Sahi-Bukhari:
To make the Heart Tender (Ar-Riqaq)
(Chapter: Health and leisure)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور نبی کریم ﷺکا یہ فرمان کہ زندگی درحقیقت آخرت ہی کی زندگی ہے۔تشریح : اس کتاب میں امام بخای نے وہ احادیث جمع کی ہیں جنہیں پڑھ کر دل میں رقت اور نرمی پیدا ہوتی ہے،رقاق رقیقۃ کی جمع ہے جس کے معنیٰ ہیں نرمی ، رحم ، شرمندگی، پتلاپن۔ حافظ ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں۔ ”الرقاق والرقائق جمع رقیقۃ، وسمیت ھذہ الاحادیث بذالک لان فی کل منھا ما یحدث فی القلب رقۃ ، قال اھل اللغۃ الرقۃ الرحمۃ وضد الغلظ : یقال للکثیر الحیاء رق وجہہ استحیاء ۔ وقال الراغب : متی کانت الرقۃ فی جسم وضد ھا الصفاقۃ کثوب رقیق وثوب صفیق۔ ومتی کانت فی نفس فضدھا القسوۃ کرقیق القلب وقاسی القلب۔ “ ( فتح الباری ) یعنی رقاق اور رقائق رقیقہ کی جمع ہے اور ان احا دیث کو یہ نام اس وجہ سے دیاگیا ہے کیونکہ ان میں سے ہر ایک میں ایسی باتیں ہیں جن سے قلب میں رقت پیداہوتی ہے۔ اہل لغت کہتے ہیں رقت یعنی رحم ( نرمی ،غیرت ) اس کی ضد غلظ ( سختی ) ہے چنانچہ زیادہ غیرت مند شخص کے بارے میں کہتے ہیں حیاسے اس کا چہرہ شرم آلود ہوگیا۔ امام راغب فرماتے ہیں۔ رقہ کا لفظ جب جسم پر بولا جاتا ہے تو اس کی ضد صفاقہ ( موٹا پن ) آتی ہے، جیسے ثوب رقیق ( پتلا کپڑا ) اور ثوب صفیق ( موٹا کپڑا ) اور جب کسی ذات پر بولا جاتا ہے تو اس کی ضد قسوۃ ( سختی ) آتی ہے جیسے رقیق القلب ( نرم دل ) اور قاسی القلب ( سخت دل)‘‘
6412.
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ’’دو نعمتیں ایسی ہیں کہ اکثر لوگ ان کی قدر نہیں کرتے، وہ صحت اور فراغت ہے۔‘‘
تشریح:
(1) نعمت، وہ منفعت ہے جو کسی پر بطور احسان کی جاتی ہے۔ دنیا میں اللہ تعالیٰ کی دو نعمتیں ایسی ہیں جن کی اکثر و بیشتر قدر نہیں کی جاتی اور لوگ انہیں غلط استعمال کر کے خسارے میں رہتے ہیں۔ اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ صحت و فراغت دو ایسی چیزیں ہیں اگر انہیں مناسب طور پر استعمال نہ کیا جائے تو صحت مند اور فارغ انسان گھاٹے میں رہتا ہے کیونکہ جب انسان صحت و تندرستی کے زمانے میں اللہ تعالیٰ کی اطاعت نہیں کرتا تو بیماری کے زمانے میں بطریق اولیٰ نہیں کرے گا۔ اسی طرح جب اسے فرصت کے لمحات میسر ہیں تو وہ انہیں کسی اچھے عمل کے بغیر یوں ہی گزار دے تو اس سے بڑھ کر خسارے میں رہنے والا دوسرا کون ہو سکتا ہے۔ (2) بعض اوقات انسان تندرست ہوتا ہے لیکن روزی کے اسباب میں مصروف رہنے کے باعث عبادت کے لیے فارغ نہیں ہوتا اور پھر ایسا بھی ہوتا ہے کہ روزی کے اسباب سے فارغ ہوتا ہے لیکن تندرستی کی نعمت سے محروم ہوتا ہے تو بیماری کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کو یاد نہیں کر پاتا۔ جب انسان صحت مند بھی ہو اور اسے فراغت بھی میسر ہو تو ایسے میں اگر فضائل و کمالات سے قاصر رہے تو مکمل طور پر خسارے میں رہتا ہے۔ (3) چونکہ دنیا، آخرت کی کھیتی اور اس کی تجارت ہے، اس بنا پر انسان کو چاہیے کہ وہ بدن کی صحت اور دنیا میں فراغت جیسی دونوں نعمتوں کو اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور فرمانبرداری میں لگائے اور آخرت کی کامیابی میں کوشاں رہے۔ واللہ المستعان
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6183
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6412
