Sahi-Bukhari:
Knowledge
(Chapter: What is said about knowledge)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
ترجمۃ الباب :
اور امام حسن بصری اور سفیان ثوری اور مالک نے شاگرد کے پڑھنے کو جائز کہا ہے اور بعض نے استاد کے سامنے پڑھنے کی دلیل ضمام بن ثعلبہ کی حدیث سے لی ہے۔ اس نے آنحضرت ﷺ سے عرض کیا تھا کہ کیا اللہ نے آپ کو یہ حکم فرمایا ہے کہ ہم لوگ نماز پڑھا کریں۔ آپ ﷺنے فرمایا: ہاں۔ تو یہ ( گویا ) آنحضرتﷺ کے سامنے پڑھنا ہی ٹھہرا۔ ضمام نے پھر جا کر اپنی قوم سے یہ بیان کیا تو انھوں نے اس کو جائز رکھا۔ اور امام مالک نے دستاویز سے دلیل لی جو قوم کے سامنے پڑھ کر سنائی جاتی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ہم کو فلاں شخص نے دستاویز پر گواہ کیا اور پڑھنے والا پڑھ کر استاد کو سناتا ہے پھر کہتا ہے مجھ کو فلاں نے پڑھایا۔ابن بطال نے کہا کہ دستاویز والی دلیل بہت ہی پختہ ہے کیونکہ شہادت تواخبار سے بھی زیادہ اہم ہے۔ مطلب یہ کہ صاحب معاملہ کو دستاویز پڑھ کر سنائی جائے اور وہ گواہوں کے سامنے کہہ دے کہ ہاں یہ دستاویز صحیح ہے توگواہ اس پر گواہی دے سکتے ہیں۔ اسی طرح جب عالم کو کتاب پڑھ کر سنائی جائے اور وہ گواہوں کے سامنے کہہ دے کہ ہاں یہ دستاویز صحیح ہے توگواہ اس پر گواہی دے سکتے ہیں۔ اسی طرح جب عالم کو کتاب پڑھ کر سنائی جائے اور وہ اس کا اقرار کرے تو اس سے روایت کرنا صحیح ہوگا۔حدثنا محمد بن سلام حدثنا محمد بن الحسن الواسطي عن عوف عن الحسن قال لا بأس بالقراءة على العالم. وأخبرنا محمد بن يوسف الفربري وحدثنا محمد بن إسماعيل البخاري قال حدثنا عبيد الله بن موسى عن سفيان قال إذا قرئ على المحدث فلا بأس أن يقول حدثني. قال وسمعت أبا عاصم يقول عن مالك وسفيان القراءة على العالم وقراءته سواء.ہم سے محمد بن سلام نے بیان کیا، کہا ہم سے محمد بن حسن واسطی نے بیان کیا، کہا انھوں نے عوف سے، انھوں نے حسن بصری سے، انھوں نے کہا عالم کے سامنے پڑھنے میں کوئی قباحت نہیں۔ اور ہم سے عبیداللہ بن موسیٰ نے بیان کیا، انھوں نے سفیان ثوری سے سنا، وہ کہتے تھے جب کوئی شخص محدث کو حدیث پڑھ کر سنائے تو کچھ قباحت نہیں اگر یوں کہے کہ اس نے مجھ سے بیان کیا۔ اور میں نے ابوعاصم سے سنا، وہ امام مالک اور سفیان ثوری کا قول بیان کرتے تھے کہ عالم کو پڑھ کر سنانا اور عالم کا شاگردوں کے سامنے پڑھنا دونوں برابر ہیں۔
63.
