باب: اگر رات میں آدمی کی آنکھ کھل جائے تو کیا دعا پڑھنی چاہئے
)
Sahi-Bukhari:
Invocations
(Chapter: The invocation by one who wakes up at night)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
6316.
حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ میں اپنی خالہ میمونہ ؓ کے ہاں ایک رات سویا۔ نبی ﷺ (اس رات) اٹھے۔ آپ نے حوائج ضروریہ کو پورا کرنے کے بعد اپنا چہرہ دھویا پھر دونوں ہاتھ دھوئے اور سو گئے پھر اٹھے اور مشکیزے کے پاس آئے اس کا تسمہ کھولا پھر اس سے درمیانہ وضو کیا، زیادہ پانی نہ گرایا، البتہ پانی ہر جگہ پہنچا دیا، پھر آپ نے نماز پڑھی۔ میں بھی اٹھا لیکن اٹھنے میں کچھ تاخیر کی۔ اس بات کو ناپسند کرتے ہوئے کہ آپ یہ خیال فرمائیں گے کہ میں آپ کا حال دیکھ رہا ہوں۔ بہرحال میں نے وضو کیا اور جب آپ کھڑے ہو کر نماز پڑھنے لگے تو میں بھی آپ کی بائیں طرف کھڑا ہوگیا۔ آپ نے میرا کان پکڑ کر مجھے دائیں طرف کر دیا۔ آپ کی تیرہ رکعات پوری ہو گئیں تو آپ لیٹ گئے، پھر سو گئے یہاں تک کہ خراٹے لینے لگے۔ آپ کی عادت تھی کہ جب آپ سوتے تو آپ کے سانس میں آواز پیدا ہونے لگتی تھی۔ حضرت بلال ؓ نے آپ ﷺ کو نماز کی اطلاع دی تو آپ نے نماز پڑھی لیکن وضو نہ کیا۔ آپ ان الفاظ میں دعا کرتے تھے: ”اے اللہ! میرے دل میں نور بھردے، میری نظر میں نور پیدا فرما، میرے کانوں میں نور میرے دائیں نور، میرے بائیں نور، اوپر نور، میرے ینچے نور، میرے آگے نور، میرے پیچھے نور اور مجهے نور عطا فرما۔“ (راوی حدیث) کریب نے کہا: انسانی بدن (تابوت) میں سات مزید اعضاء کا ذکر کیا۔ پھر انہوں نے حضرت عباس رضی اللہ عنہ کی اولاد میں سے ایک آدمی کو ملا انہوں نے مجھ سے ان کے متعلق بیان کیا کہ میرے پٹھے میرا گوشت میرا خون میرے بال اور میرا چمڑا ان سب میں نور بھر دے۔ ان کے علاوہ اور چیزوں کا ذکر بھی کیا۔
تشریح:
(1) صحیح مسلم کی روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ دو مزید چیزیں زبان اور ذات ہیں۔ (صحیح مسلم، صلاة المسافرین، حدیث: 1797 (763) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بابرکت دعا سنت فجر کے بعد مسجد کو جاتے ہوئے راستے میں پڑھی تھی جیسا کہ صحیح مسلم کی روایت سے معلوم ہوتا ہے۔ (صحیح مسلم، صلاة المسافرین، حدیث: 1799 (763) (2) اس سے مراد ظاہری اور حقیقی نور کے حصول کی دعا ہے جس سے خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے پیروکار قیامت کے اندھیروں میں روشنی حاصل کریں گے یا علم و ہدایت کا نور اور اعمال طاعت کی توفیق اور ان پر ثابت قدمی مراد ہے یا یہ دونوں ہی مراد ہیں۔ واللہ أعلم
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6089
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6316
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
6316
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
6316
تمہید کتاب
