باب: دنیا کی بہار اور رونق اور اس کی ریجھ کرنے سے ڈرنا
)
Sahi-Bukhari:
To make the Heart Tender (Ar-Riqaq)
(Chapter: The warning regarding worldly pleasures, amusements and competing against each other)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
6427.
حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’بے شک مجھے تمہارے متعلق سب سے زیادہ اندیشہ اس بات کا ہے جب اللہ تعالیٰ تمہارے لیے زمین کی برکات نکال دے گا۔‘‘ عرض کی گئی: زمین کی برکات کیا ہیں؟ فرمایا: ’’دنیا کی چمک دمک۔‘‘ اس پر ایک آدمی نے پوچھا: کیا بھلائی سے بُرائی پیدا ہو سکتی ہے؟نبی کریم ﷺ یہ سن کر خاموش ہو گئے، حتیٰ کہ میں نے گمان کیا کہ شاید آپ پر وحی نازل ہو رہی ہے۔ اس کے بعد آپ نے پیشانی سے پسینہ صاف کرتے ہوئے فرمایا: ’’سائل کہاں ہے؟‘‘ اس نے کہا: میں حاضر ہوں۔ جب اس سوال کا حل سامنے آیا تو ہم نے اس آدمی کی تعریف کی۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’بھلائی سے تو صرف بھلائی ہی پیدا ہوتی ہے لیکن یہ مال سرسبز اور میٹھا ہوتا ہے اور جو گھاس بھی موسم بہار میں پیدا ہوتی ہے وہ حرص کے ساتھ کھانے والوں کو ہلاک کر دیتی ہے یا ہلاکت کے قریب پہنچا دیتی ہے۔ ہاں، وہ جانور جو پیٹ بھر کر کھائے، جب اس نے کھا لیا اور اس کی دونوں کھوکھیں بھر گئیں تو اس نے سورج کی طرف منہ کر کے جگالی کرنا شروع کر دی، پھر لید اور پیشاب کیا، اس کے بعد وہ پھر لوٹ آیا اور گھاس کھائی۔ بلاشبہ یہ مال بہت شیریں ہے لیکن اس شخص کے لیے جس نے اسے حق کے ساتھ لیا اور حق ہی میں صرف کیا یہ تو بہت ہی اچھا ہے۔ اور جس نے اسے ناجائز ذرائع سے حاصل کیا تو وہ اس شخص کی طرح ہے جو کھاتا تو ہے لیکن سیر نہیں ہوتا۔‘‘
تشریح:
(1) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اعتدال کے ساتھ گھاس چرنے والے حیوان کی مثال دے کر اعتدال پسندی کی طرف اشارہ فرمایا ہے اور جو جانور بے اعتدالی سے اس گھاس کو کھاتا ہے وہ بدہضمی سے ہلاک ہوتا ہے یا بیماری اسے دبوچ لیتی ہے۔ دنیا کے مال و متاع کی بھی یہی مثال ہے۔ یہاں بھی ہر حال میں اعتدال اور میانہ روی بہت ضروری ہے۔ (2) قرآن کریم میں ہے: ’’یہ مال و اولاد تو محض دنیوی زندگی کی زینت ہیں اور آپ کے پروردگار کے ہاں باقی رہنے والی نیکیاں ہی ثواب کے لحاظ سے اور اچھی امیدیں لگانے کے اعتبار سے بہت بہتر ہیں۔‘‘(الکھف: 46) اس کا مطلب یہ ہے کہ مال و اولاد انسان کے لیے دلچسپی کا سامان ضرور ہیں لیکن ان چیزوں پر ایسا فریفتہ نہیں ہونا چاہیے کہ انسان اللہ تعالیٰ اور اخروی زندگی کو ہی فراموش کر کے صرف انہی چیزوں کو اپنا مقصود زندگی بنا لے بلکہ ان چیزوں کو اللہ کے راستے میں لگا کر اپنی آخرت کو بہتر بنانے کی کوشش کی جائے، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ فرمایا تھا: ''جو شخص اللہ سے ڈرے، اس کے لیے مال داری میں کوئی حرج نہیں، صحت مندی صاحب تقویٰ کے لیے دولت مندی سے بھی بہتر ہے اور خوش دلی بھی اللہ کی نعمتوں میں سے ہے۔'' (مسند أحمد: 372/5) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ دولت مندی اور مال داری اگر تقویٰ کے ساتھ ہو تو اس میں دین کو کوئی خطرہ نہیں بلکہ اگر اللہ تعالیٰ توفیق دے تو بھی یہی دولت، جنت کے اعلیٰ درجات تک پہنچنے کا ذریعہ بن سکتی ہے۔ لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ دولت مندی کے ساتھ فکر آخرت اور اتباع شریعت کی توفیق بہت ہی کم لوگوں کو ملتی ہے، اکثر لوگ دولت کے نشے میں بہک جاتے ہیں۔ واللہ المستعان