حضرت انس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: ایک مرتبہ ہم مسجد میں نبیﷺ کے ساتھ بیٹھے تھے کہ ایک اونٹ سوار آیا اور اپنے اونٹ کو مسجد میں بٹھا کر باندھ دیا، پھر پوچھنے لگا: تم میں محمد (ﷺ) کون ہیں؟ نبی ﷺ اس وقت صحابہؓ میں تکیہ لگائے بیٹھے تھے۔ ہم نے کہا: یہ سفید رنگ والے، تکیہ لگائے بیٹھے ہیں۔ وہ آپ سے کہنے لگا: اے فرزند عبدالمطلب! نبیﷺ نے فرمایا: ’’(پوچھ) میں تجھے جواب دیتا ہوں۔‘‘ اس نے نبیﷺ سے کہا: میں آپ سے کچھ دریافت کرنے والا ہوں اور اس میں سختی کروں گا، آپ دل میں مجھ پر ناراض نہ ہوں۔ آپ نے فرمایا: ’’(کوئی بات نہیں) جو چاہے پوچھ!‘‘ اس نے پوچھا: میں آپ کو آپ کے پروردگار اور آپ سے پہلے لوگوں کے مالک کی قسم دے کر پوچھتا ہوں: کیا اللہ تعالیٰ نے آپ کو تمام انسانوں کی طرف مبعوث کیا ہے؟ آپ نے فرمایا: ’’ہاں، اللہ گواہ ہے۔‘‘ پھر اس نے پوچھا: میں آپ کو اللہ کی قسم دیتا ہوں، کیا اللہ تعالیٰ نے آپ کو دن رات میں پانچ نمازیں پڑھنے کا حکم دیا ہے؟ آپ نے فرمایا: ’’ہاں، اللہ شاہد ہے۔‘‘ پھر اس نے کہا: میں آپ کو اللہ کی قسم دیتا ہوں، کیا اللہ تعالیٰ نے سال بھر میں رمضان کے روزے رکھنے کا حکم دیا ہے؟ آپ نے فرمایا: ’’ہاں، اللہ گواہ ہے۔‘‘ پھر کہنے لگا: میں آپ کو قسم دیتا ہوں، کیا اللہ تعالیٰ نے آپ کو حکم دیا ہے کہ آپ ہمارے امراء سے صدقہ لے کر ہمارے فقراء پر تقسیم کریں؟ آپ نے فرمایا: ’’ہاں، اللہ گواہ ہے۔‘‘ اس کے بعد وہ شخص کہنے لگا: میں اس (شریعت) پر ایمان لاتا ہوں جو آپ لائے ہیں۔ میں اپنی قوم کا نمائندہ بن کر حاضر خدمت ہوا ہوں۔ میرا نام ضمام بن ثعلبہ ہے اور قبیلہ سعد بن بکر سے تعلق رکھتا ہوں۔ اس حدیث کو موسیٰ اور علی بن عبدالحمید نے بھی سلیمان اور ثابت کے واسطے سے حضرت انس ؓ سے مرفوعاً بیان کیا ہے۔
تشریح:
1۔اس حدیث میں حج کا ذکر نہیں ہے کیونکہ روایت میں اختصار ہے۔صحیح مسلم کی روایت میں حج کا ذکر بایں الفاظ ہوا ہے کہ ہم میں سے ہر شخص پرحج فرض ہے جوزادسفر کی استطاعت رکھتا ہو۔(صحیح مسلم، الایمان، حدیث: 102(12)) نیز حضرت ضمام کی آمد 9ہجری میں ہوئی تو اس وقت حج فرض ہوچکا تھا کیونکہ ان کا تعلق بنوسعد سے ہے جو قبیلہ ہوازن کا ایک بطن(حصہ) ہے اور قبیلہ ہوازن غزوہ حنین کے بعد مسلمان ہوا تھا۔(فتح الباری: 201/1) 2۔اس حدیث سے خبر واحد کے حجت ہونے کا بھی ثبوت ملتا ہے کیونکہ حضرت ضمام بن ثعلبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنی آپ بیتی قوم کے سامنے بیان کی تو انھوں نے اس کااعتبار کیا اور مسلمان ہوگئے،نیز یہ بھی معلوم ہوا کہ اگردادا کی شہرت زیادہ ہوتواس کی طرف نسبت کرنے میں کوئی حرج نہیں۔( فتح الباری: 202/1) 3۔امام حاکم رحمۃ اللہ علیہ نے اس روایت سے عالی سند کے افضل ہونے پر استدلال کیا ہے،نیز اس کا حصول ایک بہترین مشغلہ ہے کیونکہ حضرت ضمام نے اپنی آمد سے پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قاصد سے یہ تمام باتیں معلوم کررکھی تھیں لیکن خود حاضر ہوکر دریافت کیا۔اس سے معلوم ہواکہ اگرکسی کے پاس کوئی روایت چند واسطوں سے ہے اور کسی دوسرے شیخ سے روایت لینے سے ان واسطوں میں کمی آسکتی ہے تو ملاقات کرکے عالی سند حاصل کرلینی چاہیے(فتح الباری: 201/1) ۔4۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصد یہ ہے کہ غرض وقراءت کا طریقہ بھی معتبر ہے،اس میں کوئی خامی نہیں کہ اس کا اعتبار نہ کیاجائے جیساکہ حضرت ضمام بن ثعلبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بہت سی دینی باتیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیش کیں اور آپ نے ان کی تصدیق وتصویب فرمائی،پھرحضرت ضمام بن ثعلبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنی قوم کے پاس گئے انھوں نے ان کا اعتبار کیا اور سب کے سب ایمان لے آئے۔نوٹ:۔حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے علامہ ابومحمد بن صغانی کے حوالے سے لکھا ہے کہ بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے نسخہ بغداد یہ میں حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ایک حدیث درج ہے،دیگر کسی نسخے میں اس حدیث کا وجود نہیں ملتا ،لہذا ہم نے بھی اسے قلم زد کردیا ہے۔(فتح الباری: 203/1) یاد رہ کہ ہمارے ہندی مطبوعہ نسخوں میں موجود ہے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
63
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
63
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
63
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
63
تمہید کتاب
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے علم کی طرف توجہ دلائی ہے کیونکہ علم، جہالت کی ضد ہے اور جہالت تاریکی کا نام جس میں واضح چیزیں بھی چھپی رہتی ہیں اور جب علم کی روشنی نمودار ہوتی ہے تو چھپی چیزیں بھی واضح ہونے لگتی ہیں۔ انھوں نے علم کی تعریف سے تعرض نہیں کیا، اس لیے کہ علم کو تعریف کی ضرورت نہیں۔عطرآں باشد کہ خود بیویدانہ کہ عطاربگوید نیز اشیاء کی حقیقت و ماہیت بیان کرنا اس کتاب کا موضوع نہیں ہے۔ایمانیات کے بعد کتاب العلم کا افتتاح کیا کیونکہ ایمان کے بعد دوسرا درجہ علم کا ہے۔اس کا ارشاد کلام الٰہی سے بھی ملتا ہے ارشاد باری تعالیٰ ہے:(يَرْفَعِ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنكُمْ وَالَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ دَرَجَاتٍ)( المجادلۃ 58۔11۔)"اللہ تعالیٰ تم میں سے اہل ایمان اور اہل علم کے درجات بلند کردے گا۔"اس آیت کریمہ میں پہلے اہل ایمان اور پھر اہل علم کا تذکرہ ہے چونکہ ایمان کی پابندی ہر مکلف پر سب سے پہلے عائد ہوتی ہے نیز ایمان سب سے افضل و اعلیٰ اور ہر علمی اور عملی خیر کا اساسی پتھر ہے، اس لیے علم سے پہلے ایمان کا تذکرہ ضروری تھا۔ ایمانیات کے بعد کتاب العلم لانے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ جو چیزیں ایمان میں مطلوب ہیں اور جن پر عمل کرنے سے ایمان میں کمال پیدا ہوتا ہے۔ ان کا حصول علم کے بغیر ممکن نہیں۔ پھر ایمان اور علم میں ایک گہرا رشتہ بھی ہے وہ یہ کہ علم کے بغیر ایمان میں روشنی اور بالیدگی پیدا نہیں ہوتی اور نہ ایمان کے بغیر علوم و معاررف ہی لائق اعتنا ہیں۔کتاب العلم کو دیگر ابواب سے پہلے بیان کرنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ دیگر ابواب کا تعلق انسان کی عملی زندگی سے ہے اور اللہ کے ہاں اس عمل کو قبولیت کا درجہ حاصل ہوگا جوعلی وجہ البصیرت کیا جائے گا۔واضح رہے کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک دنیاوی علوم میں مہارت پیدا کرنا کوئی پسندیدہ اور کار آمد مشغلہ نہیں کیونکہ ان کا فائدہ عارضی اور چند روز ہے۔ ان کے نزدیک اصل علم قرآن و حدیث کا علم ہے۔ پھر ان دونوں کے متعلق اللہ کی عطا کردہ فہم و فراست ہے کیونکہ ایسے معارف کا نفع مستقل اور پائیدار ہے پھر اگر اس علم کو اخلاص و عمل سے آراستہ کر لیا جائے تو آخرت میں ذریعہ نجات ہے۔ اللہ تعالیٰ نے لوگوں کی اکثریت کے متعلق بایں الفاظ شکوہ کیا ہے:(يَعْلَمُونَ ظَاهِرًا مِّنَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَهُمْ عَنِ الْآخِرَةِ هُمْ غَافِلُونَ)"وہ تو دنیا وی زندگی کے ظاہر ہی کو جانتے ہیں۔اور اخروی معاملات سے تو بالکل ہی بے خبر ہیں۔"( الروم :30۔7۔)اس بنا پر امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب العلم میں حقیقی علم کی اہمیت و حیثیت ،افادیت ،علم حدیث، اس کے آداب وفضائل ، اس کی حدود و شرائط ، آداب تحمل حدیث ،آداب تحدیث ، صیغ ادا، رحلات علمیہ، کتابت حدیث،آداب طالب ، آداب شیخ ، فتوی ، آداب فتوی اور ان کے علاوہ بے شمار علمی حقائق و معارف کو بیان کیا ہے جن کی مکمل تفصیل اس تمہیدی گفتگو میں بیان نہیں کی جا سکتی۔ آئندہ صفحات میں موقع و محل کے مطابق ایسے علمی جواہرات کی وضاحت کی جائے گی۔ قارئین کرام سے درخواست ہے کہ وہ ان تمہیدی گزارشات کو ذہن میں رکھتے ہوئے کتاب العلم کا مطالعہ کریں۔
تمہید باب
اس طویل عبارت میں امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے طریقہ تعلیم کے دو انداز بیان کیے ہیں۔(الف)۔طریقہ قراءت :طالب علم حدیث پڑھے اور استاد اسے سنے۔(ب)۔طریقہ عرض: طالب علم کے پاس استاد کی کوئی کتاب پہلے سے موجود ہے وہ اپنے استاد کو سناکر اس کی اجازت چاہتا ہے طریقہ قراءت کے لیے عرض کاہونا ضروری نہیں،البتہ عرض کے لیے قراءت کا ہوناضروری ہے۔حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ طریقہ قراءت اور طریقہ عرض میں عموم وخصوص مطلق کی نسبت ہے۔محدثین کے ہاں یہ دونوں طریقے رائج ہیں،البتہ ان کی تصریحات سے معلوم ہوتا ہے کہ طریقہ قراءت سے راجح ہے کیونکہ اگر شیخ پڑھنے میں مشغول ہوتو ممکن ہے کہ سبقت لسانی سے الفاظ میں ردوبدل ہوجائے،پھر اس کااثر معنی پرپڑے۔ایسے حالات میں شاگرد ہبیت کی وجہ سے اپنے استاد کو ٹوک نہیں سکے گا۔اس کے برعکس اگرشاگردوں پڑھے گا تو استاد کی غلطی پر تنبیہ کرتارہے گا یا پھر اس کی تصدیق کرتا رہے گا۔محتاط محدثین کا فیصلہ ہے کہ اگر استاد حفظ سے بیان کرے تو طریقہ تحدیث بہترہے اور اگر کتاب سامنے ہوتو طریقہ قراءت وعرض راجح ہے لیکن امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کےنزدیک دونوں طریقے برابر ہیں اور اس کے اثبات کے لیے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے متعدد اکابرمحدثین کے اقوال مختلف سندوں سے پیش کیے ہیں پھر اس عبارت میں تکرار نہیں بلکہ پہلے انھوں نے محدثین کے سادہ اقوال پیش کیے ۔اس کے بعد انھیں باقاعدہ سند سے پیش فرمایا۔امام مالک رحمۃ اللہ علیہ نے طریقہ قراءت کے حجت ہونے پر عجیب اندازسےاستدلال فرمایا ہے،اس کے دوطریقے ہیں۔الف۔کاتب،متعاقدین کا کوئی معاملہ تحریر کرکے انھیں گواہوں کی موجودگی میں سنادیتا ہے۔وہ دنوں اسے تسلیم کرتے ہیں ۔وہ گواہوں کے سامنے خود اس کی قرائت نہیں کرتے لیکن بوقت ضرورت عدالت میں وہ گواہ پیش ہوجائیں تو عدالت ان کی گواہی کااعتبار کرتی ہے۔ب۔طالب علم اپنے استاد کے سامنے قرآن مجید کی قراءت کرتا ہے اور مقری یعنی استاد سن کر اس کی اصلاح کرتا ہے پھر یہ قاری یعنی شاگرد دوسرے کے سامنے یوں کہتا ہے کہ مجھے فلان استاد نے اس طرح پڑھایا،حالانکہ استاد نے سنا تھا،پڑھایا نہیں تھا۔جب قرآن کے متعلق یہ طریقہ قراءت معتبر ہے تو حدیث کے معاملے میں اسے بالاولیٰ معتبر ہوناچاہیے۔