لغوی طور پر الدعوات، دعوة کی جمع ہے جو مصدر اور اس سے مراد دعا ہے۔اس کے معنی طلب کرنا، درخواست کرنا اور ترغیب دینا ہیں۔حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے قرآن کریم کے حوالے سے دعا کے متعدد معنی بیان کیے ہیں: ٭ عبادت: ارشاد باری تعالیٰ ہے: (وَلَا تَدْعُ مِن دُونِ اللَّـهِ مَا لَا يَنفَعُكَ وَلَا يَضُرُّكَ) (یونس10: 106) " اللہ کو چھوڑ کر ایسی چیز کی عبادت نہ کرو جو تجھے نہ کوئی نفع دے سکے اور نہ نقصان ہی پہنچا سکے۔"٭مدد طلب کرنا: جیسے قرآن میں ہے:( وَادْعُوا شُهَدَاءَكُم مِّن دُونِ اللَّـهِ) (البقرہ2: 23) " اللہ کے سوا تم دوسرے مددگاروں کو بھی بلالو۔"٭سوال کرنا: فرمان الٰہی ہے: (ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ) (المؤمن40: 60)" مجھ سے سوال کرو میں اسے شرف قبولیت سے نوازوں گا۔"٭قول: یعنی بات کرنا؛ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: (دَعْوَاهُمْ فِيهَا سُبْحَانَكَ اللَّـهُمَّ) (یونس10: 10)" جنت میں ان کا قول، یعنی بات یہ ہوگی اے اللہ! تو پاک ہے۔"٭ نداء، یعنی پکارنا: ارشاد باری تعالیٰ ہے: (يَوْمَ يَدْعُوكُمْ فَتَسْتَجِيبُونَ بِحَمْدِهِ) (بنی اسرائیل17: 52) "جس دن وہ تمھیں آواز دے گا تو تم اس کی تعریف کرتے ہوئے تعمیل ارشاد کرو گے۔"٭ثناء، یعنی تعریف کرنا: قرآن مجید میں ہے: (قُلِ ادْعُوا اللَّـهَ أَوِ ادْعُوا الرَّحْمَـٰنَ) (بنی اسرائیل 17: 110) " تم اس کی تعریف اللہ کے نام سے کرو یا رحمٰن کے نام سے۔"(فتح الباری:11/113) اصطلاحی طور پر دعاکی تعریف یہ ہے: خیرو برکت کے حصول یا کسی شر سے بچاؤ کے لیے اللہ تعالیٰ کے حضور گڑا گڑانا اور اسے پکارنا، دعا کہلاتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کو عبادت قرار دیا ہے، آپ فرماتے ہیں: "دعاہی عبادت ہے۔"(جامع الترمذی، تفسیر القرآن، حدیث:2969) جب دعا عبادت ہے اور انسان کا دنیا میں آنے کا مقصد بھی یہی ہے تو یقیناً اس سے قرب الٰہی بھی حاصل ہو گا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے معمولات کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کی حیات طیبہ اس عبادت سے خوب منور تھی،صبح سے شام تک، شام سے صبح تک خوشی وغمی، صحت ومرض میں کھانے پینے کے بعد،مسرت وفرحت کے دلکش مواقع پر، آندھی اور طوفان میں، الغرض آپ کی زندگی کا ایک ایک لمحہ ہمیں اس عبادت کی ترغیب دیتا ہے۔جب دعا ایک عبادت ہے تو غیر اللہ سے دعا کرنا شرک ٹھہراتا ہے، لہٰذا زبان زد عام کلمات، مثلاً: یا رسول اللہ! یا علی! یا حسین اور یاغوث قسم کے انداز سے دعائیں کرنا، نعرے لگانا صریح شرک ہے۔ان سے بچنا ایک مسلمان کا اولین فرض ہے۔ ہمارے رجحان کے مطابق دعا، مومن کا ہتھیار ہے اور یہ ایک ایسا مؤثر ہتھیار ہے جسے آپ کسی بھی وقت کسی بھی موقع پر چلا سکتے ہیں،لیکن اس ہتھیار کے ذریعے سے بہترین نتائج کے حصول کے لیے چند آداب وشرائط ہیں جن کی تفصیل درج ذیل ہے:٭بوقت دعا انسان یہ اعتقاد رکھے کہ کمال صرف اللہ تعالیٰ کی ذات گرامی، اس کی رحمت اور اس کی قدرت ہی کو حاصل ہے،لہٰذا دعا صرف اور صرف مالک دوجہاں، خالق کائنات سے مانگی جائے۔٭قبولیت کی امید کے ساتھ دعا کی جائے۔