باب: بچوں کے لئے برکت کی دعا کرنا اور ان کے سر پر شفقت کا ہاتھ پھیرنا ۔
)
Sahi-Bukhari:
Invocations
(Chapter: To invoke for Allah's Blessings upon the children)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور ابوموسیٰ اشعری ؓ نے کہا کہ میرے یہاں ایک بچہ پیدا ہوا تو نبی کریم ﷺ نے اس کے لئے برکت کی دعا فرمائی ۔
6356.
حضرت عبداللہ بن ثعلبہ بن صعیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ رسول اللہ ﷺ نے ان کی آنکھ پر ہاتھ پھیرا تھا۔ ۔ ۔ انہوں نے حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ جو ایک وتر پڑھتے دیکھا تھا۔
تشریح:
(1) ان تمام احادیث میں اس حقیقت کو بیان کیا گیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بچوں پر خصوصی شفقت فرماتے تھے۔ ان کے سروں پر پیار سے ہاتھ پھیرتے اور ان کے لیے برکت کی دعا کرتے تھے۔ بعض بچے ایسے بھی تھے کہ خوش طبعی کے طور پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے منہ پر اپنی کلی کا پانی پھینکتے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعاؤں کے اثرات نمایاں طور پر نظر آتے تھے۔ (2) اگر کوئی دودھ پینے والا بچہ آپ کے کپڑوں پر پیشاب کر دیتا تو برا نہ مناتے بلکہ پانی منگوا کر خود اس پیشاب زدہ کپڑے پر بہا دیتے تھے۔ حضرت عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ کے بیٹے کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرا نام یوسف رکھا، مجھے گود میں بٹھایا اور میرے سر پر محبت و پیار سے اپنا ہاتھ پھیرا۔ (مسند أحمد: 6/6)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6129
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6356
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
6356
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
6356
تمہید کتاب
لغوی طور پر الدعوات، دعوة کی جمع ہے جو مصدر اور اس سے مراد دعا ہے۔اس کے معنی طلب کرنا، درخواست کرنا اور ترغیب دینا ہیں۔حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے قرآن کریم کے حوالے سے دعا کے متعدد معنی بیان کیے ہیں: ٭ عبادت: ارشاد باری تعالیٰ ہے: (وَلَا تَدْعُ مِن دُونِ اللَّـهِ مَا لَا يَنفَعُكَ وَلَا يَضُرُّكَ) (یونس10: 106) " اللہ کو چھوڑ کر ایسی چیز کی عبادت نہ کرو جو تجھے نہ کوئی نفع دے سکے اور نہ نقصان ہی پہنچا سکے۔"٭مدد طلب کرنا: جیسے قرآن میں ہے:( وَادْعُوا شُهَدَاءَكُم مِّن دُونِ اللَّـهِ) (البقرہ2: 23) " اللہ کے سوا تم دوسرے مددگاروں کو بھی بلالو۔"٭سوال کرنا: فرمان الٰہی ہے: (ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ) (المؤمن40: 60)" مجھ سے سوال کرو میں اسے شرف قبولیت سے نوازوں گا۔"٭قول: یعنی بات کرنا؛ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: (دَعْوَاهُمْ فِيهَا سُبْحَانَكَ اللَّـهُمَّ) (یونس10: 10)" جنت میں ان کا قول، یعنی بات یہ ہوگی اے اللہ! تو پاک ہے۔"