ترجمۃ الباب :
اور امام حسن بصری اور سفیان ثوری اور مالک نے شاگرد کے پڑھنے کو جائز کہا ہے اور بعض نے استاد کے سامنے پڑھنے کی دلیل ضمام بن ثعلبہ کی حدیث سے لی ہے۔ اس نے آنحضرت ﷺ سے عرض کیا تھا کہ کیا اللہ نے آپ کو یہ حکم فرمایا ہے کہ ہم لوگ نماز پڑھا کریں۔ آپ ﷺنے فرمایا: ہاں۔ تو یہ ( گویا ) آنحضرتﷺ کے سامنے پڑھنا ہی ٹھہرا۔ ضمام نے پھر جا کر اپنی قوم سے یہ بیان کیا تو انھوں نے اس کو جائز رکھا۔ اور امام مالک نے دستاویز سے دلیل لی جو قوم کے سامنے پڑھ کر سنائی جاتی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ہم کو فلاں شخص نے دستاویز پر گواہ کیا اور پڑھنے والا پڑھ کر استاد کو سناتا ہے پھر کہتا ہے مجھ کو فلاں نے پڑھایا۔ابن بطال نے کہا کہ دستاویز والی دلیل بہت ہی پختہ ہے کیونکہ شہادت تواخبار سے بھی زیادہ اہم ہے۔ مطلب یہ کہ صاحب معاملہ کو دستاویز پڑھ کر سنائی جائے اور وہ گواہوں کے سامنے کہہ دے کہ ہاں یہ دستاویز صحیح ہے توگواہ اس پر گواہی دے سکتے ہیں۔ اسی طرح جب عالم کو کتاب پڑھ کر سنائی جائے اور وہ گواہوں کے سامنے کہہ دے کہ ہاں یہ دستاویز صحیح ہے توگواہ اس پر گواہی دے سکتے ہیں۔ اسی طرح جب عالم کو کتاب پڑھ کر سنائی جائے اور وہ اس کا اقرار کرے تو اس سے روایت کرنا صحیح ہوگا۔حدثنا محمد بن سلام حدثنا محمد بن الحسن الواسطي عن عوف عن الحسن قال لا بأس بالقراءة على العالم. وأخبرنا محمد بن يوسف الفربري وحدثنا محمد بن إسماعيل البخاري قال حدثنا عبيد الله بن موسى عن سفيان قال إذا قرئ على المحدث فلا بأس أن يقول حدثني. قال وسمعت أبا عاصم يقول عن مالك وسفيان القراءة على العالم وقراءته سواء.ہم سے محمد بن سلام نے بیان کیا، کہا ہم سے محمد بن حسن واسطی نے بیان کیا، کہا انھوں نے عوف سے، انھوں نے حسن بصری سے، انھوں نے کہا عالم کے سامنے پڑھنے میں کوئی قباحت نہیں۔ اور ہم سے عبیداللہ بن موسیٰ نے بیان کیا، انھوں نے سفیان ثوری سے سنا، وہ کہتے تھے جب کوئی شخص محدث کو حدیث پڑھ کر سنائے تو کچھ قباحت نہیں اگر یوں کہے کہ اس نے مجھ سے بیان کیا۔ اور میں نے ابوعاصم سے سنا، وہ امام مالک اور سفیان ثوری کا قول بیان کرتے تھے کہ عالم کو پڑھ کر سنانا اور عالم کا شاگردوں کے سامنے پڑھنا دونوں برابر ہیں۔
حدیث ترجمہ:
حضرت انس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: ایک مرتبہ ہم مسجد میں نبیﷺ کے ساتھ بیٹھے تھے کہ ایک اونٹ سوار آیا اور اپنے اونٹ کو مسجد میں بٹھا کر باندھ دیا، پھر پوچھنے لگا: تم میں محمد (ﷺ) کون ہیں؟ نبی ﷺ اس وقت صحابہؓ میں تکیہ لگائے بیٹھے تھے۔ ہم نے کہا: یہ سفید رنگ والے، تکیہ لگائے بیٹھے ہیں۔ وہ آپ سے کہنے لگا: اے فرزند عبدالمطلب! نبیﷺ نے فرمایا: ’’(پوچھ) میں تجھے جواب دیتا ہوں۔‘‘ اس نے نبیﷺ سے کہا: میں آپ سے کچھ دریافت کرنے والا ہوں اور اس میں سختی کروں گا، آپ دل میں مجھ پر ناراض نہ ہوں۔ آپ نے فرمایا: ’’(کوئی بات نہیں) جو چاہے پوچھ!‘‘ اس نے پوچھا: میں آپ کو آپ کے پروردگار اور آپ سے پہلے لوگوں کے مالک کی قسم دے کر پوچھتا ہوں: کیا اللہ تعالیٰ نے آپ کو تمام انسانوں کی طرف مبعوث کیا ہے؟ آپ نے فرمایا: ’’ہاں، اللہ گواہ ہے۔‘‘ پھر اس نے پوچھا: میں آپ کو اللہ کی قسم دیتا ہوں، کیا اللہ تعالیٰ نے آپ کو دن رات میں پانچ نمازیں پڑھنے کا حکم دیا ہے؟ آپ نے فرمایا: ’’ہاں، اللہ شاہد ہے۔‘‘ پھر اس نے کہا: میں آپ کو اللہ کی قسم دیتا ہوں، کیا اللہ تعالیٰ نے سال بھر میں رمضان کے روزے رکھنے کا حکم دیا ہے؟ آپ نے فرمایا: ’’ہاں، اللہ گواہ ہے۔‘‘ پھر کہنے لگا: میں آپ کو قسم دیتا ہوں، کیا اللہ تعالیٰ نے آپ کو حکم دیا ہے کہ آپ ہمارے امراء سے صدقہ لے کر ہمارے فقراء پر تقسیم کریں؟ آپ نے فرمایا: ’’ہاں، اللہ گواہ ہے۔‘‘ اس کے بعد وہ شخص کہنے لگا: میں اس (شریعت) پر ایمان لاتا ہوں جو آپ لائے ہیں۔ میں اپنی قوم کا نمائندہ بن کر حاضر خدمت ہوا ہوں۔ میرا نام ضمام بن ثعلبہ ہے اور قبیلہ سعد بن بکر سے تعلق رکھتا ہوں۔ اس حدیث کو موسیٰ اور علی بن عبدالحمید نے بھی سلیمان اور ثابت کے واسطے سے حضرت انس ؓ سے مرفوعاً بیان کیا ہے۔
حدیث حاشیہ:
1۔اس حدیث میں حج کا ذکر نہیں ہے کیونکہ روایت میں اختصار ہے۔صحیح مسلم کی روایت میں حج کا ذکر بایں الفاظ ہوا ہے کہ ہم میں سے ہر شخص پرحج فرض ہے جوزادسفر کی استطاعت رکھتا ہو۔(صحیح مسلم، الایمان، حدیث: 102(12)) نیز حضرت ضمام کی آمد 9ہجری میں ہوئی تو اس وقت حج فرض ہوچکا تھا کیونکہ ان کا تعلق بنوسعد سے ہے جو قبیلہ ہوازن کا ایک بطن(حصہ) ہے اور قبیلہ ہوازن غزوہ حنین کے بعد مسلمان ہوا تھا۔(فتح الباری: 201/1) 2۔اس حدیث سے خبر واحد کے حجت ہونے کا بھی ثبوت ملتا ہے کیونکہ حضرت ضمام بن ثعلبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنی آپ بیتی قوم کے سامنے بیان کی تو انھوں نے اس کااعتبار کیا اور مسلمان ہوگئے،نیز یہ بھی معلوم ہوا کہ اگردادا کی شہرت زیادہ ہوتواس کی طرف نسبت کرنے میں کوئی حرج نہیں۔( فتح الباری: 202/1) 3۔امام حاکم رحمۃ اللہ علیہ نے اس روایت سے عالی سند کے افضل ہونے پر استدلال کیا ہے،نیز اس کا حصول ایک بہترین مشغلہ ہے کیونکہ حضرت ضمام نے اپنی آمد سے پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قاصد سے یہ تمام باتیں معلوم کررکھی تھیں لیکن خود حاضر ہوکر دریافت کیا۔اس سے معلوم ہواکہ اگرکسی کے پاس کوئی روایت چند واسطوں سے ہے اور کسی دوسرے شیخ سے روایت لینے سے ان واسطوں میں کمی آسکتی ہے تو ملاقات کرکے عالی سند حاصل کرلینی چاہیے(فتح الباری: 201/1) ۔4۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصد یہ ہے کہ غرض وقراءت کا طریقہ بھی معتبر ہے،اس میں کوئی خامی نہیں کہ اس کا اعتبار نہ کیاجائے جیساکہ حضرت ضمام بن ثعلبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بہت سی دینی باتیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیش کیں اور آپ نے ان کی تصدیق وتصویب فرمائی،پھرحضرت ضمام بن ثعلبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنی قوم کے پاس گئے انھوں نے ان کا اعتبار کیا اور سب کے سب ایمان لے آئے۔نوٹ:۔حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے علامہ ابومحمد بن صغانی کے حوالے سے لکھا ہے کہ بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے نسخہ بغداد یہ میں حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ایک حدیث درج ہے،دیگر کسی نسخے میں اس حدیث کا وجود نہیں ملتا ،لہذا ہم نے بھی اسے قلم زد کردیا ہے۔(فتح الباری: 203/1) یاد رہ کہ ہمارے ہندی مطبوعہ نسخوں میں موجود ہے۔
