Sahi-Bukhari:
Invocations
(Chapter: Saying Takbir and Tasbih on going to bed)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
6318.
حضرت علی بن ابی طالب ؓ سے روایت ہے کہ سیدہ فاطمہ ؓ کو چکی پسینے کی وجہ سے ہاتھوں میں تکلیف کا عارضہ ہوا تو وہ نبی ﷺ کی خدمت میں ایک خادم لینے کے لیے حاضر ہوئیں۔ آپ اس وقت گھر میں موجود نہیں تھے۔ انہوں نے سیدہ عائشہ ؓ سے اس کا ذکر کیا۔ جب آپ تشریف لائے تو سیدہ عائشہ ؓ نے آپ اسے اس کا ذکر کیا۔ (حضرت علی ؓ نے) بیان کیا کہ آپ ﷺ ہمارے گھر تشریف لائے جبکہ ہم اس وقت اپنے بستروں میں لیٹ چکے تھے۔ میں نے اٹھنے کا ارادہ کیا تو آپ نے فرمایا: ”یوں ہی لیٹے رہو۔“ پھر آپ ہمارے درمیان بیٹھ گئے حتٰی کہ میں نے آپ کے قدموں کو ٹھنڈک اپنے سینے میں محسوس کی۔ اس کے بعد آپ نے فرمایا: ”کیا میں تم دونوں کو وہ چیز نہ تناؤں جو تمہارے لیے خادم سے بہتر ہو؟ جب تم اپنے بستر پر جانے لگو یا سونے کے لیے بستروں میں آؤ تو چونتیس مرتبہ اللہ اکبر، تینتیس مرتبہ سبحان اللہ، اور تینتیس مرتبہ الحمد اللہ کہو، یہ تمہارے لیے خادم سے بہتر ہے۔“ شعبہ نے خالد سے، انہوں نے ابن سیرین سے اس طرح بیان کیا کہ سبحان اللہ چونتیس مرتبہ کہو۔
تشریح:
(1) اس حدیث سے ثابت ہوا کہ ایک مسلمان بیوی اس امر کی پابند ہے کہ وہ شوہر کی خدمت کے علاوہ گھر کے تمام کام سر انجام دے جیسا کہ سیدات اہل بیت، عام مسلمانوں کی خواتین حتی کہ امہات المومنین اپنے اپنے گھروں میں گھر داری کے تمام کام کرتی تھیں، اس لیے بعض فقہاء کا یہ کہنا کہ بیوی پر اپنے شوہر کی دلداری کے علاوہ کچھ واجب نہیں محض بے اصل اور بے بنیاد بات ہے۔ ایک دوسرے واقعے سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ سیدات کو یہ وظیفہ فرض نماز کے بعد پڑھنے کی تلقین کی تھی۔ (سنن أبي داود، الخراج، حدیث: 2987) (2) یہ وظیفہ "تسبیح فاطمہ" کے نام سے مشہور ہے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اس کی خوب خوب پابندی کی حتی کہ صفین کی رات جس میں وہ انتہائی مصروف تھے، اس میں بھی انہوں نے اسے پڑھا جیسا کہ ایک روایت میں ہے۔ (صحیح البخاري، النفقات، حدیث: 5362) البتہ مصروفیت کی وجہ سے رات کے پہلے حصے میں پڑھنے کے بجائے آخری حصے میں اسے پڑھا۔ (سنن أبي داود، الأدب، حدیث: 5064) ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا: ’’بیٹی! اہل صفہ کی فاقہ کشی مجھ سے برداشت نہیں ہوتی۔ وہ اکثر بھوکے رہتے ہیں۔ میں ان غلاموں کو بیچ کر ان کے کھانے کا بندوبست کرنا چاہتا ہوں۔‘‘ (مسند أحمد: 106/1) دوسری حدیث میں ہے کہ آپ نے فرمایا: ’’شہدائے بدر کے یتیم بچے تم سے پہلے لے چکے ہیں، میں انہیں دوں گا، ان کا زیادہ حق ہے۔‘‘ (سنن أبي داود، الخراج، حدیث: 2987) (3) ہمارے ہاں سرکاری افسران میں اقربا پروری کا رجحان ہے، اس حدیث سے ان حضرات کی خوب خوب تردید ہوتی ہے۔ واللہ المستعان