٭ نداء، یعنی پکارنا: ارشاد باری تعالیٰ ہے: (يَوْمَ يَدْعُوكُمْ فَتَسْتَجِيبُونَ بِحَمْدِهِ) (بنی اسرائیل17: 52) "جس دن وہ تمھیں آواز دے گا تو تم اس کی تعریف کرتے ہوئے تعمیل ارشاد کرو گے۔"٭ثناء، یعنی تعریف کرنا: قرآن مجید میں ہے: (قُلِ ادْعُوا اللَّـهَ أَوِ ادْعُوا الرَّحْمَـٰنَ) (بنی اسرائیل 17: 110) " تم اس کی تعریف اللہ کے نام سے کرو یا رحمٰن کے نام سے۔"(فتح الباری:11/113) اصطلاحی طور پر دعاکی تعریف یہ ہے: خیرو برکت کے حصول یا کسی شر سے بچاؤ کے لیے اللہ تعالیٰ کے حضور گڑا گڑانا اور اسے پکارنا، دعا کہلاتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کو عبادت قرار دیا ہے، آپ فرماتے ہیں: "دعاہی عبادت ہے۔"(جامع الترمذی، تفسیر القرآن، حدیث:2969) جب دعا عبادت ہے اور انسان کا دنیا میں آنے کا مقصد بھی یہی ہے تو یقیناً اس سے قرب الٰہی بھی حاصل ہو گا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے معمولات کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کی حیات طیبہ اس عبادت سے خوب منور تھی،صبح سے شام تک، شام سے صبح تک خوشی وغمی، صحت ومرض میں کھانے پینے کے بعد،مسرت وفرحت کے دلکش مواقع پر، آندھی اور طوفان میں، الغرض آپ کی زندگی کا ایک ایک لمحہ ہمیں اس عبادت کی ترغیب دیتا ہے۔جب دعا ایک عبادت ہے تو غیر اللہ سے دعا کرنا شرک ٹھہراتا ہے، لہٰذا زبان زد عام کلمات، مثلاً: یا رسول اللہ! یا علی! یا حسین اور یاغوث قسم کے انداز سے دعائیں کرنا، نعرے لگانا صریح شرک ہے۔ان سے بچنا ایک مسلمان کا اولین فرض ہے۔ ہمارے رجحان کے مطابق دعا، مومن کا ہتھیار ہے اور یہ ایک ایسا مؤثر ہتھیار ہے جسے آپ کسی بھی وقت کسی بھی موقع پر چلا سکتے ہیں،لیکن اس ہتھیار کے ذریعے سے بہترین نتائج کے حصول کے لیے چند آداب وشرائط ہیں جن کی تفصیل درج ذیل ہے:٭بوقت دعا انسان یہ اعتقاد رکھے کہ کمال صرف اللہ تعالیٰ کی ذات گرامی، اس کی رحمت اور اس کی قدرت ہی کو حاصل ہے،لہٰذا دعا صرف اور صرف مالک دوجہاں، خالق کائنات سے مانگی جائے۔٭قبولیت کی امید کے ساتھ دعا کی جائے۔اس طرح دعا نہ کرے کہ اسے شک ہوکہ نا معلوم یہ دعا قبول ہوگی یا نہیں بلکہ پوری دل جمعی،نہایت خشوع وخضوع اور اس یقین کے ساتھ کرے کہ اس کی دعا ضرور قبول ہوگی۔٭دعا میں حد سے نہ گزرے، یعنی اللہ تعالیٰ سے ایسی چیز کے متعلق دعا نہ کرے جو شرعاً جائز نہ ہو، مثلاً: کسی گناہ پر مبنی کسی کام یا قطع رحمی کے لیے دعا کی جائے، ایسا کرنا شرعاً حلال نہیں۔٭ دعا کرتے وقت یہ بھی اعتقاد ہونا چاہیے کہ وہ اپنے رب کا محتاج اور خالق کائنات بے نیاز ہے۔اللہ تعالیٰ کی مرضی اور اس کی مشیت کے بغیر وہ کسی بھی نفع یا نقصان کا سزا وار نہیں۔٭دعا کرنے والے کا کھانا، پینا اور لباس حرام کا نہ ہو بلکہ حلال اور طیب ہو کیونکہ مال حرام قبولیت میں رکاوٹ کا باعث ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ خودبھی پاک ہے اور پاک ہی کو قبول کرتا ہے۔