Sahi-Bukhari:
To make the Heart Tender (Ar-Riqaq)
(Chapter: The blowing of the Trumpet, on the Day of Resurrection)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
مجاہد نے کہا کہ صور ایک سینگ کی طرح ہے۔ اور (سورۃ یٰسین میں جو ہے فانما هی زجرة واحدة ) تو «زجرة» کے معنی چیخ کے ہیں (دوسری بار) پھونکنا اور صيحة پہلی بار پھونکنا۔ وقال ابن عباس الناقور الصور. {الراجفة} النفخة الأولى. و{الرادفة} النفخة الثانية.مجاہد نے کہا کہ صور ایک سینگ کی طرح ہے۔ اور ( سورۃ ےٰسین میں جو ہے فانما ہی زجرۃ واحدۃ ) تو زجرۃ کے معنی چیخ کے ہیں ( دوسری بار ) پھونکنا اور صیحۃ پہلی بار پھونکنا۔ اور ابن عباس نے کہا ناقور ( جو سورۃ مائدہ میں ہے ) صور کو کہتے ہیں ( وصلہ الطبری و ابن ابی حاتم ) الراجفۃ ( جو سورۃ والنازعات میں ہے ) پہلی بار صور کا پھونکنا، الرادفۃ ( جو اسی سورت میں ہے ) دوسری بار کا پھونکنا۔تشریح:صور ایک جسم ہے جس کو اللہ نے پیدا کر کے حضرت اسرفیل نامی فرشتے کے حوالہ کیا ہوا ہے اس میں اتنے سوراخ ہیں جتنی دنیا میں روحیں ہیں اس صور کو پھونکتے ہی وہ روحیں نکل نکل کر کرمانی شارح بخاری فرماتے ہیں اختلف فی عدد ھا فاصح انھا نفختان قال اللہ وفقخ فی الصور فصعق من فی السموات والارض الا من شاءاللہ ثم نفخ فیہ اخریٰ فاذاھم قیام ینظرون والقول الثانی انھا ثلث نفخات نفخۃ الفزع اھل السموات والارض بخیث یذھل کل مرضعہ عماارضعت ثم نفخۃ الصعق ثم نفخۃ البعث فاجیب بان الاولین عائد تان الی واحدۃ فزعوا الی ان صعقوا واللہ اعلم(کرمانی)یعنی نفخ صور کے عدد میں اختلاف کیا گیا ہے اور صحیح یہ ہے کہ وہ دو نفخے ہوں گے جیسا کہ ارشاد باری ہے ’’اور صور پھونکا جائے گا جس کے بعد زمین و آسمان والے سب بہوش ہو جائیں گے مگر جسے اللہ بچانا چاہے گا وہ بہوش نہ ہو گا ‘‘پھر دوبارہ اس میں پھونکا جائے گا ‘جس کے بعد اچانک تمام ذی روح کھڑے ہو کر دیکھتے ہوں گے دوسرا قول یہ ہے نفخے تین ہوں گے پہلا نفخہ قزع کا ہوگا جس کے بعد تمام زمین و آسمان والے گھبرا جائیں گے اس طور کے بعد دودھ پلانے والی عورتیں اپنے بچوں کو دودھ پلانے سے غافل ہو جائیں گی پھر دوسرا نفخہ بہوشی کا ہوگا پھر تیسرا نفخہ ہوگا جس کے بعدزمین و آسمان والے اٹھ کھڑے ہوں گے اس کا جواب یوں دیا گیا ہے کہ نفخہ قزع اور نفخہ صعق یہ دونوں ایک ہی ہیں یعنی وہ پہلے نفخہ پر ایسے گھبرائیں گے کہ گھبراتے گھبراتے بے ہوش ہو جائیں گے۔یا اللہ! آج عشرہ محرم 1396ھ کا مبارک تریں سحر ہے میں اس پارے کی تسوید کا آغاز کر رہا ہوں پرودگار میں نہایت ہی عاجزی سے اس مقدس ساعت میں تیرے سامنے ہاتھ پھیلاتا ہوں مثل سابق اس پارے کو بھی اشاعت میں لانے کے لئے غیب سے اسباب مہیا فرما دے اور تکمیل بخاری شریف کے شرف عظیم سے مشرف فرما اور میرے سارے مخلصین کو اس خدمت کے ثواب عظیم میں حصہ وافر عطا فرما اور مجھ کو امراض قلبی اور و قالبی اور افکار ظاہری و باطنی سے خلاصی بخش دیجئو اور میرے تمام ساتھیوں کے ساتھ میری اولاد ذکور اناس کو بھی برکات دارین عطا فرمائیو اور باقی پاروں کی تسوید اور اشاعت کے لئے بھی نصرت فرمائیو تا کہ یہ حدیث تکمیل کو پہنچ کر جملہ اہل اسلام کے لئے باعث رشد و ہدایت بن سکے۔