باب: ملک حاصل ہونے سے پہلے یا گناہ کی بات کے لیے یا غصہ کی حالت میں قسم کھانے کا کیا حکم ہے ؟
)
Sahi-Bukhari:
Oaths and Vows
(Chapter: To swear something not in one's power; to swear to do an act disobedience; to take an oath in anger)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
6679.
امام زہری سے روایت ہے انہوں نے کہا: میں نے عروہ بن زبیر، سعید بن مسیب، علقمہ بن وقاص اور عبید اللہ بن عتبہ سے نبی ﷺ کی زوجہ محترمہ سیدہ عائشہ ؓ کے متعلق ایک حدیث سنی جب ان پر بہتان تراشوں نے طوفان باندھا اور اللہ تعالٰی نے انہیں اس بہتان سے پاک قرار دیا اور ان کی باتوں سے بری کیا۔ ان میں سے ہر ایک نے مجھے حدیث کا کچھ حصہ بتایا کہ سیدہ عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ اللہ تعالٰی نے ﴿إِنَّ الَّذِينَ جَاءُوا بِالْإِفْكِ عُصْبَةٌ مِّنكُمْ﴾ سے دس آیات حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے کہا: ”اللہ کی قسم! میں مسطح پر خرچ نہیں کروں گا جبکہ وہ مسطح پر قرابت داری کی وجہ سے خرچ کیا کرتے تھے۔ یہ اس لیے کیا کہ انہوں نے سیدہ عائشہ ؓ پر بہتان لگانے میں حصہ لیا تھا۔ اللہ تعالٰی نے یہ آیات نازل فرمائیں: ’’تم میں سے اہل فضل ووسعت قسمیں نہ کھائیں کہ وہ اپنے اقارب پر خرچ نہیں کریں گے۔“ نزول آیات کے بعد حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے کہا: اللہ کی قسم! کیوں نہیں ہم یہ پسند کرتے ہیں کہ اللہ ہمیں بخش دے۔ پھر انہوں نے مسطح پر خرچ کرنا شروع کر دیا اور کہا: اللہ کی قسم! میں مسطح کا خرچہ کبھی بند نہیں کروں گا۔
تشریح:
(1) جن لوگوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا پر بہتان لگایا تھا ان میں حضرت مسطح بھی شامل تھے، حالانکہ وہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی کفالت میں تھے۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے غصے میں آ کر قسم کھائی کہ وہ آئندہ ان پر خرچ نہیں کریں گے۔ ان کی یہ قسم ترک طاعت (نیکی نہ کرنے) پر تھی، جس پر انہیں قائم نہیں رہنے دیا گیا۔ معصیت کی قسم پر تو بالاولیٰ قائم رہنے کی اجازت نہیں ہے۔ (2) حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے یہ قسم بحالت غصہ کھائی تھی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی غصے کی حالت میں قسم کھائی تھی لیکن ان دونوں میں فرق یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب قسم کھائی تو آپ اس وقت کسی چیز کے مالک نہ تھے اور نہ اسے پورا ہی کر سکتے تھے جبکہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ قسم اٹھاتے وقت مال و وسعت والے تھے اور خرچ کرنے کی ہمت بھی رکھتے تھے۔ بہرحال ایسے حالات میں قسم اٹھانے سے وہ منعقد ہو جاتی ہے اور اس کے خلاف کرنے میں کفارہ بھی دینا ہو گا۔ (فتح الباري: 690/11)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6441
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6679
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
