باب: جب کسی نے قسم کھائی کہ سالن نہیں کھائے گا پھر اس نے روٹی کھجور کے ساتھ کھائی یا کسی اور سالن کے طور پر استعمال ہو سکنے والی چیز کھائی ( تو اس کو سالن ہی مانا جائے گا )
)
Sahi-Bukhari:
Oaths and Vows
(Chapter: If someone takes an oath that he will not eat Udm)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
6688.
حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے انہوں نے بیان کیا کہ حضرت ابو طلحہ ؓ نے سیدہ ام سلیم ؓ سے کہا: مجھے رسول اللہ ﷺ کی آواز کمزور سنائی دی ہے۔ مجھے اس میں بھوک کے اثرات معلوم ہوتے ہیں۔ کیا تمہارے پاس کھانے کی کوئی چیز موجود ہے؟ انہوں نے کہا: ہاں، چنانچہ انہوں نے جو کی چند روٹیاں نکالیں۔ پھر اپنا دوپٹہ لیا اور اس کے ایک طرف انہیں لپیٹ دیا، پھر وہ دے کر انہوں نے مجھے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں بھیج دیا۔ میں وہ روٹیاں لے کر گیا تو رسول اللہ ﷺ اس وقت مسجد میں تشریف فرما تھے۔ میں نے دیکھا کہ اس وقت آپ کے ساتھ کچھ اور لوگ بھی تھے۔ میں آپ کے پاس جا کر کھڑا ہو گیا تو رسول اللہ ﷺ نے پوچھا: ”کیا تمہیں ابو طلحہٰ نے بھیجا ہے؟“ میں نے کہا: جی ہاں۔ پھر رسول اللہ ﷺ نے ان لوگوں سے کہا:جی ہاں۔ پھر رسول اللہ ﷺ نے ان لوگوں سے کہا جو آپ کے ساتھ تھے: ”اٹھو“ چنانچہ وہ چلے اور میں ان کے آگے آگے چلا حتیٰ کہ ابو طلحہ ؓ کے پاس آیا اور انہیں بتایا (کہ رسول اللہ ﷺ لوگوں کے ساتھ تشریف لا رہے ہیں) ابو طلحہ ؓ نے کہا: ام سلیم! رسول اللہ ﷺ تشریف لا رہے ہیں جبکہ ہمارے پاس تو کوئی ایسا کھانا نہیں ہے جو سب کو پیش کیا جائے۔ انہوں نے کہا: اللہ اور اس کے رسول اللہ ﷺ کو زیادہ علم ہے۔ پھر حضرت طلحہ ؓ باہر نکلے اور رسول اللہ ﷺ سے ملے۔ اس کے بعد رسول اللہ ﷺ اور ابو طلحہ ؓ گھر کی طرف بڑھے حتیٰ کہ اندر داخل ہوگئے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اے ام سلیم! جو کچھ تمہارے پاس ہے میرے پاس لاؤ۔ سیدہ ام سلیم ؓ وہ روٹیاں لے کر آئیں۔ حضرت انس ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے حکم سے ان روٹیوں کے ٹکڑے کر دیے گئے اور حضرت ام سلیم ؓ نے اپنی کپی سے گھی نچوڑا اور ان میں ملایا۔ گویا یہی سالن تھا اسکے بعد رسول اللہ ﷺ نے جو کچھ اللہ نے چاہا پڑھا پھر فرمایا: ”دس دس آدمیوں کو اندر بلاؤ۔“ انہیں بلایا گیا۔ اس طرح سب لوگوں نے کھانا کھایا اور خوب سیر ہو گئے جبکہ وہ ستر (70) یااسی(80) آدمی تھے۔
تشریح:
(1) اہل کوفہ کے نزدیک سالن کی تعریف یہ ہے کہ جس میں روٹی کو ملا کر کھایا جائے اور روٹی کے اجزاء اس کے اجزاء میں شامل ہو جائیں۔ ان کے ہاں بھونا ہوا گوشت اور انڈے سالن نہیں ہے لیکن یہ تعریف جملہ اہل لغت کے خلاف ہے۔ ابن قصار کہتے ہیں کہ اگر روٹی بھونے ہوئے گوشت کے ساتھ کھائی جائے تو اسے ادام، یعنی سالن ہی کہا جائے گا۔ اگر کوئی انسان اس طرح روٹی کھانے کے بعد کہے کہ میں نے سالن کے بغیر روٹی کھائی ہے تو اس نے جھوٹ کہا ہے اور اگر کہے کہ میں نے سالن کے ساتھ روٹی تناول کی ہے تو یہ صحیح ہے۔ (فتح الباري: 696/11) (2) حضرت ام سلیم رضی اللہ عنہا کا تعلق خالص عرب سے ہے۔ وہ روٹی پر اپنے کپے میں بچا ہوا گھی ڈال کر اسے ادام (سالن) سے تعبیر کرتی ہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اسی مقصد کے لیے یہ حدیث پیش کی ہے۔ اتنے گھی سے روٹی تو نہیں کھائی جا سکتی، البتہ روٹی کے ٹکڑوں میں گھی کی خوشبو ضرور آ سکتی ہے۔ واللہ أعلم