یا اللہ! اس خدمت کے سلسلہ میں مجھ سے جو لغزش اور کوتاہی ہو جائے اس کو بھی معاف فرما دیجیو آج رمضان المبارک 1396ھ کا پہلا جمعہ اور ساتواں روزہ ہے کہ نظر ثالث کے بعد اسے بعون اللہ تبارک وتعالیٰ کاتب صاحبان کی خدمت میں برائے کتابت خوالہ کر رہا ہوں ۔ربنا تقبل منا انک انت السمع العلیم وصل علی حبیبک محمد وآلہ واصحابہ اجمعین برحمتک یا ارحم الرحمین راقم خادم محمد داؤد راز 7 رمضان 1396ھ وارد حال کتب خانہ محمدیہ اہلحدیث نمبر 17 مارکیٹ روڈ بنگلور دارالسرور(حرسہااللہ من شرو رالدھور آمین)
6517.
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ وہ آدمی ایک مسلمان اور ایک یہودی آپس میں جھگڑ پڑے۔ مسلمان نے کہا: اس ذات کی قسم جس نے حضرت محمد ﷺ کو تمام جہانوں پر بزرگی دی! مسلمان یہودی کی یہ بات سن کر خفا ہو گیا اور اس کے منہ پر ایک طمانچہ رسید کر دیا۔ یہودی نے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر اپنا اور مسلمان کا واقعہ بتایا تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”مجھے موسیٰ ؑ پر فصیلت نہ دو کیونکہ قیامت کے دن تمام لوگ بے ہوش ہو جائیں گے اور سب سے پہلا شخص ہوں گا جسے ہوش آئے گا، اس دوران میں موسیٰ ؑ کو دیکھوں گا کہ وہ عرش کا کونا تھامے ہوئے ہوں گے۔ مجھے معلوم نہیں کہ موسیٰ ؑ ان لوگوں میں سے ہیں جو بے ہوش ہوئے لیکن مجھ سے پہلے ہی ہوش میں آگئے یا وہ ان لوگوں میں سے ہیں جنہیں اللہ تعالٰی نے (بے ہوشی) مستشنیٰ کیا ہے۔“
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6288
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6517
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
6517
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
6517
تمہید کتاب
اللہ تعالیٰ نے کائنات کی ہر چیز انسان کے فائدے کے لیے پیدا کی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ''وہی تو ہے جس نے زمین پر موجود تمام چیزیں تمہاری خاطر پیدا کیں۔'' (البقرۃ: 2/29) اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان کو زمین کی ہر چیز سے فائدہ اٹھانے کا حق ہے بلکہ دوسرے مقام پر اس سے بھی زیادہ وضاحت کے ساتھ فرمایا: ''جو کچھ آسمانوں میں ہے یا زمین میں، اس نے سب کچھ اپنی طرف سے تمہارے لیے مسخر کر دیا ہے۔'' (الجاثیۃ: 45/13) کائنات کی ہر چیز سے انسان کو کچھ نہ کچھ فائدہ ضرور پہنچ رہا ہے، مثلاً: پانی، ہوا، زمین میں مدفون خزانے، سمندر، پہاڑ، سورج، چاند اور ستارے، الغرض ہر چیز انسان کے فائدے کے لیے پیدا کی گئی ہے۔ لیکن انسان کو اللہ تعالیٰ نے اپنی عبادت ہی کے لیے پیدا کیا ہے تاکہ کائنات کی اشیاء سے فائدہ اٹھا کر محسن کا شکر ادا کرے اور اس کی عبادت میں خود کو مصروف رکھے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ''میں نے جنوں اور انسانوں کو صرف اس لیے پیدا کیا ہے کہ وہ میری عبادت کریں۔'' (الذاریات: 51/56)اس آیت کے پیش نظر انسان ہر وقت اللہ تعالیٰ کا بندہ ہے اور اسے ہر حال میں اس کی اطاعت اور بندگی میں مصروف رہنا چاہیے لیکن بعض اوقات انسان حصول دنیا میں اس قدر مگن ہو جاتا ہے کہ وہ اپنے خالق کے حق کو نظر انداز کر کے صرف دنیا کا ہو کر رہ جاتا ہے، پھر جوں جوں اللہ تعالیٰ سے دور ہوتا جاتا ہے اس کا دل سخت سے سخت تر ہوتا چلا جاتا ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ''یہ اہل ایمان ان لوگوں کی طرح نہ ہو جائیں جنہیں ان سے پہلے کتاب دی گئی تھی۔ پھر ان پر لمبی مدت گزر گئی تو ان کے دل سخت ہو گئے۔'' (الحدید: 57/16) اس آیت میں تنبیہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی یاد اور بندگی سے غافل رہنا ایسی بیماری ہے جس سے دل سخت ہو جاتے ہیں، پھر ان میں فسق و فجور کے داخلے کے لیے دروازہ کھل جاتا ہے۔ اس آیت کریمہ سے یہ بھی معلوم ہوا کہ دلوں کی سختی اللہ تعالیٰ کی عبادت میں رکاوٹ کا باعث ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کی برائی کو کئی ایک مقام پر بیان فرمایا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ''ان لوگوں کے لیے ہلاکت ہے جن کے دل اللہ کی یاد سے (غفلت کی بنا پر) سخت ہو گئے۔'' (الزمر: 39/22) دوسرے مقام پر فرمایا: ''پھر تمہارے دل سخت ہو گئے اتنے سخت جیسے پتھر ہوں یا ان سے بھی سخت تر۔'' (البقرۃ: 2/74)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کی رہنمائی کرتے ہوئے مختلف انداز میں ''اصلاح قلوب، یعنی دلوں کی اصلاح اور درستی کی تدابیر بتائی ہیں، نیز بتایا ہے کہ اعمال کی اصلاح، دلوں کی اصلاح پر موقوف ہے، آپ نے فرمایا: ''آگاہ رہو! جسم میں ایک ایسا ٹکڑا ہے اگر وہ صحیح ہو تو سارا جسم صحیح رہتا ہے اور اگر وہ خراب ہو تو سارا جسم خراب ہو جاتا ہے۔ آگاہ رہو وہ دل ہے۔'' (صحیح البخاری، الایمان، حدیث: 52) امام بخاری رحمہ اللہ نے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کرتے ہوئے ''اصلاح قلوب'' کے لیے اپنی صحیح میں ایک عنوان ''کتاب الرقاق'' کے نام سے قائم کیا ہے۔رِقَاق، رَقِيقَة کی جمع ہے جس کے معنی ہیں: نرمی۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت ایک سو ترانوے (193) ایسی مرفوع احادیث پیش کی ہیں جنہیں پڑھ کر دل میں رقت اور نرمی پیدا ہوتی ہے، جن میں تینتیس (33) معلق اور ایک سو ساٹھ (160) احادیث متصل اسناد سے مروی ہیں، پھر ان میں ایک سو چونتیس (134) مکرر اور انسٹھ (59) احادیث خالص ہیں۔ مرفوع احادیث کے علاوہ مختلف صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام رحمہم اللہ سے مروی سترہ (17) آثار بھی ذکر کیے ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے ان احادیث و آثار پر تریپن چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں تاکہ اس کے تمام پہلوؤں کا احاطہ کیا جائے۔ ان میں دنیا کی بے ثباتی، آخرت کا دوام اور ہمیشگی، مال و دولت سے بے نیازی، فکر آخرت، اخلاص و للہیت، تواضع و انکسار، گناہوں سے نفرت اور نیک اعمال سے محبت اور ان کے اثرات کو خاص طور پر بیان کیا ہے۔دور حاضر میں آزاد فکری اور روشن خیالی کا بہت چرچا ہے، ایسے حالات میں مذکورہ عنوان اور اس کے تحت پیش کردہ احادیث اکسیر اعظم کی حیثیت رکھتی ہیں۔ اس عالم رنگ و بو میں دلوں میں بگاڑ پیدا کرنے کے لیے بہت سے عوام کارفرما ہیں لیکن ان کی اصلاح کے لیے فکر آخرت ہی کافی ہے۔ ان احادیث کو پڑھیے اور اپنے اندر فکر آخرت پیدا کرنے کی کوشش کیجیے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں عمل کی توفیق دے۔ آمین یا رب العالمین
تمہید باب
صور میں دو دفعہ پھونکا جائے گا: ایک نفخۂ صعق ہے اسے نفخۂ فزع بھی کہتے ہیں اور دوسرا نفخۂ قیام ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ''صور میں پھونکا جائے گا تو جو لوگ زمین میں ہیں اور جو آسمان میں ہیں بے ہوش ہو جائیں گے مگر جسے اللہ چاہے، پھر دوبارہ اس میں پھونکا جائے گا تو اچانک سب لوگ کھڑے ہو کر دیکھ رہے ہوں گے۔'' (الزمر: 39/68) بعض اہل علم نے ان میں نفخۂ فزع کا اضافہ کیا ہے لیکن یہ نفخۂ صعق ہی کا حصہ ہے، یعنی پہلے نفخے کے وقت پہلے گھبراہٹ طاری ہو گی پھر گھبراتے گھبراتے بے ہوش ہو جائیں گے۔ واللہ اعلم
مجاہد نے کہا کہ صور ایک سینگ کی طرح ہے۔ اور (سورۃ یٰسین میں جو ہے فانما هی زجرة واحدة ) تو «زجرة» کے معنی چیخ کے ہیں (دوسری بار) پھونکنا اور صيحة پہلی بار پھونکنا۔ وقال ابن عباس الناقور الصور. {الراجفة} النفخة الأولى. و{الرادفة} النفخة الثانية.مجاہد نے کہا کہ صور ایک سینگ کی طرح ہے۔ اور ( سورۃ ےٰسین میں جو ہے فانما ہی زجرۃ واحدۃ ) تو زجرۃ کے معنی چیخ کے ہیں ( دوسری بار ) پھونکنا اور صیحۃ پہلی بار پھونکنا۔ اور ابن عباس نے کہا ناقور ( جو سورۃ مائدہ میں ہے ) صور کو کہتے ہیں ( وصلہ الطبری و ابن ابی حاتم ) الراجفۃ ( جو سورۃ والنازعات میں ہے ) پہلی بار صور کا پھونکنا، الرادفۃ ( جو اسی سورت میں ہے ) دوسری بار کا پھونکنا۔تشریح:صور ایک جسم ہے جس کو اللہ نے پیدا کر کے حضرت اسرفیل نامی فرشتے کے حوالہ کیا ہوا ہے اس میں اتنے سوراخ ہیں جتنی دنیا میں روحیں ہیں اس صور کو پھونکتے ہی وہ روحیں نکل نکل کر کرمانی شارح بخاری فرماتے ہیں اختلف فی عدد ھا فاصح انھا نفختان قال اللہ وفقخ فی الصور فصعق من فی السموات والارض الا من شاءاللہ ثم نفخ فیہ اخریٰ فاذاھم قیام ینظرون والقول الثانی انھا ثلث نفخات نفخۃ الفزع اھل السموات والارض بخیث یذھل کل مرضعہ عماارضعت ثم نفخۃ الصعق ثم نفخۃ البعث فاجیب بان الاولین عائد تان الی واحدۃ فزعوا الی ان صعقوا واللہ اعلم(کرمانی)یعنی نفخ صور کے عدد میں اختلاف کیا گیا ہے اور صحیح یہ ہے کہ وہ دو نفخے ہوں گے جیسا کہ ارشاد باری ہے ’’اور صور پھونکا جائے گا جس کے بعد زمین و آسمان والے سب بہوش ہو جائیں گے مگر جسے اللہ بچانا چاہے