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6091
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6318
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
6318
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
6318
تمہید کتاب
لغوی طور پر الدعوات، دعوة کی جمع ہے جو مصدر اور اس سے مراد دعا ہے۔اس کے معنی طلب کرنا، درخواست کرنا اور ترغیب دینا ہیں۔حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے قرآن کریم کے حوالے سے دعا کے متعدد معنی بیان کیے ہیں: ٭ عبادت: ارشاد باری تعالیٰ ہے: (وَلَا تَدْعُ مِن دُونِ اللَّـهِ مَا لَا يَنفَعُكَ وَلَا يَضُرُّكَ) (یونس10: 106) " اللہ کو چھوڑ کر ایسی چیز کی عبادت نہ کرو جو تجھے نہ کوئی نفع دے سکے اور نہ نقصان ہی پہنچا سکے۔"٭مدد طلب کرنا: جیسے قرآن میں ہے:( وَادْعُوا شُهَدَاءَكُم مِّن دُونِ اللَّـهِ) (البقرہ2: 23) " اللہ کے سوا تم دوسرے مددگاروں کو بھی بلالو۔"٭سوال کرنا: فرمان الٰہی ہے: (ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ) (المؤمن40: 60)" مجھ سے سوال کرو میں اسے شرف قبولیت سے نوازوں گا۔"٭قول: یعنی بات کرنا؛ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: (دَعْوَاهُمْ فِيهَا سُبْحَانَكَ اللَّـهُمَّ) (یونس10: 10)" جنت میں ان کا قول، یعنی بات یہ ہوگی اے اللہ! تو پاک ہے۔"٭ نداء، یعنی پکارنا: ارشاد باری تعالیٰ ہے: (يَوْمَ يَدْعُوكُمْ فَتَسْتَجِيبُونَ بِحَمْدِهِ) (بنی اسرائیل17: 52) "جس دن وہ تمھیں آواز دے گا تو تم اس کی تعریف کرتے ہوئے تعمیل ارشاد کرو گے۔"٭ثناء، یعنی تعریف کرنا: قرآن مجید میں ہے: (قُلِ ادْعُوا اللَّـهَ أَوِ ادْعُوا الرَّحْمَـٰنَ) (بنی اسرائیل 17: 110) " تم اس کی تعریف اللہ کے نام سے کرو یا رحمٰن کے نام سے۔"(فتح الباری:11/113) اصطلاحی طور پر دعاکی تعریف یہ ہے: خیرو برکت کے حصول یا کسی شر سے بچاؤ کے لیے اللہ تعالیٰ کے حضور گڑا گڑانا اور اسے پکارنا، دعا کہلاتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کو عبادت قرار دیا ہے، آپ فرماتے ہیں: "دعاہی عبادت ہے۔"(جامع الترمذی، تفسیر القرآن، حدیث:2969) جب دعا عبادت ہے اور انسان کا دنیا میں آنے کا مقصد بھی یہی ہے تو یقیناً اس سے قرب الٰہی بھی حاصل ہو گا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے معمولات کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کی حیات طیبہ اس عبادت سے خوب منور تھی،صبح سے شام تک، شام سے صبح تک خوشی وغمی، صحت ومرض میں کھانے پینے کے بعد،مسرت وفرحت کے دلکش مواقع پر، آندھی اور طوفان میں، الغرض آپ کی زندگی کا ایک ایک لمحہ ہمیں اس عبادت کی ترغیب دیتا ہے۔جب دعا ایک عبادت ہے تو غیر اللہ سے دعا کرنا شرک ٹھہراتا ہے، لہٰذا زبان زد عام کلمات، مثلاً: یا رسول اللہ! یا علی! یا حسین اور یاغوث قسم کے انداز سے دعائیں کرنا، نعرے لگانا صریح شرک ہے۔