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
6412
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
6412
تمہید کتاب
اللہ تعالیٰ نے کائنات کی ہر چیز انسان کے فائدے کے لیے پیدا کی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ''وہی تو ہے جس نے زمین پر موجود تمام چیزیں تمہاری خاطر پیدا کیں۔'' (البقرۃ: 2/29) اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان کو زمین کی ہر چیز سے فائدہ اٹھانے کا حق ہے بلکہ دوسرے مقام پر اس سے بھی زیادہ وضاحت کے ساتھ فرمایا: ''جو کچھ آسمانوں میں ہے یا زمین میں، اس نے سب کچھ اپنی طرف سے تمہارے لیے مسخر کر دیا ہے۔'' (الجاثیۃ: 45/13) کائنات کی ہر چیز سے انسان کو کچھ نہ کچھ فائدہ ضرور پہنچ رہا ہے، مثلاً: پانی، ہوا، زمین میں مدفون خزانے، سمندر، پہاڑ، سورج، چاند اور ستارے، الغرض ہر چیز انسان کے فائدے کے لیے پیدا کی گئی ہے۔ لیکن انسان کو اللہ تعالیٰ نے اپنی عبادت ہی کے لیے پیدا کیا ہے تاکہ کائنات کی اشیاء سے فائدہ اٹھا کر محسن کا شکر ادا کرے اور اس کی عبادت میں خود کو مصروف رکھے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ''میں نے جنوں اور انسانوں کو صرف اس لیے پیدا کیا ہے کہ وہ میری عبادت کریں۔'' (الذاریات: 51/56)اس آیت کے پیش نظر انسان ہر وقت اللہ تعالیٰ کا بندہ ہے اور اسے ہر حال میں اس کی اطاعت اور بندگی میں مصروف رہنا چاہیے لیکن بعض اوقات انسان حصول دنیا میں اس قدر مگن ہو جاتا ہے کہ وہ اپنے خالق کے حق کو نظر انداز کر کے صرف دنیا کا ہو کر رہ جاتا ہے، پھر جوں جوں اللہ تعالیٰ سے دور ہوتا جاتا ہے اس کا دل سخت سے سخت تر ہوتا چلا جاتا ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ''یہ اہل ایمان ان لوگوں کی طرح نہ ہو جائیں جنہیں ان سے پہلے کتاب دی گئی تھی۔ پھر ان پر لمبی مدت گزر گئی تو ان کے دل سخت ہو گئے۔'' (الحدید: 57/16) اس آیت میں تنبیہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی یاد اور بندگی سے غافل رہنا ایسی بیماری ہے جس سے دل سخت ہو جاتے ہیں، پھر ان میں فسق و فجور کے داخلے کے لیے دروازہ کھل جاتا ہے۔ اس آیت کریمہ سے یہ بھی معلوم ہوا کہ دلوں کی سختی اللہ تعالیٰ کی عبادت میں رکاوٹ کا باعث ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کی برائی کو کئی ایک مقام پر بیان فرمایا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ''ان لوگوں کے لیے ہلاکت ہے جن کے دل اللہ کی یاد سے (غفلت کی بنا پر) سخت ہو گئے۔'' (الزمر: 39/22) دوسرے مقام پر فرمایا: ''پھر تمہارے دل سخت ہو گئے اتنے سخت جیسے پتھر ہوں یا ان سے بھی سخت تر۔'' (البقرۃ: 2/74)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کی رہنمائی کرتے ہوئے مختلف انداز میں ''اصلاح قلوب، یعنی دلوں کی اصلاح اور درستی کی تدابیر بتائی ہیں، نیز بتایا ہے کہ اعمال کی اصلاح، دلوں کی اصلاح پر موقوف ہے، آپ نے فرمایا: ''آگاہ رہو! جسم میں ایک ایسا ٹکڑا ہے اگر وہ صحیح ہو تو سارا جسم صحیح رہتا ہے اور اگر وہ خراب ہو تو سارا جسم خراب ہو جاتا ہے۔ آگاہ رہو وہ دل ہے۔'' (صحیح البخاری، الایمان، حدیث: 52) امام بخاری رحمہ اللہ نے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کرتے ہوئے ''اصلاح قلوب'' کے لیے اپنی صحیح میں ایک عنوان ''کتاب الرقاق'' کے نام سے قائم کیا ہے۔