Sahi-Bukhari:
Invocations
(Chapter: To seek refuge with Allah from Al-Fitan)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
6362.
حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے سوالات کیے گئے۔ جب معاملہ مبالغے کی حد تک پہنچ گیا تو آپ غصے میں آگئے۔ پھر آپ منبر پر تشریف لائے فرمایا: ”آج تم مجھ سے جو بات بھی پوچھو گے میں وضاحت سے بیان کروں گا۔“ اس وقت میں نے دائیں بائیں دیکھا تو تمام صحابہ کرام اپنے سر کپڑوں میں لپیٹے ہوئے رو رہے تھے۔ اس دوران میں ایک آدمی کھڑا ہوا جس کا اگر کسی سے جھگڑا ہو جاتا تو وہ اسے غیر باپ کی طرف منسوب کر دیتا تھا۔ اس نے کہا: اللہ کے رسول! میرا باپ کون ہے؟ آپ نے فرمایا: ”تیرا باپ حذافہ ہے“ اس صورت حال کو دیکھ کر حضرت عمر ؓ اٹھے اور عرض کرنے لگے۔ ہم اللہ کے رب ہونے پر راضی ہیں، اسلام کے دین ہونے پر خوش ہیں اور حضرت محمد ﷺ کے رسول ہونے پر شادماں ہیں، نیز فتنوں سے اللہ کی پناہ مانگتے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”میں نے خیر وشر (کے معاملے) میں آج تک کے دن کی طرح کبھی (کوئی دن) نہیں دکیھا۔ میرے سامنے جنت اور دوزخ کی تصویر لائی گئی یہاں تک کہ میں ان دونوں کو اس دیوار کے پیچھے دیکھا۔ میرے سامنے جنت اور دوزخ کی تصویر لائی گئی یہاں تک کہ میں نے ان دونوں کو اس دیوار کے پیچھے دیکھا۔“ حضرت قتادہ اس حدیث کو بیان کرنے کے بعد اس آیت کا ذکر کیا کرتے تھے: ”اے ایمان والو! ایسی اشیاء کے متعلق سوال نہ کیا کرو اگر تمہارے سامنے ان کا جواب ظاہر ہوجائے تو تمہیں ناگوار گزرے۔“
تشریح:
(1) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا غصہ صحیح فیصلہ کرنے میں حائل نہیں ہوتا تھا کیونکہ آپ کی زبان حق ترجمان سے ہر حال میں حق ہی ظاہر ہوتا تھا جبکہ دوسرے لوگ غصے کی حالت میں صحیح فیصلہ کرنے سے قاصر ہوتے ہیں۔ (2) اس حدیث سے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی فضیلت کا بھی پتا چلتا ہے، انہیں عقل و بصیرت سے پتا چلا کہ کثرت سوال سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تکلیف پہنچتی ہے۔ واللہ أعلم
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6135
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6362
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
6362
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
6362
تمہید کتاب
لغوی طور پر الدعوات، دعوة کی جمع ہے جو مصدر اور اس سے مراد دعا ہے۔اس کے معنی طلب کرنا، درخواست کرنا اور ترغیب دینا ہیں۔حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے قرآن کریم کے حوالے سے دعا کے متعدد معنی بیان کیے ہیں: ٭ عبادت: ارشاد باری تعالیٰ ہے: (وَلَا تَدْعُ مِن دُونِ اللَّـهِ مَا لَا يَنفَعُكَ وَلَا يَضُرُّكَ) (یونس10: 106) " اللہ کو چھوڑ کر ایسی چیز کی عبادت نہ کرو جو تجھے نہ کوئی نفع دے سکے اور نہ نقصان ہی پہنچا سکے۔"٭مدد طلب کرنا: جیسے قرآن میں ہے:( وَادْعُوا شُهَدَاءَكُم مِّن دُونِ اللَّـهِ) (البقرہ2: 23) " اللہ کے سوا تم دوسرے مددگاروں کو بھی بلالو۔"٭سوال کرنا: فرمان الٰہی ہے: (ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ) (المؤمن40: 60)" مجھ سے سوال کرو میں اسے شرف قبولیت سے نوازوں گا۔"