ان سے بچنا ایک مسلمان کا اولین فرض ہے۔ ہمارے رجحان کے مطابق دعا، مومن کا ہتھیار ہے اور یہ ایک ایسا مؤثر ہتھیار ہے جسے آپ کسی بھی وقت کسی بھی موقع پر چلا سکتے ہیں،لیکن اس ہتھیار کے ذریعے سے بہترین نتائج کے حصول کے لیے چند آداب وشرائط ہیں جن کی تفصیل درج ذیل ہے:٭بوقت دعا انسان یہ اعتقاد رکھے کہ کمال صرف اللہ تعالیٰ کی ذات گرامی، اس کی رحمت اور اس کی قدرت ہی کو حاصل ہے،لہٰذا دعا صرف اور صرف مالک دوجہاں، خالق کائنات سے مانگی جائے۔٭قبولیت کی امید کے ساتھ دعا کی جائے۔اس طرح دعا نہ کرے کہ اسے شک ہوکہ نا معلوم یہ دعا قبول ہوگی یا نہیں بلکہ پوری دل جمعی،نہایت خشوع وخضوع اور اس یقین کے ساتھ کرے کہ اس کی دعا ضرور قبول ہوگی۔٭دعا میں حد سے نہ گزرے، یعنی اللہ تعالیٰ سے ایسی چیز کے متعلق دعا نہ کرے جو شرعاً جائز نہ ہو، مثلاً: کسی گناہ پر مبنی کسی کام یا قطع رحمی کے لیے دعا کی جائے، ایسا کرنا شرعاً حلال نہیں۔٭ دعا کرتے وقت یہ بھی اعتقاد ہونا چاہیے کہ وہ اپنے رب کا محتاج اور خالق کائنات بے نیاز ہے۔اللہ تعالیٰ کی مرضی اور اس کی مشیت کے بغیر وہ کسی بھی نفع یا نقصان کا سزا وار نہیں۔٭دعا کرنے والے کا کھانا، پینا اور لباس حرام کا نہ ہو بلکہ حلال اور طیب ہو کیونکہ مال حرام قبولیت میں رکاوٹ کا باعث ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ خودبھی پاک ہے اور پاک ہی کو قبول کرتا ہے۔٭ دعا کے آغاز میں اللہ تعالیٰ کی حمدو ثنا اور اس خوب تعریف کرے، اس کے علاوہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر بکثرت درود پڑھے، پھر اپنے گناہوں کا اعتراف کرتے ہوئے اس کے فضل وکرم کی درخواست کرے۔٭قبولیت دعا کے اوقات میں دعا کرے، مثلاً: رات کے آخری حصے میں،اذان اور اقامت کے درمیان وقفے میں،فرض نماز کے بعد، جمعہ کے دن عصر کے بعد، بحالت سجدہ اور بارش برسنے کے وقت دعا کرے۔٭ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے غیر ثابت شدہ دعاؤں، مثلاً: دعائے نور، دعائے حبیب، دعائے گنج عرش اور دعائے منزل وغیرہ سے پرہیز کیا جائے۔٭دعا کی قبولیت کی تاخیر میں دعا ترک نہ کرے کیونکہ قبولیت دعا کی تین صورتیں ہوتی ہیں: (1)دعاکے مطابق حاجت پوری ہوجاتی ہے۔ (2) دعا کے برابر کوئی ناگہانی بلا ٹال دی جاتی ہے۔(3) یا اس کی دعا کو آخرت کے لیے ذخیرہ بنا دیا جاتا ہے۔(مسند احمد:3/18)٭ آزمائشوں، سختیوں اور مصیبتوں میں تو سب لوگ ہی دعا کرتے ہیں کشادگی، بے فکری اور فارغ البالی کے اوقات میں دعاؤں میں مشغول رہنا کمال کی علامت ہے۔دعا کرنے سے پہلے اپنا جائزہ ضرور لینا چاہیے ایسا نہ ہو کہ اس پر کوئی سستی وغفلت کا دھبا ہو یا وہ شکوک وشبہات میں مبتلا ہو۔ بہرحال انسان مشکلات ومصائب میں گھر جائے،حالات وواقعات اس کے خلاف ہوجائیں،دشمن، بیماری یا پریشانی کا دباؤ شدید ہوجائے، اپنے بیگانے سب ساتھ چھوڑ جائیں، جب دنیاوی سہارے اور امید، دم توڑ جائیں تو اس وقت دعا کا ہتھیار اور اس کی کارکردگی بہت زیادہ بڑھ جاتی ہے۔ انسان کو چاہیے کہ درج بالا آداب کو ملحوظ رکھتے ہوئے اللہ تعالیٰ سے دعا کرے، ایسے حالات میں کامیابی یقینی اور پکی بات ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت دعا کے متعلق ایک مکمل ضابطہ امت کے حوالے کیا ہے، اس کے لیے انھوں نے اس بڑے عنوان کے تحت انہتر(69) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں پھر انھوں نے ان عنوانات کو ثابت کرنے کے لیے ایک سو پینتالیس(145) مرفوع احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں اکتالیس(41) معلق اور ایک سوچار (104) احادیث متصل سند سے بیان کی ہیں۔ان میں ایک سو اکیس(121)مکرر اور چوبیس (24) خالص ہیں۔امام مسلم رحمہ اللہ نے آٹھ(8) احادیث کے علاوہ باقی تمام احادیث پر اتفاق کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ مختلف صحابۂ کرام اور تابعین عظام کے (9) آثار بھی بیان کیے ہیں۔الغرض امام بخاری رحمہ اللہ نے احادیث وآثار کی روشنی میں دعا کی اہمیت وفضیلت اور آداب وشرائط پر قبولیت کے مقامات واوقات کے متعلق سیر حاصل بحث کی ہے۔ دعا ایک قسم" استعاذہ" یعنی اللہ کی پناہ طلب کرنا ہے۔اس کے متعلق بھی امام بخاری رحمہ اللہ نے چودہ(14) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن میں سے کچھ حسب ذیل ہیں:"فتنوں سے پناہ، انسانوں کے غلبے سے پناہ، عذاب قبر سے پناہ، زندگی اور موت کے فتنے سے پناہ، آگ کے فتنے سے پناہ، غنا اور فقر سے پناہ،گناہ اور تاوان سے پناہ، بزدلی اور سستی سے پناہ،گھٹیا عمر سے پناہ وغیرہ۔دعا کے علاوہ امام بخاری رحمہ اللہ نے تسبیح وتہلیل اور ذکر الٰہی کے فضائل بھی بیان کیے ہیں۔ قرآن وحدیث کی روشنی میں دعا کے متعلق بہت سی دیگر ہدایات سے بھی امت کو آگاہ کیا ہے۔ہمیں چاہیے کہ دل کی گہرائی سے آئندہ آنے والی احادیث کا مطالعہ کریں اور پورے عزم وجزم کے ساتھ ان کے مطابق عمل کرنے کو اپنی زندگی کا حصہ بنائیں کیونکہ حدیث میں ہے کہ جو شخص اللہ تعالیٰ سے دعا نہیں کرتا وہ گویا اللہ تعالیٰ کے غضب میں گرفتار ہے اور جس کے لیے بکثرت دعا کرنے کا دروازہ کھول دیا گیا اس کے لیے گویا رحمت الٰہی کے دروازے کھل جاتے ہیں۔اہل ایمان کا فرض ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ سے مانگنے کے عمل کو اپنا لیں۔اللہ تعالیٰ ہمیں اس پر عمل کی توفیق دے۔ آمین۔۔اللہ تعالیٰ نے فرمایا مجھے پکارو! میں تمہاری پکار قبول کروں گا بلاشبہ جو لوگ میری عبادت سے تکبر کرتے ہیں وہ بہت جلد دوزخ میں ذلت کے ساتھ ہوں گے ۔ایک حدیث میں دعا کو عبادت کہا گیا ہے۔ (سنن ابی داود، الوتر، حدیث: 1479) بلکہ عبادت کا مغز قرار دیا گیا ہے۔ (جامع الترمذی، الدعوات، حدیث: 3371) آیت کی رو سے دعا نہ کرنے پر جہنم کی وعید ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ اس آیت کے ذریعے سے خشک زاہدوں کی تردید کرنا چاہتے ہیں جن کے نزدیک قضا کو تسلیم کرتے ہوئے ترک دعا افضل ہے۔ ہمارے رجحان کے مطابق امام بخاری رحمہ اللہ کا موقف بہت وزنی ہے، اس لیے تفویض کے بجائے دعا کے عمل کو اختیار کرنا ہی انسان کے شایان شان ہے۔ واللہ اعلم