اس طرح دعا نہ کرے کہ اسے شک ہوکہ نا معلوم یہ دعا قبول ہوگی یا نہیں بلکہ پوری دل جمعی،نہایت خشوع وخضوع اور اس یقین کے ساتھ کرے کہ اس کی دعا ضرور قبول ہوگی۔٭دعا میں حد سے نہ گزرے، یعنی اللہ تعالیٰ سے ایسی چیز کے متعلق دعا نہ کرے جو شرعاً جائز نہ ہو، مثلاً: کسی گناہ پر مبنی کسی کام یا قطع رحمی کے لیے دعا کی جائے، ایسا کرنا شرعاً حلال نہیں۔٭ دعا کرتے وقت یہ بھی اعتقاد ہونا چاہیے کہ وہ اپنے رب کا محتاج اور خالق کائنات بے نیاز ہے۔اللہ تعالیٰ کی مرضی اور اس کی مشیت کے بغیر وہ کسی بھی نفع یا نقصان کا سزا وار نہیں۔٭دعا کرنے والے کا کھانا، پینا اور لباس حرام کا نہ ہو بلکہ حلال اور طیب ہو کیونکہ مال حرام قبولیت میں رکاوٹ کا باعث ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ خودبھی پاک ہے اور پاک ہی کو قبول کرتا ہے۔٭ دعا کے آغاز میں اللہ تعالیٰ کی حمدو ثنا اور اس خوب تعریف کرے، اس کے علاوہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر بکثرت درود پڑھے، پھر اپنے گناہوں کا اعتراف کرتے ہوئے اس کے فضل وکرم کی درخواست کرے۔٭قبولیت دعا کے اوقات میں دعا کرے، مثلاً: رات کے آخری حصے میں،اذان اور اقامت کے درمیان وقفے میں،فرض نماز کے بعد، جمعہ کے دن عصر کے بعد، بحالت سجدہ اور بارش برسنے کے وقت دعا کرے۔٭ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے غیر ثابت شدہ دعاؤں، مثلاً: دعائے نور، دعائے حبیب، دعائے گنج عرش اور دعائے منزل وغیرہ سے پرہیز کیا جائے۔٭دعا کی قبولیت کی تاخیر میں دعا ترک نہ کرے کیونکہ قبولیت دعا کی تین صورتیں ہوتی ہیں: (1)دعاکے مطابق حاجت پوری ہوجاتی ہے۔ (2) دعا کے برابر کوئی ناگہانی بلا ٹال دی جاتی ہے۔(3) یا اس کی دعا کو آخرت کے لیے ذخیرہ بنا دیا جاتا ہے۔(مسند احمد:3/18)٭ آزمائشوں، سختیوں اور مصیبتوں میں تو سب لوگ ہی دعا کرتے ہیں کشادگی، بے فکری اور فارغ البالی کے اوقات میں دعاؤں میں مشغول رہنا کمال کی علامت ہے۔دعا کرنے سے پہلے اپنا جائزہ ضرور لینا چاہیے ایسا نہ ہو کہ اس پر کوئی سستی وغفلت کا دھبا ہو یا وہ شکوک وشبہات میں مبتلا ہو۔ بہرحال انسان مشکلات ومصائب میں گھر جائے،حالات وواقعات اس کے خلاف ہوجائیں،دشمن، بیماری یا پریشانی کا دباؤ شدید ہوجائے، اپنے بیگانے سب ساتھ چھوڑ جائیں، جب دنیاوی سہارے اور امید، دم توڑ جائیں تو اس وقت دعا کا ہتھیار اور اس کی کارکردگی بہت زیادہ بڑھ جاتی ہے۔ انسان کو چاہیے کہ درج بالا آداب کو ملحوظ رکھتے ہوئے اللہ تعالیٰ سے دعا کرے، ایسے حالات میں کامیابی یقینی اور پکی بات ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت دعا کے متعلق ایک مکمل ضابطہ امت کے حوالے کیا ہے، اس کے لیے انھوں نے اس بڑے عنوان کے تحت انہتر(69) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں پھر انھوں نے ان عنوانات کو ثابت کرنے کے لیے ایک سو پینتالیس(145) مرفوع احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں اکتالیس(41) معلق اور ایک سوچار (104) احادیث متصل سند سے بیان کی ہیں۔ان میں ایک سو اکیس(121)مکرر اور چوبیس (24) خالص ہیں۔