Sahi-Bukhari:
To make the Heart Tender (Ar-Riqaq)
(Chapter: Seventy thousand will enter Paradise without accounts)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
6541.
حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ نے فرمایا: میرے سامنے امتیں پیش کی گئیں۔ ایک نبی گزرا اس کے ساتھ دس آدمی تھے جبکہ ایک نبی کے ساتھ پانچ لوگ تھے۔ ایک نبی تن تنہا تھا۔ پھر میں نے دیکھا تو لوگوں کی ایک بہت بڑی جماعت دور نظرآئی۔ میں نے جبریل ؑ سے پوچھا: کیا یہ میری امت ہے؟ انہوں نے کہا: بلکہ آپ افق کی طرف دیکھیں، میں نے ادھر ادھر دیکہا تو ایک زبردست جماعت دکھائی دی۔ جبریل ؑ نے کہا: یہ آپ کی امت ہے ان کے آگے آگے جو ستر ہزار کی تعداد ہے، ان سے نہ حساب لیا جائے گا اور نہ انہیں عذاب ہوگا۔ میں نے پوچھا: ایسا کیوں ہوگا؟ انہوں نے کہا: یہ لوگ بدن کو نہیں داغتے نہ دم جھاڑ کراتے ہیں اور نہ بد شگونی ہی لیتے ہیں بلکہ اپنے رب پر بھروسا کرتے ہیں۔ پھر عکاشہ بن محصین ؓ اٹھ کر آپ کی طرف اگے بڑھے اور عرض کی: آپ دعا فرمائیں کہ اللہ تعالٰی مجھے ان لوگوں میں سے کر دے۔ آپ نے دعا کی: اے اللہ! اسے بھی ان میں کر دے۔ آپ نے دعا کی: ”اے اللہ! اسے بھی ان میں سے کر دے۔“ اس کے بعد ایک صحابی کھڑے ہوئے اور عرض کی: میرے لیے بھی دعا فرمائیں کہ اللہ تعالٰی مجھے بھی ان لوگوں میں کر دے آپ نے فرمایا: ”عکاشہ تم سے بازی لے گیا ہے۔“
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6312
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6541
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
6541
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
6541
تمہید کتاب
اللہ تعالیٰ نے کائنات کی ہر چیز انسان کے فائدے کے لیے پیدا کی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ''وہی تو ہے جس نے زمین پر موجود تمام چیزیں تمہاری خاطر پیدا کیں۔'' (البقرۃ: 2/29) اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان کو زمین کی ہر چیز سے فائدہ اٹھانے کا حق ہے بلکہ دوسرے مقام پر اس سے بھی زیادہ وضاحت کے ساتھ فرمایا: ''جو کچھ آسمانوں میں ہے یا زمین میں، اس نے سب کچھ اپنی طرف سے تمہارے لیے مسخر کر دیا ہے۔'' (الجاثیۃ: 45/13) کائنات کی ہر چیز سے انسان کو کچھ نہ کچھ فائدہ ضرور پہنچ رہا ہے، مثلاً: پانی، ہوا، زمین میں مدفون خزانے، سمندر، پہاڑ، سورج، چاند اور ستارے، الغرض ہر چیز انسان کے فائدے کے لیے پیدا کی گئی ہے۔ لیکن انسان کو اللہ تعالیٰ نے اپنی عبادت ہی کے لیے پیدا کیا ہے تاکہ کائنات کی اشیاء سے فائدہ اٹھا کر محسن کا شکر ادا کرے اور اس کی عبادت میں خود کو مصروف رکھے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ''میں نے جنوں اور انسانوں کو صرف اس لیے پیدا کیا ہے کہ وہ میری عبادت کریں۔'' (الذاریات: 51/56)اس آیت کے پیش نظر انسان ہر وقت اللہ تعالیٰ کا بندہ ہے اور اسے ہر حال میں اس کی اطاعت اور بندگی میں مصروف رہنا چاہیے لیکن بعض اوقات انسان حصول دنیا میں اس قدر مگن ہو جاتا ہے کہ وہ اپنے خالق کے حق کو نظر انداز کر کے صرف دنیا کا ہو کر رہ جاتا ہے، پھر جوں جوں اللہ تعالیٰ سے دور ہوتا جاتا ہے اس کا دل سخت سے سخت تر ہوتا چلا جاتا ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ''یہ اہل ایمان ان لوگوں کی طرح نہ ہو جائیں جنہیں ان سے پہلے کتاب دی گئی تھی۔ پھر ان پر لمبی مدت گزر گئی تو ان کے دل سخت ہو گئے۔'' (الحدید: 57/16) اس آیت میں تنبیہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی یاد اور بندگی سے غافل رہنا ایسی بیماری ہے جس سے دل سخت ہو جاتے ہیں، پھر ان میں فسق و فجور کے داخلے کے لیے دروازہ کھل جاتا ہے۔ اس آیت کریمہ سے یہ بھی معلوم ہوا کہ دلوں کی سختی اللہ تعالیٰ کی عبادت میں رکاوٹ کا باعث ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کی برائی کو کئی ایک مقام پر بیان فرمایا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ''ان لوگوں کے لیے ہلاکت ہے جن کے دل اللہ کی یاد سے (غفلت کی بنا پر) سخت ہو گئے۔'' (الزمر: 39/22) دوسرے مقام پر فرمایا: ''پھر تمہارے دل سخت ہو گئے اتنے سخت جیسے پتھر ہوں یا ان سے بھی سخت تر۔'' (البقرۃ: 2/74)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کی رہنمائی کرتے ہوئے مختلف انداز میں ''اصلاح قلوب، یعنی دلوں کی اصلاح اور درستی کی تدابیر بتائی ہیں، نیز بتایا ہے کہ اعمال کی اصلاح، دلوں کی اصلاح پر موقوف ہے، آپ نے فرمایا: ''آگاہ رہو! جسم میں ایک ایسا ٹکڑا ہے اگر وہ صحیح ہو تو سارا جسم صحیح رہتا ہے اور اگر وہ خراب ہو تو سارا جسم خراب ہو جاتا ہے۔ آگاہ رہو وہ دل ہے۔'' (صحیح البخاری، الایمان، حدیث: 52) امام بخاری رحمہ اللہ نے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کرتے ہوئے ''اصلاح قلوب'' کے لیے اپنی صحیح میں ایک عنوان ''کتاب الرقاق'' کے نام سے قائم کیا ہے۔رِقَاق، رَقِيقَة کی جمع ہے جس کے معنی ہیں: نرمی۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت ایک سو ترانوے (193) ایسی مرفوع احادیث پیش کی ہیں جنہیں پڑھ کر دل میں رقت اور نرمی پیدا ہوتی ہے، جن میں تینتیس (33) معلق اور ایک سو ساٹھ (160) احادیث متصل اسناد سے مروی ہیں، پھر ان میں ایک سو چونتیس (134) مکرر اور انسٹھ (59) احادیث خالص ہیں۔ مرفوع احادیث کے علاوہ مختلف صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام رحمہم اللہ سے مروی سترہ (17) آثار بھی ذکر کیے ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے ان احادیث و آثار پر تریپن چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں تاکہ اس کے تمام پہلوؤں کا احاطہ کیا جائے۔ ان میں دنیا کی بے ثباتی، آخرت کا دوام اور ہمیشگی، مال و دولت سے بے نیازی، فکر آخرت، اخلاص و للہیت، تواضع و انکسار، گناہوں سے نفرت اور نیک اعمال سے محبت اور ان کے اثرات کو خاص طور پر بیان کیا ہے۔دور حاضر میں آزاد فکری اور روشن خیالی کا بہت چرچا ہے، ایسے حالات میں مذکورہ عنوان اور اس کے تحت پیش کردہ احادیث اکسیر اعظم کی حیثیت رکھتی ہیں۔ اس عالم رنگ و بو میں دلوں میں بگاڑ پیدا کرنے کے لیے بہت سے عوام کارفرما ہیں لیکن ان کی اصلاح کے لیے فکر آخرت ہی کافی ہے۔ ان احادیث کو پڑھیے اور اپنے اندر فکر آخرت پیدا کرنے کی کوشش کیجیے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں عمل کی توفیق دے۔ آمین یا رب العالمین
حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ نے فرمایا: میرے سامنے امتیں پیش کی گئیں۔ ایک نبی گزرا اس کے ساتھ دس آدمی تھے جبکہ ایک نبی کے ساتھ پانچ لوگ تھے۔ ایک نبی تن تنہا تھا۔ پھر میں نے دیکھا تو لوگوں کی ایک بہت بڑی جماعت دور نظرآئی۔ میں نے جبریل ؑ سے پوچھا: کیا یہ میری امت ہے؟ انہوں نے کہا: بلکہ آپ افق کی طرف دیکھیں، میں نے ادھر ادھر دیکہا تو ایک زبردست جماعت دکھائی دی۔ جبریل ؑ نے کہا: یہ آپ کی امت ہے ان کے آگے آگے جو ستر ہزار کی تعداد ہے، ان سے نہ حساب لیا جائے گا اور نہ انہیں عذاب ہوگا۔ میں نے پوچھا: ایسا کیوں ہوگا؟ انہوں نے کہا: یہ لوگ بدن کو نہیں داغتے نہ دم جھاڑ کراتے ہیں اور نہ بد شگونی ہی لیتے ہیں بلکہ اپنے رب پر بھروسا کرتے ہیں۔ پھر عکاشہ بن محصین ؓ اٹھ کر آپ کی طرف اگے بڑھے اور عرض کی: آپ دعا فرمائیں کہ اللہ تعالٰی مجھے ان لوگوں میں سے کر دے۔ آپ نے دعا کی: اے اللہ! اسے بھی ان میں کر دے۔ آپ نے دعا کی: ”اے اللہ! اسے بھی ان میں سے کر دے۔“ اس کے بعد ایک صحابی کھڑے ہوئے اور عرض کی: میرے لیے بھی دعا فرمائیں کہ اللہ تعالٰی مجھے بھی ان لوگوں میں کر دے آپ نے فرمایا: ”عکاشہ تم سے بازی لے گیا ہے۔“