حضرت علی بن ابی طالب ؓ سے روایت ہے کہ سیدہ فاطمہ ؓ کو چکی پسینے کی وجہ سے ہاتھوں میں تکلیف کا عارضہ ہوا تو وہ نبی ﷺ کی خدمت میں ایک خادم لینے کے لیے حاضر ہوئیں۔ آپ اس وقت گھر میں موجود نہیں تھے۔ انہوں نے سیدہ عائشہ ؓ سے اس کا ذکر کیا۔ جب آپ تشریف لائے تو سیدہ عائشہ ؓ نے آپ اسے اس کا ذکر کیا۔ (حضرت علی ؓ نے) بیان کیا کہ آپ ﷺ ہمارے گھر تشریف لائے جبکہ ہم اس وقت اپنے بستروں میں لیٹ چکے تھے۔ میں نے اٹھنے کا ارادہ کیا تو آپ نے فرمایا: ”یوں ہی لیٹے رہو۔“ پھر آپ ہمارے درمیان بیٹھ گئے حتٰی کہ میں نے آپ کے قدموں کو ٹھنڈک اپنے سینے میں محسوس کی۔ اس کے بعد آپ نے فرمایا: ”کیا میں تم دونوں کو وہ چیز نہ تناؤں جو تمہارے لیے خادم سے بہتر ہو؟ جب تم اپنے بستر پر جانے لگو یا سونے کے لیے بستروں میں آؤ تو چونتیس مرتبہ اللہ اکبر، تینتیس مرتبہ سبحان اللہ، اور تینتیس مرتبہ الحمد اللہ کہو، یہ تمہارے لیے خادم سے بہتر ہے۔“ شعبہ نے خالد سے، انہوں نے ابن سیرین سے اس طرح بیان کیا کہ سبحان اللہ چونتیس مرتبہ کہو۔
حدیث حاشیہ:
(1) اس حدیث سے ثابت ہوا کہ ایک مسلمان بیوی اس امر کی پابند ہے کہ وہ شوہر کی خدمت کے علاوہ گھر کے تمام کام سر انجام دے جیسا کہ سیدات اہل بیت، عام مسلمانوں کی خواتین حتی کہ امہات المومنین اپنے اپنے گھروں میں گھر داری کے تمام کام کرتی تھیں، اس لیے بعض فقہاء کا یہ کہنا کہ بیوی پر اپنے شوہر کی دلداری کے علاوہ کچھ واجب نہیں محض بے اصل اور بے بنیاد بات ہے۔ ایک دوسرے واقعے سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ سیدات کو یہ وظیفہ فرض نماز کے بعد پڑھنے کی تلقین کی تھی۔ (سنن أبي داود، الخراج، حدیث: 2987) (2) یہ وظیفہ "تسبیح فاطمہ" کے نام سے مشہور ہے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اس کی خوب خوب پابندی کی حتی کہ صفین کی رات جس میں وہ انتہائی مصروف تھے، اس میں بھی انہوں نے اسے پڑھا جیسا کہ ایک روایت میں ہے۔ (صحیح البخاري، النفقات، حدیث: 5362) البتہ مصروفیت کی وجہ سے رات کے پہلے حصے میں پڑھنے کے بجائے آخری حصے میں اسے پڑھا۔ (سنن أبي داود، الأدب، حدیث: 5064) ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا: ’’بیٹی! اہل صفہ کی فاقہ کشی مجھ سے برداشت نہیں ہوتی۔ وہ اکثر بھوکے رہتے ہیں۔ میں ان غلاموں کو بیچ کر ان کے کھانے کا بندوبست کرنا چاہتا ہوں۔‘‘ (مسند أحمد: 106/1) دوسری حدیث میں ہے کہ آپ نے فرمایا: ’’شہدائے بدر کے یتیم بچے تم سے پہلے لے چکے ہیں، میں انہیں دوں گا، ان کا زیادہ حق ہے۔‘‘ (سنن أبي داود، الخراج، حدیث: 2987) (3) ہمارے ہاں سرکاری افسران میں اقربا پروری کا رجحان ہے، اس حدیث سے ان حضرات کی خوب خوب تردید ہوتی ہے۔ واللہ المستعان
