باب: جس کے حساب میں کھود کرید کی گئی اس کو عذاب کیا جائے گا
)
Sahi-Bukhari:
To make the Heart Tender (Ar-Riqaq)
(Chapter: Anybody whose account is questioned will surely be punished)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
6540.
حضرت عدی بن حاتم ؓ ہی سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ نے فرمایا: ”جہنم سے بچو“ پھر آپ نے اپنا چہرہ پھیر لیا اور ناگواری کا اظہار کیا۔ پھر فرمایا: ”جہنم سے بچو۔“ پھر آپ نے اپنا چہرہ پھیر لیا اور ناگواری کا اظہار کیا۔ تین مرتبہ آپ نے ایسا ہی کیا۔ ہمیں اس سے خیال پیدا ہوا کہ آپ جہنم کو دیکھ رہے ہیں پھر آپ نے فرمایا: جہنم سے بچو، خواہ کھجور کے ایک ٹکڑے کے ذریعے سے ممکن ہو، جسے یہ بھی نہ ملے تو اسے کسی اچھی بات کہنے کے ذریعے سے ہی بچنے کی کوشش کرنی چاہیئے۔
تشریح:
(1) ایک دوسری روایت میں وضاحت ہے کہ وہ دائیں جانب دیکھے گا تو اسے اپنے اعمال نظر آئیں گے، بائیں طرف دیکھے گا تو بھی اپنے اعمال ہی نظر آئیں گے، سامنے دیکھے گا تو منہ کے سامنے دوزخ نظر آئے گا، اس لیے تمہیں آگ سے بچنے کی کوشش کرنی چاہیے اگرچہ کھجور کے ایک ٹکڑے سے یا کوئی اچھی بات کہنے کے ذریعے سے ممکن ہو۔ (صحیح البخاري، التوحید، حدیث: 7512) ایک اور روایت میں ہے کہ اسے دائیں جانب آگ نظر آئے گی اور بائیں جانب بھی آگ ہی نظر آئے گی۔ (صحیح البخاري، الزکاة، حدیث: 1413) (2) حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے ابن ہبیرہ کے حوالے سے اس کا سبب ان الفاظ میں بیان کیا ہے کہ اس کی گزرگاہ آگ ہو گی، اس سے ہٹ کر اسے کوئی راستہ میسر نہیں ہو گا کیونکہ پل صراط پر سے گزرے بغیر کوئی چارہ نہیں ہو گا۔ (فتح الباري: 492/11) (3) مطلب یہ ہے کہ آتش دوزخ سے بچنے کے لیے صدقہ کرتے رہا کرو۔ اگر کھجور کے ایک خشک ٹکڑے کے سوا تمہیں کچھ میسر نہ ہو تو اللہ کے راستے میں وہی دے کر دوزخ سے بچنے کی فکر کرو۔ اگر یہ بھی میسر نہ ہو تو اچھی بات کہنے سے یہ انعام حاصل کرنا چاہیے، مگر کتنے لوگ ہیں کہ انہیں یہ بھی نصیب نہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں نیک سمجھ عطا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6311
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6540
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
6540
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
6540
تمہید کتاب
اللہ تعالیٰ نے کائنات کی ہر چیز انسان کے فائدے کے لیے پیدا کی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ''وہی تو ہے جس نے زمین پر موجود تمام چیزیں تمہاری خاطر پیدا کیں۔'' (البقرۃ: 2/29) اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان کو زمین کی ہر چیز سے فائدہ اٹھانے کا حق ہے بلکہ دوسرے مقام پر اس سے بھی زیادہ وضاحت کے ساتھ فرمایا: ''جو کچھ آسمانوں میں ہے یا زمین میں، اس نے سب کچھ اپنی طرف سے تمہارے لیے مسخر کر دیا ہے۔'' (الجاثیۃ: 45/13) کائنات کی ہر چیز سے انسان کو کچھ نہ کچھ فائدہ ضرور پہنچ رہا ہے، مثلاً: پانی، ہوا، زمین میں مدفون خزانے، سمندر، پہاڑ، سورج، چاند اور ستارے، الغرض ہر چیز انسان کے فائدے کے لیے پیدا کی گئی ہے۔ لیکن انسان کو اللہ تعالیٰ نے اپنی عبادت ہی کے لیے پیدا کیا ہے تاکہ کائنات کی اشیاء سے فائدہ اٹھا کر محسن کا شکر ادا کرے اور اس کی عبادت میں خود کو مصروف رکھے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ''میں نے جنوں اور انسانوں کو صرف اس لیے پیدا کیا ہے کہ وہ میری عبادت کریں۔'' (الذاریات: 51/56)اس آیت کے پیش نظر انسان ہر وقت اللہ تعالیٰ کا بندہ ہے اور اسے ہر حال میں اس کی اطاعت اور بندگی میں مصروف رہنا چاہیے لیکن بعض اوقات انسان حصول دنیا میں اس قدر مگن ہو جاتا ہے کہ وہ اپنے خالق کے حق کو نظر انداز کر کے صرف دنیا کا ہو کر رہ جاتا ہے، پھر جوں جوں اللہ تعالیٰ سے دور ہوتا جاتا ہے اس کا دل سخت سے سخت تر ہوتا چلا جاتا ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ''یہ اہل ایمان ان لوگوں کی طرح نہ ہو جائیں جنہیں ان سے پہلے کتاب دی گئی تھی۔ پھر ان پر لمبی مدت گزر گئی تو ان کے دل سخت ہو گئے۔'' (الحدید: 57/16) اس آیت میں تنبیہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی یاد اور بندگی سے غافل رہنا ایسی بیماری ہے جس سے دل سخت ہو جاتے ہیں، پھر ان میں فسق و فجور کے داخلے کے لیے دروازہ کھل جاتا ہے۔ اس آیت کریمہ سے یہ بھی معلوم ہوا کہ دلوں کی سختی اللہ تعالیٰ کی عبادت میں رکاوٹ کا باعث ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کی برائی کو کئی ایک مقام پر بیان فرمایا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ''ان لوگوں کے لیے ہلاکت ہے جن کے دل اللہ کی یاد سے (غفلت کی بنا پر) سخت ہو گئے۔'' (الزمر: 39/22) دوسرے مقام پر فرمایا: ''پھر تمہارے دل سخت ہو گئے اتنے سخت جیسے پتھر ہوں یا ان سے بھی سخت تر۔'' (البقرۃ: 2/74)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کی رہنمائی کرتے ہوئے مختلف انداز میں ''اصلاح قلوب، یعنی دلوں کی اصلاح اور درستی کی تدابیر بتائی ہیں، نیز بتایا ہے کہ اعمال کی اصلاح، دلوں کی اصلاح پر موقوف ہے، آپ نے فرمایا: ''آگاہ رہو! جسم میں ایک ایسا ٹکڑا ہے اگر وہ صحیح ہو تو سارا جسم صحیح رہتا ہے اور اگر وہ خراب ہو تو سارا جسم خراب ہو جاتا ہے۔ آگاہ رہو وہ دل ہے۔'' (صحیح البخاری، الایمان، حدیث: 52) امام بخاری رحمہ اللہ نے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کرتے ہوئے ''اصلاح قلوب'' کے لیے اپنی صحیح میں ایک عنوان ''کتاب الرقاق'' کے نام سے قائم کیا ہے۔رِقَاق، رَقِيقَة کی جمع ہے جس کے معنی ہیں: نرمی۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت ایک سو ترانوے (193) ایسی مرفوع احادیث پیش کی ہیں جنہیں پڑھ کر دل میں رقت اور نرمی پیدا ہوتی ہے، جن میں تینتیس (33) معلق اور ایک سو ساٹھ (160) احادیث متصل اسناد سے مروی ہیں، پھر ان میں ایک سو چونتیس (134) مکرر اور انسٹھ (59) احادیث خالص ہیں۔ مرفوع احادیث کے علاوہ مختلف صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام رحمہم اللہ سے مروی سترہ (17) آثار بھی ذکر کیے ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے ان احادیث و آثار پر تریپن چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں تاکہ اس کے تمام پہلوؤں کا احاطہ کیا جائے۔ ان میں دنیا کی بے ثباتی، آخرت کا دوام اور ہمیشگی، مال و دولت سے بے نیازی، فکر آخرت، اخلاص و للہیت، تواضع و انکسار، گناہوں سے نفرت اور نیک اعمال سے محبت اور ان کے اثرات کو خاص طور پر بیان کیا ہے۔دور حاضر میں آزاد فکری اور روشن خیالی کا بہت چرچا ہے، ایسے حالات میں مذکورہ عنوان اور اس کے تحت پیش کردہ احادیث اکسیر اعظم کی حیثیت رکھتی ہیں۔ اس عالم رنگ و بو میں دلوں میں بگاڑ پیدا کرنے کے لیے بہت سے عوام کارفرما ہیں لیکن ان کی اصلاح کے لیے فکر آخرت ہی کافی ہے۔ ان احادیث کو پڑھیے اور اپنے اندر فکر آخرت پیدا کرنے کی کوشش کیجیے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں عمل کی توفیق دے۔ آمین یا رب العالمین
تمہید باب
مناقشه، نقش سے ماخوذ ہے جس کے معنی ہیں: پاؤں سے کانٹا نکالنا۔ اصطلاحی طور پر مناقشه یہ ہے کہ محاسبہ کرنے میں انتہا کو پہنچنا، یعنی بال کی کھال اتارنا حتی کہ بڑی اور چھوٹی ہر چیز کا مطالبہ کرتے وقت کسی قسم کی نرمی کا مظاہرہ نہ کرنا۔ (فتح الباری: 11/487)
حضرت عدی بن حاتم ؓ ہی سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ نے فرمایا: ”جہنم سے بچو“ پھر آپ نے اپنا چہرہ پھیر لیا اور ناگواری کا اظہار کیا۔ پھر فرمایا: ”جہنم سے بچو۔“ پھر آپ نے اپنا چہرہ پھیر لیا اور ناگواری کا اظہار کیا۔ تین مرتبہ آپ نے ایسا ہی کیا۔ ہمیں اس سے خیال پیدا ہوا کہ آپ جہنم کو دیکھ رہے ہیں پھر آپ نے فرمایا: جہنم سے بچو، خواہ کھجور کے ایک ٹکڑے کے ذریعے سے ممکن ہو، جسے یہ بھی نہ ملے تو اسے کسی اچھی بات کہنے کے ذریعے سے ہی بچنے کی کوشش کرنی چاہیئے۔
حدیث حاشیہ:
(1) ایک دوسری روایت میں وضاحت ہے کہ وہ دائیں جانب دیکھے گا تو اسے اپنے اعمال نظر آئیں گے، بائیں طرف دیکھے گا تو بھی اپنے اعمال ہی نظر آئیں گے، سامنے دیکھے گا تو منہ کے سامنے دوزخ نظر آئے گا، اس لیے تمہیں آگ سے بچنے کی کوشش کرنی چاہیے اگرچہ کھجور کے ایک ٹکڑے سے یا کوئی اچھی بات کہنے کے ذریعے سے ممکن ہو۔ (صحیح البخاري، التوحید، حدیث: 7512) ایک اور روایت میں ہے کہ اسے دائیں جانب آگ نظر آئے گی اور بائیں جانب بھی آگ ہی نظر آئے گی۔ (صحیح البخاري، الزکاة، حدیث: 1413) (2) حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے ابن ہبیرہ کے حوالے سے اس کا سبب ان الفاظ میں بیان کیا ہے کہ اس کی گزرگاہ آگ ہو گی، اس سے ہٹ کر اسے کوئی راستہ میسر نہیں ہو گا کیونکہ پل صراط پر سے گزرے بغیر کوئی چارہ نہیں ہو گا۔ (فتح الباري: 492/11) (3) مطلب یہ ہے کہ آتش دوزخ سے بچنے کے لیے صدقہ کرتے رہا کرو۔ اگر کھجور کے ایک خشک ٹکڑے کے سوا تمہیں کچھ میسر نہ ہو تو اللہ کے راستے میں وہی دے کر دوزخ سے بچنے کی فکر کرو۔ اگر یہ بھی میسر نہ ہو تو اچھی بات کہنے سے یہ انعام حاصل کرنا چاہیے، مگر کتنے لوگ ہیں کہ انہیں یہ بھی نصیب نہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں نیک سمجھ عطا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عدی بن حاتم ؓ سے ایک اور روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا، جہنم سے بچو۔ پھر آپ نے چہرہ پھیر لیا، پھر فرمایا کہ جہنم سے بچو اور پھر اس کے بعد چہرہ مبارک پھیر لیا، پھر فرمایا جہنم سے بچو۔ تین مرتبہ آپ نے ایسا ہی کیا۔ ہم نے اس سے یہ خیال کیا کہ آپ جہنم دیکھ رہے ہیں۔ پھر فرمایا کہ جہنم سے بچو خواہ کھجور کے ایک ٹکڑے ہی کے ذریعہ ہو سکے اور جسے یہ بھی نہ ملے تو اسے (لوگوں میں) کسی اچھی بات کہنے کے ذریعہ سے ہی (جہنم سے) بچنے کی کوشش کرنی چاہئے۔
حدیث حاشیہ:
دوسری روایت میں ہے کہ بے حجاب اور بے ترجمان کے یعنی کھلم کھلا اللہ پاک کو دیکھے گا اور اللہ تعالیٰ خود اپنی ذات سے بات کرے گا۔ یہ نہیں کہ اس کی طرف سے کوئی مترجم بات کرے۔ اب یہ ظاہر ہے کہ دنیا میں صدہا زبانیں ہیں تو اللہ پاک ہر زبان میں بات کرے گا اور یہ کلام حروف اور آواز کے ساتھ ہوگا ورنہ آدمی اس کی بات کیسے سمجھیں گے اور کیوں کر سنیں گے۔ اس حدیث سے ان لوگوں کا رد ہوا جو کہتے ہیں کہ اللہ کے کلام میں آواز اور حروف نہیں ہیں بلکہ معتزلہ اور جہیمہ تو یہ کہتے ہیں کہ وہ کلام ہی نہیں کرتا کسی دوسری چیز میں کلام کرنے کی قوت پیدا کر دیتا ہے۔ الفاظ فتستقبله النار کی مزید تشریح مسلم میں یوں آئی ہے کہ دائیں طرف دیکھے گا تو اپنے اعمال نظر آئیں گے۔ بائیں طرف دیکھے تو بھی اپنے اعمال نظر آئیں گے۔ سامنے نظر کرے گا تو منہ کے سامنے دوزخ نظرآئے گی۔ اچھی بات وہ ہے جس سے کسی کو ہدایت ہو، خدا اور رسول کی باتیں یا جس سے کوئی جھگڑا رفع ہو، لوگوں میں ملاپ ہو جائے یا جس سے کسی کا غصہ دور ہو جائے، ایسی عمدہ بات کہنے میں بھی ثواب ملے گا۔ حدیث کے آخری الفاظ کا یہی مطلب ہے۔ ہمدردی و غمخواری، محبت و شفقت، اتفاق و حسن اخلاق کی باتیں کرنا یہ بھی سب کلمات طیبات میں داخل ہیں اور ان سے بھی صدقہ خیرات کا ثواب ملتا ہے مگر کتنے لوگ ایسے ہیں کہ ان کو یہ بھی نصیب نہیں، اللہ ان کو نیک سمجھ عطا کرے۔ آمین۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
The Prophet (ﷺ) said, "Protect yourself from the Fire." He then turned his face aside (as if he were looking at it) and said again, "Protect yourself from the Fire," and then turned his face aside (as if he were looking at it), and he said so for the third time till we thought he was looking at it. He then said, "Protect yourselves from the Fire, even if with one half of a date and he who hasn't got even this, (should do so) by (saying) a good, pleasant word.'