گا وہ بہوش نہ ہو گا ‘‘پھر دوبارہ اس میں پھونکا جائے گا ‘جس کے بعد اچانک تمام ذی روح کھڑے ہو کر دیکھتے ہوں گے دوسرا قول یہ ہے نفخے تین ہوں گے پہلا نفخہ قزع کا ہوگا جس کے بعد تمام زمین و آسمان والے گھبرا جائیں گے اس طور کے بعد دودھ پلانے والی عورتیں اپنے بچوں کو دودھ پلانے سے غافل ہو جائیں گی پھر دوسرا نفخہ بہوشی کا ہوگا پھر تیسرا نفخہ ہوگا جس کے بعدزمین و آسمان والے اٹھ کھڑے ہوں گے اس کا جواب یوں دیا گیا ہے کہ نفخہ قزع اور نفخہ صعق یہ دونوں ایک ہی ہیں یعنی وہ پہلے نفخہ پر ایسے گھبرائیں گے کہ گھبراتے گھبراتے بے ہوش ہو جائیں گے۔یا اللہ! آج عشرہ محرم 1396ھ کا مبارک تریں سحر ہے میں اس پارے کی تسوید کا آغاز کر رہا ہوں پرودگار میں نہایت ہی عاجزی سے اس مقدس ساعت میں تیرے سامنے ہاتھ پھیلاتا ہوں مثل سابق اس پارے کو بھی اشاعت میں لانے کے لئے غیب سے اسباب مہیا فرما دے اور تکمیل بخاری شریف کے شرف عظیم سے مشرف فرما اور میرے سارے مخلصین کو اس خدمت کے ثواب عظیم میں حصہ وافر عطا فرما اور مجھ کو امراض قلبی اور و قالبی اور افکار ظاہری و باطنی سے خلاصی بخش دیجئو اور میرے تمام ساتھیوں کے ساتھ میری اولاد ذکور اناس کو بھی برکات دارین عطا فرمائیو اور باقی پاروں کی تسوید اور اشاعت کے لئے بھی نصرت فرمائیو تا کہ یہ حدیث تکمیل کو پہنچ کر جملہ اہل اسلام کے لئے باعث رشد و ہدایت بن سکے۔یا اللہ! اس خدمت کے سلسلہ میں مجھ سے جو لغزش اور کوتاہی ہو جائے اس کو بھی معاف فرما دیجیو آج رمضان المبارک 1396ھ کا پہلا جمعہ اور ساتواں روزہ ہے کہ نظر ثالث کے بعد اسے بعون اللہ تبارک وتعالیٰ کاتب صاحبان کی خدمت میں برائے کتابت خوالہ کر رہا ہوں ۔ربنا تقبل منا انک انت السمع العلیم وصل علی حبیبک محمد وآلہ واصحابہ اجمعین برحمتک یا ارحم الرحمین راقم خادم محمد داؤد راز 7 رمضان 1396ھ وارد حال کتب خانہ محمدیہ اہلحدیث نمبر 17 مارکیٹ روڈ بنگلور دارالسرور(حرسہااللہ من شرو رالدھور آمین)
حدیث ترجمہ:
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ وہ آدمی ایک مسلمان اور ایک یہودی آپس میں جھگڑ پڑے۔ مسلمان نے کہا: اس ذات کی قسم جس نے حضرت محمد ﷺ کو تمام جہانوں پر بزرگی دی! مسلمان یہودی کی یہ بات سن کر خفا ہو گیا اور اس کے منہ پر ایک طمانچہ رسید کر دیا۔ یہودی نے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر اپنا اور مسلمان کا واقعہ بتایا تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”مجھے موسیٰ ؑ پر فصیلت نہ دو کیونکہ قیامت کے دن تمام لوگ بے ہوش ہو جائیں گے اور سب سے پہلا شخص ہوں گا جسے ہوش آئے گا، اس دوران میں موسیٰ ؑ کو دیکھوں گا کہ وہ عرش کا کونا تھامے ہوئے ہوں گے۔ مجھے معلوم نہیں کہ موسیٰ ؑ ان لوگوں میں سے ہیں جو بے ہوش ہوئے لیکن مجھ سے پہلے ہی ہوش میں آگئے یا وہ ان لوگوں میں سے ہیں جنہیں اللہ تعالٰی نے (بے ہوشی) مستشنیٰ کیا ہے۔“
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