٭ دعا کے آغاز میں اللہ تعالیٰ کی حمدو ثنا اور اس خوب تعریف کرے، اس کے علاوہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر بکثرت درود پڑھے، پھر اپنے گناہوں کا اعتراف کرتے ہوئے اس کے فضل وکرم کی درخواست کرے۔٭قبولیت دعا کے اوقات میں دعا کرے، مثلاً: رات کے آخری حصے میں،اذان اور اقامت کے درمیان وقفے میں،فرض نماز کے بعد، جمعہ کے دن عصر کے بعد، بحالت سجدہ اور بارش برسنے کے وقت دعا کرے۔٭ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے غیر ثابت شدہ دعاؤں، مثلاً: دعائے نور، دعائے حبیب، دعائے گنج عرش اور دعائے منزل وغیرہ سے پرہیز کیا جائے۔٭دعا کی قبولیت کی تاخیر میں دعا ترک نہ کرے کیونکہ قبولیت دعا کی تین صورتیں ہوتی ہیں: (1)دعاکے مطابق حاجت پوری ہوجاتی ہے۔ (2) دعا کے برابر کوئی ناگہانی بلا ٹال دی جاتی ہے۔(3) یا اس کی دعا کو آخرت کے لیے ذخیرہ بنا دیا جاتا ہے۔(مسند احمد:3/18)٭ آزمائشوں، سختیوں اور مصیبتوں میں تو سب لوگ ہی دعا کرتے ہیں کشادگی، بے فکری اور فارغ البالی کے اوقات میں دعاؤں میں مشغول رہنا کمال کی علامت ہے۔دعا کرنے سے پہلے اپنا جائزہ ضرور لینا چاہیے ایسا نہ ہو کہ اس پر کوئی سستی وغفلت کا دھبا ہو یا وہ شکوک وشبہات میں مبتلا ہو۔ بہرحال انسان مشکلات ومصائب میں گھر جائے،حالات وواقعات اس کے خلاف ہوجائیں،دشمن، بیماری یا پریشانی کا دباؤ شدید ہوجائے، اپنے بیگانے سب ساتھ چھوڑ جائیں، جب دنیاوی سہارے اور امید، دم توڑ جائیں تو اس وقت دعا کا ہتھیار اور اس کی کارکردگی بہت زیادہ بڑھ جاتی ہے۔ انسان کو چاہیے کہ درج بالا آداب کو ملحوظ رکھتے ہوئے اللہ تعالیٰ سے دعا کرے، ایسے حالات میں کامیابی یقینی اور پکی بات ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت دعا کے متعلق ایک مکمل ضابطہ امت کے حوالے کیا ہے، اس کے لیے انھوں نے اس بڑے عنوان کے تحت انہتر(69) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں پھر انھوں نے ان عنوانات کو ثابت کرنے کے لیے ایک سو پینتالیس(145) مرفوع احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں اکتالیس(41) معلق اور ایک سوچار (104) احادیث متصل سند سے بیان کی ہیں۔ان میں ایک سو اکیس(121)مکرر اور چوبیس (24) خالص ہیں۔امام مسلم رحمہ اللہ نے آٹھ(8) احادیث کے علاوہ باقی تمام احادیث پر اتفاق کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ مختلف صحابۂ کرام اور تابعین عظام کے (9) آثار بھی بیان کیے ہیں۔الغرض امام بخاری رحمہ اللہ نے احادیث وآثار کی روشنی میں دعا کی اہمیت وفضیلت اور آداب وشرائط پر قبولیت کے مقامات واوقات کے متعلق سیر حاصل بحث کی ہے۔ دعا ایک قسم" استعاذہ" یعنی اللہ کی پناہ طلب کرنا ہے۔اس کے متعلق بھی امام بخاری رحمہ اللہ نے چودہ(14) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن میں سے کچھ حسب ذیل ہیں:"فتنوں سے پناہ، انسانوں کے غلبے سے پناہ، عذاب قبر سے پناہ، زندگی اور موت کے فتنے سے پناہ، آگ کے فتنے سے پناہ، غنا اور فقر سے پناہ،گناہ اور تاوان سے پناہ، بزدلی اور سستی سے پناہ،گھٹیا عمر سے پناہ وغیرہ۔