باب: اللہ پاک کا (سورۃ فاطر میں) فرمانا کہ اللہ کا وعدہ حق ہے پس تمہیں دنیا کی زندگی دھوکہ میں نہ ڈال دے (کہ آخرت کو بھول جاؤ) اور نہ کوئی دھوکہ دینے والی چیز تمہیں اللہ سے غافل کر دے۔ بلاشبہ شیطان تمہارا دشمن ہے پس تم اسے اپنا دشمن ہی سمجھو، وہ تو اپنے گروہ کو بلاتا ہے کہ وہ جہنمی ہو جائے۔
)
Sahi-Bukhari:
To make the Heart Tender (Ar-Riqaq)
(Chapter: "O mankind! Verily the Promise of Allah is true. So let not this present life deceive you ...")
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
آیت میں «سعير» کا لفظ ہے جس کی جمع «سعر» آتی ہے۔ مجاہد نے کہا جسے فریابی نے وصل کیا کہ غرور سے شیطان مراد ہے۔
6433.
حمران بن ابان سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ میں حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس وضو کا پانی لے کر حاضر ہوا جبکہ وہ چبوترے پر بیٹھے ہوئے تھے۔ انھوں نے اچھی طرح وضو کرنےکے بعد فرمایا: میں نے نبی کریم ﷺ کو اسی جگہ وضو کرتے دیکھا ہے، آپ نے اچھی طرح وضو کیا، پھر فرمایا: ’’جس نے اس طرح وضوکیا، پھر مسجد میں آیا اور دو رکعتیں ادا کیں، پھر وہیں بیٹھا رہا تو اس کے سابقہ گناہ معاف ہوجاتے ہیں۔‘‘ انھوں نے کہا: نبی کریم ﷺ نے (یہ بھی) فرمایا: ’’اس پر مغرور نہ ہوجاؤ۔‘‘
تشریح:
(1) اس حدیث میں شیطان کی طرف سے دھوکا دینے کی ایک صورت بیان کی گئی ہے کہ اب تمہارے پہلے گناہ تو معاف کر دیے گئے ہیں، لہذا مزید گناہ سرعام کرو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم اس دھوکے میں مت پڑو کہ تمہارے سب گناہ معاف ہو گئے ہیں بلکہ اس سے صرف صغیرہ گناہ معاف ہوتے ہیں۔ باقی رہے کبیرہ گناہ تو وہ توبہ و استغفار سے معاف ہوں گے۔ اسی طرح جو حقوق العباد ہیں وہ بھی حق داروں کے معاف کرنے سے ہی معاف ہوں گے۔ (2) واضح رہے کہ جو انسان ڈھٹائی اور اصرار سے صغیرہ گناہ کرتا ہے۔ ایسا گناہ بھی کبیرہ کا درجہ رکھتا ہے۔ یاد رہے کہ حضرت حمران سے تین قسم کی روایات مروی ہیں: ٭صرف وضو کرنے سے گناہ معاف ہو جائیں گے، پھر اس کی نماز اور نماز کے لیے مسجد کی طرف جانا ایک اضافی عمل ہے جس کا الگ سے ثواب ملنے کی توقع ہے۔ (صحیح مسلم، الطھارة، حدیث: 544 (229)) ٭ جب اچھی طرح وضو کر کے دو رکعت پڑھے اور دلی خیالات میں مصروف نہ ہو تو اس کے سابقہ گناہ معاف ہو جاتے ہیں۔ (صحیح البخاري، الوضوء، حدیث: 159) اس میں فرض نماز کا ذکر نہیں ہے۔ ٭ اچھی طرح وضو کر کے فرض نماز باجماعت یا مسجد میں ادا کرے تو اس نماز سے پہلے کیے گئے گناہ معاف ہو جاتے ہیں بشرطیکہ کبیرہ گناہ کا مرتکب نہ ہو۔ (صحیح مسلم، الطھارة، حدیث: 543 (228)) اس میں دلی خیالات کو ترک کرنے کی پابندی نہیں ہے۔ واللہ أعلم (3) امام بخاری رحمہ اللہ کا اس حدیث سے مقصود یہ ہے کہ انسان کو دھوکے باز شیطان کی طرف سے ہوشیار رہنا چاہیے، ایسا نہ ہو کہ انسان سمجھے کہ سب گناہ معاف کر دیے گئے اب فکر ہی کیا ہے؟
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6204
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6433
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
6433
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
6433
تمہید کتاب