6679
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
6679
تمہید کتاب
أَيمان، يَمِين کی جمع ہے۔ لغوی طور پر دائیں ہاتھ کو يمين کہا جاتا ہے۔ اس لفظ کو قسم کے لیے استعمال کیا جاتا ہے کیونکہ اہل عرب جب کسی معاملے میں باہم حلفیہ معاہدہ کرتے تو ہر شخص اپنے ساتھی کا دایاں ہاتھ پکڑتا اور قسم کھا کر پختہ وعدہ کرتا، اس بنا پر یمین کا لفظ قسم پر بولا جانے لگا۔ اس کی دوسری توجیہ اس طرح بیان کی گئی ہے کہ دایاں ہاتھ طاقت کے لحاظ سے جسے پکڑے وہ دوسروں کی دست و برد سے محفوظ ہو جاتا ہے۔ اس مناسبت سے یمین کا اطلاق قسم پر ہونے لگا کہ جس چیز کے متعلق قسم کھائی جائے وہ چیز بھی محفوظ ہو جاتی ہے۔ اسی طرح نذور، نذر کی جمع ہے۔ لغوی طور پر ذمے داری کو نذر کہا جاتا ہے۔ چونکہ انسان خود پر اس کے ذریعے سے ایک غیر واجب چیز کو اپنے ذمے لے لیتا ہے، اس لیے اسے نذر کا نام دیا جاتا ہے، وہ ذمے داری عبادت یا صدقہ یا کسی دوسری چیز کے متعلق ہوتی ہے۔ چونکہ احکام اور نتیجے کے اعتبار سے قسم اور نذر ایک ہی چیز کے دو نام ہیں، اس لیے امام بخاری رحمہ اللہ نے ان دونوں کو ایک عنوان میں بیان کیا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نذر کا کفارہ وہی بتایا ہے جو قسم کا ہے، فرمان نبوی ہے: ''نذر کا کفارہ قسم کا کفارہ ہے۔'' (مسند احمد: 4/144)کسی بات کو مضبوط کرنے اور اس میں زور پیدا کرنے کے لیے قسم کھائی جاتی ہے۔ شریعت نے اسے مشروع قرار دیا ہے۔ اگر کسی اچھے کام کے لیے قسم کھائی گئی ہو تو شریعت نے اسے پورا کرنے کی تاکید کی ہے اور اگر کسی برے یا گناہ کے کام کی قسم اٹھائی ہے تو اسے پورا نہ کرنے اور قسم توڑ دینے پر زور دیا ہے اور اس جرم کی پاداش میں کفارہ ادا کرنے کا حکم دیا ہے۔ اگر کوئی شخص کسی مقصد کے بغیر قسم اٹھاتا ہے تو شریعت نے اسے ناپسند کیا ہے کیونکہ اس انداز سے قسم اٹھانے سے اللہ تعالیٰ کی ذات و صفات کی توہین ہوتی ہے، اس کے علاوہ قسم اٹھانے والا لوگوں کی نگاہوں میں بھی گر جاتا ہے۔ فقہائے اسلام نے قسم کی درج ذیل تین قسموں کی نشاندہی کی ہے: ٭ یمین غموس، یعنی جھوٹی قسم، کسی واقعہ کے متعلق جانتے ہوئے کہہ دینا اور قسم اٹھانا کہ ایسا نہیں ہے۔ اس قسم کی جھوٹی قسم کبھی تو ذاتی فائدے کے لیے کھائی جاتی ہے اور کبھی دوسرے کا حق مارنے کے لیے۔ بعض لوگ عادت کے طور پر جھوٹی قسم اٹھاتے ہیں۔ اس طرح کی تمام قسمیں شریعت کی نظر میں کبیرہ گناہ ہیں، بلکہ قرآن کریم نے جھوٹی قسم کا تعلق نفاق سے جوڑا ہے، اس بنا پر جھوٹی قسم بہت بڑا گناہ اور قابل ملامت فعل ہے۔ یمین لغو: بے کار اور بے مقصد قسم، قرآن کریم نے صراحت کی ہے کہ لغو قسم پر مؤاخذہ نہیں ہو گا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ''اللہ تعالیٰ تمہاری لغو قسموں پر تمہاری گرفت نہیں کرے گا لیکن جو قسمیں تم سچے دل سے کھاتے ہو ان پر ضرور مؤاخذہ کرے گا۔'' (المائدۃ: 5/89) اہل عرب میں بات بات پر قسمیں کھانے کا عام رواج تھا اور ان میں سے زیادہ تر قسمیں یا تو محض تکیۂ کلام کے طور پر ہوا کرتی تھیں یا پھر کلام میں حسن پیدا کرنے کے لیے اسے استعمال کیا جاتا تھا۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے پہلی قسم کو بیان کیا ہے کہ آدمی عام بات چیت میں جو لا والله اور بلیٰ والله کہہ دیتا ہے وہ یمین لغو ہے جس پر مؤاخذہ نہیں ہو گا۔ (صحیح البخاری، التفسیر، حدیث: 4613) ٭ یمین منعقدہ: اس سے مراد وہ قسم ہے جو آدمی کسی کام کے آئندہ کرنے یا نہ کرنے کے متعلق کھاتا ہے۔ اس قسم کا حکم یہ ہے کہ جس کام کے کرنے کی اس نے قسم کھائی ہے وہ کام جب نہ کرے گا یا جس کام کے نہ کرنے کی قسم کھائی ہے وہ کرے گا تو اسے کفارہ دینا پڑے گا جس کا ذکر امام بخاری رحمہ اللہ ایک مستقل عنوان کے تحت کریں گے۔ حلف کی اس قسم میں قصد و ارادے کا پایا جانا ضروری ہے کیونکہ قرآن کریم نے اس کے لیے عَقَّدتُّمُ الْأَيْمَانَ اور كَسَبَتْ قُلُوبُكُمْ کے الفاظ استعمال کیے ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ جب تک دل کا ارادہ اور نیت شامل نہ ہو قسم نہ ہو گی۔امام بخاری رحمہ اللہ نے قسم اور نذر کے احکام و مسائل بیان کرنے کے لیے ستاسی (87) مرفوع احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں اٹھارہ (18) احادیث نذر سے متعلق ہیں، ان پر تقریباً (33) تینتیس چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن میں تئیس (23) قسم کے بارے میں اور دس (10) عنوان نذر سے متعلق ہیں۔ چیدہ چیدہ حسب ذیل ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قسم کس انداز سے ہوتی تھی؟ اپنے باپ دادا کی قسم نہ اٹھائی جائے۔ لات و عزیٰ اور دیگر طواغیت کے نام کی قسم نہ اٹھائی جائے۔ اگر بھول کر قسم کے منافی کام کر لیا جائے تو کیا حکم ہے؟ یمین غموس کا کیا حکم ہے؟ قسم میں نیت کا اعتبار ہوتا ہے۔اسی طرح نذر کے متعلق جستہ جستہ عنوانات حسب ذیل ہیں: نذر کے طور پر اپنا مال ہدیہ کر دینا، نذر کے اعتبار سے کسی چیز کو خود پر حرام کر لینا، نذر کو پورا کرنے کی اہمیت، نذر کو پورا نہ کرنے کا گناہ، نذر اچھے کاموں میں ہونی چاہیے۔ اگر مرنے والے کے ذمے کوئی نذر ہو تو کیا کیا جائے؟ ایسی چیز کی نذر ماننا جس کا وہ مالک نہیں یا کسی گناہ کی نذر ماننا۔اس طرح امام بخاری رحمہ اللہ نے قسم اور نذر کے متعلق بے شمار احکام ذکر کیے ہیں جن کی ہم آئندہ تفصیل بیان کریں گے۔ بہرحال قسم کے متعلق درج ذیل امور کا خیال رکھنا چاہیے: ٭ قسم ہمیشہ اچھے امر کے متعلق کھائی جائے۔ قسم کھانے کے بعد قسم کی حفاظت کرنی چاہیے۔ ٭ تکیۂ کلام کے طور پر قسم اٹھانے سے پرہیز کرنا چاہیے کیونکہ اس سے اعتماد مجروح ہوتا ہے۔ ٭ جب قسم کھانی ہو تو صرف اللہ تعالیٰ کے نام کی قسم اٹھائی جائے کیونکہ اللہ تعالیٰ کے سوا دوسری کسی چیز کی قسم اٹھانا کفر یا شرک ہے۔ ٭ جھوٹی قسم نہ اٹھائی جائے کیونکہ ایسا کرنا کبیرہ گناہ اور جہنم میں جانے کا موجب ہے۔ ٭ جو شخص کسی کام کرنے کی قسم اٹھائے، پھر ان شاءاللہ کہہ دے تو کام نہ کرنے پر کوئی گناہ نہیں ہو گا اور نہ کفارہ ہی دینا پڑے گا۔ ٭ قسم میں قسم دلانے والے کی نیت کا اعتبار ہو گا۔ ٭ اگر کسی کام کے کرنے یا نہ کرنے کی قسم اٹھا لی جائے پھر اس کے کرنے یا نہ کرنے میں بہتری ہو تو بہتر چیز کا لحاظ کرتے ہوئے اپنی قسم کو توڑ دیا جائے اور کفارہ دیا جائے۔اسی طرح نذر کے سلسلے میں درج ذیل باتوں کا خیال رکھا جائے: ٭ نذر ایسے عہد کو کہا جاتا ہے جو خود انسان اپنے اوپر واجب قرار دے لیتا ہے، لہذا انسان کو چاہیے کہ وہ کسی اچھے عہد کو اپنے اوپر واجب کرے، اسے نذر طاعت کہتے ہیں۔ اس کی تین قسمیں ہیں: ٭ واجبات کی ادائیگی، مثلاً نماز پنجگانہ، صوم رمضان اور بیت اللہ کا حج کرنا۔ ٭ واجبات کے علاوہ دیگر عبادات کی نذر، مثلاً: صدقہ کرنا یا اعتکاف بیٹھنا۔ ٭ عبادات کے علاوہ دیگر قربات کی نذر، مثلاً: تیمارداری اور فقراء کی خبر گیری کرنا۔ نذر کی ایک قسم نذر معصیت بھی ہے۔ وہ ایسا عہد ہے جس سے شریعت نے منع کیا ہے، مثلاً: شراب نوشی، سود خوری اور رشوت ستانی۔ اس قسم کی نذر کو ترک کرنا ضروری ہے بلکہ شریعت نے ایسی نذر سے منع کیا ہے اور اس قسم کی نذر کا کفارہ قسم کا کفارہ ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس قسم کے متعدد احکام و مسائل بیان کیے ہیں۔ قارئین کرام ہماری مذکورہ گزارشات کو پیش نظر رکھتے ہوئے پیش کردہ احادیث کا مطالعہ کریں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اچھے کام کرنے اور برے کاموں سے بچنے کی توفیق دے۔ آمین
تمہید باب
اس عنوان کے تین اجزاء ہیں: ٭ ایسی چیز کے متعلق قسم اٹھانا جس کا وہ مالک نہیں۔ ٭ کسی گناہ کے کام کی قسم اٹھانا۔ ٭ بحالت غصہ قسم کھانا۔ ان تینوں کی مثال یہ ہے۔ ایک آدمی کہتا ہے جبکہ وہ غصہ میں تھا: اللہ کی قسم! اگر میں اس لونڈی کا مالک بنا تو میں اس سے گفتگو نہیں کروں گا، حالانکہ اس وقت وہ اس کا مالک نہیں تھا۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے تینوں اجزاء کے متعلق اسی ترتیب سے تین احادیث بیان کی ہیں۔
امام زہری سے روایت ہے انہوں نے کہا: میں نے عروہ بن زبیر، سعید بن مسیب، علقمہ بن وقاص اور عبید اللہ بن عتبہ سے نبی ﷺ کی زوجہ محترمہ سیدہ عائشہ ؓ کے متعلق ایک حدیث سنی جب ان پر بہتان تراشوں نے طوفان باندھا اور اللہ تعالٰی نے انہیں اس بہتان سے پاک قرار دیا اور ان کی باتوں سے بری کیا۔ ان میں سے ہر ایک نے مجھے حدیث کا کچھ حصہ بتایا کہ سیدہ عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ اللہ تعالٰی نے ﴿إِنَّ الَّذِينَ جَاءُوا بِالْإِفْكِ عُصْبَةٌ مِّنكُمْ﴾ سے دس آیات حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے کہا: ”اللہ کی قسم! میں مسطح پر خرچ نہیں کروں گا جبکہ وہ مسطح پر قرابت داری کی وجہ سے خرچ کیا کرتے تھے۔ یہ اس لیے کیا کہ انہوں نے سیدہ عائشہ ؓ پر بہتان لگانے میں حصہ لیا تھا۔ اللہ تعالٰی نے یہ آیات نازل فرمائیں: ’’تم میں سے اہل فضل ووسعت قسمیں نہ کھائیں کہ وہ اپنے اقارب پر خرچ نہیں کریں گے۔“ نزول آیات کے بعد حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے کہا: اللہ کی قسم! کیوں نہیں ہم یہ پسند کرتے ہیں کہ اللہ ہمیں بخش دے۔ پھر انہوں نے مسطح پر خرچ کرنا شروع کر دیا اور کہا: اللہ کی قسم! میں مسطح کا خرچہ کبھی بند نہیں کروں گا۔
