مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
6266.
حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ سے روایت ہے انہوں نے بتایا کہ حضرت علی بن ابی طالب ؓ نبی ﷺ کے پاس سے باہر آئے۔ یہ اس مرض کا واقعہ ہے جس میں آپ ﷺ کی وفات ہوئی تھی۔ لوگوں نے پوچھا: ابوالحسن! رسول اللہ ﷺ نے صبح کیسے کی؟ انہوں نے بتایا کہ الحمد اللہ! آپ ﷺ نے اچھے حال میں صبح کی ہے۔ اس کے بعد حضرت عباس ؓ نے حضرت علی بن ابی طالب ؓ کا ہاتھ پکڑ کر کہا: کیا تم آپ ﷺ کو دیکھتے نہیں ہو؟ اللہ کی قسم! تین دن کے بعد تمہیں لاٹھی کا بندہ بننا پڑے گا۔ اللہ کی قسم! میں سمجھتا ہوں آپ اس مرض میں وفات پا جائیں گے۔ میں بنو عبدالمطلب کے چہروں پر موت کے اثرات کو خوب پہچانتا ہوں، لہذا تم ہمارے ساتھ رسول اللہ ﷺ کے پاس چلو تاکہ ہم آپ سے دریافت کرلیں کہ آپ کے بعد خلافت کس کے ہاتھ میں ہوگی۔ اگر ہمارے پاس ہوگی تو ہمیں اس کا علم ہو جائے گا اور اگر ہمارے علاوہ کسی اور کے ہاتھ میں ہو تو ہم آپ سے عرض کریں گے کہ آپ ہمارے بارے میں کچھ وصیت کر دیں۔ حضرت علی بن ابی طالب ؓ نے کہا: اللہ کی قسم! اگر ہم نے رسول اللہ ﷺ سے خلافت کی درخواست کی اور آپ نے انکار کر دیا تو لوگ ہمیں کبھی خلافت نہیں دیں گے اس لیے میں تو رسول اللہ ﷺ سے کبھی اس قسم کا سوال نہیں کروں گا۔
تشریح:
(1) اس حدیث کی عنوان سے مطابقت اس طرح بیان کی گئی ہے کہ لوگوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے كيف أصبح کے الفاظ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مزاج پرسی کی اور انھوں نے بحمدلله بارئا کہہ کر جواب دیا، لیکن اس حدیث سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ دو آدمی جب ملاقات کریں تو ایک دوسرے سے کہيں کیف أصبحت (تونے صبح کیسے کی؟) البتہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے الادب المفرد کے حوالے سے ایک حدیث نقل کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی گئی: کیف أصبحت (آپ نے صبح کیسے کی؟) تو آپ نے فرمایا: ’’میں خیریت سے ہوں۔‘‘ (فتح الباري:171/11) لیکن اس میں معانقے کا ذکر نہیں ہے۔ ممکن ہے کہ عربوں کی عادت سے اس با ت کو اخذ کیا گیا ہو، چنانچہ وہ معانقہ کرنے کے بعد کیف أصبحت کے الفاظ سے مزاج پرسی کرتے تھے۔ واللہ أعلم (2) بہرحال معانقے کا ثبوت دیگر احادیث سے ملتا ہے، چنانچہ حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں ایک مرتبہ آپ کی خدمت میں حاضر ہوا، آپ اس وقت اپنی چار پائی پر تشریف فرما تھے تو آپ نے مجھ سے معانقہ فرمایا۔ (مسند أحمد:162/5) اسی طرح حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کے متعلق حدیث میں ہے کہ جب وہ مدینہ آئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے معانقہ فرمایا اور انھیں بوسہ دیا۔ (جامع الترمذي، الاستئذان، حدیث:2732) لیکن یہ دونوں حدیثیں سند کے اعتبار سے ضعیف ہیں۔ (فتح الباري:71/11)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6040
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6266
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
