مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
6595.
حضر ت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ”اللہ تعالٰی نے رحم مادر پر ایک فرشتہ مقرر کر دیا ہے جو کہتا رہتا ہے کہ اے رب! یہ نطفہ قرار پایا ہے۔ اے رب! یہ خون بستہ بن گیا ہے، اے رب! یہ گوشت کے لوتھڑے کی صورت اختیار کر گیا ہے جب اللہ تعالیٰ اس کی پیدائش کا فیصلہ کرتا ہے تو فرشتہ پوچھتا ہے: اے رب! یہ لڑکا ہے یا لڑکی؟ نیک ہے یا بد؟ اس کا رزق کیا ہے؟ اس کی مدت حیات کیا ہے؟ اسی طرح یہ سب باتیں شکم مادر ہی میں لکھ دی جاتی ہے۔“
تشریح:
(1) ان احادیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دو مضمون بیان فرمائے ہیں: شروع میں انسانی تخلیق کے ان چند مراحل کا ذکر ہے جن سے انسان نطفۂ امشاج کے بعد نفخ روح تک رحم مادر میں گزرتا ہے۔ ان مراحل کا ذکر اگلے مضمون کے لیے بطور تمہید ہے۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے اس نوشتہ (لکھے ہوئے) کا ذکر کیا ہے جو اللہ تعالیٰ کا مقرر کیا ہوا فرشتہ نفخ روح کے وقت پیدا ہونے والے انسان کے متعلق لکھتا ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اسی نوشتۂ تقدیر کی وضاحت کے پیش نظر ان احادیث کو یہاں بیان کیا ہے۔ (2) کچھ اہل علم نے تقدیر کی درج ذیل چار قسمیں بیان کی ہیں: ٭ تقدیر ازلی: اس سے مراد اللہ تعالیٰ کا ازلی اور ابدی علم ہے۔ کہیں بھی اس سے ذرہ بھر مختلف نہیں ہو سکتا، مگر یہ ازلی علم بندوں کو ان کے اعمال و کردار میں مجبور نہیں کرتا۔ اس ازلی تقدیر کی دو قسمیں ہیں: (ا) علم: اللہ تعالیٰ کو اس سب کچھ کا علم ہے جو کائنات میں ہونے والا ہے یا اس کی مخلوق کرنے والی ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے ازلی علم کے ذریعے سے ان تمام چیزوں کو اجمالاً و تفصیلاً جاننے والا ہے جو ظاہر ہو چکی ہیں یا وجود میں آنے والی ہیں۔ (ب) کتابت: اللہ تعالیٰ نے اپنے ازلی علم کے مطابق تمام اشیاء کو لوح محفوظ میں لکھ دیا ہے جیسا کہ حدیث میں ہے کہ سب سے پہلی چیز جو اللہ تعالیٰ نے پیدا فرمائی وہ قلم تھی، پھر اسے فرمایا لکھ۔ اس نے عرض کی: اے میرے رب! میں کیا لکھوں؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: قیامت قائم ہونے تک ہر ہر چیز کی تقدیر لکھ دے، چنانچہ اس نے لکھ دیا۔ (سنن أبي داود، السنة، حدیث: 4700) ایک حدیث میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمان کی پیدائش سے پچاس ہزار سال پہلے کائنات میں ہونے والے تمام واقعات کو تحریر کر لیا تھا۔ (صحیح مسلم، القدر، حدیث: 6748 (2653)) ان دونوں قسموں کے متعلق ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’کیا آپ کو معلوم نہیں کہ آسمان و زمین کی ہر چیز اللہ کے علم میں ہے؟ یہ سب لکھی ہوئی کتاب میں محفوظ ہے۔‘‘(الحج: 70/22)تقدیر عمری: انسان نے عمر بھر میں جو کچھ کرنا ہے وہ الگ سے محفوظ ہے اس کی پھر دو قسمیں ہیں: (ا) اولاد آدم سے عہد و پیمان لیتے وقت لکھا گیا تھا جیسا کہ سورۂ اعراف کی آیت: 172 میں ہے۔ (ب) شکم مادر میں تقدیر عمری کا بیان امام بخاری رحمہ اللہ کی پیش کردہ پہلی حدیث میں ہے۔ ٭ تقدیر یومی: ہر روز اس کے تازہ فیصلے نافذ ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے حکم سے ہر روز کوئی بیمار ہو رہا ہے، کسی کو بیماری سے شفا دے رہا ہے، کوئی موت کے گھاٹ اتر رہا ہے: ’’ہر روز (ہر وقت) وہ ایک (نئی) شان میں ہے۔‘‘(الرحمٰن: 29/55) حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے روایات کے حوالے سے لکھا ہے کہ جو امور انسان کو دنیا میں پیش آنے والے ہوتے ہیں وہ سب لکھ دیے جاتے ہیں حتی کہ جو ذرا سی خراش بھی لگنی ہے وہ بھی لکھ دی جاتی ہے، اور ان امور کی کتابت کسی متعلق دفتر میں ہوتی ہے جیسا کہ صحیح مسلم میں ہے: ’’پھر یہ صحیفہ لپیٹ دیا جاتا ہے اور اس میں کوئی کمی بیشی نہیں ہوتی۔‘‘ (صحیح مسلم، القدر، حدیث: 6725 (2644)، و فتح الباري: 588/11)واللہ أعلم
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6361
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6595
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
6595
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
6595
تمہید کتاب
قدر کے لغوی معنی تقدیر، یعنی اندازہ کرنے کے ہیں۔ قرآن مجید میں یہ لفظ کئی مرتبہ استعمال ہوا ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے: ''ہر چیز کا خزانہ ہمارے پاس ہے اور ہم اسے ایک خاص مقدار میں نازل کرتے ہیں۔'' (الحجر 15/21) نیز فرمان باری تعالیٰ ہے: ''اس نے ہر چیز کو پیدا کیا، پھر اس کا اندازہ مقرر کیا، پورا اندازہ۔'' (الفرقان: 25/2) قدر کے اصطلاحی معنی قدرتِ الٰہی اور باقاعدہ طریقے سے ایک محکم فیصلے کے ساتھ چیزوں کا اندازہ مقرر کرنا ہیں۔ قدر ہی کے معنی میں لفظ قضا بھی مستعمل ہے۔ یہ دونوں الفاظ ہم معنی ہیں۔ کچھ اہل علم نے ان میں فرق کیا ہے کہ قضا ازل میں اجمالی کلی حکم کا نام ہے اور قدر اس اجمالی کلی کی جزئیات اور تفصیلی امور ہیں جو مستقبل میں واقع ہوتے ہیں۔ مجموعی طور پر دونوں الفاظ کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے کائنات کو پختہ اور محکم انداز میں، منصوبہ بندی کے تحت وجود بخشا اور ایسے قوانین جاری کیے جو ناقابل تغییر ہیں۔ارکان اسلام پانچ ہیں اور اصول ایمان چھ ہیں۔ اصول ایمان میں ایک اصل ایمان بالقدر، یعنی تقدیر پر ایمان لانا ہے۔ تقدیر پر ایمان لانے کی حقیقت یہ ہے کہ اس بات کو تسلیم کیا جائے اور یقین محکم کے ساتھ مانا جائے کہ اس عالم رنگ و بو میں جو کچھ ہو رہا ہے، خواہ وہ اچھا ہو یا برا وہ سب اللہ تعالیٰ کے حکم اور اس کی مشیت سے ہے جسے وہ پہلے سے طے کر چکا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ تو کچھ چاہے لیکن دنیا کا یہ کارخانہ اس کی مرضی کے خلاف چلے یا کائنات کا نظام کسی اتفاقی حادثہ کے نتیجے میں وقوع پذیر ہوا ہو۔ اسے تسلیم کرنے سے نعوذ باللہ اللہ تعالیٰ کی انتہائی عاجزی اور بے بسی لازم آتی ہے۔ واضح رہے کہ تقدیر کا مسئلہ اللہ تعالیٰ کی صفات سے تعلق رکھتا ہے۔ اس پر ایمان لانے کا یہ بھی تقاضا ہے کہ اگر اس کے متعلق کوئی بات سمجھ میں نہ آئے تو اس کے متعلق بحث و کٹ حجتی نہ کی جائے بلکہ عقل اور اپنے ذہن کی نارسائی کا اعتراف کرتے ہوئے اس پر یقین کر لیا جائے بلکہ اپنے دل اور دماغ کو اس طرح مطمئن کر لیا جائے کہ اللہ تعالیٰ کے سچے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی طرح بیان کیا ہے، لہذا ہم اس پر ایمان لاتے ہیں۔ اس کے متعلق بحث و جدال کا دروازہ نہ کھولا جائے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس انداز کی سختی سے ممانعت فرمائی ہے، چنانچہ حدیث میں ہے، سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ ہم لوگ مسجد نبوی میں بیٹھے قضا و قدر کے متعلق بحث کر رہے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے۔ آپ نے ہمیں اس حالت میں دیکھ کر انتہائی خفگی اور ناراضی کا اظہار فرمایا حتی کہ آپ کا چہرۂ انور غصے سے سرخ ہو گیا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا آپ کے رخساروں میں انار کے سرخ دانے نچوڑ دیے گئے ہیں، پھر آپ نے فرمایا: ''کیا تمہیں یہی حکم دیا گیا ہے؟ کیا میں تمہارے لیے یہی پیغام لے کر آیا ہوں؟ خبردار! تم سے پہلی قومیں اس بنا پر تباہ ہوئیں کہ انہوں نے تقدیر کے متعلق بحث و حجت کا طریقہ اپنا لیا تھا۔ میں تمہیں قسم دیتا ہوں، میں تم پر لازم کرتا ہوں کہ اس مسئلے کے متعلق ہرگز بحث و جدال نہ کیا کرو۔'' (جامع الترمذی، القدر، حدیث: 2133)اس حدیث میں امتوں کی تباہی سے مراد ان کی گمراہی ہے کیونکہ ہلاکت کا لفظ گمراہی کے لیے بکثرت استعمال ہوتا ہے، اس بنا پر حدیث کا مطلب یہ ہے کہ پہلی امتوں میں اعتقادی گمراہیاں اس وقت آئیں جب انہوں نے تقدیر کو بحث و جدال کا موضوع بنایا۔ تاریخ شاہد ہے کہ اس امت میں بھی اعتقادی گمراہیوں کا سلسلہ ''مسئلۂ تقدیر'' سے شروع ہوا۔ ہاں، اگر کوئی تقدیر پر ایمان و یقین رکھتے ہوئے صرف اطمینان قلب کے لیے تقدیر کے کسی مسئلے کے متعلق کسی اہل علم سے سوال کرتا ہے تو اس کی ممانعت نہیں، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بعض اوقات صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کے سوال کرنے پر تقدیر کے بعض پہلوؤں پر خود روشنی ڈالی ہے۔ ایک مرتبہ حضرت سراقہ بن مالک رضی اللہ عنہ نے عرض کی: اللہ کے رسول! ہمارے لیے ہمارا دین بیان فرمائیں، گویا ہم اب پیدا ہوئے ہیں، آپ وضاحت فرمائیں کہ ہم لوگ جو عمل کرتے ہیں وہ اس لیے ہے کہ قلم اسے لکھ کر خشک ہو چکا ہے اور اس کے متعلق تقدیر جاری کی گئی ہے یا اس مقصد کے لیے ہے جو آگے ہونے والا ہے؟ آپ نے فرمایا: ''نہیں، بلکہ اعمال اسی مقصد کے لیے ہیں جسے لکھ کر قلم خشک ہو گیا ہے اور تقدیر جاری ہو چکی ہے۔'' حضرت سراقہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وضاحت سن کر عرض کی: ایسے حالات میں عمل کا کیا فائدہ؟ آپ نے فرمایا: ''تم عمل کرتے رہو! ہر انسان کو اسی کام کی توفیق دی جاتی ہے جس کے لیے اسے پیدا کیا گیا ہے۔'' (صحیح مسلم، القدر، حدیث: 6735 (2648))تقدیر کے متعلق حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے ابو مظفر بن سمعانی کے حوالے سے بہت عمدہ بات لکھی ہے، وہ فرماتے ہیں: تقدیر کا باب صرف کتاب و سنت کی روشنی میں سمجھنے پر موقوف ہے۔ اس میں عقل و قیاس کو مطلق طور پر کوئی دخل نہیں ہے۔ جو شخص کتاب و سنت سے ہٹ کر اسے سمجھنے کی کوشش میں لگا وہ گمراہ ہو گیا اور حیرت و تعجب کے سمندر میں ڈوب گیا۔ اس نے چشمۂ شفا کو نہیں پایا اور اس چیز تک نہیں پہنچ سکے گا جس سے اس کا دل مطمئن ہو کیونکہ مسئلۂ تقدیر اللہ تعالیٰ کے رازوں میں سے ایک راز ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی ذاتِ علیم و خبیر کے ساتھ اسے خاص کیا ہے۔ اس نے مخلوق کی عقل، نیز ان کے علوم اور تقدیر کے درمیان پردہ حائل کر دیا ہے۔ یہ ایک ایسا راز اور حکمت ہے کہ اس کا علم کسی نبئ مرسل اور مقرب فرشتے کو بھی نہیں دیا گیا۔ (فتح الباری: 11/582)تقدیر کے معاملے میں بندہ نہ بالکل مجبور ہے اور نہ بالکل مختار بلکہ اسے ایک ظاہری اختیار دیا گیا ہے جسے کسب کہتے ہیں۔ اسی اختیار کے استعمال کرنے سے اسے قیامت کے دن جزا یا سزا ملے گی۔ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور جماعت سلف کا یہی موقف ہے۔ اس کے بعد امت میں جبریہ اور قدریہ پیدا ہوئے۔ جبریہ کہتے ہیں کہ بندہ جمادات کی طرح بالکل مجبور اور بے بس ہیں۔ اسے اپنے کسی فعل کا اختیار نہیں ہے۔ اس کے برعکس قدریہ کا کہنا ہے کہ بندے کے افعال میں اللہ تعالیٰ کو کچھ دخل نہیں بلکہ وہ اپنے افعال کا خود خالق ہے اور جو کرتا ہے وہ مختارِ کل ہونے کی حیثیت سے کرتا ہے۔ ایک گروہ نے افراط کیا جبکہ دوسرا تفریط میں مبتلا ہوا اور اہل سنت نے ان کے درمیان درمیان موقف اختیار کیا ہے اور یہ موقف عقل و نقل پر قائم ہے۔ ان کے نزدیک کائنات میں جو حوادث ہوتے ہیں اس کی دو قسمیں ہیں: ٭ ایک وہ حوادث ہیں جن میں بندوں کو کوئی اختیار نہیں۔ اللہ تعالیٰ اپنی قدرت کاملہ سے انہیں ظاہر کرتا ہے، مثلا: بارش برسانا، کھیت اگانا، کسی کو پیدا کرنا اور اسے موت دینا، صحت و بیماری کا آنا اس قسم کے افعال میں کسی مخلوق کو کوئی دخل نہیں۔ ٭ دوسرے وہ افعال ہیں جو ایسی مخلوق سے سرزد ہوتے ہیں جو ارادہ و اور اختیار رکھتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے بھی اس قسم کے افعال کی نسبت بندوں کی طرف کی ہے جیسا کہ قرآن کریم میں ہے: ''تم میں سے کچھ دنیا چاہتے تھے جبکہ کچھ آخرت کے چاہنے والے تھے۔'' (آل عمران: 3/152) اس آیت میں ارادے کی نسبت بندوں کی طرف کی گئی ہے۔اہل علم کے نزدیک تقدیر کے چار مراتب ہیں: ٭ اللہ تعالیٰ کو سب کچھ معلوم ہے جو کائنات میں ہونے والا ہے یا مخلوق کرنے والی ہے۔ ٭ اللہ تعالیٰ نے اپنے سابق علم کے مطابق تمام اشیاء کی تقدیر لوح محفوظ میں لکھ دی ہے۔ ٭ کائنات میں اللہ تعالیٰ جو چاہتا ہے ہوتا ہے اور جو نہیں چاہتا نہیں ہوتا۔ ٭ اس عالم رنگ و بو میں تمام مخلوقات اور ان کے تمام اعمال کا خالق صرف اللہ تعالیٰ ہے۔ اہل حق کو چاہیے کہ وہ تقدیر کے مندرجہ بالا چاروں مراتب پر ایمان رکھیں اور انہیں تسلیم کریں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے تقدیر کے متعلق امت کی رہنمائی کرتے ہوئے کتاب القدر کا عنوان قائم کیا ہے۔ اس میں انہوں نے انتیس (29) مرفوع احادیث بیان کی ہیں جن میں تین (3) معلق اور چھبیس (26) متصل سند سے ذکر کی ہیں۔ ان میں بائیس (22) مکرر اور سات (7) خالص ہیں۔ بیان کردہ احادیث کو، سوائے دو (2) کے امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی روایت کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام سے پانچ (5) آثار بھی مروی ہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے ان احادیث و آثار پر چھوٹے چھوٹے سولہ (16) عنوان قائم کیے ہیں جن کے ذریعے سے تقدیر سے متعلقہ مشکل گھتیوں کو سلجھایا گیا ہے۔ ہم ان احادیث کے فوائد میں اس کی وضاحت کریں گے۔ باذن اللہ تعالیٰہمارے ہاں عام طور پر گناہ کرنے کے لیے تقدیر کو بہانہ بنایا جاتا ہے جبکہ ایسا کرنا تقدیر پر ایمان لانے کے بالکل منافی ہے۔ انسان دنیا بنانے کے لیے دن رات دوڑ دھوپ کرتا ہے لیکن آخرت سنوارنے کے لیے بہانہ سازی سے کام لیتا ہے جبکہ نیک اعمال بھی تقدیر کا حصہ ہیں۔ ان کے حصول کے لیے اللہ تعالیٰ نے ہمیں دنیا میں پیدا کیا ہے، لہذا ہمیں تقدیر پر بھروسا کر کے بدعملی کا راستہ اختیار نہیں کرنا چاہیے بلکہ اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق نیک اعمال کی طلب اور جستجو میں لگے رہنا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق دے۔ آمین
حضر ت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ”اللہ تعالٰی نے رحم مادر پر ایک فرشتہ مقرر کر دیا ہے جو کہتا رہتا ہے کہ اے رب! یہ نطفہ قرار پایا ہے۔ اے رب! یہ خون بستہ بن گیا ہے، اے رب! یہ گوشت کے لوتھڑے کی صورت اختیار کر گیا ہے جب اللہ تعالیٰ اس کی پیدائش کا فیصلہ کرتا ہے تو فرشتہ پوچھتا ہے: اے رب! یہ لڑکا ہے یا لڑکی؟ نیک ہے یا بد؟ اس کا رزق کیا ہے؟ اس کی مدت حیات کیا ہے؟ اسی طرح یہ سب باتیں شکم مادر ہی میں لکھ دی جاتی ہے۔“
حدیث حاشیہ:
(1) ان احادیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دو مضمون بیان فرمائے ہیں: شروع میں انسانی تخلیق کے ان چند مراحل کا ذکر ہے جن سے انسان نطفۂ امشاج کے بعد نفخ روح تک رحم مادر میں گزرتا ہے۔ ان مراحل کا ذکر اگلے مضمون کے لیے بطور تمہید ہے۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے اس نوشتہ (لکھے ہوئے) کا ذکر کیا ہے جو اللہ تعالیٰ کا مقرر کیا ہوا فرشتہ نفخ روح کے وقت پیدا ہونے والے انسان کے متعلق لکھتا ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اسی نوشتۂ تقدیر کی وضاحت کے پیش نظر ان احادیث کو یہاں بیان کیا ہے۔ (2) کچھ اہل علم نے تقدیر کی درج ذیل چار قسمیں بیان کی ہیں: ٭ تقدیر ازلی: اس سے مراد اللہ تعالیٰ کا ازلی اور ابدی علم ہے۔ کہیں بھی اس سے ذرہ بھر مختلف نہیں ہو سکتا، مگر یہ ازلی علم بندوں کو ان کے اعمال و کردار میں مجبور نہیں کرتا۔ اس ازلی تقدیر کی دو قسمیں ہیں: (ا) علم: اللہ تعالیٰ کو اس سب کچھ کا علم ہے جو کائنات میں ہونے والا ہے یا اس کی مخلوق کرنے والی ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے ازلی علم کے ذریعے سے ان تمام چیزوں کو اجمالاً و تفصیلاً جاننے والا ہے جو ظاہر ہو چکی ہیں یا وجود میں آنے والی ہیں۔ (ب) کتابت: اللہ تعالیٰ نے اپنے ازلی علم کے مطابق تمام اشیاء کو لوح محفوظ میں لکھ دیا ہے جیسا کہ حدیث میں ہے کہ سب سے پہلی چیز جو اللہ تعالیٰ نے پیدا فرمائی وہ قلم تھی، پھر اسے فرمایا لکھ۔ اس نے عرض کی: اے میرے رب! میں کیا لکھوں؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: قیامت قائم ہونے تک ہر ہر چیز کی تقدیر لکھ دے، چنانچہ اس نے لکھ دیا۔ (سنن أبي داود، السنة، حدیث: 4700) ایک حدیث میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمان کی پیدائش سے پچاس ہزار سال پہلے کائنات میں ہونے والے تمام واقعات کو تحریر کر لیا تھا۔ (صحیح مسلم، القدر، حدیث: 6748 (2653)) ان دونوں قسموں کے متعلق ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’کیا آپ کو معلوم نہیں کہ آسمان و زمین کی ہر چیز اللہ کے علم میں ہے؟ یہ سب لکھی ہوئی کتاب میں محفوظ ہے۔‘‘(الحج: 70/22)تقدیر عمری: انسان نے عمر بھر میں جو کچھ کرنا ہے وہ الگ سے محفوظ ہے اس کی پھر دو قسمیں ہیں: (ا) اولاد آدم سے عہد و پیمان لیتے وقت لکھا گیا تھا جیسا کہ سورۂ اعراف کی آیت: 172 میں ہے۔ (ب) شکم مادر میں تقدیر عمری کا بیان امام بخاری رحمہ اللہ کی پیش کردہ پہلی حدیث میں ہے۔ ٭ تقدیر یومی: ہر روز اس کے تازہ فیصلے نافذ ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے حکم سے ہر روز کوئی بیمار ہو رہا ہے، کسی کو بیماری سے شفا دے رہا ہے، کوئی موت کے گھاٹ اتر رہا ہے: ’’ہر روز (ہر وقت) وہ ایک (نئی) شان میں ہے۔‘‘(الرحمٰن: 29/55) حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے روایات کے حوالے سے لکھا ہے کہ جو امور انسان کو دنیا میں پیش آنے والے ہوتے ہیں وہ سب لکھ دیے جاتے ہیں حتی کہ جو ذرا سی خراش بھی لگنی ہے وہ بھی لکھ دی جاتی ہے، اور ان امور کی کتابت کسی متعلق دفتر میں ہوتی ہے جیسا کہ صحیح مسلم میں ہے: ’’پھر یہ صحیفہ لپیٹ دیا جاتا ہے اور اس میں کوئی کمی بیشی نہیں ہوتی۔‘‘ (صحیح مسلم، القدر، حدیث: 6725 (2644)، و فتح الباري: 588/11)واللہ أعلم
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا، کہا ہم سے حماد نے بیان کیا، ان سے عبیداللہ بن ابوبکر بن انس نے اور ان سے انس بن مالک ؓ نے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا، اللہ تعالیٰ نے رحم مادر پر ایک فرشتہ مقرر کر دیا ہے اور وہ کہتا رہتا ہے کہ اے رب! یہ نطفہ قرار پایا ہے۔ اے رب! اب علقہ یعنی جما ہوا خون بن گیا ہے۔ اے رب! اب مضغہ (گوشت کا لوتھڑا) بن گیا ہے۔ پھر جب اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ اس کی پیدائش پوری کرے تو وہ پوچھتا ہے اے رب لڑکا ہے یا لڑکی؟ نیک ہے یا برا؟ اس کی روزی کیا ہوگی؟ اس کی موت کب ہوگی؟ اسی طرح یہ سب باتیں ماں کے پیٹ ہی میں لکھ دی جاتی ہیں۔ دنیا میں اسی کے مطابق ظاہر ہوتا ہے۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Anas bin Malik (RA): The Prophet (ﷺ) said, "Allah puts an angel in charge of the uterus and the angel says, 'O Lord, (it is) semen! O Lord, (it is now) a clot! O Lord, (it is now) a piece of flesh.' And then, if Allah wishes to complete its creation, the angel asks, 'O Lord, (will it be) a male or a female? A wretched (an evil doer) or a blessed (doer of good)? How much will his provisions be? What will his age be?' So all that is written while the creature is still in the mother's womb."