ہوا کرو۔'' (النور24: 27) آیت کریمہ میں اپنے گھروں سے مراد صرف وہ گھر ہے جہاں اس کی بیوی رہتی ہو۔ وہاں شوہر ہر وقت بلا جھجک داخل ہو سکتا ہے، لیکن اپنی ماں اور بیٹیوں کے گھروں میں داخل ہونے سے پہلے استیناس ضروری ہے۔ اس استیناس کے معنی کسی سے مانوس ہونا یا اسے مانوس کرنا یا اس سے اجازت لینا ہیں۔ اس کا مطلب کوئی بھی ایسا کام کرنا ہے جس سے اہل خانہ کو علم ہو جائے کہ دروازے پر فلاں شخص کھڑا اندر آنے کی اجازت طلب کر رہا ہے۔٭ ملاقات کے آداب: دنیا کی تمام مہذب قوموں میں ملاقات کے وقت جذبات کے اظہار اور ایک دوسرے کو مانوس کرنے کے لیے کوئی خاص کلمہ کہنے کا رواج رہا ہے اور آج بھی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے وقت عربوں میں بھی ملاقات کے وقت اسی قسم کے مختلف کلمات کہنے کا رواج تھا لیکن جب اسلام آیا تو ان کلمات کے بجائے اہل ایمان کو السلام علیکم کی تعلیم دی گئی۔ اس جامع دعائیہ کلمے میں چھوٹوں کے لیے شفقت و محبت بھی ہے اور بڑوں کے لیے اس میں اکرام و احترام اور تعظیم بھی ہے۔٭ آداب مجلس: کسی خاص مسئلے پر غوروفکر اور سوچ بچار کرنے کے لیے مخصوص لوگوں کو دعوت دی جاتی ہے۔ اس قسم کی مجالس کے کچھ آداب ہوتے ہیں۔ پھر یہ مجالس کئی قسم کی ہیں: کچھ سرعام ہوتی ہیں اور ہر ایک کو وہاں آنے کی دعوت ہوتی ہے اور کچھ خاص ہوتی ہیں جس میں ہر ایرے غیرے کو آنے کی اجازت نہیں ہوتی۔ مجالس میں زیر بحث مسائل عام بھی ہو سکتے ہیں اور کچھ مسائل بطور امانت خاص ہوتے ہیں۔ اس قسم کے بیسیوں آداب ہیں جو مجالس سے متعلق ہیں۔ہم آداب زیارت و ملاقات اور آداب مجلس کو معاشرتی آداب کا نام دیتے ہیں جسے امام بخاری رحمہ اللہ نے بڑی تفصیل سے بیان کیا ہے۔ ان آداب کی مناسبت سے معانقہ (گلے ملنا)، مصافحہ (ہاتھ ملانا) اور استقبال وغیرہ کے آداب بھی بیان ہوئے ہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے ان آداب کو بیان کرنے کے لیے پچاسی (85) مرفوع احادیث کا انتخاب کیا ہے۔ ان میں بارہ (12) احادیث معلق اور باقی تہتر (73) احادیث متصل سند سے بیان کی ہیں، پھر ان میں پینسٹھ (65) احادیث مکرر اور بیس (20) احادیث خالص ہیں۔ ان احادیث میں سے پانچ (5) کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی اپنی صحیح میں بیان کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ مختلف صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین سے مروی سات آثار بھی بیان کیے ہیں، پھر ان احادیث و آثار پر امام صاحب نے تریپن (53) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جو ان کی فقاہت و باریک بینی کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ ہم اللہ تعالیٰ کی توفیق سے ان احادیث کی وضاحت کرتے ہوئے مختلف فوائد سے قارئین کو آگاہ کریں گے۔دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ان معاشرتی آداب پر عمل کرنے کی توفیق دے تاکہ ہم معاشرے میں بہترین انسان اور اچھے مسلمان ثابت ہوں۔ آمین ثم آمین