اللہ تعالیٰ نے کائنات کی ہر چیز انسان کے فائدے کے لیے پیدا کی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ''وہی تو ہے جس نے زمین پر موجود تمام چیزیں تمہاری خاطر پیدا کیں۔'' (البقرۃ: 2/29) اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان کو زمین کی ہر چیز سے فائدہ اٹھانے کا حق ہے بلکہ دوسرے مقام پر اس سے بھی زیادہ وضاحت کے ساتھ فرمایا: ''جو کچھ آسمانوں میں ہے یا زمین میں، اس نے سب کچھ اپنی طرف سے تمہارے لیے مسخر کر دیا ہے۔'' (الجاثیۃ: 45/13) کائنات کی ہر چیز سے انسان کو کچھ نہ کچھ فائدہ ضرور پہنچ رہا ہے، مثلاً: پانی، ہوا، زمین میں مدفون خزانے، سمندر، پہاڑ، سورج، چاند اور ستارے، الغرض ہر چیز انسان کے فائدے کے لیے پیدا کی گئی ہے۔ لیکن انسان کو اللہ تعالیٰ نے اپنی عبادت ہی کے لیے پیدا کیا ہے تاکہ کائنات کی اشیاء سے فائدہ اٹھا کر محسن کا شکر ادا کرے اور اس کی عبادت میں خود کو مصروف رکھے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ''میں نے جنوں اور انسانوں کو صرف اس لیے پیدا کیا ہے کہ وہ میری عبادت کریں۔'' (الذاریات: 51/56)اس آیت کے پیش نظر انسان ہر وقت اللہ تعالیٰ کا بندہ ہے اور اسے ہر حال میں اس کی اطاعت اور بندگی میں مصروف رہنا چاہیے لیکن بعض اوقات انسان حصول دنیا میں اس قدر مگن ہو جاتا ہے کہ وہ اپنے خالق کے حق کو نظر انداز کر کے صرف دنیا کا ہو کر رہ جاتا ہے، پھر جوں جوں اللہ تعالیٰ سے دور ہوتا جاتا ہے اس کا دل سخت سے سخت تر ہوتا چلا جاتا ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ''یہ اہل ایمان ان لوگوں کی طرح نہ ہو جائیں جنہیں ان سے پہلے کتاب دی گئی تھی۔ پھر ان پر لمبی مدت گزر گئی تو ان کے دل سخت ہو گئے۔'' (الحدید: 57/16) اس آیت میں تنبیہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی یاد اور بندگی سے غافل رہنا ایسی بیماری ہے جس سے دل سخت ہو جاتے ہیں، پھر ان میں فسق و فجور کے داخلے کے لیے دروازہ کھل جاتا ہے۔ اس آیت کریمہ سے یہ بھی معلوم ہوا کہ دلوں کی سختی اللہ تعالیٰ کی عبادت میں رکاوٹ کا باعث ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کی برائی کو کئی ایک مقام پر بیان فرمایا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ''ان لوگوں کے لیے ہلاکت ہے جن کے دل اللہ کی یاد سے (غفلت کی بنا پر) سخت ہو گئے۔'' (الزمر: 39/22) دوسرے مقام پر فرمایا: ''پھر تمہارے دل سخت ہو گئے اتنے سخت جیسے پتھر ہوں یا ان سے بھی سخت تر۔'' (البقرۃ: 2/74)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کی رہنمائی کرتے ہوئے مختلف انداز میں ''اصلاح قلوب، یعنی دلوں کی اصلاح اور درستی کی تدابیر بتائی ہیں، نیز بتایا ہے کہ اعمال کی اصلاح، دلوں کی اصلاح پر موقوف ہے، آپ نے فرمایا: ''آگاہ رہو! جسم میں ایک ایسا ٹکڑا ہے اگر وہ صحیح ہو تو سارا جسم صحیح رہتا ہے اور اگر وہ خراب ہو تو سارا جسم خراب ہو جاتا ہے۔ آگاہ رہو وہ دل ہے۔'' (صحیح البخاری، الایمان، حدیث: 52) امام بخاری رحمہ اللہ نے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کرتے ہوئے ''اصلاح قلوب'' کے لیے اپنی صحیح میں ایک عنوان ''کتاب الرقاق'' کے نام سے قائم کیا ہے۔رِقَاق، رَقِيقَة کی جمع ہے جس کے معنی ہیں: نرمی۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت ایک سو ترانوے (193) ایسی مرفوع احادیث پیش کی ہیں جنہیں پڑھ کر دل میں رقت اور نرمی پیدا ہوتی ہے، جن میں تینتیس (33) معلق اور ایک سو ساٹھ (160) احادیث متصل اسناد سے مروی ہیں، پھر ان میں ایک سو چونتیس (134) مکرر اور انسٹھ (59) احادیث خالص ہیں۔ مرفوع احادیث کے علاوہ مختلف صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام رحمہم اللہ سے مروی سترہ (17) آثار بھی ذکر کیے ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے ان احادیث و آثار پر تریپن چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں تاکہ اس کے تمام پہلوؤں کا احاطہ کیا جائے۔ ان میں دنیا کی بے ثباتی، آخرت کا دوام اور ہمیشگی، مال و دولت سے بے نیازی، فکر آخرت، اخلاص و للہیت، تواضع و انکسار، گناہوں سے نفرت اور نیک اعمال سے محبت اور ان کے اثرات کو خاص طور پر بیان کیا ہے۔دور حاضر میں آزاد فکری اور روشن خیالی کا بہت چرچا ہے، ایسے حالات میں مذکورہ عنوان اور اس کے تحت پیش کردہ احادیث اکسیر اعظم کی حیثیت رکھتی ہیں۔ اس عالم رنگ و بو میں دلوں میں بگاڑ پیدا کرنے کے لیے بہت سے عوام کارفرما ہیں لیکن ان کی اصلاح کے لیے فکر آخرت ہی کافی ہے۔ ان احادیث کو پڑھیے اور اپنے اندر فکر آخرت پیدا کرنے کی کوشش کیجیے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں عمل کی توفیق دے۔ آمین یا رب العالمین
تمہید باب
اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ وہ تمہیں دنیا سے فوت کرنے کے بعد دوبارہ زندہ کرے گا، پھر تمہارا حساب کتاب ہو گا اور وہ ثواب و عقاب کا فیصلہ کرے گا، لیکن شیطان تمہیں اس وعدے سے پھیرنے کے لیے دنیا میں فریب کا جال بچھاتا ہے تاکہ تم اللہ تعالیٰ کے نافرمان بن جاؤ۔ اللہ تعالیٰ نے اس کی دشمنی اور طریقۂ واردات کو واضح طور پر بیان کیا ہے اور انسان کو اس کے دھوکے میں آنے سے روکا ہے۔ اس کے دھوکے کی کئی صورتیں ہیں۔ ایک صورت درج ذیل حدیث میں بیان کی گئی ہے۔
آیت میں «سعير» کا لفظ ہے جس کی جمع «سعر» آتی ہے۔ مجاہد نے کہا جسے فریابی نے وصل کیا کہ غرور سے شیطان مراد ہے۔
حدیث ترجمہ:
حمران بن ابان سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ میں حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس وضو کا پانی لے کر حاضر ہوا جبکہ وہ چبوترے پر بیٹھے ہوئے تھے۔ انھوں نے اچھی طرح وضو کرنےکے بعد فرمایا: میں نے نبی کریم ﷺ کو اسی جگہ وضو کرتے دیکھا ہے، آپ نے اچھی طرح وضو کیا، پھر فرمایا: ’’جس نے اس طرح وضوکیا، پھر مسجد میں آیا اور دو رکعتیں ادا کیں، پھر وہیں بیٹھا رہا تو اس کے سابقہ گناہ معاف ہوجاتے ہیں۔‘‘ انھوں نے کہا: نبی کریم ﷺ نے (یہ بھی) فرمایا: ’’اس پر مغرور نہ ہوجاؤ۔‘‘
حدیث حاشیہ:
(1) اس حدیث میں شیطان کی طرف سے دھوکا دینے کی ایک صورت بیان کی گئی ہے کہ اب تمہارے پہلے گناہ تو معاف کر دیے گئے ہیں، لہذا مزید گناہ سرعام کرو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم اس دھوکے میں مت پڑو کہ تمہارے سب گناہ معاف ہو گئے ہیں بلکہ اس سے صرف صغیرہ گناہ معاف ہوتے ہیں۔ باقی رہے کبیرہ گناہ تو وہ توبہ و استغفار سے معاف ہوں گے۔ اسی طرح جو حقوق العباد ہیں وہ بھی حق داروں کے معاف کرنے سے ہی معاف ہوں گے۔ (2) واضح رہے کہ جو انسان ڈھٹائی اور اصرار سے صغیرہ گناہ کرتا ہے۔ ایسا گناہ بھی کبیرہ کا درجہ رکھتا ہے۔ یاد رہے کہ حضرت حمران سے تین قسم کی روایات مروی ہیں: ٭صرف وضو کرنے سے گناہ معاف ہو جائیں گے، پھر اس کی نماز اور نماز کے لیے مسجد کی طرف جانا ایک اضافی عمل ہے جس کا الگ سے ثواب ملنے کی توقع ہے۔ (صحیح مسلم، الطھارة، حدیث: 544 (229)) ٭ جب اچھی طرح وضو کر کے دو رکعت پڑھے اور دلی خیالات میں مصروف نہ ہو تو اس کے سابقہ گناہ معاف ہو جاتے ہیں۔ (صحیح البخاري، الوضوء، حدیث: 159) اس میں فرض نماز کا ذکر نہیں ہے۔ ٭ اچھی طرح وضو کر کے فرض نماز باجماعت یا مسجد میں ادا کرے تو اس نماز سے پہلے کیے گئے گناہ معاف ہو جاتے ہیں بشرطیکہ کبیرہ گناہ کا مرتکب نہ ہو۔ (صحیح مسلم، الطھارة، حدیث: 543 (228)) اس میں دلی خیالات کو ترک کرنے کی پابندی نہیں ہے۔ واللہ أعلم (3) امام بخاری رحمہ اللہ کا اس حدیث سے مقصود یہ ہے کہ انسان کو دھوکے باز شیطان کی طرف سے ہوشیار رہنا چاہیے، ایسا نہ ہو کہ انسان سمجھے کہ سب گناہ معاف کر دیے گئے اب فکر ہی کیا ہے؟
ترجمۃ الباب:
سَّعِيرِ کی جمع سُعُرٍ ہے۔اور مجاہد نے کہا:غُرُورِ سے مراد شیطان ہے۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے سعد بن حفص نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے شیبان بن عبد الرحمن نے بیان کیا، ان سے یحییٰ نے بیان کیا، ان سے محمد بن ابراہیم قرشی نے بیان کیا کہ مجھے معاذ بن عبد الرحمن نے خبر دی، انہیں حمران بن ابان نے خبر دی، انہوں نے کہا کہ میں حضرت عثمان ؓ کے لئے وضو کا پانی لے کر آیا وہ چبوترے پر بیٹھے ہوئے تھے، پھر انہوں نے اچھی طرح وضو کیا۔ اس کے بعد کہا کہ میں نے نبی کریم ﷺ کو اسی جگہ وضو کرتے ہوئے دیکھا تھا۔ آنحضرت ﷺ نے اچھی طرح وضو کیا۔ پھر فرمایا کہ جس نے اس طرح وضو کیا اور پھر مسجد میں آ کر دورکعت نماز پڑھی تو اس کے پچھلے گناہ معاف ہو جاتے ہیں۔ بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے اس پر یہ بھی فرمایا کہ اس پر مغرورنہ ہو جاؤ۔
حدیث حاشیہ:
روایت میں سیدنا حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کا ذکر خیر ہے بلکہ سنت نبوی پر ان کا قدم بہ قدم عمل پیرا ہونا بھی مذکور ہے۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی محبت اہل سنت کا خاص نشان ہے جیسا کہ حضرت امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ سے پوچھا گیا تھا۔ چنانچہ شرح فقہ اکبر ص 96 میں یہ یوں مذکور ہے۔ ''سئل أبو حنیفة عن مذھب أھل السنة و الجماعة فقال إن تفضل الشیخین أي أبا بکر وعمر ونحب الختنیین أي عثمان و علیا و أن نری المسح علی الخفین ونصلي خلف کل بر و فاجر'' حضرت امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ سے مذہب اہل سنت والجماعت کی تعریف پوچھی گئی تو آپ نے بتلایا کہ ہم شیخین یعنی حضرت ابوبکر وعمر رضی اللہ عنہما کو جملہ صحابہ پر فضیلت دیں اور دونوں دامادوں یعنی حضرت علی اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہما سے محبت رکھیں موزوں پر مسح کو جائز سمجھیں اور ہر نیک وبد امام کے پیچھے اقتداء کریں یہی اہل سنت والجماعت کا مذہب ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Ibn 'Abbas (RA) : I brought water to Uthman bin 'Affan to perform the ablution while he was sitting on his seat. He performed the ablution in a perfect way and said, "I saw the Prophet (ﷺ) performing the ablution in this place and he performed it in a perfect way and said, "Whoever performs the ablution as I have done this time and then proceeds to the mosque and offers a two-Rak'at prayer and then sits there (waiting for the compulsory congregational prayers), then all his past sins will be forgiven." The Prophet (ﷺ) further added, "Do not be conceited (thinking that your sins will be forgiven because of your prayer)."