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6450
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6688
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
6688
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
6688
تمہید کتاب
أَيمان، يَمِين کی جمع ہے۔ لغوی طور پر دائیں ہاتھ کو يمين کہا جاتا ہے۔ اس لفظ کو قسم کے لیے استعمال کیا جاتا ہے کیونکہ اہل عرب جب کسی معاملے میں باہم حلفیہ معاہدہ کرتے تو ہر شخص اپنے ساتھی کا دایاں ہاتھ پکڑتا اور قسم کھا کر پختہ وعدہ کرتا، اس بنا پر یمین کا لفظ قسم پر بولا جانے لگا۔ اس کی دوسری توجیہ اس طرح بیان کی گئی ہے کہ دایاں ہاتھ طاقت کے لحاظ سے جسے پکڑے وہ دوسروں کی دست و برد سے محفوظ ہو جاتا ہے۔ اس مناسبت سے یمین کا اطلاق قسم پر ہونے لگا کہ جس چیز کے متعلق قسم کھائی جائے وہ چیز بھی محفوظ ہو جاتی ہے۔ اسی طرح نذور، نذر کی جمع ہے۔ لغوی طور پر ذمے داری کو نذر کہا جاتا ہے۔ چونکہ انسان خود پر اس کے ذریعے سے ایک غیر واجب چیز کو اپنے ذمے لے لیتا ہے، اس لیے اسے نذر کا نام دیا جاتا ہے، وہ ذمے داری عبادت یا صدقہ یا کسی دوسری چیز کے متعلق ہوتی ہے۔ چونکہ احکام اور نتیجے کے اعتبار سے قسم اور نذر ایک ہی چیز کے دو نام ہیں، اس لیے امام بخاری رحمہ اللہ نے ان دونوں کو ایک عنوان میں بیان کیا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نذر کا کفارہ وہی بتایا ہے جو قسم کا ہے، فرمان نبوی ہے: ''نذر کا کفارہ قسم کا کفارہ ہے۔'' (مسند احمد: 4/144)کسی بات کو مضبوط کرنے اور اس میں زور پیدا کرنے کے لیے قسم کھائی جاتی ہے۔ شریعت نے اسے مشروع قرار دیا ہے۔ اگر کسی اچھے کام کے لیے قسم کھائی گئی ہو تو شریعت نے اسے پورا کرنے کی تاکید کی ہے اور اگر کسی برے یا گناہ کے کام کی قسم اٹھائی ہے تو اسے پورا نہ کرنے اور قسم توڑ دینے پر زور دیا ہے اور اس جرم کی پاداش میں کفارہ ادا کرنے کا حکم دیا ہے۔ اگر کوئی شخص کسی مقصد کے بغیر قسم اٹھاتا ہے تو شریعت نے اسے ناپسند کیا ہے کیونکہ اس انداز سے قسم اٹھانے سے اللہ تعالیٰ کی ذات و صفات کی توہین ہوتی ہے، اس کے علاوہ قسم اٹھانے والا لوگوں کی نگاہوں میں بھی گر جاتا ہے۔ فقہائے اسلام نے قسم کی درج ذیل تین قسموں کی نشاندہی کی ہے: ٭ یمین غموس، یعنی جھوٹی قسم، کسی واقعہ کے متعلق جانتے ہوئے کہہ دینا اور قسم اٹھانا کہ ایسا نہیں ہے۔ اس قسم کی جھوٹی قسم کبھی تو ذاتی فائدے کے لیے کھائی جاتی ہے اور کبھی دوسرے کا حق مارنے کے لیے۔ بعض لوگ عادت کے طور پر جھوٹی قسم اٹھاتے ہیں۔ اس طرح کی تمام قسمیں شریعت کی نظر میں کبیرہ گناہ ہیں، بلکہ قرآن کریم نے جھوٹی قسم کا تعلق نفاق سے جوڑا ہے، اس بنا پر جھوٹی قسم بہت بڑا گناہ اور قابل ملامت فعل ہے۔ یمین لغو: بے کار اور بے مقصد قسم، قرآن کریم نے صراحت کی ہے کہ لغو قسم پر مؤاخذہ نہیں ہو گا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ''اللہ تعالیٰ تمہاری لغو قسموں پر تمہاری گرفت نہیں کرے گا لیکن جو قسمیں تم سچے دل سے کھاتے ہو ان پر ضرور مؤاخذہ کرے گا۔'' (المائدۃ: 5/89) اہل عرب میں بات بات پر قسمیں کھانے کا عام رواج تھا اور ان میں سے زیادہ تر قسمیں یا تو محض تکیۂ کلام کے طور پر ہوا کرتی تھیں یا پھر کلام میں حسن پیدا کرنے کے لیے اسے استعمال کیا جاتا تھا۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے پہلی قسم کو بیان کیا ہے کہ آدمی عام بات چیت میں جو لا والله اور بلیٰ والله کہہ دیتا ہے وہ یمین لغو ہے جس پر مؤاخذہ نہیں ہو گا۔ (صحیح البخاری، التفسیر، حدیث: 4613) ٭ یمین منعقدہ: اس سے مراد وہ قسم ہے جو آدمی کسی کام کے آئندہ کرنے یا نہ کرنے کے متعلق کھاتا ہے۔ اس قسم کا حکم یہ ہے کہ جس کام کے کرنے کی اس نے قسم کھائی ہے وہ کام جب نہ کرے گا یا جس کام کے نہ کرنے کی قسم کھائی ہے وہ کرے گا تو اسے کفارہ دینا پڑے گا جس کا ذکر امام بخاری رحمہ اللہ ایک مستقل عنوان کے تحت کریں گے۔ حلف کی اس قسم میں قصد و ارادے کا پایا جانا ضروری ہے کیونکہ قرآن کریم نے اس کے لیے عَقَّدتُّمُ الْأَيْمَانَ اور كَسَبَتْ قُلُوبُكُمْ کے الفاظ استعمال کیے ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ جب تک دل کا ارادہ اور نیت شامل نہ ہو قسم نہ ہو گی۔امام بخاری رحمہ اللہ نے قسم اور نذر کے احکام و مسائل بیان کرنے کے لیے ستاسی (87) مرفوع احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں اٹھارہ (18) احادیث نذر سے متعلق ہیں، ان پر تقریباً (33) تینتیس چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن میں تئیس (23) قسم کے بارے میں اور دس (10) عنوان نذر سے متعلق ہیں۔ چیدہ چیدہ حسب ذیل ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قسم کس انداز سے ہوتی تھی؟ اپنے باپ دادا کی قسم نہ اٹھائی جائے۔ لات و عزیٰ اور دیگر طواغیت کے نام کی قسم نہ اٹھائی جائے۔ اگر بھول کر قسم کے منافی کام کر لیا جائے تو کیا حکم ہے؟ یمین غموس کا کیا حکم ہے؟ قسم میں نیت کا اعتبار ہوتا ہے۔اسی طرح نذر کے متعلق جستہ جستہ عنوانات حسب ذیل ہیں: نذر کے طور پر اپنا مال ہدیہ کر دینا، نذر کے اعتبار سے کسی چیز کو خود پر حرام کر لینا، نذر کو پورا کرنے کی اہمیت، نذر کو پورا نہ کرنے کا گناہ، نذر اچھے کاموں میں ہونی چاہیے۔ اگر مرنے والے کے ذمے کوئی نذر ہو تو کیا کیا جائے؟ ایسی چیز کی نذر ماننا جس کا وہ مالک نہیں یا کسی گناہ کی نذر ماننا۔اس طرح امام بخاری رحمہ اللہ نے قسم اور نذر کے متعلق بے شمار احکام ذکر کیے ہیں جن کی ہم آئندہ تفصیل بیان کریں گے۔ بہرحال قسم کے متعلق درج ذیل امور کا خیال رکھنا چاہیے: ٭ قسم ہمیشہ اچھے امر کے متعلق کھائی جائے۔ قسم کھانے کے بعد قسم کی حفاظت کرنی چاہیے۔ ٭ تکیۂ کلام کے طور پر قسم اٹھانے سے پرہیز کرنا چاہیے کیونکہ اس سے اعتماد مجروح ہوتا ہے۔ ٭ جب قسم کھانی ہو تو صرف اللہ تعالیٰ کے نام کی قسم اٹھائی جائے کیونکہ اللہ تعالیٰ کے سوا دوسری کسی چیز کی قسم اٹھانا کفر یا شرک ہے۔ ٭ جھوٹی قسم نہ اٹھائی جائے کیونکہ ایسا کرنا کبیرہ گناہ اور جہنم میں جانے کا موجب ہے۔ ٭ جو شخص کسی کام کرنے کی قسم اٹھائے، پھر ان شاءاللہ کہہ دے تو کام نہ کرنے پر کوئی گناہ نہیں ہو گا اور نہ کفارہ ہی دینا پڑے گا۔ ٭ قسم میں قسم دلانے والے کی نیت کا اعتبار ہو گا۔ ٭ اگر کسی کام کے کرنے یا نہ کرنے کی قسم اٹھا لی جائے پھر اس کے کرنے یا نہ کرنے میں بہتری ہو تو بہتر چیز کا لحاظ کرتے ہوئے اپنی قسم کو توڑ دیا جائے اور کفارہ دیا جائے۔اسی طرح نذر کے سلسلے میں درج ذیل باتوں کا خیال رکھا جائے: ٭ نذر ایسے عہد کو کہا جاتا ہے جو خود انسان اپنے اوپر واجب قرار دے لیتا ہے، لہذا انسان کو چاہیے کہ وہ کسی اچھے عہد کو اپنے اوپر واجب کرے، اسے نذر طاعت کہتے ہیں۔ اس کی تین قسمیں ہیں: ٭ واجبات کی ادائیگی، مثلاً نماز پنجگانہ، صوم رمضان اور بیت اللہ کا حج کرنا۔ ٭ واجبات کے علاوہ دیگر عبادات کی نذر، مثلاً: صدقہ کرنا یا اعتکاف بیٹھنا۔ ٭ عبادات کے علاوہ دیگر قربات کی نذر، مثلاً: تیمارداری اور فقراء کی خبر گیری کرنا۔ نذر کی ایک قسم نذر معصیت بھی ہے۔ وہ ایسا عہد ہے جس سے شریعت نے منع کیا ہے، مثلاً: شراب نوشی، سود خوری اور رشوت ستانی۔ اس قسم کی نذر کو ترک کرنا ضروری ہے بلکہ شریعت نے ایسی نذر سے منع کیا ہے اور اس قسم کی نذر کا کفارہ قسم کا کفارہ ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس قسم کے متعدد احکام و مسائل بیان کیے ہیں۔ قارئین کرام ہماری مذکورہ گزارشات کو پیش نظر رکھتے ہوئے پیش کردہ احادیث کا مطالعہ کریں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اچھے کام کرنے اور برے کاموں سے بچنے کی توفیق دے۔ آمین
تمہید باب
اس عنوان کے دو جز ہیں: ٭ اگر سالن نہ کھانے کی قسم کھائی اور کھجور کو بطور سالن استعمال کیا تو قسم ٹوٹے گی یا نہیں۔ ٭ سالن کیا ہوتا ہے، اس کی کیا تعریف ہے؟ دونوں کا حکم اور جواب بیان نہیں کیا کیونکہ دونوں کا جواب، احادیث مذکورہ سے بآسانی اخذ کیا جا سکتا ہے۔
حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے انہوں نے بیان کیا کہ حضرت ابو طلحہ ؓ نے سیدہ ام سلیم ؓ سے کہا: مجھے رسول اللہ ﷺ کی آواز کمزور سنائی دی ہے۔ مجھے اس میں بھوک کے اثرات معلوم ہوتے ہیں۔ کیا تمہارے پاس کھانے کی کوئی چیز موجود ہے؟ انہوں نے کہا: ہاں، چنانچہ انہوں نے جو کی چند روٹیاں نکالیں۔ پھر اپنا دوپٹہ لیا اور اس کے ایک طرف انہیں لپیٹ دیا، پھر وہ دے کر انہوں نے مجھے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں بھیج دیا۔ میں وہ روٹیاں لے کر گیا تو رسول اللہ ﷺ اس وقت مسجد میں تشریف فرما تھے۔ میں نے دیکھا کہ اس وقت آپ کے ساتھ کچھ اور لوگ بھی تھے۔ میں آپ کے پاس جا کر کھڑا ہو گیا تو رسول اللہ ﷺ نے پوچھا: ”کیا تمہیں ابو طلحہٰ نے بھیجا ہے؟“ میں نے کہا: جی ہاں۔ پھر رسول اللہ ﷺ نے ان لوگوں سے کہا:جی ہاں۔ پھر رسول اللہ ﷺ نے ان لوگوں سے کہا جو آپ کے ساتھ تھے: ”اٹھو“ چنانچہ وہ چلے اور میں ان کے آگے آگے چلا حتیٰ کہ ابو طلحہ ؓ کے پاس آیا اور انہیں بتایا (کہ رسول اللہ ﷺ لوگوں کے ساتھ تشریف لا رہے ہیں) ابو طلحہ ؓ نے کہا: ام سلیم! رسول اللہ ﷺ تشریف لا رہے ہیں جبکہ ہمارے پاس تو کوئی ایسا کھانا نہیں ہے جو سب کو پیش کیا جائے۔ انہوں نے کہا: اللہ اور اس کے رسول اللہ ﷺ کو زیادہ علم ہے۔ پھر حضرت طلحہ ؓ باہر نکلے اور رسول اللہ ﷺ سے ملے۔ اس کے بعد رسول اللہ ﷺ اور ابو طلحہ ؓ گھر کی طرف بڑھے حتیٰ کہ اندر داخل ہوگئے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اے ام سلیم! جو کچھ تمہارے پاس ہے میرے پاس لاؤ۔ سیدہ ام سلیم ؓ وہ روٹیاں لے کر آئیں۔ حضرت انس ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے حکم سے ان روٹیوں کے ٹکڑے کر دیے گئے اور حضرت ام سلیم ؓ نے اپنی کپی سے گھی نچوڑا اور ان میں ملایا۔ گویا یہی سالن تھا اسکے بعد رسول اللہ ﷺ نے جو کچھ اللہ نے چاہا پڑھا پھر فرمایا: ”دس دس آدمیوں کو اندر بلاؤ۔“ انہیں بلایا گیا۔ اس طرح سب لوگوں نے کھانا کھایا اور خوب سیر ہو گئے جبکہ وہ ستر (70) یااسی(80) آدمی تھے۔
حدیث حاشیہ:
(1) اہل کوفہ کے نزدیک سالن کی تعریف یہ ہے کہ جس میں روٹی کو ملا کر کھایا جائے اور روٹی کے اجزاء اس کے اجزاء میں شامل ہو جائیں۔ ان کے ہاں بھونا ہوا گوشت اور انڈے سالن نہیں ہے لیکن یہ تعریف جملہ اہل لغت کے خلاف ہے۔ ابن قصار کہتے ہیں کہ اگر روٹی بھونے ہوئے گوشت کے ساتھ کھائی جائے تو اسے ادام، یعنی سالن ہی کہا جائے گا۔ اگر کوئی انسان اس طرح روٹی کھانے کے بعد کہے کہ میں نے سالن کے بغیر روٹی کھائی ہے تو اس نے جھوٹ کہا ہے اور اگر کہے کہ میں نے سالن کے ساتھ روٹی تناول کی ہے تو یہ صحیح ہے۔ (فتح الباري: 696/11) (2) حضرت ام سلیم رضی اللہ عنہا کا تعلق خالص عرب سے ہے۔ وہ روٹی پر اپنے کپے میں بچا ہوا گھی ڈال کر اسے ادام (سالن) سے تعبیر کرتی ہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اسی مقصد کے لیے یہ حدیث پیش کی ہے۔ اتنے گھی سے روٹی تو نہیں کھائی جا سکتی، البتہ روٹی کے ٹکڑوں میں گھی کی خوشبو ضرور آ سکتی ہے۔ واللہ أعلم
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، ان سے امام مالک نے بیان کیا، ان سے اسحاق بن عبداللہ بن ابی طلحہ نے بیان کیا، انہوں نے انس بن مالک ؓ سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ ابوطلحہ ؓ نے (اپنی بیوی) ام سلیم ؓ سے کہا کہ میں سن کر آ رہا ہوں نبی کریم ﷺ کی آواز (فاقوں کی وجہ سے) کمزور پڑ گئی ہے اور میں نے آواز سے آپ کے فاقہ کا اندازہ لگایا ہے۔ کیا تمہارے پاس کھانے کی کوئی چیز ہے؟ انہوں نے کہا ہاں۔ چنانچہ انہوں نے جَو کی چند روٹیاں نکالیں اور ایک اوڑھنی لے کر روٹی کو اس کے ایک کونے سے لپیٹ دیا اور اسے نبی کریم ﷺ کی خدمت میں بھجوایا۔ میں لے کر گیا تو میں نے دیکھا کہ نبی کریم ﷺ مسجد میں تشریف رکھتے ہیں اور آپ کے ساتھ کچھ لوگ ہیں، میں ان کے پاس جا کے کھڑا ہو گیا تو نبی کریم ﷺ نے پوچھا، کیا تمہیں ابوطلحہ نے بھیجا ہے، میں نے عرض کیا: جی ہاں۔ پھر نبی کریم ﷺ نے ان لوگوں سے کہا جو ساتھ تھے کہ اٹھو اور چلو، میں ان کے آگے آگے چل رہا تھا۔ آخر میں ابوطلحہ ؓ کے یہاں پہنچا اور ان کو اطلاع دی۔ ابوطلحہ نے کہا: ام سلیم! رسول اللہ ﷺ تشریف لائے ہیں اور ہمارے پاس تو کوئی ایسا کھانا نہیں ہے جو سب کو پیش کیا جا سکے؟ انہوں نے کہا کہ اللہ اور اس کے رسول کو زیادہ علم ہے۔ پھر ابوطلحہ ؓ باہر نکلے اور نبی کریم ﷺ سے ملے، اس کے بعد نبی کریم ﷺ اور ابوطلحہ گھر کی طرف بڑھے اور اندر گئے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا، ام سلیم! جو کچھ تمہارے پاس ہے میرے پاس لاؤ۔ وہ یہی روٹیاں لائیں۔ راوی نے بیان کیا کہ پھر نبی کریم ﷺ کے حکم سے ان روٹیوں کو چورا کر دیا گیا اور ام سلیم ؓ نے اپنی ایک (گھی کی) کپی کو نچوڑا گیا یہی سالن تھا۔ اس کے بعد نبی کریم ﷺ نے جیسا کہ اللہ نے چاہا دعا پڑھی اور فرمایا کہ دس دس آدمیوں کو اندر بلاؤ انہیں بلایا گیا اور اس طرح سب لوگوں نے کھایا اور خوب سیر ہو گئے، حاضرین کی تعداد ستر یا اسی آدمیوں کی تھی۔
حدیث حاشیہ:
گھی کو بطور سالن استعمال کیا گیا ہے یہی باب اور حدیث میں مطابقت ہے جس میں ایک معجزہ نبوی کا بیان ہے۔ یہ بھی ملعوم ہوا کہ بڑے لوگوں کو خود کھانے سے پہلے اپنے دیگر متعلقین کا بھی فکر کرنا ضروری ہے بلکہ ا ن سب کو پہلے کھلانا اور بعد میں خود کھانا تاکہ کوئی بھی بھوکا نہ رہ جائے۔ اللہ پاک آج کل کے نام نہاد پیروں مرشدوں کو نیز علماء کو سب کوان اخلاق حسنہ کی توثیق بخشے (آمین)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Anas bin Malik (RA): Abu Talha said to Um Sulaim, "I heard the voice of Allah's Apostle (ﷺ) rather weak, and I knew that it was because of hunger. Have you anything (to present to the Prophet)?" She said, "Yes." Then she took out a few loaves of barley bread and took a veil of hers and wrapped the bread with a part of it and sent me to Allah's Apostle. I went and found Allah's Apostle (ﷺ) sitting in the mosque with some people. I stood up before him. Allah's Apostle (ﷺ) said to me, "Has Abu Talha sent you?" I said, ' Yes. Then Allah's Apostle (ﷺ) said to those who were with him. "Get up and proceed." I went ahead of them (as their forerunner) and came to Abu Talha and informed him about it. Abu Talha said, "O Um Sulaim! Allah's Apostle (ﷺ) has come and we have no food to feed them." Um Sulaim said, "Allah and His Apostle (ﷺ) know best." So Abu Talha went out (to receive them) till he met Allah's Apostle. Allah's Apostle (ﷺ) came in company with Abu Talha and they entered the house. Allah's Apostle (ﷺ) said, "O Um Sulaim! Bring whatever you have." So she brought that (barley) bread and Allah's Apostle (ﷺ) ordered that bread to be broken into small pieces, and then Um Sulaim poured over it some butter from a leather butter container, and then Allah's Apostle (ﷺ) said what Allah wanted him to say, (i.e. blessing the food). Allah's Apostle (ﷺ) then said, "Admit ten men." Abu Talha admitted them and they ate to their fill and went out. He again said, "Admit ten men." He admitted them, and in this way all the people ate to their fill, and they were seventy or eighty men."