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6198
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6427
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
6427
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
6427
تمہید کتاب
اللہ تعالیٰ نے کائنات کی ہر چیز انسان کے فائدے کے لیے پیدا کی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ''وہی تو ہے جس نے زمین پر موجود تمام چیزیں تمہاری خاطر پیدا کیں۔'' (البقرۃ: 2/29) اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان کو زمین کی ہر چیز سے فائدہ اٹھانے کا حق ہے بلکہ دوسرے مقام پر اس سے بھی زیادہ وضاحت کے ساتھ فرمایا: ''جو کچھ آسمانوں میں ہے یا زمین میں، اس نے سب کچھ اپنی طرف سے تمہارے لیے مسخر کر دیا ہے۔'' (الجاثیۃ: 45/13) کائنات کی ہر چیز سے انسان کو کچھ نہ کچھ فائدہ ضرور پہنچ رہا ہے، مثلاً: پانی، ہوا، زمین میں مدفون خزانے، سمندر، پہاڑ، سورج، چاند اور ستارے، الغرض ہر چیز انسان کے فائدے کے لیے پیدا کی گئی ہے۔ لیکن انسان کو اللہ تعالیٰ نے اپنی عبادت ہی کے لیے پیدا کیا ہے تاکہ کائنات کی اشیاء سے فائدہ اٹھا کر محسن کا شکر ادا کرے اور اس کی عبادت میں خود کو مصروف رکھے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ''میں نے جنوں اور انسانوں کو صرف اس لیے پیدا کیا ہے کہ وہ میری عبادت کریں۔'' (الذاریات: 51/56)اس آیت کے پیش نظر انسان ہر وقت اللہ تعالیٰ کا بندہ ہے اور اسے ہر حال میں اس کی اطاعت اور بندگی میں مصروف رہنا چاہیے لیکن بعض اوقات انسان حصول دنیا میں اس قدر مگن ہو جاتا ہے کہ وہ اپنے خالق کے حق کو نظر انداز کر کے صرف دنیا کا ہو کر رہ جاتا ہے، پھر جوں جوں اللہ تعالیٰ سے دور ہوتا جاتا ہے اس کا دل سخت سے سخت تر ہوتا چلا جاتا ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ''یہ اہل ایمان ان لوگوں کی طرح نہ ہو جائیں جنہیں ان سے پہلے کتاب دی گئی تھی۔ پھر ان پر لمبی مدت گزر گئی تو ان کے دل سخت ہو گئے۔'' (الحدید: 57/16) اس آیت میں تنبیہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی یاد اور بندگی سے غافل رہنا ایسی بیماری ہے جس سے دل سخت ہو جاتے ہیں، پھر ان میں فسق و فجور کے داخلے کے لیے دروازہ کھل جاتا ہے۔ اس آیت کریمہ سے یہ بھی معلوم ہوا کہ دلوں کی سختی اللہ تعالیٰ کی عبادت میں رکاوٹ کا باعث ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کی برائی کو کئی ایک مقام پر بیان فرمایا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ''ان لوگوں کے لیے ہلاکت ہے جن کے دل اللہ کی یاد سے (غفلت کی بنا پر) سخت ہو گئے۔'' (الزمر: 39/22) دوسرے مقام پر فرمایا: ''پھر تمہارے دل سخت ہو گئے اتنے سخت جیسے پتھر ہوں یا ان سے بھی سخت تر۔'' (البقرۃ: 2/74)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کی رہنمائی کرتے ہوئے مختلف انداز میں ''اصلاح قلوب، یعنی دلوں کی اصلاح اور درستی کی تدابیر بتائی ہیں، نیز بتایا ہے کہ اعمال کی اصلاح، دلوں کی اصلاح پر موقوف ہے، آپ نے فرمایا: ''آگاہ رہو! جسم میں ایک ایسا ٹکڑا ہے اگر وہ صحیح ہو تو سارا جسم صحیح رہتا ہے اور اگر وہ خراب ہو تو سارا جسم خراب ہو جاتا ہے۔ آگاہ رہو وہ دل ہے۔'' (صحیح البخاری، الایمان، حدیث: 52) امام بخاری رحمہ اللہ نے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کرتے ہوئے ''اصلاح قلوب'' کے لیے اپنی صحیح میں ایک عنوان ''کتاب الرقاق'' کے نام سے قائم کیا ہے۔رِقَاق، رَقِيقَة کی جمع ہے جس کے معنی ہیں: نرمی۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت ایک سو ترانوے (193) ایسی مرفوع احادیث پیش کی ہیں جنہیں پڑھ کر دل میں رقت اور نرمی پیدا ہوتی ہے، جن میں تینتیس (33) معلق اور ایک سو ساٹھ (160) احادیث متصل اسناد سے مروی ہیں، پھر ان میں ایک سو چونتیس (134) مکرر اور انسٹھ (59) احادیث خالص ہیں۔ مرفوع احادیث کے علاوہ مختلف صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام رحمہم اللہ سے مروی سترہ (17) آثار بھی ذکر کیے ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے ان احادیث و آثار پر تریپن چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں تاکہ اس کے تمام پہلوؤں کا احاطہ کیا جائے۔ ان میں دنیا کی بے ثباتی، آخرت کا دوام اور ہمیشگی، مال و دولت سے بے نیازی، فکر آخرت، اخلاص و للہیت، تواضع و انکسار، گناہوں سے نفرت اور نیک اعمال سے محبت اور ان کے اثرات کو خاص طور پر بیان کیا ہے۔دور حاضر میں آزاد فکری اور روشن خیالی کا بہت چرچا ہے، ایسے حالات میں مذکورہ عنوان اور اس کے تحت پیش کردہ احادیث اکسیر اعظم کی حیثیت رکھتی ہیں۔ اس عالم رنگ و بو میں دلوں میں بگاڑ پیدا کرنے کے لیے بہت سے عوام کارفرما ہیں لیکن ان کی اصلاح کے لیے فکر آخرت ہی کافی ہے۔ ان احادیث کو پڑھیے اور اپنے اندر فکر آخرت پیدا کرنے کی کوشش کیجیے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں عمل کی توفیق دے۔ آمین یا رب العالمین
حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’بے شک مجھے تمہارے متعلق سب سے زیادہ اندیشہ اس بات کا ہے جب اللہ تعالیٰ تمہارے لیے زمین کی برکات نکال دے گا۔‘‘ عرض کی گئی: زمین کی برکات کیا ہیں؟ فرمایا: ’’دنیا کی چمک دمک۔‘‘ اس پر ایک آدمی نے پوچھا: کیا بھلائی سے بُرائی پیدا ہو سکتی ہے؟نبی کریم ﷺ یہ سن کر خاموش ہو گئے، حتیٰ کہ میں نے گمان کیا کہ شاید آپ پر وحی نازل ہو رہی ہے۔ اس کے بعد آپ نے پیشانی سے پسینہ صاف کرتے ہوئے فرمایا: ’’سائل کہاں ہے؟‘‘ اس نے کہا: میں حاضر ہوں۔ جب اس سوال کا حل سامنے آیا تو ہم نے اس آدمی کی تعریف کی۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’بھلائی سے تو صرف بھلائی ہی پیدا ہوتی ہے لیکن یہ مال سرسبز اور میٹھا ہوتا ہے اور جو گھاس بھی موسم بہار میں پیدا ہوتی ہے وہ حرص کے ساتھ کھانے والوں کو ہلاک کر دیتی ہے یا ہلاکت کے قریب پہنچا دیتی ہے۔ ہاں، وہ جانور جو پیٹ بھر کر کھائے، جب اس نے کھا لیا اور اس کی دونوں کھوکھیں بھر گئیں تو اس نے سورج کی طرف منہ کر کے جگالی کرنا شروع کر دی، پھر لید اور پیشاب کیا، اس کے بعد وہ پھر لوٹ آیا اور گھاس کھائی۔ بلاشبہ یہ مال بہت شیریں ہے لیکن اس شخص کے لیے جس نے اسے حق کے ساتھ لیا اور حق ہی میں صرف کیا یہ تو بہت ہی اچھا ہے۔ اور جس نے اسے ناجائز ذرائع سے حاصل کیا تو وہ اس شخص کی طرح ہے جو کھاتا تو ہے لیکن سیر نہیں ہوتا۔‘‘
حدیث حاشیہ:
(1) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اعتدال کے ساتھ گھاس چرنے والے حیوان کی مثال دے کر اعتدال پسندی کی طرف اشارہ فرمایا ہے اور جو جانور بے اعتدالی سے اس گھاس کو کھاتا ہے وہ بدہضمی سے ہلاک ہوتا ہے یا بیماری اسے دبوچ لیتی ہے۔ دنیا کے مال و متاع کی بھی یہی مثال ہے۔ یہاں بھی ہر حال میں اعتدال اور میانہ روی بہت ضروری ہے۔ (2) قرآن کریم میں ہے: ’’یہ مال و اولاد تو محض دنیوی زندگی کی زینت ہیں اور آپ کے پروردگار کے ہاں باقی رہنے والی نیکیاں ہی ثواب کے لحاظ سے اور اچھی امیدیں لگانے کے اعتبار سے بہت بہتر ہیں۔‘‘(الکھف: 46) اس کا مطلب یہ ہے کہ مال و اولاد انسان کے لیے دلچسپی کا سامان ضرور ہیں لیکن ان چیزوں پر ایسا فریفتہ نہیں ہونا چاہیے کہ انسان اللہ تعالیٰ اور اخروی زندگی کو ہی فراموش کر کے صرف انہی چیزوں کو اپنا مقصود زندگی بنا لے بلکہ ان چیزوں کو اللہ کے راستے میں لگا کر اپنی آخرت کو بہتر بنانے کی کوشش کی جائے، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ فرمایا تھا: ''جو شخص اللہ سے ڈرے، اس کے لیے مال داری میں کوئی حرج نہیں، صحت مندی صاحب تقویٰ کے لیے دولت مندی سے بھی بہتر ہے اور خوش دلی بھی اللہ کی نعمتوں میں سے ہے۔'' (مسند أحمد: 372/5) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ دولت مندی اور مال داری اگر تقویٰ کے ساتھ ہو تو اس میں دین کو کوئی خطرہ نہیں بلکہ اگر اللہ تعالیٰ توفیق دے تو بھی یہی دولت، جنت کے اعلیٰ درجات تک پہنچنے کا ذریعہ بن سکتی ہے۔ لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ دولت مندی کے ساتھ فکر آخرت اور اتباع شریعت کی توفیق بہت ہی کم لوگوں کو ملتی ہے، اکثر لوگ دولت کے نشے میں بہک جاتے ہیں۔ واللہ المستعان
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے اسماعیل بن ابی اویس نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے امام مالک نے بیان کیا، ان سے زید بن اسلم نے، ان سے عطاء بن یسار نے اور ان سے ابو سعید ؓ نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا میں تمہارے متعلق سب سے زیادہ اس سے خوف کھاتا ہوں کہ جب اللہ تعالیٰ زمین کی برکتیں تمہارے لئے نکال دے گا۔ پوچھا گیا زمین کی برکتیں کیا ہیں؟ فرمایا کہ دنیا کی چمک دمک، اس پر ایک صحابی نے آنحضرت ﷺ سے پوچھا کیا بھلائی سے برائی پیدا ہو سکتی ہے؟ آنحضرت ﷺ اس پر خاموش ہو گئے اور ہم نے خیال کیا کہ شاید آپ وحی نازل ہو رہی ہے۔ اس کے بعد اپنی پیشانی کو صاف کرنے لگے اوردریافت فرمایا، پوچھنے والے کہاں ہیں؟ پوچھنے والے نے کہا کہ حاضر ہوں۔ ابو سعید خدری ؓ نے کہا کہ جب اس سوال کا حل ہمارے سامنے آگیا تو ہم نے ان صاحب کی تعریف کی۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ بھلائی سے تو صرف بھلائی ہی پیدا ہوتی ہے لیکن یہ مال سرسبز اور خوشگوار (گھاس کی طرح) ہے اور جو چیزبھی ربیع کے موسم میں اگتی ہیں وہ حرص کے ساتھ کھانے والوں کو ہلاک کر دیتی ہیں یا ہلاکت کے قریب پہنچا دیتی ہیں۔ سوائے اس جانور کے جو پیٹ بھر کے کھائے کہ جب اس نے کھا لیا اور اس کی دونوں کوکھ بھر گئیں تو اس نے سورج کی طرف منہ کر کے جگالی کرلی اور پھر پاخانہ پیشاب کر دیا اور اس کے بعد پھر لوٹ کے کھالیا اور یہ مال بھی بہت شیریں ہے جس نے اسے حق کے ساتھ لیا اور حق میں خرچ کیا تو وہ بہترین ذریعہ ہے اور جس نے اسے ناجائز طریقہ سے حاصل کیا تو وہ اس شخص جیسا ہے جو کھاتا ہے لیکن آسودہ نہیں ہوتا۔
حدیث حاشیہ:
اس اعتدال پر اشارہ ہے جسے ہریالی چرنے والے جانور کی مثال سے بیان فرمایا ہے جو جانور ہریالی بے اعتدالی سے کھا جاتے ہیں وہ بیمار بھی ہو جاتے ہیں دنیا کا یہی حال ہے یہاں اعتدال ہر حال میں ضروری ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Sa'id Al-Khudri (RA) : Allah's Apostle (ﷺ) said, "The thing I am afraid of most for your sake, is the worldly blessings which Allah will bring forth to you." It was said, "What are the blessings of this world?" The Prophet (ﷺ) said, "The pleasures of the world." A man said, "Can the good bring forth evil?" The Prophet (ﷺ) kept quiet for a while till we thought that he was being inspired divinely. Then he started removing the sweat from his forehead and said," Where is the questioner?" That man said, "I (am present)." Abu Sa'id added: We thanked the man when the result (of his question) was such. The Prophet (ﷺ) said, "Good never brings forth but good. This wealth (of the world) is (like) green and sweet (fruit), and all the vegetation which grows on the bank of a stream either kills or nearly kills the animal that eats too much of it, except the animal that eats the Khadira (a kind of vegetation). Such an animal eats till its stomach is full and then it faces the sun and starts ruminating and then it passes out dung and urine and goes to eat again. This worldly wealth is (like) sweet (fruit), and if a person earns it (the wealth) in a legal way and spends it properly, then it is an excellent helper, and whoever earns it in an illegal way, he will be like the one who eats but is never satisfied."