Sahi-Bukhari:
Oaths and Vows
(Chapter: If somebody dies without fulfiling a vow)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
ابن عمر ؓنے ایک عورت سے، جس کی ماں نے قباء میں نماز پڑھنے کی نذر مانی تھی، کہا کہ اس کی طرف سے تم پڑھ لو۔ ابن عباسؓ نے بھی یہی کہا تھاتشریح:نسائی نے ابن عباسؓ سے یوں نکالا کہ کوئی کسی کی طرف سے نماز نہ پڑھے نہ روزہ رکھے اب ان دونوں قولوں میں یوں تطبیق ہو گئی ہے کہ زندہ کی طرف نماز روزہ نہیں کر سکتا مردہ کی طرف سے کر سکتا ہے(وحیدی)
6699.
حضرت ابن عباس ؓ ہی سے روایت ہے انہوں نے کہا: ایک آدمی نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا: میری بہن نے حج کرنے کی نذر مانی تھی لیکن وہ فوت ہو گئی ہے۔ نبی ﷺ نے فرمایا: ”اگر اس کی ذمے کوئی قرض ہوتا تو کیا اسے ادا کرتا؟“ اس نے کہا: جی ہاں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”پھر اللہ کے قرض کو بھی ادا کرو کیونکہ وہ اس بات کا زیادہ حقدار ہے کہ اس کا قرض ادا کیا جائے۔“
تشریح:
(1) حضرت سعد رضی اللہ عنہ کی والدہ کے ذمے نذر کیا تھی؟ اس کے تعین میں اختلاف ہے۔ کچھ حضرات کا خیال ہے کہ وہ روزے کی نذر تھی جیسا کہ صحیح مسلم کی ایک روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور عرض کی: اللہ کے رسول! میری والدہ اس حالت میں فوت ہوئی ہے کہ اس کے ذمے ایک ماہ کے روزے تھے، کیا میں اس کی طرف سے روزے رکھوں تو آپ نے فرمایا: ’‘ہاں۔‘‘ (صحیح مسلم، الصیام، حدیث: (154) 1148) لیکن اس روایت میں آدمی کی تعیین کے متعلق یقین نہیں کہ وہ حضرت سعد رضی اللہ عنہ تھے۔ بعض حضرات کہتے ہیں کہ والدہ کی نذر مالی صدقے کے متعلق تھی جیسا کہ موطا امام مالک کی ایک روایت سے معلوم ہوتا ہے لیکن اس روایت میں نذر کی صراحت نہیں ہے۔ (الموطأ لإمام مالك، الأقضیة، حدیث: 1515) ظاہر روایات سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ ان کی نذر مال کے متعلق تھی۔ (2) اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے۔ میت کے ذمے واجب حقوق کی ادائیگی ضروری ہے۔ جمہور اہل علم کا خیال ہے کہ اگر کوئی مر جائے اور اس کے ذمے مالی نذر ہو تو اس کے ترکے سے اس کا پورا کرنا ضروری ہے، اگرچہ مرنے والے نے وصیت نہ کی ہو، ہاں اگر نذر مرض موت میں مانی تھی تو ایک تہائی مال سے اس کی نذر پوری کی جا سکے گی۔ واللہ أعلم(فتح الباری: 713/11)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6461
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6699
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
6699
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
6699
تمہید کتاب