رِقَاق، رَقِيقَة کی جمع ہے جس کے معنی ہیں: نرمی۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت ایک سو ترانوے (193) ایسی مرفوع احادیث پیش کی ہیں جنہیں پڑھ کر دل میں رقت اور نرمی پیدا ہوتی ہے، جن میں تینتیس (33) معلق اور ایک سو ساٹھ (160) احادیث متصل اسناد سے مروی ہیں، پھر ان میں ایک سو چونتیس (134) مکرر اور انسٹھ (59) احادیث خالص ہیں۔ مرفوع احادیث کے علاوہ مختلف صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام رحمہم اللہ سے مروی سترہ (17) آثار بھی ذکر کیے ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے ان احادیث و آثار پر تریپن چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں تاکہ اس کے تمام پہلوؤں کا احاطہ کیا جائے۔ ان میں دنیا کی بے ثباتی، آخرت کا دوام اور ہمیشگی، مال و دولت سے بے نیازی، فکر آخرت، اخلاص و للہیت، تواضع و انکسار، گناہوں سے نفرت اور نیک اعمال سے محبت اور ان کے اثرات کو خاص طور پر بیان کیا ہے۔دور حاضر میں آزاد فکری اور روشن خیالی کا بہت چرچا ہے، ایسے حالات میں مذکورہ عنوان اور اس کے تحت پیش کردہ احادیث اکسیر اعظم کی حیثیت رکھتی ہیں۔ اس عالم رنگ و بو میں دلوں میں بگاڑ پیدا کرنے کے لیے بہت سے عوام کارفرما ہیں لیکن ان کی اصلاح کے لیے فکر آخرت ہی کافی ہے۔ ان احادیث کو پڑھیے اور اپنے اندر فکر آخرت پیدا کرنے کی کوشش کیجیے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں عمل کی توفیق دے۔ آمین یا رب العالمین
تمہید باب
دنیا ہر وقت انسان کے سامنے اور آخرت سراسر غائب اور اس کی آنکھوں سے اوجھل ہے، اس لیے عام طور پر دنیا ہی کی فکر اور اس کی طلب غالب رہتی ہے، گویا یہ انسان کی فطری کمزوری ہے۔ قرآن و سنت میں انسان کی اس کمزوری کو دور کرنے کے لیے ہدایات دی گئی ہیں اور آخرت کے مقابلے میں دنیا کا جو درجہ ہے اور دنیا کے مقابلے میں آخرت کا جو مقام ہے اسے واضح کرنے کی بھرپور کوشش کی گئی ہے۔ قرآن مجید میں تو دنیا کی بے وقعتی اور اس کے مقابلے میں آخرت کی پائیداری کو ایک خاص انداز میں واضح کیا گیا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ''یہ دنیوی زندگی تو چند دنوں کے استعمال کے لیے ہے اور آخرت ہی اصل رہنے کی جگہ ہے۔'' (المؤمن: 40/39) ایک دوسرے مقام پر فرمایا: ''آپ کہہ دیں کہ دنیا کا سرمایہ تو بہت قلیل ہے اور پرہیزگاروں کے لیے تو آخرت ہی بہتر ہے۔'' (النساء: 4/77) (2) امام بخاری رحمہ اللہ کا اس عنوان سے بھی مقصود ہے کہ انسان، دنیا کو بالکل حقیر اور بے قیمت خیال کرے اور اسے اپنا مطلوب و مقصود نہ بنائے بلکہ آخرت کو اپنی اصل منزل اور دائمی وطن قرار دے۔ اس کے علاوہ اگر اسے دنیا میں صحت و فرصت کے لمحات میسر ہیں تو انہیں غنیمت سمجھے اور انہیں اخروی کامیابی کے لیے استعمال کرے۔ بہرحال انسان کی سعادت اور اس کی اخروی کامیابی کے لیے یہ بنیادی شرط ہے کہ اس کی نظر میں دنیا اور اس کے سازوسامان کی کوئی حیثیت نہ ہو بلکہ ہر وقت اس کے دل کا رخ آخرت ہی کی طرف رہنا چاہیے اور لا عيش إلا عيش الآخرة اس کے دل کی صدا اور روح کی غذا ہو۔ واللہ المستعان