حدیث حاشیہ:
(1) جن لوگوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا پر بہتان لگایا تھا ان میں حضرت مسطح بھی شامل تھے، حالانکہ وہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی کفالت میں تھے۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے غصے میں آ کر قسم کھائی کہ وہ آئندہ ان پر خرچ نہیں کریں گے۔ ان کی یہ قسم ترک طاعت (نیکی نہ کرنے) پر تھی، جس پر انہیں قائم نہیں رہنے دیا گیا۔ معصیت کی قسم پر تو بالاولیٰ قائم رہنے کی اجازت نہیں ہے۔ (2) حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے یہ قسم بحالت غصہ کھائی تھی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی غصے کی حالت میں قسم کھائی تھی لیکن ان دونوں میں فرق یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب قسم کھائی تو آپ اس وقت کسی چیز کے مالک نہ تھے اور نہ اسے پورا ہی کر سکتے تھے جبکہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ قسم اٹھاتے وقت مال و وسعت والے تھے اور خرچ کرنے کی ہمت بھی رکھتے تھے۔ بہرحال ایسے حالات میں قسم اٹھانے سے وہ منعقد ہو جاتی ہے اور اس کے خلاف کرنے میں کفارہ بھی دینا ہو گا۔ (فتح الباري: 690/11)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبدالعزیز نے بیان کیا، کہا ہم سے ابراہیم نے بیان کیا، ان سے صالح نے، ان سے ابن شہاب نے (دوسری سند) اور ہم سے حجاج نے بیان کیا، کہا ہم سے عبداللہ بن عمر نمیری نے بیان کیا، کہا ہم سے یونس بن یزید ایلی نے بیان کیا، کہا کہ میں نے زہری سے سنا، کہا کہ میں نے عروہ بن زبیر، سعید بن المسیب، علقمہ بن وقاص اور عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ ؓ سے سنا۔ نبی کریم ﷺ کی زوجہ مطہرہ عائشہ ؓ پر بہتان کی بات کے متعلق، جب ان پر اتہام لگانے والوں نے اتہام لگایا تھا اور اللہ تعالیٰ نے ان کو اس اتہام سے بری قرار دیا تھا، ان سب لوگوں نے مجھ سے اس قصہ کا کوئی ایک ٹکڑا بیان کیا (اس حدیث میں یہ بھی ہے کہ) پھر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی ﴿إِنَّ الَّذِينَ جَاءُوا بِالْإِفْكِ﴾ کہ بلاشبہ جن لوگوں نے جھوٹی تہمت لگائی ہے دس آیتوں تک۔ جو سب کی سب میری پاکی بیان کرنے کے لیے نازل ہوئی تھیں۔ ابوبکر صدیق ؓ، مسطح ؓ کے ساتھ قرابت کی وجہ سے ان کا خرچ اپنے ذمہ لیے ہوئے تھے، کہا کہ اللہ کی قسم اب کبھی مسطح پر کوئی چیز ایک پیسہ خرچ نہیں کروں گا۔ اس کے بعد کہ اس نے عائشہ ؓ پر اس طرح کی جھوٹی تہمت لگائی ہے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی ﴿وَلَا يَأْتَلِ أُولُوا الْفَضْلِ مِنْكُمْ وَالسَّعَةِ أَنْ يُؤْتُوا أُولِي الْقُرْبَى الخ﴾ ابوبکر ؓ نے اس پر کہا، کیوں نہیں، اللہ کی قسم میں تو یہی پسند کرتا ہوں کہ اللہ میری مغفرت کر دے۔ چنانچہ انہوں نے پھر مسطح کو وہ خرچ دینا شروع کر دیا جو اس سے پہلے انہیں دیا کرتے تھے اور کہا کہ اللہ کی قسم میں اب خرچ دینے کو کبھی نہیں روکوں گا۔
