باب: اگر امام کو تکبیر ہو چکنے کے بعد کوئی ضرورت پیش آئے تو کیا کرے؟
)
Sahi-Bukhari:
Call to Prayers (Adhaan)
(Chapter: If the Imam is confronted with a problem after the Iqama)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
642.
حضرت انس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: ایک دفعہ نماز کے لیے اقامت ہو گئی جبکہ نبی ﷺ مسجد کے ایک گوشے میں کسی سے آہستہ آہستہ باتیں کر رہے تھے چنانچہ آپ نماز کے لیے کھڑے نہیں ہوئے یہاں تک کہ کچھ لوگوں کو نیند آنے لگی۔
تشریح:
(1) بعض حضرات کا موقف ہے کہ جب مؤذن قد قامت الصلاة کے الفاظ کہہ دے تو امام کے لیے ضروری ہوجاتا ہے کہ وہ اختتام پر تکبیر تحریمہ کہہ دے اور نماز شروع کردے۔ امام بخاری ؒ فرماتےہیں کہ یہ تشریع ایجادِ بندہ ہے، چنانچہ اقامت کے بعد اگر امام کوکوئی ضرورت آپڑے تو اسے پورا کرسکتا ہے، یعنی اقامت کے فوراً بعد امام کو نماز شروع کرنا لازم نہیں، نیز اگر تاخیر ہو جائے تو اقامت کا اعادہ بھی ضروری نہیں۔ (2) امام بخاری ؒ کا مقصد شرعی سہولتوں کو بیان کرنا ہے۔ آج مصروفیاتِ زندگی حد سے بڑھ چکی ہیں، اس لیے امام کو مقتدیوں کا خیال رکھنا ضروری ہے لیکن طریقۂ نبوی کو نظر انداز نہ کیا جائے۔ واضح رہے کہ سونے سے مراد اونگھنا ہے، جیسا کہ ابن حبان کی روایت میں ہے۔ چونکہ عشاء کی نماز کے وقت میں کافی وسعت ہوتی ہے اور باتیں بے حد ضروری تھیں، اس لیے رسول اللہ ﷺ نے نماز کو مؤخر فرما دیا، نیز یہ سہولت صرف امام کے لیے ہے، مقتدیوں کے لیے نہیں۔ (فتح الباري:163/2) اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ بوقت ضرورت اقامت اور تکبیر تحریمہ کے درمیان فصل کیا جاسکتا ہے، بلاوجہ ایسا کرنا ناپسندیدہ عمل ہے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
637
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
642
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
642
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
642
تمہید کتاب
اذان کے لغوی معنی اعلان کرنے اور اطلاع دینے کے ہیں۔شریعت کی اصطلاح میں مخصوص اوقات میں مخصوص الفاظ کے ساتھ نماز کے وقت کا اعلان کرنا اذان کہلاتا ہے ۔حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے علامہ قرطبی رحمہ اللہ کے حوالے سے لکھا ہے: اذان مختصر ہونے کے باوجود عقیدے سے متعلق بڑے اہم مسائل پر مشتمل ہے کیونکہ اس کا آغاز الله اكبر سے ہوتا ہے۔اس جملے میں ذات باری تعالیٰ کی کبریائی،اس کے وجود اور اس کی کمال عظمت کی زبردست دلیل ہے،پھر شرک کا انکار اور توحید کا اثبات، پھر رسالت کی گواہی دی جاتی ہے۔اس کے بعد ایک مخصوص اطاعت،یعنی نماز کی دعوت دی جاتی ہے جس کے متعلق جملہ ہدایات رسول ہی سے مل سکتی ہیں،پھر فلاح کی دعوت جو در حقیقت بقاودوام،یعنی یوم آخرت سے عبارت ہے ،پھرکلماتِ اذان میں میں تکرارا ہے جو ایک بندۂ مسلم کے لیے تجدید ایمان کا باعث ہے تاکہ نماز کا آغاز ایمان کامل سے ہو۔اذان میں اوقات نماز کی اطلاع کے علاوہ کئی ایک فوائد ہیں جن میں نماز باجماعت کی دعوت اور شعائر اسلام کا اظہار سر فہرست ہیں۔