٭قول: یعنی بات کرنا؛ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: (دَعْوَاهُمْ فِيهَا سُبْحَانَكَ اللَّـهُمَّ) (یونس10: 10)" جنت میں ان کا قول، یعنی بات یہ ہوگی اے اللہ! تو پاک ہے۔"٭ نداء، یعنی پکارنا: ارشاد باری تعالیٰ ہے: (يَوْمَ يَدْعُوكُمْ فَتَسْتَجِيبُونَ بِحَمْدِهِ) (بنی اسرائیل17: 52) "جس دن وہ تمھیں آواز دے گا تو تم اس کی تعریف کرتے ہوئے تعمیل ارشاد کرو گے۔"٭ثناء، یعنی تعریف کرنا: قرآن مجید میں ہے: (قُلِ ادْعُوا اللَّـهَ أَوِ ادْعُوا الرَّحْمَـٰنَ) (بنی اسرائیل 17: 110) " تم اس کی تعریف اللہ کے نام سے کرو یا رحمٰن کے نام سے۔"(فتح الباری:11/113) اصطلاحی طور پر دعاکی تعریف یہ ہے: خیرو برکت کے حصول یا کسی شر سے بچاؤ کے لیے اللہ تعالیٰ کے حضور گڑا گڑانا اور اسے پکارنا، دعا کہلاتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کو عبادت قرار دیا ہے، آپ فرماتے ہیں: "دعاہی عبادت ہے۔"(جامع الترمذی، تفسیر القرآن، حدیث:2969) جب دعا عبادت ہے اور انسان کا دنیا میں آنے کا مقصد بھی یہی ہے تو یقیناً اس سے قرب الٰہی بھی حاصل ہو گا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے معمولات کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کی حیات طیبہ اس عبادت سے خوب منور تھی،صبح سے شام تک، شام سے صبح تک خوشی وغمی، صحت ومرض میں کھانے پینے کے بعد،مسرت وفرحت کے دلکش مواقع پر، آندھی اور طوفان میں، الغرض آپ کی زندگی کا ایک ایک لمحہ ہمیں اس عبادت کی ترغیب دیتا ہے۔جب دعا ایک عبادت ہے تو غیر اللہ سے دعا کرنا شرک ٹھہراتا ہے، لہٰذا زبان زد عام کلمات، مثلاً: یا رسول اللہ! یا علی! یا حسین اور یاغوث قسم کے انداز سے دعائیں کرنا، نعرے لگانا صریح شرک ہے۔ان سے بچنا ایک مسلمان کا اولین فرض ہے۔ ہمارے رجحان کے مطابق دعا، مومن کا ہتھیار ہے اور یہ ایک ایسا مؤثر ہتھیار ہے جسے آپ کسی بھی وقت کسی بھی موقع پر چلا سکتے ہیں،لیکن اس ہتھیار کے ذریعے سے بہترین نتائج کے حصول کے لیے چند آداب وشرائط ہیں جن کی تفصیل درج ذیل ہے:٭بوقت دعا انسان یہ اعتقاد رکھے کہ کمال صرف اللہ تعالیٰ کی ذات گرامی، اس کی رحمت اور اس کی قدرت ہی کو حاصل ہے،لہٰذا دعا صرف اور صرف مالک دوجہاں، خالق کائنات سے مانگی جائے۔٭قبولیت کی امید کے ساتھ دعا کی جائے۔اس طرح دعا نہ کرے کہ اسے شک ہوکہ نا معلوم یہ دعا قبول ہوگی یا نہیں بلکہ پوری دل جمعی،نہایت خشوع وخضوع اور اس یقین کے ساتھ کرے کہ اس کی دعا ضرور قبول ہوگی۔٭دعا میں حد سے نہ گزرے، یعنی اللہ تعالیٰ سے ایسی چیز کے متعلق دعا نہ کرے جو شرعاً جائز نہ ہو، مثلاً: کسی گناہ پر مبنی کسی کام یا قطع رحمی کے لیے دعا کی جائے، ایسا کرنا شرعاً حلال نہیں۔٭ دعا کرتے وقت یہ بھی اعتقاد ہونا چاہیے کہ وہ اپنے رب کا محتاج اور خالق کائنات بے نیاز ہے۔اللہ تعالیٰ کی مرضی اور اس کی مشیت کے بغیر وہ کسی بھی نفع یا نقصان کا سزا وار نہیں۔٭دعا کرنے والے کا کھانا، پینا اور لباس حرام کا نہ ہو بلکہ حلال اور طیب ہو کیونکہ مال حرام قبولیت میں رکاوٹ کا باعث ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ خودبھی پاک ہے اور پاک ہی کو قبول کرتا ہے۔