6266
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
6266
تمہید کتاب
لغت کے اعتبار سے ''استئذان'' کے معنی اجازت طلب کرنا ہیں۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اس کے اصطلاحی معنی ان الفاظ میں بیان کیے ہیں: ایسی جگہ آنے کی اجازت لینا کہ اجازت لینے والا اس کا مالک نہیں ہے۔ (فتح الباری:5/11) عرب معاشرے میں یہ عام دستور تھا کہ لوگ ایک دوسرے کے گھروں میں بلاجھجک داخل ہو جاتے تھے۔ اسلام نے ایسی آزاد آمدورفت پر پابندی لگائی ہے جیسا کہ درج ذیل واقعے سے ظاہر ہوتا ہے:حضرت صفوان بن امیہ رضی اللہ عنہ نے حضرت کلدہ بن حنبل رضی اللہ عنہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے دودھ، ہرن کا بچہ اور ککڑیاں دے کر بھیجا جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ کی بالائی جانب رہائش رکھے ہوئے تھے۔ وہ آپ کی رہائش گاہ میں اجازت اور سلام کے بغیر جا داخل ہوا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''پیچھے ہٹو اور السلام علیکم کہو۔'' یہ واقعہ صفوان بن امیہ رضی اللہ عنہ کے مسلمان ہونے کے بعد کا ہے۔ (سنن ابی داود، الادب، حدیث:5176)شریعت نے اس سلسلے میں کچھ فرائض و واجبات کی نشاندہی کی ہے۔ اس عنوان کے تحت امام بخاری رحمہ اللہ نے تین قسم کے آداب سے امت مسلمہ کو آگاہ کیا ہے جن کی تفصیل حسب ذیل ہے:٭ گھروں میں آنے جانے کے آداب: قرآن کریم میں اس کے متعلق ایک ہدایت بیان کی گئی ہے: ''اے ایمان والو! اپنے گھروں کے علاوہ (دوسروں کے) گھروں میں جاؤ تو جب تک تم اہل خانہ سے اجازت نہ لے لو اور انہیں سلام نہ کر لو وہاں داخل نہ ہوا کرو۔'' (النور24: 27) آیت کریمہ میں اپنے گھروں سے مراد صرف وہ گھر ہے جہاں اس کی بیوی رہتی ہو۔ وہاں شوہر ہر وقت بلا جھجک داخل ہو سکتا ہے، لیکن اپنی ماں اور بیٹیوں کے گھروں میں داخل ہونے سے پہلے استیناس ضروری ہے۔ اس استیناس کے معنی کسی سے مانوس ہونا یا اسے مانوس کرنا یا اس سے اجازت لینا ہیں۔ اس کا مطلب کوئی بھی ایسا کام کرنا ہے جس سے اہل خانہ کو علم ہو جائے کہ دروازے پر فلاں شخص کھڑا اندر آنے کی اجازت طلب کر رہا ہے۔٭ ملاقات کے آداب: دنیا کی تمام مہذب قوموں میں ملاقات کے وقت جذبات کے اظہار اور ایک دوسرے کو مانوس کرنے کے لیے کوئی خاص کلمہ کہنے کا رواج رہا ہے اور آج بھی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے وقت عربوں میں بھی ملاقات کے وقت اسی قسم کے مختلف کلمات کہنے کا رواج تھا لیکن جب اسلام آیا تو ان کلمات کے بجائے اہل ایمان کو السلام علیکم کی تعلیم دی گئی۔ اس جامع دعائیہ کلمے میں چھوٹوں کے لیے شفقت و محبت بھی ہے اور بڑوں کے لیے اس میں اکرام و احترام اور تعظیم بھی ہے۔٭ آداب مجلس: کسی خاص مسئلے پر غوروفکر اور سوچ بچار کرنے کے لیے مخصوص لوگوں کو دعوت دی جاتی ہے۔ اس قسم کی مجالس کے کچھ آداب ہوتے ہیں۔ پھر یہ مجالس کئی قسم کی ہیں: کچھ سرعام ہوتی ہیں اور ہر ایک کو وہاں آنے کی دعوت ہوتی ہے اور کچھ خاص ہوتی ہیں جس میں ہر ایرے غیرے کو آنے کی اجازت نہیں ہوتی۔ مجالس میں زیر بحث مسائل عام بھی ہو سکتے ہیں اور کچھ مسائل بطور امانت خاص ہوتے ہیں۔ اس قسم کے بیسیوں آداب ہیں جو مجالس سے متعلق ہیں۔ہم آداب زیارت و ملاقات اور آداب مجلس کو معاشرتی آداب کا نام دیتے ہیں جسے امام بخاری رحمہ اللہ نے بڑی تفصیل سے بیان کیا ہے۔ ان آداب کی مناسبت سے معانقہ (گلے ملنا)، مصافحہ (ہاتھ ملانا) اور استقبال وغیرہ کے آداب بھی بیان ہوئے ہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے ان آداب کو بیان کرنے کے لیے پچاسی (85) مرفوع احادیث کا انتخاب کیا ہے۔ ان میں بارہ (12) احادیث معلق اور باقی تہتر (73) احادیث متصل سند سے بیان کی ہیں، پھر ان میں پینسٹھ (65) احادیث مکرر اور بیس (20) احادیث خالص ہیں۔ ان احادیث میں سے پانچ (5) کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی اپنی صحیح میں بیان کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ مختلف صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین سے مروی سات آثار بھی بیان کیے ہیں، پھر ان احادیث و آثار پر امام صاحب نے تریپن (53) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جو ان کی فقاہت و باریک بینی کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ ہم اللہ تعالیٰ کی توفیق سے ان احادیث کی وضاحت کرتے ہوئے مختلف فوائد سے قارئین کو آگاہ کریں گے۔دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ان معاشرتی آداب پر عمل کرنے کی توفیق دے تاکہ ہم معاشرے میں بہترین انسان اور اچھے مسلمان ثابت ہوں۔ آمین ثم آمین
تمہید باب
دلی محبت اور قلبی تعلق کا آخری اور پرجوش مظاہرہ گلے ملنا ہے۔اسے شرعی اصطلاح میں معانقہ کہتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ عمل بھی ثابت ہے،چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک مرتبہ اپنی لخت سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہما کے گھر تشریف لے گئے تو حضرت حسن رضی اللہ عنہ دوڑتے ہوئے آپ کے پاس آئے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں گلے لگایا اور بوسہ دیا۔(صحیح البخاری، البیوع، حدیث:2122)صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم میں بھی اس کا معمول تھا،چنانچہ حدیث میں ہے کہ حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما ایک مرتبہ حضرت عبداللہ بن انیس رضی اللہ عنہ سے ملک شام میں ملنے گئے تو وہ ان کے گلے ملے۔(مسند احمد:3/495)حضرت انس رضی اللہ عنہ نے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کا عمل بیان کیا ہے کہ جب وہ آپس میں ملتے تو مصافحہ کرتے اور جب سفر سے واپس آتے تو بغل گیر ہوتے۔(الترغیب والترھیب، حدیث:2719) سلام،مصافحہ اور معانقہ کے بعد مزاج پرسی کرتے ہوئے كيف اصبحت (تمھارا کیا حال ہے؟)کہنے میں بھی کوئی حرج نہیں جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کی مزاج پرسی کرتے تو كيف اصبحت اوركيف امسيت کہتے۔(الادب المفرد، حدیث:1129) امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی تالیف الادب المفرد میں معانقے اور مزاج پرسی کے متعلق دو الگ الگ عنوان قائم کیے ہیں، ملاحظہ ہوں: (باب: 442 اور باب:529)
حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ سے روایت ہے انہوں نے بتایا کہ حضرت علی بن ابی طالب ؓ نبی ﷺ کے پاس سے باہر آئے۔ یہ اس مرض کا واقعہ ہے جس میں آپ ﷺ کی وفات ہوئی تھی۔ لوگوں نے پوچھا: ابوالحسن! رسول اللہ ﷺ نے صبح کیسے کی؟ انہوں نے بتایا کہ الحمد اللہ! آپ ﷺ نے اچھے حال میں صبح کی ہے۔ اس کے بعد حضرت عباس ؓ نے حضرت علی بن ابی طالب ؓ کا ہاتھ پکڑ کر کہا: کیا تم آپ ﷺ کو دیکھتے نہیں ہو؟ اللہ کی قسم! تین دن کے بعد تمہیں لاٹھی کا بندہ بننا پڑے گا۔ اللہ کی قسم! میں سمجھتا ہوں آپ اس مرض میں وفات پا جائیں گے۔ میں بنو عبدالمطلب کے چہروں پر موت کے اثرات کو خوب پہچانتا ہوں، لہذا تم ہمارے ساتھ رسول اللہ ﷺ کے پاس چلو تاکہ ہم آپ سے دریافت کرلیں کہ آپ کے بعد خلافت کس کے ہاتھ میں ہوگی۔ اگر ہمارے پاس ہوگی تو ہمیں اس کا علم ہو جائے گا اور اگر ہمارے علاوہ کسی اور کے ہاتھ میں ہو تو ہم آپ سے عرض کریں گے کہ آپ ہمارے بارے میں کچھ وصیت کر دیں۔ حضرت علی بن ابی طالب ؓ نے کہا: اللہ کی قسم! اگر ہم نے رسول اللہ ﷺ سے خلافت کی درخواست کی اور آپ نے انکار کر دیا تو لوگ ہمیں کبھی خلافت نہیں دیں گے اس لیے میں تو رسول اللہ ﷺ سے کبھی اس قسم کا سوال نہیں کروں گا۔
حدیث حاشیہ:
(1) اس حدیث کی عنوان سے مطابقت اس طرح بیان کی گئی ہے کہ لوگوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے كيف أصبح کے الفاظ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مزاج پرسی کی اور انھوں نے بحمدلله بارئا کہہ کر جواب دیا، لیکن اس حدیث سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ دو آدمی جب ملاقات کریں تو ایک دوسرے سے کہيں کیف أصبحت (تونے صبح کیسے کی؟) البتہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے الادب المفرد کے حوالے سے ایک حدیث نقل کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی گئی: کیف أصبحت (آپ نے صبح کیسے کی؟) تو آپ نے فرمایا: ’’میں خیریت سے ہوں۔‘‘ (فتح الباري:171/11) لیکن اس میں معانقے کا ذکر نہیں ہے۔ ممکن ہے کہ عربوں کی عادت سے اس با ت کو اخذ کیا گیا ہو، چنانچہ وہ معانقہ کرنے کے بعد کیف أصبحت کے الفاظ سے مزاج پرسی کرتے تھے۔ واللہ أعلم (2) بہرحال معانقے کا ثبوت دیگر احادیث سے ملتا ہے، چنانچہ حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں ایک مرتبہ آپ کی خدمت میں حاضر ہوا، آپ اس وقت اپنی چار پائی پر تشریف فرما تھے تو آپ نے مجھ سے معانقہ فرمایا۔ (مسند أحمد:162/5) اسی طرح حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کے متعلق حدیث میں ہے کہ جب وہ مدینہ آئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے معانقہ فرمایا اور انھیں بوسہ دیا۔ (جامع الترمذي، الاستئذان، حدیث:2732) لیکن یہ دونوں حدیثیں سند کے اعتبار سے ضعیف ہیں۔ (فتح الباري:71/11)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے اسحاق بن راہویہ نے بیان کیا، کہا ہم کو بشر بن شعیب نے خبر دی، کہا مجھ سے میرے والد نے بیان کیا، ان سے زہری نے، کہا مجھ کو عبد اللہ بن کعب نے خبر دی اور ان کو عبد اللہ بن عباس ؓ نے خبر دی کہ حضرت علی ابن ابی طالب ؓ (مرض الموت میں) نبی کریم ﷺ کے پاس سے نکلے (دوسری سند) بخاری نے کہا اور ہم سے احمد بن صالح نے بیان کیا، کہا ہم سے عنبسہ بن خالد نے بیان کیا، کہا ہم سے یونس بن یزید نے بیان کیا، ان سے ابن شہاب زہری نے بیان کیا، کہا مجھ کو عبد اللہ بن کعب بن مالک نے خبر دی اور انہیں عبد اللہ بن عباس ؓ نے خبر دی کہ حضرت علی بن ابی طالب ؓ نبی کریم ﷺ کے یہاں سے نکلے، یہ اس مرض کا واقعہ ہے جس میں آنحضرت ﷺ کی وفات ہوئی تھی۔ لوگوں نے پوچھا اے ابو لحسن! حضور اکرم ﷺ نے صبح کیسی گزاری؟ انہوں نے کہا کہ بحمدللہ آپ کو سکون رہا ہے۔ پھر حضرت علی ؓ کا ہاتھ حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے پکڑ کر کہا۔ کیا تم آنحضرت ﷺ کو دیکھتے نہیں ہو۔ (واللہ) تین دن کے بعد تمہیں لاٹھی کا بندہ بننا پڑے گا۔ واللہ میں سمجھتا ہوں کہ اس مرض میں آپ وفات پا جائیں گے۔ میں بنی عبد المطلب کے چہروں پر موت کے آثار کو خوب پہچانتا ہوں، اس لئے ہمارے ساتھ تم آپ کے پاس چلو۔ تاکہ پوچھا جائے کہ آنحضرت ﷺ کے بعد خلافت کس کے ہاتھ میں رہے گی اگر وہ ہمیں لوگوں کو ملتی ہے تو ہمیں معلوم ہو جائے گا اور اگر دوسروں کے پاس جائے گی توہم عرض کریں گے تاکہ آنحضرت ﷺ ہمارے بارے میں کچھ وصیت کریں۔ حضرت علی ؓ نے کہا کہ واللہ! اگر ہم نے آنحضرت ﷺ سے خلافت کی درخواست کی اور آنحضرت ﷺ نے انکار کر دیا تو پھر لوگ ہمیں کبھی نہیں دیںگے میں تو آنحضرت ﷺ سے کبھی نہیں پوچھوں گا کہ آپ کے بعد کون خلیفہ ہو۔
حدیث حاشیہ:
حدیث اور باب میں مطابقت یوں ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے لوگوں نے ''کیف اصبح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم'' کہہ کر مزاج پوچھا اور انہوں نے ''بحمد للہ بارئًا'' کہہ کر جواب دیا اور اس حدیث میں بہت سے امور تشریح طلب ہیں۔ امر خلافت سے متعلق حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کہا وہ بالکل بجا تھا۔ چنانچہ بعد کے واقعات نے بتلا دیا کہ خلافت جس ترتیب سے قائم ہوئی وہی ترتیب عند اللہ محبوب اور مقدر تھی اللہ پاک چاروں خلفائے راشدین کی ارواح طیبات کو ہماری طرف سے بہت سلام پیش فرمائے آمین ثم آمین۔ روایت میں لفظ عبد العصاء سے مراد یہ ہے کہ کوئی اور خلیفہ ہو جائے گا تم کو اس کی اطاعت کرنی ہوگی۔ لفظ کا لفظی ترجمہ لاٹھی کا غلام ہے مگر مطلب یہی ہے کہ کوئی غیر قریشی تم پر حکومت کرے گا تم اس کے ماتحت ہو کر رہو گے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی کمال دانش مندی ہے کہ انہوں نے حضرت عباس رضی اللہ عنہما کے مشورہ کو قبول نہیں فرمایا اور صاف کہہ دیا کہ اگر ملاقات کرنے پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے صاف فرما دیا کہ تم کو خلافت نہیں مل سکتی تو پھر تو قیامت تک لوگ ہم کو خلیفہ نہیں بنائیں گے اس لئے بہتر یہی ہے کہ اس امر کو توکل علی اللہ پر چھوڑ دیا جا ئے، اگر اس مرتبہ ہم کو خلافت نہ ملی تو آئندہ کے لئے تو امید رہے گی۔ ایسا پوچھنے میں ایک طرح کی بدفالی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو رنج دینا بھی تھا۔ اس لئے حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اسے گوارا نہیں کیا اور اس میں خدا کی حکمت اور مصلحت ہے کہ اس وقت یہ مقدمہ گول مول رہے اور مسلمان اپنے صلاح اور مشورے سے جسے چاہیں خلیفہ بنا لیں یہ طرز انتخاب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ قائم فرمایا جس کو اب سارے سیاست دان عین دانائی اور عقل مندی سمجھتے ہیں اور دنیا میں یہ پہلا طریقہ تھا کہ حکومت کامعاملہ رائے عامہ پر چھوڑا گیا جو آج ترقی پذیر لفظوں میں لفظ آزاد جمہوریہ سے بدل گیا ہے۔ خلافت کے معاملہ میں بعد میں جو کچھ ہوا کہ چاروں خلفائے راشدین اپنے اپنے وقتوں میں مسند خلافت کی زینت ہوئے یہ عین منشاء الٰہی کے مطابق ہوا اور بہت بہتر ہوا ﴿و کانَ عندَ اللہِ قدرا مقدُور ا﴾ حافظ صاحب فرماتے ہیں۔ وفیهم أن الخلافة لم تذکر بعد النبي صلی اللہ علیه وسلم لعل أصلا لأن العباس حلف أنه یصیر مأمورا لا أمرا لما کان یعرف من توجیه النبي صلی اللہ علیه و سلم بها إلی غیرہ و في سکوت علی دلیل علی علم علی بما قال العباس(فتح) یعنی اس میں دلیل ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد حضرت علی رضی اللہ عنہ کے حق میں خلافت کا کوئی ذکر نہیں ہوا اس لئے کہ حضرت عباس رضی اللہ عنہ قسمیہ کہہ چکے تھے کہ وہ آپ کی وفات کے بعد آمر نہیں بلکہ مامور ہو کر رہیں گے اس لئے کہ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی توجہ حضرت علی رضی ا للہ عنہ سے غیر کی طرف محسوس کر چکے تھے اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کا سکوت ہی دلیل ہے کہ جو کچھ حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے کہا وہ اس سے واقف تھے صاف ظاہر ہو گیا کہ حضرت علی رضی للہ عنہ کے لئے خلافت بلا فصل کا نعرہ محض امت میں انشقاق و افتر اق کے لئے کھڑا کیا گیا جس میں زیادہ حصہ مسلمان نما یہودیوں کا تھا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Abdullah bin 'Abbas (RA) : 'Ali bin Abu Talib came out of the house of the Prophet (ﷺ) during his fatal ailment. The people asked ('Ali), "O Abu Hasan! How is the health of Allah's Apostle (ﷺ) this morning?" 'Ali said, "This morning he is better, with the grace of Allah." Al-'Abbas held Ali by the hand and said, "Don't you see him (about to die)? By Allah, within three days you will be the slave of the stick (i.e., under the command of another ruler). By Allah, I think that Allah's Apostle (ﷺ) will die from his present ailment, for I know the signs of death on the faces of the offspring of 'Abdul Muttalib. So let us go to Allah's Apostle (ﷺ) to ask him who will take over the Caliphate. If the authority is given to us, we will know it, and if it is given to somebody else we will request him to recommend us to him. " 'Ali said, "By Allah! If we ask Allah's Apostle (ﷺ) for the rulership and he refuses, then the people will never give it to us. Besides, I will never ask Allah's Apostle (ﷺ) for it." (See Hadith No 728, Vol 5)