اذان میں کسی کام کو بطور علامت ٹھہرانے کے بجائے صرف چند کلمات کہنے کو اختیار کیا گیا ہے کیونکہ کام کرنے میں بعض اوقات رکاوٹ پیدا ہو سکتی ہے لیکن قول کے ذریعے سے ہر وقت اور ہر جگہ اعلان کیا جاسکتا ہے۔اس میں علمائے امت کا اختلاف ہے کہ ازان دینے اور امامت کرانے میں کون سا عمل بہتر ہے؟راجح بات یہ ہے کہ اگر انسان کو خود پر اعتماد ہو کہ وہ امامت کے فرائض ادا کرنے میں کوتاہی کا مرتکب نہیں ہوگا تو ایسے انسان کے لیے امامت افضل ہے،بصورت دیگر اذان دینے میں برتری ہے۔ان دونوں کو جمع کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بایں الفاظ اپنی خواہش کا اظہار کیا تھا کہ اگر میں خلافت کے ساتھ ساتھ اذان دینے کی اپنے اندر ہمت پاؤں تو اذان دینے کی ڈیوٹی ضرور ادا کروں۔(فتح الباری: 2/102)چونکہ اذان کے ذریعے سے شعائر اسلام کا اظہار مقصود ہے،اس لیے چاہیے کہ اذان بلند آواز اور دلکش انداز میں کہی جائے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب المواقیت کے بعد کتاب الاذان کو اس لیے بیان کیا ہے کہ اذان سے بھی اوقات نماز کا اظہار مقصود ہوتا ہے۔چونکہ اذان،جماعت کے لیے کہی جاتی ہے،اس لیے اذان کے زیر عنوان نماز کے مسائل اور جماعت کے احکام بھی بیان کردیے ہیں۔اگرچہ نماز مکہ مکرمہ میں فرض ہوچکی تھی لیکن کفار قریش کے ظلم وستم کے باعث اذان کے ذریعے سے اس کی تشہیر ممکن نہ تھی۔جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ مکرمہ سے ہجرت کرکے مدینہ طیبہ تشریف لے گئے تو سب سے پہلے نماز باجماعت ادا کرنے کے لیے مسجد تعمیر کی، پھر ضرورت محسوس ہوئی کہ لوگوں کو جماعت کے وقت سے آگاہ کرنے کے لیے کوئی خاطر خواہ طریقہ اختیار کیا جائے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے متعلق اپنے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے بھی مشورہ فرمایا۔کسی نے کہا کہ بلند جگہ پر آگ روشن کردی جائے،بعض حضرات نے بوق،یعنی نرسنگھا پھونکنے کا مشورہ دیا جبکہ کچھ حضرات ناقوس بجانے کے حق میں تھے۔چونکہ ان کاموں کے بجالانے میں مجوس اور یہودونصاریٰ سے مشابہت ہوتی تھی،اس لیے آپ نے انھیں ناپسند فرمایا۔کسی نے یہ مشورہ دیا کہ اس کے لیے بطور علامت کوئی خاص جھنڈا بلند کردیا جائے،لیکن یہ تدبیر اس لیے کار گر نہ تھی کہ اپنی ضروریات میں مصروف انسان جھنڈے کو دیکھنے کی فرصت کیسے پاسکے گا،الغرض رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان میں سے کسی بات پر بھی اطمینان نہ ہوا۔ آخر کار اللہ تعالیٰ نے خواب کے ذریعے سے اس اہم کام کےلیے بعض صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی رہنمائی فرمائی۔جب انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اپنی خواہش پیش کی تو آپ نے ان کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے فرمایا:"ان شاء اللہ یہ خواب برحق ہے۔"کیونکہ یہ خواب سننے سے پہلے آپ کو بھی بذریعۂ وحی مطلع کردیا گیا تھا۔اس دن سے اوقات نماز کے لیے اذان دینے کا یہ نطام قاہم ہوا جو آج تک دین اسلام اور امت مسلمہ کا ایک خاص شعار اور امتیازی نشان ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب الاذان جیسے مرکزی عنوان کے تحت 166 چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں۔