دعا کے علاوہ امام بخاری رحمہ اللہ نے تسبیح وتہلیل اور ذکر الٰہی کے فضائل بھی بیان کیے ہیں۔ قرآن وحدیث کی روشنی میں دعا کے متعلق بہت سی دیگر ہدایات سے بھی امت کو آگاہ کیا ہے۔ہمیں چاہیے کہ دل کی گہرائی سے آئندہ آنے والی احادیث کا مطالعہ کریں اور پورے عزم وجزم کے ساتھ ان کے مطابق عمل کرنے کو اپنی زندگی کا حصہ بنائیں کیونکہ حدیث میں ہے کہ جو شخص اللہ تعالیٰ سے دعا نہیں کرتا وہ گویا اللہ تعالیٰ کے غضب میں گرفتار ہے اور جس کے لیے بکثرت دعا کرنے کا دروازہ کھول دیا گیا اس کے لیے گویا رحمت الٰہی کے دروازے کھل جاتے ہیں۔اہل ایمان کا فرض ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ سے مانگنے کے عمل کو اپنا لیں۔اللہ تعالیٰ ہمیں اس پر عمل کی توفیق دے۔ آمین۔۔اللہ تعالیٰ نے فرمایا مجھے پکارو! میں تمہاری پکار قبول کروں گا بلاشبہ جو لوگ میری عبادت سے تکبر کرتے ہیں وہ بہت جلد دوزخ میں ذلت کے ساتھ ہوں گے ۔ایک حدیث میں دعا کو عبادت کہا گیا ہے۔ (سنن ابی داود، الوتر، حدیث: 1479) بلکہ عبادت کا مغز قرار دیا گیا ہے۔ (جامع الترمذی، الدعوات، حدیث: 3371) آیت کی رو سے دعا نہ کرنے پر جہنم کی وعید ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ اس آیت کے ذریعے سے خشک زاہدوں کی تردید کرنا چاہتے ہیں جن کے نزدیک قضا کو تسلیم کرتے ہوئے ترک دعا افضل ہے۔ ہمارے رجحان کے مطابق امام بخاری رحمہ اللہ کا موقف بہت وزنی ہے، اس لیے تفویض کے بجائے دعا کے عمل کو اختیار کرنا ہی انسان کے شایان شان ہے۔ واللہ اعلم
تمہید باب
حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کے ہاں بچہ پیدا ہوا تو وہ اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے کر آئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا نام ابراہیم رکھا اور اس کے لیے برکت کی دعا فرمائی۔ (صحیح البخاری، الادب، حدیث: 6198) (1) محبت اور پیار کی وجہ سے بچوں کے سر پر ہاتھ پھیرنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے اور یتیم بچے کے سر پر ہاتھ پھیرنا تو سخت دلی کا علاج ہے جیسا کہ حدیث میں ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دل کی سختی کی شکایت کی تو آپ نے فرمایا: ''مسکین کو کھانا کھلاؤ اور یتیم کے سر پر ہاتھ پھیرو۔'' (مسند احمد: 2/387)
اور ابوموسیٰ اشعری ؓ نے کہا کہ میرے یہاں ایک بچہ پیدا ہوا تو نبی کریم ﷺ نے اس کے لئے برکت کی دعا فرمائی ۔
حدیث ترجمہ:
حضرت عبداللہ بن ثعلبہ بن صعیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ رسول اللہ ﷺ نے ان کی آنکھ پر ہاتھ پھیرا تھا۔ ۔ ۔ انہوں نے حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ جو ایک وتر پڑھتے دیکھا تھا۔
حدیث حاشیہ:
(1) ان تمام احادیث میں اس حقیقت کو بیان کیا گیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بچوں پر خصوصی شفقت فرماتے تھے۔ ان کے سروں پر پیار سے ہاتھ پھیرتے اور ان کے لیے برکت کی دعا کرتے تھے۔ بعض بچے ایسے بھی تھے کہ خوش طبعی کے طور پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے منہ پر اپنی کلی کا پانی پھینکتے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعاؤں کے اثرات نمایاں طور پر نظر آتے تھے۔ (2) اگر کوئی دودھ پینے والا بچہ آپ کے کپڑوں پر پیشاب کر دیتا تو برا نہ مناتے بلکہ پانی منگوا کر خود اس پیشاب زدہ کپڑے پر بہا دیتے تھے۔ حضرت عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ کے بیٹے کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرا نام یوسف رکھا، مجھے گود میں بٹھایا اور میرے سر پر محبت و پیار سے اپنا ہاتھ پھیرا۔ (مسند أحمد: 6/6)
ترجمۃ الباب:
حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓنے کہا: میرا ایک بچہ پیدا ہوا تو نبی ﷺنے اس کے لیے برکت کی دعا فرمائی
حدیث ترجمہ:
ہم سے ابو الیمان نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم کو شعیب نے خبر دی، انہیں زہری نے، کہا کہ مجھے عبد اللہ بن ثعلبہ بن صعیر ؓ نے خبر دی اور رسول اللہ ﷺ نے ان کی آنکھ یا منہ پر ہاتھ پھیرا تھا۔ انہوں نے حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ کو ایک رکعت وتر نماز پڑھتے دیکھا تھا۔
حدیث حاشیہ:
وتر کے معنی تنہا اکیلا طاق کے ہیں اس کی ضد شفع یعنی جوڑا ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے وتر کو کبھی ساتھ رکعات کبھی پانچ کبھی تین کبھی ایک رکعت پڑھا ہے۔ حضرت ابو ایوب روایت کرتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ اَلْوِتْرُ حَقٌّ عَلَى كُلِّ مُسْلِمٍ, مَنْ أَحَبَّ أَنْ يُوتِرَ بِخَمْسٍ فَلْيَفْعَلْ, وَمَنْ أَحَبَّ أَنْ يُوتِرَ بِثَلَاثٍ فَلْيَفْعَلْ, وَمَنْ أَحَبَّ أَنْ يُوتِرَ بِوَاحِدَةٍ فَلْيَفْعَلْرواہ أبوداود و النسائي و ابن ماجة یعنی نماز وتر ہر مسلمان کے اوپر حق اور ثابت ہے پس جو چاہے وتر سات رکعات پڑھے جو چاہے پانچ رکعت پرھے جو چاہے تین رکعت پڑھے اورجو چاہے ایک رکعت پڑھے۔ ابن عمر کی روایت سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں الوِترُ رکعة مِن آخرِ اللیلِرواہ مسلم یعنی نماز وتر آخری رات میں ہے جو ایک رکعت ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پانچ رکعت وتر پڑھنے کی صورت میں درمیان میں نہیں بلکہ صرف آخری رکعت میں قعدہ فرماتے تھے (رواہ مسلم) پس ایک رکعت وتر جائز درست بلکہ سنت نبوی ہے جو لوگ ایک رکعت وتر ادا کریں ان پر اعتراض کرنے والے خود غلطی پر ہیں، یوں تین پانچ سات تک پڑھ سکتے ہیں۔ حدیث اور باب میں مطابقت اس سے ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عبد اللہ بن ثعلبہ کے سر پر ازراہ شفقت و دعا دست شفقت پھیرا تھا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Abdullah bin Tha'laba bin Su'air (RA) : whose eye Allah's Apostle (ﷺ) had touched, that he had seen Sa'd bin Abi Waqqas (RA) offering one Rak'a only for the Witr prayer.