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے عمران بن میسرہ نے بیان کیا، کہا ہم سے محمد بن فضیل نے، کہا ہم سے حصین بن عبدالرحمن نے بیان کیا (دوسری سند) اور مجھ سے اسید بن زید نے بیان کیا، کہا ہم سے ہشیم نے بیان کیا کہ میں سعید بن جبیر کی خدمت میں موجود تھا اس وقت انہوں نے بیان کیا کہ مجھ سے ابن عباس ؓ نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا میرے سامنے امتیں پیش کی گئیں کسی نبی کے ساتھ پوری امت گزری، کسی نبی کے ساتھ چند آدمی گزرے، کسی نبی کے ساتھ دس آدمی گزرے، کسی نبی کے ساتھ پانچ آدمی گزرے اور کوئی نبی تنہا گزرا۔ پھر میں نے دیکھا تو انسانوں کی ایک بہت بڑی جماعت دور سے نظرآئی۔ میں نے جبریل سے پوچھا کیا یہ میری امت ہے؟ انہوں نے کہا نہیں بلکہ افق کی طرف دیکھو۔ میں نے دیکھا تو ایک بہت زبردست جماعت دکھائی دی۔ فرمایا کہ یہ ہے آپ کی امت اور یہ جو آگے آگے سترہزار کی تعداد ہے ان لوگوں سے حساب نہ لیا جائے گا اور نہ ان پر عذاب ہوگا۔ میں نے پوچھا، ایسا کیوں ہوگا؟ انہوں نے کہا کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ لوگ داغ نہیں لگاتے تھے۔ دم جھاڑ نہیں کرواتے تھے، شگون نہیں لیتے تھے، اپنے رب پر بھروسہ کرتے تھے۔ پھر آنحضرت ﷺ کی طرف عکاشہ بن محصن ؓ اٹھ کر بڑھے اور عرض کیا کہ حضور دعا فرمائیں کہ اللہ تعالیٰ مجھے بھی ان لوگوں میں کر دے۔ آنحضرت ﷺ نے دعا فرمائی کہ اے اللہ! انہیں بھی ان میں سے کر دے۔ اس کے بعدایک اور صحابی کھڑے ہوئے اور عرض کیا کہ میرے لیے بھی دعا فرمائیں کہ اللہ تعالیٰ مجھے بھی ان میں سے کر دے۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ عکاشہ اس میں تم سے آگے بڑھ گئے۔
حدیث حاشیہ:
یہ عکاشہ بن محصن اسی بنی امیہ کے حلیف ہیں۔ جنگ بدر میں ان کی تلوار ٹوٹ گئی تھی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو ایک چھڑی دے دی جو ان کے ہاتھ میں تلوار ہوگئی۔ بعد کی لڑائیوں میں بھی شریک رہے۔ فضلائے صحابہ میں سے تھے جو خلافت صدیقی میں بعمر48 سال فوت ہوگئے۔ حضرت ابن عباس، حضرت ابوہریرہ اور ان کی بہن ام قیس رضی اللہ عنہا ان سے روایت کرتے ہیں۔ سند میں حضرت سعید بن جبیر کا نام آیا ہے۔ جنہیں حجاج بن یوسف نے شعبان95ھ میں ظلم و جور سے قتل کیا تھا۔ سعید بن جبیر کی بددعا سے کچھ دنوں بعد ہی حجاج کا اس بری طرح خاتمہ ہوا کہ وہ لوگوں کے لیے عبرت بن گیا۔ جیسا کہ کتب تواریخ میں مفصل حالات مطالعہ کیے جا سکتے ہیں۔ ہم نے بھی کچھ تفصیل کسی جگہ پیش کی ہے۔ من شاء فلینطر إلیه۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Ibn 'Abbas (RA) : The Prophet (ﷺ) said, "The people were displayed in front of me and I saw one prophet passing by with a large group of his followers, and another prophet passing by with only a small group of people, and another prophet passing by with only ten (persons), and another prophet passing by with only five (persons), and another prophet passed by alone. And then I looked and saw a large multitude of people, so I asked Gabriel (ؑ), "Are these people my followers?' He said, 'No, but look towards the horizon.' I looked and saw a very large multitude of people. Gabriel (ؑ) said. 'Those are your followers, and those are seventy thousand (persons) in front of them who will neither have any reckoning of their accounts nor will receive any punishment.' I asked, 'Why?' He said, 'For they used not to treat themselves with branding (cauterization) nor with Ruqya (get oneself treated by the recitation of some Verses of the Qur'an) and not to see evil omen in things, and they used to put their trust (only) in their Lord." On hearing that, 'Ukasha bin Mihsan got up and said (to the Prophet), "Invoke Allah to make me one of them." The Prophet (ﷺ) said, "O Allah, make him one of them." Then another man got up and said (to the Prophet), "Invoke Allah to make me one of them." The Prophet (ﷺ) said, 'Ukasha has preceded you."