ہم انھیں تین حصوں میں تقسیم کرتے ہیں:٭ اذان اور اس کے متعلقات:اس میں آغاز اذان،طریقۂ اذان،فضیلت اذان،اہمیت اذان،جواب اذان،دعائے اذان اور مسائل اذان بیان کیے ہیں۔ یہ سلسلہ باب نمبر ایک سے لے کر باب نمبر انیس تک ہے۔٭ دعوت اذان اور اس کے متعلقات: اس میں نماز باجماعت کی اہمیت،نماز باجماعت کا وجوب،نماز باجماعت کی فضیلت،نماز باجماعت کے آداب اور امامت کی شرائط،پھر جماعت کی مناسبت سے صف اول،صف بندی اور اس کی اہمیت و فضیلت اور اس کا طریقۂ کار ذکر کیا ہے۔یہ سلسلہ باب نمبر بیس تا باب نمبر اکیاسی ہے۔٭ طریقۂ نماز اور اس کے متعلقات:یہ حصہ انتہائی اہم ہے کیونکہ اس میں نماز ادا کرنے کا مکمل طریقہ،یعنی تکبیر تحریمہ سے لےکر سلام پھیرنے تک کے مسائل بڑی شرح اور تفصیل سے بیان کیے گئے ہیں،پھر نماز کے بعد مسنون اذکار اور ادعیۂ ماثورہ کا بیان ہے۔آخر میں متفرق احکام ہیں کہ مسجد اور نماز سے متعلق عام لوگوں،عورتوں اور بچوں کا کیا کردار ہونا چاہیے۔یہ سلسلہ باب نمبر بیاسی سے لےکر باب نمبر ایک سو چھیاسٹھ تک چلتا ہے۔واضح رہے کہ بنو امیہ کے حکمرانوں نے نماز کے ساتھ جو برتاؤ کیا تھا اسے دیکھ کر حضرت انس رضی اللہ عنہ خون کے آنسو رویا کرتے تھے۔دراصل اس برتاؤ کے پس منطر میں ان حضرات کے سیاسی مفادات وابستہ تھے،لیکن امام بخاری رحمہ اللہ کے دور میں اس امت کے احبارورہبان نے جس انداز سے نماز کو تختۂ مشق بنایا وہ انتہائی قابل افسوس اور لائق ملامت تھاکیونکہ اس کی تہہ میں ان کا مقصود اپنے مذہبی رہنماؤں کے اجتہادات کو تحفظ دینا تھا۔نماز سے متعلقہ استخراج مسائل اور استنباط احکام کا جو نقشہ ان حضرات نے پیش کیا وہ انتہائی بھیانک اور خوفناک تھا۔چونکہ ارشاد نبوی ہے: تم اس طرح نمازپڑھو جس طرح تم نے مجھے نماز پڑھتے دیکھا ہے۔"(صحیح البخاری، الاذان، حدیث:631)اس لیے ضرورت تھی کہ نماز نبوی کی صحیح تصویر کشی کی جائے۔اس پہلو سے امام بخاری رحمہ اللہ کا امت پر بہت بڑا احسان ہے کہ انھوں نے ان ابواب میں کسی قسم کے اضافے اور ترمیم کے بغیر نماز نبوی کا بڑا حسین اور دلآویز نقشہ پیش کیا ہے،گویا وہ مذکورہ بالا ارشاد نبوی کی جیتی جاگتی اور زندہ تصویر ہے۔اس کے علاوہ امام بخاری رحمہ اللہ نے نماز سے متعلق اسرارو موز کو بیان فرمایا ہے جو پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ اخلاص نیت،صدق دل،چشم بینا اور گوش ہوش سے ان ابواب کا مطالعہ کریں،نیز دوران مطالعہ ہماری معروضات بھی پیش نطر رکھیں تاکہ امام بخاری رحمہ اللہ کی دقت نظر،وسعت علم،اصابتِ رائے اور قوت استدلال کا اعتراف کرنے میں کوئی امر مانع نہ ہو۔یاد رہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس مرکزی عنوان کے تحت کل 349 مرفوع احادیث بیان کی ہیں جن میں 70 معلق (بےسند) روایات اور 279 متصل احادیث ہیں۔ ان تمام روایات میں 218 مکرر اور باقی 131 خالص احادیث ہیں۔اس کے علاوہ آپ نے 41 آثار صحابہ اور اقوال تابعین بھی بیان فرمائے ہیں۔دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ان سے استفادہ کرنے ،پھر ان پر عمل کرنے کی توفیق عنایت فرمائے۔ (آمين) والله المستعان وهو يهدي من يشاء الي صراط مستقيم.