حدیث حاشیہ:
حضرت ابوبکر نے اپنی قسم کو کفارہ ادا کر کے توڑ دیا باب سے یہی مطابقت ہے۔ حضرت مسطح بن اثاثہ قریشی مطلبی ہیں۔ 34ھ میں بعمر 56سال وفات پائی۔ سبحان اللہ ایمانداری اور خدا ترسی حضرت ابوبکر صدیق پر ختم تھی باوجودیکہ مسطح نےایسا بڑا قصور کیا تھا کہ ان کی پیاری بیٹی پر جو خود مسطح کی بھی بھتیجی ہوتی تھیں اس قسم کا طوفان جوڑا اور قطع نظر اس سلو ک کے جو حضرت ابوبکر صدیق ان سے کیا کرتے تھے اور قطع نظر احسان فراموشی کے انہوں نے قرابت کا بھی کچھ لحاظ نہ کیا۔ حضرت عائشہ ؓ کی بدنامی خود مسطح کی بھی ذلت اورخواری تھی مگر وہ شیطان کے چکمہ میں آگئے۔ شیطان اسی طرح آدمی کو ذلیل کرتا ہے، اس کی عقل اور فہم بھی سلب ہو جاتی ہے۔ اگر کوئی دوسرا آدمی ہوتا تو مسطح نے یہ حرکت ایسی کی تھی کہ ساری عمر سلوک کرنا تو کجا ان کی صورت بھی دیکھنا گوارہ نہ کرتا مگر آخر میں حضرت ابوبکر کی خداترسی اور مہربانی اور شفقت پر قربان کہ انہوں نے مسطح کا معمول بدستور جاری کر دیا اور ان کےقصور سےچشم پوشی کی۔ ترجمہ باب یہیں سےنکلتا ہے کیونکہ حضرت ابوبکر صدیق نےایک نیکی کی بات یعنی عزیزوں سے سلوک ترک کرنے پر قسم کھائی تھی تو اس قسم کو توڑ ڈالنے کا حکم ہوا پھر کوئی گناہ کرنے پر قسم کھائے اس کو تو بطریق اولیٰ یہ قسم توڑ ڈالنا ضرور ی ہوگا۔ یہ غصہ میں قسم کھانے کی بھی مثال ہو سکتی ہے کیونکہ حضرت ابوبکر صدیق نے پہلے غصہ ہی میں قسم کھالی تھی کہ میں مسطح سے سلوک نہ کروں گا۔ (تقریرمولانا وحیدالزمان مرحوم)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Az-Zuhri (RA) : I heard 'Urwa bin Az-Zubair, Said bin Al-Musaiyab, 'Alqama bin Waqqas and 'Ubaidullah bin 'Abdullah bin 'Uqba relating from 'Aisha (RA), the wife of the Prophet (ﷺ) the narration of the people (i.e. the liars) who spread the slander against her and they said what they said, and how Allah revealed her innocence. Each of them related to me a portion of that narration. (They said that 'Aisha (RA) said), ''Then Allah revealed the ten Verses starting with:--'Verily! Those who spread the slander..' (24.11-21) All these verses were in proof of my innocence. Abu Bakr (RA) As-Siddiq who used to provide for Mistah some financial aid because of his relation to him, said, "By Allah, I will never give anything (in charity) to Mistah, after what he has said about 'Aisha (RA)" Then Allah revealed:-- 'And let not those among you who are good and are wealthy swear not to give (any sort of help) to their kins men....' (24.22) On that, Abu Bakr (RA) said, "Yes, by Allah, I like that Allah should forgive me." and then resumed giving Mistah the aid he used to give him and said, "By Allah! I will never withhold it from him."