امام مجاہد کہتے ہیں: صور،بوق(سینگ اور بگل) جیسی کوئی چیز ہے۔ زجرۃ کے معنی ہیں:چیخ۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے کہا: «الناقور» کے معنی ہیں: صور۔ (الراجفۃ) سے مراد پہلی دفعہ صور میں پھونکنا اور (الرادفۃ) سے مراد سوسری دفعہ پھونکنا ہے۔
حدیث ترجمہ:
مجھ سے عبدالعزیز بن عبداللہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھ سے ابراہیم بن سعد نے بیان کیا، ان سے ابوسلمہ بن عبدالرحمن نے اور عبدالرحمن الاعرج نے بیان کیا، ان دونوں نے بیان کیا کہ حضرت ابوہریرہ ؓ نے فرمایا کہ دو آدمیوں نے آپس میں گالی گلوچ کی۔ جن میں سے ایک مسلمان تھا اور دوسرا یہودی تھا۔ مسلمان نے کہا کہ اس پروردگار کی قسم جس نے محمد ﷺ کو تمام جہان پر برگزیدہ کیا۔ یہودی نے کہا کہ اس پروردگار کی قسم جس نے موسیٰ ؑ کو تمام جہان پر برگزیدہ کیا۔ راوی نے بیان کیا کہ مسلمان یہودی کی بات سن کر خفا ہو گیا اور اس کے منہ پر ایک طمانچہ رسید کیا۔ یہودی رسول اللہ ﷺ کے پاس گیا اور آنحضرت ﷺ سے اپنا اور مسلمان کا سارا واقعہ بیان کیا۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا دیکھو موسیٰ ؑ پر مجھ کو فضیلت مت دو کیوں کہ قیامت کے دن ایسا ہوگا کہ صور پھونکتے ہی تمام لوگ بے ہوش ہو جائیں گے اور میں سب سے پہلا شخص ہوں گا جسے ہوش آئے گا۔ میں کیا دیکھوں گا کہ موسیٰ ؑ عرش الٰہی کا کونہ تھامے ہوئے ہیں۔ مجھے نہیں معلوم کی موسیٰ ؑ بھی ان لوگوں میں ہوں گے جو بے ہوش ہوئے تھے اور پھر مجھ سے پہلے ہی ہوش میں آگئے تھے یا ان میں سے ہوں گے جنہیں اللہ تعالیٰ نے اس سے مستثنیٰ کر دیا۔
حدیث حاشیہ:
فرمایا إلا من شاءاللہ کہتے ہیں کہ جبریل و میکائیل و اسرافیل و عزرائیل اور حاملان عرش اور ملائکہ علیہم السلام اور بہشت کے حور و غلمان وغیرہ بے ہوش نہ ہوں گے۔ آپ نے یہ ازراہ تواضع فرمایا ورنہ آپ سارے انبیاء سے افضل ہیں صلی اللہ علیه وسلم۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Hurairah (RA) : Two men, a Muslim and a Jew, abused each other. The Muslim said, "By Him Who gave superiority to Muhammad over all the people." On that, the Jew said, "By Him Who gave superiority to Moses (ؑ) over all the people." The Muslim became furious at that and slapped the Jew in the face. The Jew went to Allah's Apostle (ﷺ) and informed him of what had happened between him and the Muslim. Allah's Apostle (ﷺ) said, "Don't give me superiority over Moses (ؑ), for the people will fall unconscious on the Day of Resurrection and I will be the first to gain consciousness, and behold ! Moses (ؑ) will be there holding the side of Allah's Throne. I will not know whether Moses (ؑ) has been among those people who have become unconscious and then has regained consciousness before me, or has been among those exempted by Allah from falling unconscious."