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ بن حجاج نے بیان کیا، ان سے حکم بن عیینہ نے، ان سے ابن ابی لیلی ٰ نے، ان سے علی ؓ نے کہ فاطمہ ؓ نے چکی پیسنے کی تکلیف کی وجہ سے کہ ان کے مبارک ہاتھ کو صدمہ پہنچتا ہے تو نبی کریم ﷺ کی خدمت میں ایک خادم مانگنے کے لئے حاضر ہوئیں۔ آنحضرت ﷺ گھر میں موجود نہیں تھے۔ اس لئے انہوں نے حضرت عائشہ ؓ سے ذکر کیا۔ جب آپ تشریف لائے تو حضرت عائشہ ؓ نے آپ سے اس کا ذکر کیا۔ حضرت علی ؓ نے بیان کیا کہ پھر آنحضرت ﷺ ہمارے یہاں تشریف لائے ہم اس وقت تک اپنے بستروں پر لیٹ چکے تھے میں کھڑا ہونے لگا تو آپ نے فرمایا کہ کیا میں تم دونوں کو وہ چیز نہ بتا دوں جو تمہارے لئے خادم سے بھی بہتر ہو۔ جب تم اپنے بسترپر جانے لگو تو تینتیس (33) مرتبہ اللہ اکبر کہو، تینتیس (33) مرتبہ سبحان اللہ کہو اور تینتیس (33) مرتبہ الحمد للہ کہو، یہ تمہارے لئے خادم سے بہتر ہے اور شعبہ سے روایت ہے ان سے خالد نے، ان سے ابن سیرین نے بیان کیا کہ سبحان اللہ چونتیس مرتبہ کہو۔
حدیث حاشیہ:
مسلم کی روایت میں اتنا زیادہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی شہزادی صاحبہ سے پوچھا میں نے سنا ہے کہ تم مجھ سے ملنے کو آئی تھی لیکن میں نہیں تھا کہو کیا کام ہے؟ انہوں نے عرض کیا حضرت ابا جان میں نے سنا ہے کہ آپ کے پاس لونڈی وغلام آئے ہیں۔ ایک غلام یا لونڈی ہم کو بھی دے دیجئے کیونکہ آٹا پیسنے یا پانی لانے میں مجھ کو سخت مشقت ہو رہی ہے، اس وقت آپ نے یہ وظیفہ بتلایا۔ دوسری روایت میں یوں ہے کہ آپ نے فرمایا صفہ والے لوگ بھوکے ہیں، ان غلاموں کو بیچ کر ان کے کھلا نے کا انتظام کروں گا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Ali (RA) : Fatima complained about the blisters on her hand because of using a mill-stone. She went to ask the Prophet (ﷺ) for servant, but she did not find him (at home) and had to inform 'Aisha (RA) of her need. When he came, 'Aisha (RA) informed him about it. Ali added: The Prophet (ﷺ) came to us when we had gone to our beds. When I was going to get up, he said, "'Stay in your places," and sat between us, till I felt the coolness of the feet on my chest. The Prophet (ﷺ) then said, "Shall I not tell you of a thing which is better for you than a servant? When you (both) go to your beds, say 'Allahu Akbar' thirty-four times, and 'Subhan Allah' thirty-three times, 'Alhamdu 'illah' thirty-three times, for that is better for you than a servant." Ibn Sirin said, "Subhan Allah' (is to be said for) thirty-four times."