باب: ( آخر زمانہ میں ) دنیا سے امانت داری کا اٹھ جانا
)
Sahi-Bukhari:
To make the Heart Tender (Ar-Riqaq)
(Chapter: The disappearance of Al-Amanah)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
6498.
حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے،انہوں نے کہا: میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا: ”لوگوں کی مثال تو ایسے اونٹوں کی طرح ہے، جن میں سے تو کسی ایک کو بھی سواری کے قابل نہیں پائے گا۔“
تشریح:
(1) اس حدیث میں لوگوں سے مراد صحابۂ کرام یا تابعین عظام نہیں کیونکہ ان کی فضیلت تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود بیان فرمائی ہے بلکہ ان سے مراد مستقبل بعید کے لوگ ہیں کہ ان میں شاذ شاذ لوگ احکام شریعت کی پابندی کریں گے، یعنی عوام الناس تعداد میں بہت زیادہ ہوں گے لیکن ان میں کام کے آدمی بہت کم ہوں گے۔ اکثریت، ان فرائض کو ضائع کر دے گی جو ان کے ذمے واجب الادا ہوں گے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ صحابہ کرام اور تابعین کے بعد والے لوگوں کی تخصیص کرنا درست نہیں کیونکہ اہل ایمان کی تعداد کفار کے مقابلے میں ہمیشہ کم ہوتی ہے، لہذا حدیث میں ذکر کردہ تقابل ہر وقت اور ہر جگہ دیکھا جا سکتا ہے۔ (فتح الباري: 408/11) (2) آج مسلمان بکثرت ہر جگہ موجود ہیں مگر حقیقی مسلمان اگر تلاش کیے جائیں تو انتہائی مایوسی ہوتی ہے لیکن اس کے باوجود اللہ والوں سے زمین کبھی خالی نہیں ہوتی۔ واللہ المستعان
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6269
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6498
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
6498
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
6498
تمہید کتاب
اللہ تعالیٰ نے کائنات کی ہر چیز انسان کے فائدے کے لیے پیدا کی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ''وہی تو ہے جس نے زمین پر موجود تمام چیزیں تمہاری خاطر پیدا کیں۔'' (البقرۃ: 2/29) اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان کو زمین کی ہر چیز سے فائدہ اٹھانے کا حق ہے بلکہ دوسرے مقام پر اس سے بھی زیادہ وضاحت کے ساتھ فرمایا: ''جو کچھ آسمانوں میں ہے یا زمین میں، اس نے سب کچھ اپنی طرف سے تمہارے لیے مسخر کر دیا ہے۔'' (الجاثیۃ: 45/13) کائنات کی ہر چیز سے انسان کو کچھ نہ کچھ فائدہ ضرور پہنچ رہا ہے، مثلاً: پانی، ہوا، زمین میں مدفون خزانے، سمندر، پہاڑ، سورج، چاند اور ستارے، الغرض ہر چیز انسان کے فائدے کے لیے پیدا کی گئی ہے۔ لیکن انسان کو اللہ تعالیٰ نے اپنی عبادت ہی کے لیے پیدا کیا ہے تاکہ کائنات کی اشیاء سے فائدہ اٹھا کر محسن کا شکر ادا کرے اور اس کی عبادت میں خود کو مصروف رکھے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ''میں نے جنوں اور انسانوں کو صرف اس لیے پیدا کیا ہے کہ وہ میری عبادت کریں۔'' (الذاریات: 51/56)اس آیت کے پیش نظر انسان ہر وقت اللہ تعالیٰ کا بندہ ہے اور اسے ہر حال میں اس کی اطاعت اور بندگی میں مصروف رہنا چاہیے لیکن بعض اوقات انسان حصول دنیا میں اس قدر مگن ہو جاتا ہے کہ وہ اپنے خالق کے حق کو نظر انداز کر کے صرف دنیا کا ہو کر رہ جاتا ہے، پھر جوں جوں اللہ تعالیٰ سے دور ہوتا جاتا ہے اس کا دل سخت سے سخت تر ہوتا چلا جاتا ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ''یہ اہل ایمان ان لوگوں کی طرح نہ ہو جائیں جنہیں ان سے پہلے کتاب دی گئی تھی۔ پھر ان پر لمبی مدت گزر گئی تو ان کے دل سخت ہو گئے۔'' (الحدید: 57/16) اس آیت میں تنبیہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی یاد اور بندگی سے غافل رہنا ایسی بیماری ہے جس سے دل سخت ہو جاتے ہیں، پھر ان میں فسق و فجور کے داخلے کے لیے دروازہ کھل جاتا ہے۔ اس آیت کریمہ سے یہ بھی معلوم ہوا کہ دلوں کی سختی اللہ تعالیٰ کی عبادت میں رکاوٹ کا باعث ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کی برائی کو کئی ایک مقام پر بیان فرمایا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ''ان لوگوں کے لیے ہلاکت ہے جن کے دل اللہ کی یاد سے (غفلت کی بنا پر) سخت ہو گئے۔'' (الزمر: 39/22) دوسرے مقام پر فرمایا: ''پھر تمہارے دل سخت ہو گئے اتنے سخت جیسے پتھر ہوں یا ان سے بھی سخت تر۔'' (البقرۃ: 2/74)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کی رہنمائی کرتے ہوئے مختلف انداز میں ''اصلاح قلوب، یعنی دلوں کی اصلاح اور درستی کی تدابیر بتائی ہیں، نیز بتایا ہے کہ اعمال کی اصلاح، دلوں کی اصلاح پر موقوف ہے، آپ نے فرمایا: ''آگاہ رہو! جسم میں ایک ایسا ٹکڑا ہے اگر وہ صحیح ہو تو سارا جسم صحیح رہتا ہے اور اگر وہ خراب ہو تو سارا جسم خراب ہو جاتا ہے۔ آگاہ رہو وہ دل ہے۔'' (صحیح البخاری، الایمان، حدیث: 52) امام بخاری رحمہ اللہ نے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کرتے ہوئے ''اصلاح قلوب'' کے لیے اپنی صحیح میں ایک عنوان ''کتاب الرقاق'' کے نام سے قائم کیا ہے۔رِقَاق، رَقِيقَة کی جمع ہے جس کے معنی ہیں: نرمی۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت ایک سو ترانوے (193) ایسی مرفوع احادیث پیش کی ہیں جنہیں پڑھ کر دل میں رقت اور نرمی پیدا ہوتی ہے، جن میں تینتیس (33) معلق اور ایک سو ساٹھ (160) احادیث متصل اسناد سے مروی ہیں، پھر ان میں ایک سو چونتیس (134) مکرر اور انسٹھ (59) احادیث خالص ہیں۔ مرفوع احادیث کے علاوہ مختلف صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام رحمہم اللہ سے مروی سترہ (17) آثار بھی ذکر کیے ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے ان احادیث و آثار پر تریپن چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں تاکہ اس کے تمام پہلوؤں کا احاطہ کیا جائے۔ ان میں دنیا کی بے ثباتی، آخرت کا دوام اور ہمیشگی، مال و دولت سے بے نیازی، فکر آخرت، اخلاص و للہیت، تواضع و انکسار، گناہوں سے نفرت اور نیک اعمال سے محبت اور ان کے اثرات کو خاص طور پر بیان کیا ہے۔دور حاضر میں آزاد فکری اور روشن خیالی کا بہت چرچا ہے، ایسے حالات میں مذکورہ عنوان اور اس کے تحت پیش کردہ احادیث اکسیر اعظم کی حیثیت رکھتی ہیں۔ اس عالم رنگ و بو میں دلوں میں بگاڑ پیدا کرنے کے لیے بہت سے عوام کارفرما ہیں لیکن ان کی اصلاح کے لیے فکر آخرت ہی کافی ہے۔ ان احادیث کو پڑھیے اور اپنے اندر فکر آخرت پیدا کرنے کی کوشش کیجیے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں عمل کی توفیق دے۔ آمین یا رب العالمین
حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے،انہوں نے کہا: میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا: ”لوگوں کی مثال تو ایسے اونٹوں کی طرح ہے، جن میں سے تو کسی ایک کو بھی سواری کے قابل نہیں پائے گا۔“
حدیث حاشیہ:
(1) اس حدیث میں لوگوں سے مراد صحابۂ کرام یا تابعین عظام نہیں کیونکہ ان کی فضیلت تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود بیان فرمائی ہے بلکہ ان سے مراد مستقبل بعید کے لوگ ہیں کہ ان میں شاذ شاذ لوگ احکام شریعت کی پابندی کریں گے، یعنی عوام الناس تعداد میں بہت زیادہ ہوں گے لیکن ان میں کام کے آدمی بہت کم ہوں گے۔ اکثریت، ان فرائض کو ضائع کر دے گی جو ان کے ذمے واجب الادا ہوں گے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ صحابہ کرام اور تابعین کے بعد والے لوگوں کی تخصیص کرنا درست نہیں کیونکہ اہل ایمان کی تعداد کفار کے مقابلے میں ہمیشہ کم ہوتی ہے، لہذا حدیث میں ذکر کردہ تقابل ہر وقت اور ہر جگہ دیکھا جا سکتا ہے۔ (فتح الباري: 408/11) (2) آج مسلمان بکثرت ہر جگہ موجود ہیں مگر حقیقی مسلمان اگر تلاش کیے جائیں تو انتہائی مایوسی ہوتی ہے لیکن اس کے باوجود اللہ والوں سے زمین کبھی خالی نہیں ہوتی۔ واللہ المستعان
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے ابو الیمان نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم کو شعیب نے خبر دی، ان سے زہری نے بیان کیا، انہوں نے کہا مجھ کو سالم بن عبد اللہ نے خبر دی اور ان سے حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا، آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ لوگوں کی مثال اونٹوں کی سی ہے، سو میں بھی ایک تیز سواری کے قابل نہیں ملتا۔
حدیث حاشیہ:
آج کے مسلمان بکثرت ہر جگہ موجود ہیں مگر حقیقی مسلمان تلاش کئے جائیں تو مایوسی ہوگی۔ پھر بھی اللہ والوں سے زمین خالی نہیں ہے کم من عبا د اللہ لو أقسم علی اللہ لأبرہ۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Abdullah bin 'Umar (RA) : I heard Allah's Apostle (ﷺ) saying, "People are just like camels, out of one hundred, one can hardly find a single camel suitable to ride."