اور نبی کریم ﷺکا یہ فرمان کہ زندگی درحقیقت آخرت ہی کی زندگی ہے۔تشریح : اس کتاب میں امام بخای نے وہ احادیث جمع کی ہیں جنہیں پڑھ کر دل میں رقت اور نرمی پیدا ہوتی ہے،رقاق رقیقۃ کی جمع ہے جس کے معنیٰ ہیں نرمی ، رحم ، شرمندگی، پتلاپن۔ حافظ ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں۔ ”الرقاق والرقائق جمع رقیقۃ، وسمیت ھذہ الاحادیث بذالک لان فی کل منھا ما یحدث فی القلب رقۃ ، قال اھل اللغۃ الرقۃ الرحمۃ وضد الغلظ : یقال للکثیر الحیاء رق وجہہ استحیاء ۔ وقال الراغب : متی کانت الرقۃ فی جسم وضد ھا الصفاقۃ کثوب رقیق وثوب صفیق۔ ومتی کانت فی نفس فضدھا القسوۃ کرقیق القلب وقاسی القلب۔ “ ( فتح الباری ) یعنی رقاق اور رقائق رقیقہ کی جمع ہے اور ان احا دیث کو یہ نام اس وجہ سے دیاگیا ہے کیونکہ ان میں سے ہر ایک میں ایسی باتیں ہیں جن سے قلب میں رقت پیداہوتی ہے۔ اہل لغت کہتے ہیں رقت یعنی رحم ( نرمی ،غیرت ) اس کی ضد غلظ ( سختی ) ہے چنانچہ زیادہ غیرت مند شخص کے بارے میں کہتے ہیں حیاسے اس کا چہرہ شرم آلود ہوگیا۔ امام راغب فرماتے ہیں۔ رقہ کا لفظ جب جسم پر بولا جاتا ہے تو اس کی ضد صفاقہ ( موٹا پن ) آتی ہے، جیسے ثوب رقیق ( پتلا کپڑا ) اور ثوب صفیق ( موٹا کپڑا ) اور جب کسی ذات پر بولا جاتا ہے تو اس کی ضد قسوۃ ( سختی ) آتی ہے جیسے رقیق القلب ( نرم دل ) اور قاسی القلب ( سخت دل)‘‘
حدیث ترجمہ:
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ’’دو نعمتیں ایسی ہیں کہ اکثر لوگ ان کی قدر نہیں کرتے، وہ صحت اور فراغت ہے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
(1) نعمت، وہ منفعت ہے جو کسی پر بطور احسان کی جاتی ہے۔ دنیا میں اللہ تعالیٰ کی دو نعمتیں ایسی ہیں جن کی اکثر و بیشتر قدر نہیں کی جاتی اور لوگ انہیں غلط استعمال کر کے خسارے میں رہتے ہیں۔ اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ صحت و فراغت دو ایسی چیزیں ہیں اگر انہیں مناسب طور پر استعمال نہ کیا جائے تو صحت مند اور فارغ انسان گھاٹے میں رہتا ہے کیونکہ جب انسان صحت و تندرستی کے زمانے میں اللہ تعالیٰ کی اطاعت نہیں کرتا تو بیماری کے زمانے میں بطریق اولیٰ نہیں کرے گا۔ اسی طرح جب اسے فرصت کے لمحات میسر ہیں تو وہ انہیں کسی اچھے عمل کے بغیر یوں ہی گزار دے تو اس سے بڑھ کر خسارے میں رہنے والا دوسرا کون ہو سکتا ہے۔ (2) بعض اوقات انسان تندرست ہوتا ہے لیکن روزی کے اسباب میں مصروف رہنے کے باعث عبادت کے لیے فارغ نہیں ہوتا اور پھر ایسا بھی ہوتا ہے کہ روزی کے اسباب سے فارغ ہوتا ہے لیکن تندرستی کی نعمت سے محروم ہوتا ہے تو بیماری کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کو یاد نہیں کر پاتا۔ جب انسان صحت مند بھی ہو اور اسے فراغت بھی میسر ہو تو ایسے میں اگر فضائل و کمالات سے قاصر رہے تو مکمل طور پر خسارے میں رہتا ہے۔ (3) چونکہ دنیا، آخرت کی کھیتی اور اس کی تجارت ہے، اس بنا پر انسان کو چاہیے کہ وہ بدن کی صحت اور دنیا میں فراغت جیسی دونوں نعمتوں کو اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور فرمانبرداری میں لگائے اور آخرت کی کامیابی میں کوشاں رہے۔ واللہ المستعان
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے مکی بن ابراہیم نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم کو عبد اللہ بن سعید نے خبر دی، وہ ابو ہند کے صاحب زادے ہیں، انہیں ان کے والد نے اور ان سے حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا دو نعمتیں ایسی ہیں کہ اکثر لوگ ان کی قدر نہیں کرتے، صحت اور فراغت۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Ibn 'Abbas (RA) : The Prophet (ﷺ) said, "There are two blessings which many people lose: (They are) Health and free time for doing good."