حضرت ابو سعید خدری ؓ سے روایت ہے کہ اہل قریظہ۔ حضرت سعد بن معاذ ؓ کو ثالث بنانے پر تیار ہوگئے تو نبی ﷺ نے انہیں پیغام بھیجا۔ جب وہ آئے تو آپ ﷺ نے فرمایا: ”اپنے سردار یا اپنی بہتر شخصیت کو لینے کے لیے اٹھو۔“ بہرحال وہ نبی ﷺ کے پاس بیٹھ گئے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”یہ لوگ (بنو قریظہ کے یہوری) تمہارے فیصلے پر راضی ہو کر قلعے سے اتر آئے ہیں۔“ حضرت سعد ؓ نے کہا: میں یہ فیصلہ دیتا ہوں کہ ان میں سے جو جنگجو ہیں انہیں قتل کر دیا جائے اور ان کے بچوں اور عورتوں کو قیدی بنا لیا جائے آپ ﷺ نے فرمایا: ”آپ نے وہی فیصلہ کیا ہے جو اللہ تعالٰی نے کیا تھا۔“ ابو عبداللہ (امام بخاری رحمہ اللہ) نے کہا: میرے بعض ساتھیوں نے ابوالولید کے واسطے سے حضرت ابو سعید رضی اللہ عنہ کے قول سے إلیٰ حکمك تک بیان کیا ہے یعنی شروع سے لے کر إلیٰ حکمك تک روایت نقل کی ہے بعد والا حصہ نہیں۔
حدیث حاشیہ:
(1) حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ قبیلۂ اوس کے سردار تھے اور یہ قبیلۂ بنو قریظہ کا حلیف تھا جبکہ انصار کا دوسرا قبیلہ خزرج بنو نضیر کا حلیف تھا۔ چونکہ حضرت سعد رضی اللہ عنہ بنو قریظہ کے حلیف تھے، اس لیے انھوں نے حضرت سعد رضی اللہ عنہ کو ثالث بنایا۔ (2) غزوۂ احزاب میں حضرت سعد رضی اللہ عنہ تیر لگنے سے زخمی ہوگئے تھے، اس لیے وہ گدھے پر سوار ہو کر فیصلہ کرنے کے لیے آئے۔ ان حالات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تم اپنے سردار کی طرف کھڑے ہو جاؤ اور انھیں آرام کے ساتھ سواری سے اتارو۔‘‘ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث میں کسی کی آمد پر احترامًا کھڑے ہونے کی شرعی حیثیت بیان کی ہے۔ ہمارے رجحان کے مطابق قیام، یعنی کھڑے ہونے کی تین قسمیں ہیں: ٭قیالہ: کوئی بڑا آدمی آئے اور بیٹھے ہوئے لوگ اپنی اپنی جگہ پر کھڑے ہو جائیں، پھر جب وہ اجازت دے یا خود بیٹھ جائے تو دوسرے بیٹھیں۔ اس قسم کی تعظیم بجا لانا ایک عجمی انداز ہے جس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے، حدیث میں ہے: ’’جو شخص یہ پسند کرتا ہو کہ لوگ اس کے لیے سراپا کھڑے رہیں تو اسے چاہیے کہ وہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنا لے۔‘‘ (جامع الترمذی، الاستیذان، حدیث:2755) ٭قیام علیہ: بڑا آدمی بیٹھا ہوا ہو اور لوگ داست بستہ، یعنی ہاتھ باندھے اس کے احترام میں کھڑے رہیں اور بڑا آدمی اس انداز سے کھڑے رہنے کو اپنی عظمت خیال کرتا ہو، ایسا کرنا بھی ناجائز اور حرام ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: ’’اہل فارس اور اہل روم اپنے بادشاہوں کے لیے دست بستہ کھڑے رہتے ہیں جبکہ وہ بیٹھے ہوتے ہیں، ایسا مت کیا کرو۔‘‘ (صحیح مسلم، الصلاة، حدیث:928(413)٭ قیام الیہ: آگے بڑھ کر استقبال کرنا، شریعت نے اسے جائز قرار دیا ہے، چنانچہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا جب بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آتیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم آگے بڑھ کر ان کا استقبال کرتے اور اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی جب ان کے ہاں جاتے تو وہ بھی آپ کا آگے بڑھ کر استقبال کرتیں۔ (سنن أبی داود، الأدب، حدیث:5217) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سعد رضی اللہ عنہ کے متعلق جو انصار سے فرمایا تھا تو اس کا مطلب بھی آگے بڑھ کر ان کا استقبال کرنا اور انھیں سواری سے اترنے میں مدد دینا تھا جیسا کہ ایک روایت میں اس کی صراحت ہے۔ (مسند أحمد:141/6، 142) (3) ہمارے ہاں سکولوں میں اساتذہ کی آمد پر لڑکوں اور لڑکیوں کا کھڑے ہونا اور حکم عدولی کرنے والے کو سزا دینا قیام،یعنی کھڑے ہونے کی پہلی قسم ہے جو شرعاً جائز نہیں۔اس سے پرہیز کرنا ضروری ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے ابو الولید نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا ان سے سعد بن ابراہیم نے ان سے ابو امامہ بن سہل بن حنیف نے اور ان سے ابو سعید خدری نے کہ قریظہ کے یہودی حضرت سعد بن معاذؓ کو ثالث بنانے پر تیار ہوگئے تو رسول اللہ ﷺ نے انہیں بلا بھیجا جب وہ آئے تو آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ اپنے سردار کے لینے کو اٹھو یا یوں فرمایا کہ اپنے میں سب سے بہتر کو لینے کے لئے اٹھو۔ پھر وہ حضور اکرم ﷺ کے پاس بیٹھ گئے اور آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ بنی قریظہ کے لوگ تمہارے فیصلے پر راضی ہو کر (قلعہ سے) اتر آئے ہیں (اب تم کیا فیصلہ کرتے ہو۔) حضرت سعد ؓ نے کہا کہ پھر میں یہ فیصلہ کرتا ہوں کہ ان میں جو جنگ کے قابل ہیں انہیں قتل کر دیا جائے اور ان کے بچوں اور عورتوں کو قید کر لیا جائے۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ آپ نے وہی فیصلہ فرمایا جس فیصلہ کو فرشتہ لے کر آیا تھا۔ ابو عبد اللہ! (مصنف) نے بیان کیا کہ مجھے میرے بعض اصحاب نے ابو الولید کے واسطہ سے ابو سعید ؓ کا قول (علی کے بجائے بصلہ ''إلی''حکمك نقل کیا ہے۔
حدیث حاشیہ:
حضرت امام بخاری رحمۃاللہ علیہ نے کہا میرے بعض ساتھیوں نے ابو الولید سے یوں نقل کیا ہے إلی حکمك یعنی بجائے علی حکمك کے ابوسعید خدری نے یوں ہی کہا بجائے علی کے إلی نقل کیا ہے حق یہ ہے کہ حضرت سعد بن معاذ زخمی تھے اس لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ سے فرمایا کہ اٹھ کر ان کو سواری سے اتارو اور تعظیم کے لئے کھڑا ہونا منع ہے دوسری حدیث میں ہے کہ ''لاتقومو اکما یَقُومُ الأَعَاجِمُ'' جیسے عجمی لوگ اپنے بڑے کی تعظیم کے لئے کھڑے ہو جاتے ہیں میں تم کو اس سے منع کرتا ہوں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Said (RA) : The people of (the tribe of) Quraiza agreed upon to accept the verdict of Sa'd. The Prophet (ﷺ) sent for him (Sa'd) and he came. The Prophet (ﷺ) said (to those people), "Get up for your chief or the best among you!" Sa'd sat beside the Prophet (ﷺ) and the Prophet (ﷺ) said (to him), "These people have agreed to accept your verdict." Sa'd said, "So I give my judgment that their warriors should be killed and their women and children should be taken as captives." The Prophet (ﷺ) said, "You have judged according to the King's (Allah's) judgment." (See Hadith No. 447, Vol. 5)