Sahi-Bukhari:
To make the Heart Tender (Ar-Riqaq)
(Chapter: The stupors of death)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
6514.
حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا رسول اللہ نے فرمایا: ”میت کے ساتھ تین چیزیں چلتی ہیں، دو آپس آ جاتی ہیں اور ایک اس کے ساتھ رہتی ہے۔ اسکی ساتھ اس کا اہل مال اور عمل چلتا ہے، اس کےاہل خانہ اور اس کا مال تو واپس آ جاتا ہے جبکہ اس کا عمل اس کے ساتھ باقی رہ جاتا ہے۔“
تشریح:
(1) چونکہ میت، مرتے وقت موت کی سختی سے دوچار ہوتی ہے، اس لیے اس کی تسکین و تسلی کے لیے اہل خانہ اس کے ساتھ جاتے ہیں۔ دوسری حدیث میں ہے کہ نیک آدمی کا اچھا کردار خوبصورت شخص کی صورت میں اس کے پاس آ کر اسے بشارت دیتا ہے۔ آدمی کہتا ہے: تو کون ہے؟ وہ جواب دیتا ہے: میں تیرا نیک عمل ہوں۔ اور کافر کے پاس اس کا عمل انتہائی بدصورت انسان کی شکل میں آتا ہے اور ڈراتا ہے اور رنج و الم سے دوچار کرتا ہے۔ (مسند أحمد: 296/4) (2) بہرحال انسان کا اچھا یا برا کردار تو اس کے ساتھ رہتا ہے۔ جبکہ بعض اوقات اہل خانہ اور مال و اسباب اس کے ساتھ نہیں جاتے۔ اللہ تعالیٰ ہمارے ساتھ آسانی فرمائے۔ آمین
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6285
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6514
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
6514
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
6514
تمہید کتاب
اللہ تعالیٰ نے کائنات کی ہر چیز انسان کے فائدے کے لیے پیدا کی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ''وہی تو ہے جس نے زمین پر موجود تمام چیزیں تمہاری خاطر پیدا کیں۔'' (البقرۃ: 2/29) اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان کو زمین کی ہر چیز سے فائدہ اٹھانے کا حق ہے بلکہ دوسرے مقام پر اس سے بھی زیادہ وضاحت کے ساتھ فرمایا: ''جو کچھ آسمانوں میں ہے یا زمین میں، اس نے سب کچھ اپنی طرف سے تمہارے لیے مسخر کر دیا ہے۔'' (الجاثیۃ: 45/13) کائنات کی ہر چیز سے انسان کو کچھ نہ کچھ فائدہ ضرور پہنچ رہا ہے، مثلاً: پانی، ہوا، زمین میں مدفون خزانے، سمندر، پہاڑ، سورج، چاند اور ستارے، الغرض ہر چیز انسان کے فائدے کے لیے پیدا کی گئی ہے۔ لیکن انسان کو اللہ تعالیٰ نے اپنی عبادت ہی کے لیے پیدا کیا ہے تاکہ کائنات کی اشیاء سے فائدہ اٹھا کر محسن کا شکر ادا کرے اور اس کی عبادت میں خود کو مصروف رکھے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ''میں نے جنوں اور انسانوں کو صرف اس لیے پیدا کیا ہے کہ وہ میری عبادت کریں۔'' (الذاریات: 51/56)اس آیت کے پیش نظر انسان ہر وقت اللہ تعالیٰ کا بندہ ہے اور اسے ہر حال میں اس کی اطاعت اور بندگی میں مصروف رہنا چاہیے لیکن بعض اوقات انسان حصول دنیا میں اس قدر مگن ہو جاتا ہے کہ وہ اپنے خالق کے حق کو نظر انداز کر کے صرف دنیا کا ہو کر رہ جاتا ہے، پھر جوں جوں اللہ تعالیٰ سے دور ہوتا جاتا ہے اس کا دل سخت سے سخت تر ہوتا چلا جاتا ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ''یہ اہل ایمان ان لوگوں کی طرح نہ ہو جائیں جنہیں ان سے پہلے کتاب دی گئی تھی۔ پھر ان پر لمبی مدت گزر گئی تو ان کے دل سخت ہو گئے۔'' (الحدید: 57/16) اس آیت میں تنبیہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی یاد اور بندگی سے غافل رہنا ایسی بیماری ہے جس سے دل سخت ہو جاتے ہیں، پھر ان میں فسق و فجور کے داخلے کے لیے دروازہ کھل جاتا ہے۔ اس آیت کریمہ سے یہ بھی معلوم ہوا کہ دلوں کی سختی اللہ تعالیٰ کی عبادت میں رکاوٹ کا باعث ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کی برائی کو کئی ایک مقام پر بیان فرمایا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ''ان لوگوں کے لیے ہلاکت ہے جن کے دل اللہ کی یاد سے (غفلت کی بنا پر) سخت ہو گئے۔'' (الزمر: 39/22) دوسرے مقام پر فرمایا: ''پھر تمہارے دل سخت ہو گئے اتنے سخت جیسے پتھر ہوں یا ان سے بھی سخت تر۔'' (البقرۃ: 2/74)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کی رہنمائی کرتے ہوئے مختلف انداز میں ''اصلاح قلوب، یعنی دلوں کی اصلاح اور درستی کی تدابیر بتائی ہیں، نیز بتایا ہے کہ اعمال کی اصلاح، دلوں کی اصلاح پر موقوف ہے، آپ نے فرمایا: ''آگاہ رہو! جسم میں ایک ایسا ٹکڑا ہے اگر وہ صحیح ہو تو سارا جسم صحیح رہتا ہے اور اگر وہ خراب ہو تو سارا جسم خراب ہو جاتا ہے۔ آگاہ رہو وہ دل ہے۔'' (صحیح البخاری، الایمان، حدیث: 52) امام بخاری رحمہ اللہ نے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کرتے ہوئے ''اصلاح قلوب'' کے لیے اپنی صحیح میں ایک عنوان ''کتاب الرقاق'' کے نام سے قائم کیا ہے۔رِقَاق، رَقِيقَة کی جمع ہے جس کے معنی ہیں: نرمی۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت ایک سو ترانوے (193) ایسی مرفوع احادیث پیش کی ہیں جنہیں پڑھ کر دل میں رقت اور نرمی پیدا ہوتی ہے، جن میں تینتیس (33) معلق اور ایک سو ساٹھ (160) احادیث متصل اسناد سے مروی ہیں، پھر ان میں ایک سو چونتیس (134) مکرر اور انسٹھ (59) احادیث خالص ہیں۔ مرفوع احادیث کے علاوہ مختلف صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام رحمہم اللہ سے مروی سترہ (17) آثار بھی ذکر کیے ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے ان احادیث و آثار پر تریپن چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں تاکہ اس کے تمام پہلوؤں کا احاطہ کیا جائے۔ ان میں دنیا کی بے ثباتی، آخرت کا دوام اور ہمیشگی، مال و دولت سے بے نیازی، فکر آخرت، اخلاص و للہیت، تواضع و انکسار، گناہوں سے نفرت اور نیک اعمال سے محبت اور ان کے اثرات کو خاص طور پر بیان کیا ہے۔دور حاضر میں آزاد فکری اور روشن خیالی کا بہت چرچا ہے، ایسے حالات میں مذکورہ عنوان اور اس کے تحت پیش کردہ احادیث اکسیر اعظم کی حیثیت رکھتی ہیں۔ اس عالم رنگ و بو میں دلوں میں بگاڑ پیدا کرنے کے لیے بہت سے عوام کارفرما ہیں لیکن ان کی اصلاح کے لیے فکر آخرت ہی کافی ہے۔ ان احادیث کو پڑھیے اور اپنے اندر فکر آخرت پیدا کرنے کی کوشش کیجیے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں عمل کی توفیق دے۔ آمین یا رب العالمین
تمہید باب
سكرات، سكرة کی جمع ہے، اس سے مراد درد کی وجہ سے بے ہوش ہو جانا ہے اگرچہ اکثر طور پر یہ لفظ نشے کی وجہ سے ہونے والی بے ہوشی پر بولا جاتا ہے۔
حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا رسول اللہ نے فرمایا: ”میت کے ساتھ تین چیزیں چلتی ہیں، دو آپس آ جاتی ہیں اور ایک اس کے ساتھ رہتی ہے۔ اسکی ساتھ اس کا اہل مال اور عمل چلتا ہے، اس کےاہل خانہ اور اس کا مال تو واپس آ جاتا ہے جبکہ اس کا عمل اس کے ساتھ باقی رہ جاتا ہے۔“
حدیث حاشیہ:
(1) چونکہ میت، مرتے وقت موت کی سختی سے دوچار ہوتی ہے، اس لیے اس کی تسکین و تسلی کے لیے اہل خانہ اس کے ساتھ جاتے ہیں۔ دوسری حدیث میں ہے کہ نیک آدمی کا اچھا کردار خوبصورت شخص کی صورت میں اس کے پاس آ کر اسے بشارت دیتا ہے۔ آدمی کہتا ہے: تو کون ہے؟ وہ جواب دیتا ہے: میں تیرا نیک عمل ہوں۔ اور کافر کے پاس اس کا عمل انتہائی بدصورت انسان کی شکل میں آتا ہے اور ڈراتا ہے اور رنج و الم سے دوچار کرتا ہے۔ (مسند أحمد: 296/4) (2) بہرحال انسان کا اچھا یا برا کردار تو اس کے ساتھ رہتا ہے۔ جبکہ بعض اوقات اہل خانہ اور مال و اسباب اس کے ساتھ نہیں جاتے۔ اللہ تعالیٰ ہمارے ساتھ آسانی فرمائے۔ آمین
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے حمیدی نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان نے بیان کیا، کہا ہم سے عبد اللہ بن ابی بکر بن عمرو بن حزم نے بیان کیا، انہوں نے انس بن مالک ؓ سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا میت کے ساتھ تین چیزیں چلتی ہیں دو تو واپس آ جاتی ہیں صرف ایک کام اس کے ساتھ رہ جاتا ہے، اس کے ساتھ اس کے گھر والے اس کا مال اور اس کا عمل چلتا ہے اس کے گھر والے اور مال تو واپس آ جاتے ہیں اوراس کا عمل اس کے ساتھ باقی رہ جاتا ہے۔
حدیث حاشیہ:
دوسری حدیث میں ہے کہ اس کا نیک عمل اچھے خوبصورت شخص کی صورت میں بن کر اس کے پاس آ کر اسے خوشی کی بشارت دیتا ہے اور کہتا ہے کہ میں تیرا نیک عمل ہوں۔ باب کی مناسبت اس طرح سے ہے کہ میت کے ساتھ لوگ اس وجہ سے جاتے ہیں کہ موت کی سختی اس پر حال ہی میں گزری ہوئی ہے تو اس کی تسکین اور تسلی کے لئے ہمراہ رہتے ہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Anas bin Malik (RA): Allah's Apostle (ﷺ) said, "When carried to his grave, a dead person is followed by three, two of which return (after his burial) and one remains with him: his relative, his property, and his deeds follow him; relatives and his property go back while his deeds remain with him."