٭ دعا کے آغاز میں اللہ تعالیٰ کی حمدو ثنا اور اس خوب تعریف کرے، اس کے علاوہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر بکثرت درود پڑھے، پھر اپنے گناہوں کا اعتراف کرتے ہوئے اس کے فضل وکرم کی درخواست کرے۔٭قبولیت دعا کے اوقات میں دعا کرے، مثلاً: رات کے آخری حصے میں،اذان اور اقامت کے درمیان وقفے میں،فرض نماز کے بعد، جمعہ کے دن عصر کے بعد، بحالت سجدہ اور بارش برسنے کے وقت دعا کرے۔٭ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے غیر ثابت شدہ دعاؤں، مثلاً: دعائے نور، دعائے حبیب، دعائے گنج عرش اور دعائے منزل وغیرہ سے پرہیز کیا جائے۔٭دعا کی قبولیت کی تاخیر میں دعا ترک نہ کرے کیونکہ قبولیت دعا کی تین صورتیں ہوتی ہیں: (1)دعاکے مطابق حاجت پوری ہوجاتی ہے۔ (2) دعا کے برابر کوئی ناگہانی بلا ٹال دی جاتی ہے۔(3) یا اس کی دعا کو آخرت کے لیے ذخیرہ بنا دیا جاتا ہے۔(مسند احمد:3/18)٭ آزمائشوں، سختیوں اور مصیبتوں میں تو سب لوگ ہی دعا کرتے ہیں کشادگی، بے فکری اور فارغ البالی کے اوقات میں دعاؤں میں مشغول رہنا کمال کی علامت ہے۔دعا کرنے سے پہلے اپنا جائزہ ضرور لینا چاہیے ایسا نہ ہو کہ اس پر کوئی سستی وغفلت کا دھبا ہو یا وہ شکوک وشبہات میں مبتلا ہو۔ بہرحال انسان مشکلات ومصائب میں گھر جائے،حالات وواقعات اس کے خلاف ہوجائیں،دشمن، بیماری یا پریشانی کا دباؤ شدید ہوجائے، اپنے بیگانے سب ساتھ چھوڑ جائیں، جب دنیاوی سہارے اور امید، دم توڑ جائیں تو اس وقت دعا کا ہتھیار اور اس کی کارکردگی بہت زیادہ بڑھ جاتی ہے۔ انسان کو چاہیے کہ درج بالا آداب کو ملحوظ رکھتے ہوئے اللہ تعالیٰ سے دعا کرے، ایسے حالات میں کامیابی یقینی اور پکی بات ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت دعا کے متعلق ایک مکمل ضابطہ امت کے حوالے کیا ہے، اس کے لیے انھوں نے اس بڑے عنوان کے تحت انہتر(69) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں پھر انھوں نے ان عنوانات کو ثابت کرنے کے لیے ایک سو پینتالیس(145) مرفوع احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں اکتالیس(41) معلق اور ایک سوچار (104) احادیث متصل سند سے بیان کی ہیں۔ان میں ایک سو اکیس(121)مکرر اور چوبیس (24) خالص ہیں۔امام مسلم رحمہ اللہ نے آٹھ(8) احادیث کے علاوہ باقی تمام احادیث پر اتفاق کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ مختلف صحابۂ کرام اور تابعین عظام کے (9) آثار بھی بیان کیے ہیں۔الغرض امام بخاری رحمہ اللہ نے احادیث وآثار کی روشنی میں دعا کی اہمیت وفضیلت اور آداب وشرائط پر قبولیت کے مقامات واوقات کے متعلق سیر حاصل بحث کی ہے۔ دعا ایک قسم" استعاذہ" یعنی اللہ کی پناہ طلب کرنا ہے۔اس کے متعلق بھی امام بخاری رحمہ اللہ نے چودہ(14) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن میں سے کچھ حسب ذیل ہیں:"فتنوں سے پناہ، انسانوں کے غلبے سے پناہ، عذاب قبر سے پناہ، زندگی اور موت کے فتنے سے پناہ، آگ کے فتنے سے پناہ، غنا اور فقر سے پناہ،گناہ اور تاوان سے پناہ، بزدلی اور سستی سے پناہ،گھٹیا عمر سے پناہ وغیرہ۔دعا کے علاوہ امام بخاری رحمہ اللہ نے تسبیح وتہلیل اور ذکر الٰہی کے فضائل بھی بیان کیے ہیں۔ قرآن وحدیث کی روشنی میں دعا کے متعلق بہت سی دیگر ہدایات سے بھی امت کو آگاہ کیا ہے۔