امام مسلم رحمہ اللہ نے آٹھ(8) احادیث کے علاوہ باقی تمام احادیث پر اتفاق کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ مختلف صحابۂ کرام اور تابعین عظام کے (9) آثار بھی بیان کیے ہیں۔الغرض امام بخاری رحمہ اللہ نے احادیث وآثار کی روشنی میں دعا کی اہمیت وفضیلت اور آداب وشرائط پر قبولیت کے مقامات واوقات کے متعلق سیر حاصل بحث کی ہے۔ دعا ایک قسم" استعاذہ" یعنی اللہ کی پناہ طلب کرنا ہے۔اس کے متعلق بھی امام بخاری رحمہ اللہ نے چودہ(14) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن میں سے کچھ حسب ذیل ہیں:"فتنوں سے پناہ، انسانوں کے غلبے سے پناہ، عذاب قبر سے پناہ، زندگی اور موت کے فتنے سے پناہ، آگ کے فتنے سے پناہ، غنا اور فقر سے پناہ،گناہ اور تاوان سے پناہ، بزدلی اور سستی سے پناہ،گھٹیا عمر سے پناہ وغیرہ۔دعا کے علاوہ امام بخاری رحمہ اللہ نے تسبیح وتہلیل اور ذکر الٰہی کے فضائل بھی بیان کیے ہیں۔ قرآن وحدیث کی روشنی میں دعا کے متعلق بہت سی دیگر ہدایات سے بھی امت کو آگاہ کیا ہے۔ہمیں چاہیے کہ دل کی گہرائی سے آئندہ آنے والی احادیث کا مطالعہ کریں اور پورے عزم وجزم کے ساتھ ان کے مطابق عمل کرنے کو اپنی زندگی کا حصہ بنائیں کیونکہ حدیث میں ہے کہ جو شخص اللہ تعالیٰ سے دعا نہیں کرتا وہ گویا اللہ تعالیٰ کے غضب میں گرفتار ہے اور جس کے لیے بکثرت دعا کرنے کا دروازہ کھول دیا گیا اس کے لیے گویا رحمت الٰہی کے دروازے کھل جاتے ہیں۔اہل ایمان کا فرض ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ سے مانگنے کے عمل کو اپنا لیں۔اللہ تعالیٰ ہمیں اس پر عمل کی توفیق دے۔ آمین۔۔اللہ تعالیٰ نے فرمایا مجھے پکارو! میں تمہاری پکار قبول کروں گا بلاشبہ جو لوگ میری عبادت سے تکبر کرتے ہیں وہ بہت جلد دوزخ میں ذلت کے ساتھ ہوں گے ۔ایک حدیث میں دعا کو عبادت کہا گیا ہے۔ (سنن ابی داود، الوتر، حدیث: 1479) بلکہ عبادت کا مغز قرار دیا گیا ہے۔ (جامع الترمذی، الدعوات، حدیث: 3371) آیت کی رو سے دعا نہ کرنے پر جہنم کی وعید ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ اس آیت کے ذریعے سے خشک زاہدوں کی تردید کرنا چاہتے ہیں جن کے نزدیک قضا کو تسلیم کرتے ہوئے ترک دعا افضل ہے۔ ہمارے رجحان کے مطابق امام بخاری رحمہ اللہ کا موقف بہت وزنی ہے، اس لیے تفویض کے بجائے دعا کے عمل کو اختیار کرنا ہی انسان کے شایان شان ہے۔ واللہ اعلم
حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ میں اپنی خالہ میمونہ ؓ کے ہاں ایک رات سویا۔ نبی ﷺ (اس رات) اٹھے۔ آپ نے حوائج ضروریہ کو پورا کرنے کے بعد اپنا چہرہ دھویا پھر دونوں ہاتھ دھوئے اور سو گئے پھر اٹھے اور مشکیزے کے پاس آئے اس کا تسمہ کھولا پھر اس سے درمیانہ وضو کیا، زیادہ پانی نہ گرایا، البتہ پانی ہر جگہ پہنچا دیا، پھر آپ نے نماز پڑھی۔ میں بھی اٹھا لیکن اٹھنے میں کچھ تاخیر کی۔ اس بات کو ناپسند کرتے ہوئے کہ آپ یہ خیال فرمائیں گے کہ میں آپ کا حال دیکھ رہا ہوں۔ بہرحال میں نے وضو کیا اور جب آپ کھڑے ہو کر نماز پڑھنے لگے تو میں بھی آپ کی بائیں طرف کھڑا ہوگیا۔ آپ نے میرا کان پکڑ کر مجھے دائیں طرف کر دیا۔ آپ کی تیرہ رکعات پوری ہو گئیں تو آپ لیٹ گئے، پھر سو گئے یہاں تک کہ خراٹے لینے لگے۔ آپ کی عادت تھی کہ جب آپ سوتے تو آپ کے سانس میں آواز پیدا ہونے لگتی تھی۔ حضرت بلال ؓ نے آپ ﷺ کو نماز کی اطلاع دی تو آپ نے نماز پڑھی لیکن وضو نہ کیا۔ آپ ان الفاظ میں دعا کرتے تھے: ”اے اللہ! میرے دل میں نور بھردے، میری نظر میں نور پیدا فرما، میرے کانوں میں نور میرے دائیں نور، میرے بائیں نور، اوپر نور، میرے ینچے نور، میرے آگے نور، میرے پیچھے نور اور مجهے نور عطا فرما۔“ (راوی حدیث) کریب نے کہا: انسانی بدن (تابوت) میں سات مزید اعضاء کا ذکر کیا۔ پھر انہوں نے حضرت عباس رضی اللہ عنہ کی اولاد میں سے ایک آدمی کو ملا انہوں نے مجھ سے ان کے متعلق بیان کیا کہ میرے پٹھے میرا گوشت میرا خون میرے بال اور میرا چمڑا ان سب میں نور بھر دے۔ ان کے علاوہ اور چیزوں کا ذکر بھی کیا۔
حدیث حاشیہ:
(1) صحیح مسلم کی روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ دو مزید چیزیں زبان اور ذات ہیں۔ (صحیح مسلم، صلاة المسافرین، حدیث: 1797 (763) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بابرکت دعا سنت فجر کے بعد مسجد کو جاتے ہوئے راستے میں پڑھی تھی جیسا کہ صحیح مسلم کی روایت سے معلوم ہوتا ہے۔ (صحیح مسلم، صلاة المسافرین، حدیث: 1799 (763) (2) اس سے مراد ظاہری اور حقیقی نور کے حصول کی دعا ہے جس سے خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے پیروکار قیامت کے اندھیروں میں روشنی حاصل کریں گے یا علم و ہدایت کا نور اور اعمال طاعت کی توفیق اور ان پر ثابت قدمی مراد ہے یا یہ دونوں ہی مراد ہیں۔ واللہ أعلم
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے علی بن عبد اللہ مدینی نے بیان کیا، کہا ہم سے عبد الرحمن ابن مہدی نے، ان سے سفیان ثوری نے، ان سے سلمہ بن کہیل نے، ان سے کریب نے اور ان سے عبد اللہ بن عباس ؓ نے بیان کیا کہ میں میمونہ ؓ کے یہاں ایک رات سویا تو نبی کریم ﷺ اٹھے اور آپ نے اپنی حوائج ضرورت پوری کرنے کے بعد اپنا چہرہ دھویا، پھر دونوں ہاتھ دھوئے اور پھر سوگئے اس کے بعد آپ کھڑے ہو گئے اور مشکیزہ کے پاس گئے اور آپ نے اس کا منہ کھولا پھر درمیانہ وضو کیا (نہ مبالغہ کے ساتھ نہ معمولی اور ہلکے قسم کا، تین تین مرتبہ سے) کم دھویا۔ البتہ پانی ہرجگہ پہنچا دیا۔ پھر آپ نے نماز پڑھی۔ میں بھی کھڑا ہوا اور آپ کے پیچھے ہی رہا کیونکہ میں اسے پسند نہیں کرتا تھا کہ آنحضرت ﷺ یہ سمجھیں کہ میں آپ کا انتظار کر رہا تھا۔ میں نے بھی وضو کرلیا تھا۔ آنحضور ﷺ جب کھڑے ہوکر نماز پڑھنے لگے تو میں بھی آپ کے بائیں طرف کھڑا ہو گیا۔ آپ نے میرا کان پکڑ کر دائیں طرف کر دیا، میں نے آنحضرت ﷺ (کی اقتداء میں) تیرہ رکعت نماز مکمل کی۔ ا س کے بعد آپ سو گئے اور آپ کی سانس میں آواز پیدا ہونے لگی۔ آنحضرت ﷺ جب سوتے تھے تو آپ کی سانس میں آواز پیدا ہونے لگتی تھی۔ اس کے بعد بلال ؓ نے آپ کو نماز کی اطلا ع دی چنانچہ آپ نے (نیا وضو) کئے بغیر نماز پڑھی۔ آنحضرت ﷺ اپنی دعا میں یہ کہتے تھے: ’’اے اللہ! میرے دل میں نور پیدا کر، میری نظر میں نور پیدا کر، میرے کان میں نور پیدا کر، میرے دائیں طرف نور پیدا کر، میرے بائیں طرف نور پیدا کر، میرے اوپر نور پیدا کر، میرے نیچے نور پیدا کر میرے آگے نور پیدا کر، میرے پیچھے نور پیدا کر اور مجھے نور عطا فرما۔ کریب (راوی حدیث) نے بیان کیا کہ میرے پاس مزید سات لفظ محفوظ ہیں۔ پھر میں نے عباس ؓ کے ایک صاحب زاد ے سے ملاقات کی تو انہوں نے مجھ سے ان کے متعلق بیان کیا کہ ”میرے پٹھے، میرا گوشت، میرا خون، میرے بال اور میرا چمڑا ان سب میں نور بھر دے“ اور دوچیزوں کا اور بھی ذکر کیا۔
حدیث حاشیہ:
یہی دعا ہے جو سنت فجر کے بعد لیٹنے پر پڑھی جاتی ہے بڑی ہی بابرکت دعا ہے اللہ پاک تمام مسلمانوں کو اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہر ایک کے سینے میں روشنی عنایت فرما ئے آمین۔ (اس دعا کا صحیح محل یہ ہے کہ جب آدمی سنت فجر پڑھ لے تو مسجد کو جاتے ہوئے راستے میں یہ دعا پڑھے آج کل چونکہ سنتیں مساجد میں ادا کرنے کا عام رواج بن چکا ہے تو پھر سنتوں کے بعد لیٹ کر جب اٹھ بیٹھے تو پھر اس دعا کو پڑھے۔ لیٹے لیٹے اس دعا کو پڑھنے کے متعلق مجھے کوئی روایت نہیں مل سکی واللہ أعلم بالصواب، عبد الرشید تونسوی)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Ibn 'Abbas (RA) : One night I slept at the house of Maimuna. The Prophet (ﷺ) woke up, answered the call of nature, washed his face and hands, and then slept. He got up (late at night), went to a water skin, opened the mouth thereof and performed ablution not using much water, yet he washed all the parts properly and then offered the prayer. I got up and straightened my back in order that the Prophet (ﷺ) might not feel that I was watching him, and then I performed the ablution, and when he got up to offer the prayer, stood on his left. He caught hold of my ear and brought me over to his right side. He offered thirteen Rak'at in all and then lay down and slept till he started blowing out his breath as he used to do when he slept. In the meantime Bilal (RA) informed the Prophet (ﷺ) of the approaching time for the (Fajr) prayer, and the Prophet (ﷺ) offered the Fajr (Morning) prayer without performing new ablution. He used to say in his invocation, Allaihumma ij'al fi qalbi nuran wa fi basari nuran, wa fi sam'i nuran, wa'an yamini nuran, wa'an yasari nuran, wa fawqi nuran, wa tahti nuran, wa amami nuran, wa khalfi nuran, waj'al li nuran." Kuraib (a sub narrator) said, "I have forgotten seven other words, (which the Prophet (ﷺ) mentioned in this invocation). I met a man from the offspring of Al-'Abbas and he narrated those seven things to me, mentioning, '(Let there be light in) my nerves, my flesh, my blood, my hair and my body,' and he also mentioned two other things."