حضرت انس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: ایک دفعہ نماز کے لیے اقامت ہو گئی جبکہ نبی ﷺ مسجد کے ایک گوشے میں کسی سے آہستہ آہستہ باتیں کر رہے تھے چنانچہ آپ نماز کے لیے کھڑے نہیں ہوئے یہاں تک کہ کچھ لوگوں کو نیند آنے لگی۔
حدیث حاشیہ:
(1) بعض حضرات کا موقف ہے کہ جب مؤذن قد قامت الصلاة کے الفاظ کہہ دے تو امام کے لیے ضروری ہوجاتا ہے کہ وہ اختتام پر تکبیر تحریمہ کہہ دے اور نماز شروع کردے۔ امام بخاری ؒ فرماتےہیں کہ یہ تشریع ایجادِ بندہ ہے، چنانچہ اقامت کے بعد اگر امام کوکوئی ضرورت آپڑے تو اسے پورا کرسکتا ہے، یعنی اقامت کے فوراً بعد امام کو نماز شروع کرنا لازم نہیں، نیز اگر تاخیر ہو جائے تو اقامت کا اعادہ بھی ضروری نہیں۔ (2) امام بخاری ؒ کا مقصد شرعی سہولتوں کو بیان کرنا ہے۔ آج مصروفیاتِ زندگی حد سے بڑھ چکی ہیں، اس لیے امام کو مقتدیوں کا خیال رکھنا ضروری ہے لیکن طریقۂ نبوی کو نظر انداز نہ کیا جائے۔ واضح رہے کہ سونے سے مراد اونگھنا ہے، جیسا کہ ابن حبان کی روایت میں ہے۔ چونکہ عشاء کی نماز کے وقت میں کافی وسعت ہوتی ہے اور باتیں بے حد ضروری تھیں، اس لیے رسول اللہ ﷺ نے نماز کو مؤخر فرما دیا، نیز یہ سہولت صرف امام کے لیے ہے، مقتدیوں کے لیے نہیں۔ (فتح الباري:163/2) اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ بوقت ضرورت اقامت اور تکبیر تحریمہ کے درمیان فصل کیا جاسکتا ہے، بلاوجہ ایسا کرنا ناپسندیدہ عمل ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے ابومعمر عبداللہ بن عمرو نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عبدالوارث بن سعید نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عبدالعزیز بن صہیب نے حضرت انس ؓ سے بیان کیا، انھوں نے کہا کہ نماز کے لیے تکبیر ہو چکی تھی اور نبی ﷺ کسی شخص سے مسجد کے ایک گوشے میں چپکے چپکے کان میں باتیں کر رہے تھے۔ پھر آپ نماز کے لیے جب تشریف لائے تو لوگ سو رہے تھے۔
حدیث حاشیہ:
سونے سے مراد اونگھنا ہے جیسا کہ ابن حبان اوراسحاق بن راہویہ نے روایت کیا ہے کہ بعض لوگ اونگھنے لگے، چونکہ عشاءکی نماز کے وقت میں کافی گنجائش ہے اورباتیں بے حد ضروری تھیں، اس لیے آپ نے نماز کو مؤخر کردیا۔ حضرت امام بخاری ؒ کا مقصد ان شرعی سہولتوں کو بیان کرنا ہے جو روا رکھی گئی ہیں۔ آج جب کہ مصروفیات زندگی حد سے زیادہ بڑھ چکی ہیں اورہر ہر منٹ مصروفیات کا ہے حدیث نبوی ''الإمام ضامن'' کے تحت امام کو بہرحال مقتدیوں کا خیال رکھنا ضروری ہوگا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Anas (RA): Once the Iqama was pronounced and the Prophet (ﷺ) was talking to a man (in a low voice) in a corner of the mosque and he did not lead the prayer till (some of) the people had slept (dozed in a sitting posture).