ہمیں چاہیے کہ دل کی گہرائی سے آئندہ آنے والی احادیث کا مطالعہ کریں اور پورے عزم وجزم کے ساتھ ان کے مطابق عمل کرنے کو اپنی زندگی کا حصہ بنائیں کیونکہ حدیث میں ہے کہ جو شخص اللہ تعالیٰ سے دعا نہیں کرتا وہ گویا اللہ تعالیٰ کے غضب میں گرفتار ہے اور جس کے لیے بکثرت دعا کرنے کا دروازہ کھول دیا گیا اس کے لیے گویا رحمت الٰہی کے دروازے کھل جاتے ہیں۔اہل ایمان کا فرض ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ سے مانگنے کے عمل کو اپنا لیں۔اللہ تعالیٰ ہمیں اس پر عمل کی توفیق دے۔ آمین۔۔اللہ تعالیٰ نے فرمایا مجھے پکارو! میں تمہاری پکار قبول کروں گا بلاشبہ جو لوگ میری عبادت سے تکبر کرتے ہیں وہ بہت جلد دوزخ میں ذلت کے ساتھ ہوں گے ۔ایک حدیث میں دعا کو عبادت کہا گیا ہے۔ (سنن ابی داود، الوتر، حدیث: 1479) بلکہ عبادت کا مغز قرار دیا گیا ہے۔ (جامع الترمذی، الدعوات، حدیث: 3371) آیت کی رو سے دعا نہ کرنے پر جہنم کی وعید ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ اس آیت کے ذریعے سے خشک زاہدوں کی تردید کرنا چاہتے ہیں جن کے نزدیک قضا کو تسلیم کرتے ہوئے ترک دعا افضل ہے۔ ہمارے رجحان کے مطابق امام بخاری رحمہ اللہ کا موقف بہت وزنی ہے، اس لیے تفویض کے بجائے دعا کے عمل کو اختیار کرنا ہی انسان کے شایان شان ہے۔ واللہ اعلم
تمہید باب
فِتَن، فتنة کی جمع ہے جس کے معنی امتحان ہیں۔ قرآن کریم نے اچھے برے دونوں معنوں میں اسے استعمال کیا ہے لیکن عام طور پر مکروہ اور ناپسندیدہ اشیاء کے لیے یہ لفظ بولا جاتا ہے، مثلاً: گناہ، کفر، قتال، جنگ و جدال اور کسی چیز کو اس کے اصل مقام سے پھیر دینے کے لیے اسے استعمال کیا جاتا ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کو حدیث سمیت کتاب الفتن میں بھی بیان کیا ہے۔ (صحیح البخاری، الفتن، حدیث: 7089)
حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے سوالات کیے گئے۔ جب معاملہ مبالغے کی حد تک پہنچ گیا تو آپ غصے میں آگئے۔ پھر آپ منبر پر تشریف لائے فرمایا: ”آج تم مجھ سے جو بات بھی پوچھو گے میں وضاحت سے بیان کروں گا۔“ اس وقت میں نے دائیں بائیں دیکھا تو تمام صحابہ کرام اپنے سر کپڑوں میں لپیٹے ہوئے رو رہے تھے۔ اس دوران میں ایک آدمی کھڑا ہوا جس کا اگر کسی سے جھگڑا ہو جاتا تو وہ اسے غیر باپ کی طرف منسوب کر دیتا تھا۔ اس نے کہا: اللہ کے رسول! میرا باپ کون ہے؟ آپ نے فرمایا: ”تیرا باپ حذافہ ہے“ اس صورت حال کو دیکھ کر حضرت عمر ؓ اٹھے اور عرض کرنے لگے۔ ہم اللہ کے رب ہونے پر راضی ہیں، اسلام کے دین ہونے پر خوش ہیں اور حضرت محمد ﷺ کے رسول ہونے پر شادماں ہیں، نیز فتنوں سے اللہ کی پناہ مانگتے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”میں نے خیر وشر (کے معاملے) میں آج تک کے دن کی طرح کبھی (کوئی دن) نہیں دکیھا۔ میرے سامنے جنت اور دوزخ کی تصویر لائی گئی یہاں تک کہ میں ان دونوں کو اس دیوار کے پیچھے دیکھا۔ میرے سامنے جنت اور دوزخ کی تصویر لائی گئی یہاں تک کہ میں نے ان دونوں کو اس دیوار کے پیچھے دیکھا۔“ حضرت قتادہ اس حدیث کو بیان کرنے کے بعد اس آیت کا ذکر کیا کرتے تھے: ”اے ایمان والو! ایسی اشیاء کے متعلق سوال نہ کیا کرو اگر تمہارے سامنے ان کا جواب ظاہر ہوجائے تو تمہیں ناگوار گزرے۔“