ترجمۃ الباب:
ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’آپ کہہ دیجیے! میرے رب! میرے علم میں اضافہ فرما۔‘‘
ملحوظہ: صحیح بخاری کے بعض نسخوں میں باب ما جاء فى العلم کا باب نہیں ہے اور بعض میں ذیل کا باب نہیں ہے، بلکہ اس کو لفظ باب کے بغیر پہلے باب کے ساتھ ہی بیان کیا گیا ہے۔ ہمارے نسخے میں اس پر بھی باب کا لفظ ہے۔ زیادہ صحیح بات یہی معلوم ہوتی ہے کہ یہ دو نہیں ایک ہی باب ہے اور وہ بھی پہلا۔ اس کی تائید اس سے بھی ہوتی ہے کہ ذیل کے باب پر نمبر نہیں ہے۔ واللہ اعلم
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، کہا ہم سے لیث نے بیان کیا، انھوں نے سعید مقبری سے، انھوں نے شریک بن عبداللہ بن ابی نمر سے، انھوں نے انس بن مالک سے سنا کہ ایک بار ہم مسجد میں آنحضرت ﷺ کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے، اتنے میں ایک شخص اونٹ پر سوار ہو کر آیا اور اونٹ کو مسجد میں بٹھا کر باندھ دیا۔ پھر پوچھنے لگا (بھائیو) تم لوگوں میں محمد (ﷺ) کون سے ہیں۔ آنحضرت ﷺ اس وقت لوگوں میں تکیہ لگائے بیٹھے ہوئے تھے۔ ہم نے کہا (حضرت) محمد (ﷺ) یہ سفید رنگ والے بزرگ ہیں جو تکیہ لگائے ہوئے تشریف فرما ہیں۔ تب وہ آپ سے مخاطب ہوا کہ اے عبدالمطلب کے فرزند! آپ ﷺ نے فرمایا: کہو میں آپ کی بات سن رہا ہوں۔ وہ بولا میں آپ ﷺ سے کچھ دینی باتیں دریافت کرنا چاہتا ہوں اور ذرا سختی سے بھی پوچھوں گا تو آپ اپنے دل میں برا نہ مانیے گا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: نہیں جو تمہارا دل چاہے پوچھو۔ تب اس نے کہا کہ میں آپ کو آپ کے رب اور اگلے لوگوں کے رب تبارک وتعالیٰ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کیا آپ کو اللہ نے دنیا کے سب لوگوں کی طرف رسول بنا کر بھیجا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا : ہاں یا میرے اللہ! پھر اس نے کہا میں آپ ﷺ کو اللہ کی قسم دیتا ہوں کیا اللہ نے آپ ﷺ کو رات دن میں پانچ نمازیں پڑھنے کا حکم فرمایا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا : ہاں یا میرے اللہ! پھر کہنے لگا میں آپ کو اللہ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کہ کیا اللہ نے آپ کو یہ حکم دیا ہے کہ سال بھر میں اس مہینہ رمضان کے روزے رکھو۔ آپ ﷺ نے فرمایا : ہاں یا میرے اللہ! پھر کہنے لگا میں آپ ﷺ کو اللہ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کہ کیا اللہ نے آپ کو یہ حکم دیا ہے کہ آپ ہم میں سے جو مالدار لوگ ہیں ان سے زکوٰۃ وصول کر کے ہمارے محتاجوں میں بانٹ دیا کریں۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا: ہاں یا میرے اللہ! تب وہ شخص کہنے لگا جو حکم آپ ﷺ اللہ کے پاس سے لائے ہیں، میں ان پر ایمان لایا اور میں اپنی قوم کے لوگوں کا جو یہاں نہیں آئے ہیں بھیجا ہوا (تحقیق حال کے لیے) آیا ہوں۔ میرا نام ضمام بن ثعلبہ ہے، میں بنی سعد بن بکر کے خاندان سے ہوں۔ اس حدیث کو (لیث کی طرح) موسیٰ اور علی بن عبدالحمید نے سلیمان سے روایت کیا، انھوں نے ثابت سے، انھوں نے انس سے، انھوں نے یہی مضمون آنحضرت ﷺ سے نقل کیا ہے۔
حدیث حاشیہ:
صحیح مسلم کی روایت میں حج کا بھی ذکر ہے۔ مسنداحمد میں حضرت ابن عباس ؓ کی روایت میں یوں ہے "فأناخ بعیره علی باب المسجد" یعنی اس نے اپنا اونٹ مسجد کے دروازے پر باندھ دیا تھا۔ اس نے بے تکلفی سے سوالات کئے اور آپ بھی بے تکلفی سے جواب دیتے رہے اور لفظ مبارک اللهم نعم کا استعمال فرماتے رہے۔ اللهم تمام اسمائے حسنیٰ کے قائم مقام ہے، اس لیے گویا آپ نے جواب کے وقت پورے اسمائے حسنی کو شامل فرما لیا یہ عربوں کے محاورے کے مطابق بھی تھا کہ وہ وثوق کامل کے مقام پر اللہ کا نام بطور قسم استعمال کرتے تھے۔ ضمام کا آنا 9ھ کی بات ہے جیسا کہ محمد بن اسحاق اور ابوعبیدہ وغیرہ کی تحقیق ہے، اس کی تائید طبرانی کی روایت سے ہوتی ہے جس کے راوی ابن عباس ہیں اور ظاہر ہے کہ وہ فتح مکہ کے بعد تشریف لائے تھے۔ حضرت امام بخاری کا مقصد یہ ہے کہ عرض وقرات کا طریقہ بھی معتبرہے جیسا کہ ضمام نے بہت سی دینی باتوں کو آپ ﷺ کے سامنے پیش کیا اور آپ تصدیق فرماتے رہے۔ پھر ضمام اپنی قوم کے ہاں گئے اور انھوں نے ان کا اعتبار کیا اور ایمان لائے۔ حاکم نے اس روایت سے عالی سند کے حصول کی فضیلت پر استدلال کیا ہے۔ کیونکہ ضمام نے اپنے ہاں آپ کے قاصد کے ذریعہ یہ ساری باتیں معلوم کرلی تھیں لیکن پھر خودحاضر ہوکر آپ ﷺ سے بالمشافہ ساری باتوں کو معلوم کیا۔ لہٰذا اگرکسی کے پاس کوئی روایت چند واسطوں سے ہو اور کسی شیخ کی اجازت سے ان واسطوں میں کمی آسکتی ہو توملاقات کرکے عالی سند حاصل کرنا بہرحال بڑی فضیلت کی چیز ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Anas bin Malik (RA): While we were sitting with the Prophet (ﷺ) in the mosque, a man came riding on a camel. He made his camel kneel down in the mosque, tied its foreleg and then said: "Who amongst you is Muhammad?" At that time the Prophet (ﷺ) was sitting amongst us (his companions) leaning on his arm. We replied, "This white man reclining on his arm." The man then addressed him, "O Son of 'Abdul Muttalib." The Prophet (ﷺ) said, "I am here to answer your questions." The man said to the Prophet, "I want to ask you something and will be hard in questioning. So do not get angry." The Prophet (ﷺ) said, "Ask whatever you want." The man said, "I ask you by your Lord, and the Lord of those who were before you, has Allah sent you as an Apostle (ﷺ) to all the mankind?" The Prophet (ﷺ) replied, "By Allah, yes." The man further said, "I ask you by Allah. Has Allah ordered you to offer five prayers in a day and night (24 hours)? He replied, "By Allah, Yes." The man further said, "I ask you by Allah! Has Allah ordered you to observe fasts during this month of the year (i.e. Ramadan)?" He replied, "By Allah, Yes." The man further said, "I ask you by Allah. Has Allah ordered you to take Zakat (obligatory charity) from our rich people and distribute it amongst our poor people?" The Prophet (ﷺ) replied, "By Allah, yes." Thereupon that man said, "I have believed in all that with which you have been sent, and I have been sent by my people as a messenger, and I am Dimam bin Tha'laba from the brothers of Bani Sa'd bin Bakr."