حدیث حاشیہ:
(1) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا غصہ صحیح فیصلہ کرنے میں حائل نہیں ہوتا تھا کیونکہ آپ کی زبان حق ترجمان سے ہر حال میں حق ہی ظاہر ہوتا تھا جبکہ دوسرے لوگ غصے کی حالت میں صحیح فیصلہ کرنے سے قاصر ہوتے ہیں۔ (2) اس حدیث سے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی فضیلت کا بھی پتا چلتا ہے، انہیں عقل و بصیرت سے پتا چلا کہ کثرت سوال سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تکلیف پہنچتی ہے۔ واللہ أعلم
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے حفص بن عمر حوضی نے بیان کیا، کہا ہم سے ہشام دستوائی نے بیان کیا، ان سے قتادہ نے اور ان سے انس ؓ نے کہ صحابہ نے رسول اللہ ﷺ سے سوالات کئے اور جب بہت زیادہ کئے تو آنحضرتﷺ کو ناگواری ہوئی، پھر آپ ﷺ ممبر پر تشریف لائے اور فرمایا، آج تم مجھ سے جو بات پوچھو گے میں بتاؤں گا۔ اس وقت میں نے دائیں بائیں دیکھا تو تمام صحابہ سر اپنے کپڑوں میں لپیٹے ہوئے رو رہے تھے، ایک صاحب جن کا اگر کسی سے جھگڑا ہوتا تو انہیں ان کے باپ کے سوا کسی اور کی طرف (طعنہ کے طورپر) منسوب کیا جاتا تھا۔ انہوں نے پوچھا یا رسول اللہ! میرے باپ کون ہیں؟ آنحضر تﷺ نے فرمایا کہ حذافہ۔ اس کے بعد عمر ؓ اٹھے اور عرض کیا ہم اللہ سے راضی ہیں کہ ہمارا رب ہے، اسلام سے کہ وہ دین ہے، محمد ﷺ سے کہ وہ سچے رسول ہیں، ہم فتنوں سے اللہ کی پناہ مانگتے ہیں۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا، آج کی طرح خیروشر کے معاملہ میں میں نے کوئی دن نہیں دیکھا، میرے سامنے جنت اور دوزخ کی تصویر لائی گئی اور میں نے انہیں دیوار کے اوپر دیکھا۔ قتادہ اس حدیث کو بیان کرتے وقت سورۃ مائدہ کی اس آیت کا ذکر کیا کرتے تھے ”اے ایمان والو! ایسی چیزوں کے متعلق نہ سوال کرو کہ اگر تمہارے سامنے ان کا جواب ظاہر ہو جائے تو تم کو برا لگے۔“
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Anas (RA) : Once the people started asking Allah's Apostle (ﷺ) questions, and they asked so many questions that he became angry and ascended the pulpit and said, "I will answer whatever questions you may ask me today." I looked right and left and saw everyone covering his face with his garment and weeping. Behold ! There was a man who, on quarreling with the people, used to be called as a son of a person other than his father. He said, "O Allah's Apostle (ﷺ) ! Who is my father?" The Prophet (ﷺ) replied, "Your father is Hudhaifa." And then 'Umar got up and said, "We accept Allah as our Lord, and Islam as (our) religion, and Muhammad as (our) Apostle; and we seek refuge with Allah from the afflictions." Allah's Apostle (ﷺ) said, " I have never seen a day like today in its good and its evil for Paradise and the Hell Fire were displayed in front of me, till I saw them just beyond this wall." Qatada, when relating this Hadith, used to mention the following Verse:-- 'O you who believe! Ask not questions about things which, If made plain to you, May cause you trouble. (5.101)