أَيمان، يَمِين کی جمع ہے۔ لغوی طور پر دائیں ہاتھ کو يمين کہا جاتا ہے۔ اس لفظ کو قسم کے لیے استعمال کیا جاتا ہے کیونکہ اہل عرب جب کسی معاملے میں باہم حلفیہ معاہدہ کرتے تو ہر شخص اپنے ساتھی کا دایاں ہاتھ پکڑتا اور قسم کھا کر پختہ وعدہ کرتا، اس بنا پر یمین کا لفظ قسم پر بولا جانے لگا۔ اس کی دوسری توجیہ اس طرح بیان کی گئی ہے کہ دایاں ہاتھ طاقت کے لحاظ سے جسے پکڑے وہ دوسروں کی دست و برد سے محفوظ ہو جاتا ہے۔ اس مناسبت سے یمین کا اطلاق قسم پر ہونے لگا کہ جس چیز کے متعلق قسم کھائی جائے وہ چیز بھی محفوظ ہو جاتی ہے۔ اسی طرح نذور، نذر کی جمع ہے۔ لغوی طور پر ذمے داری کو نذر کہا جاتا ہے۔ چونکہ انسان خود پر اس کے ذریعے سے ایک غیر واجب چیز کو اپنے ذمے لے لیتا ہے، اس لیے اسے نذر کا نام دیا جاتا ہے، وہ ذمے داری عبادت یا صدقہ یا کسی دوسری چیز کے متعلق ہوتی ہے۔ چونکہ احکام اور نتیجے کے اعتبار سے قسم اور نذر ایک ہی چیز کے دو نام ہیں، اس لیے امام بخاری رحمہ اللہ نے ان دونوں کو ایک عنوان میں بیان کیا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نذر کا کفارہ وہی بتایا ہے جو قسم کا ہے، فرمان نبوی ہے: ''نذر کا کفارہ قسم کا کفارہ ہے۔'' (مسند احمد: 4/144)کسی بات کو مضبوط کرنے اور اس میں زور پیدا کرنے کے لیے قسم کھائی جاتی ہے۔ شریعت نے اسے مشروع قرار دیا ہے۔ اگر کسی اچھے کام کے لیے قسم کھائی گئی ہو تو شریعت نے اسے پورا کرنے کی تاکید کی ہے اور اگر کسی برے یا گناہ کے کام کی قسم اٹھائی ہے تو اسے پورا نہ کرنے اور قسم توڑ دینے پر زور دیا ہے اور اس جرم کی پاداش میں کفارہ ادا کرنے کا حکم دیا ہے۔ اگر کوئی شخص کسی مقصد کے بغیر قسم اٹھاتا ہے تو شریعت نے اسے ناپسند کیا ہے کیونکہ اس انداز سے قسم اٹھانے سے اللہ تعالیٰ کی ذات و صفات کی توہین ہوتی ہے، اس کے علاوہ قسم اٹھانے والا لوگوں کی نگاہوں میں بھی گر جاتا ہے۔ فقہائے اسلام نے قسم کی درج ذیل تین قسموں کی نشاندہی کی ہے: ٭ یمین غموس، یعنی جھوٹی قسم، کسی واقعہ کے متعلق جانتے ہوئے کہہ دینا اور قسم اٹھانا کہ ایسا نہیں ہے۔ اس قسم کی جھوٹی قسم کبھی تو ذاتی فائدے کے لیے کھائی جاتی ہے اور کبھی دوسرے کا حق مارنے کے لیے۔ بعض لوگ عادت کے طور پر جھوٹی قسم اٹھاتے ہیں۔ اس طرح کی تمام قسمیں شریعت کی نظر میں کبیرہ گناہ ہیں، بلکہ قرآن کریم نے جھوٹی قسم کا تعلق نفاق سے جوڑا ہے، اس بنا پر جھوٹی قسم بہت بڑا گناہ اور قابل ملامت فعل ہے۔ یمین لغو: بے کار اور بے مقصد قسم، قرآن کریم نے صراحت کی ہے کہ لغو قسم پر مؤاخذہ نہیں ہو گا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ''اللہ تعالیٰ تمہاری لغو قسموں پر تمہاری گرفت نہیں کرے گا لیکن جو قسمیں تم سچے دل سے کھاتے ہو ان پر ضرور مؤاخذہ کرے گا۔'' (المائدۃ: 5/89) اہل عرب میں بات بات پر قسمیں کھانے کا عام رواج تھا اور ان میں سے زیادہ تر قسمیں یا تو محض تکیۂ کلام کے طور پر ہوا کرتی تھیں یا پھر کلام میں حسن پیدا کرنے کے لیے اسے استعمال کیا جاتا تھا۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے پہلی قسم کو بیان کیا ہے کہ آدمی عام بات چیت میں جو لا والله اور بلیٰ والله کہہ دیتا ہے وہ یمین لغو ہے جس پر مؤاخذہ نہیں ہو گا۔ (صحیح البخاری، التفسیر، حدیث: 4613) ٭ یمین منعقدہ: اس سے مراد وہ قسم ہے جو آدمی کسی کام کے آئندہ کرنے یا نہ کرنے کے متعلق کھاتا ہے۔ اس قسم کا حکم یہ ہے کہ جس کام کے کرنے کی اس نے قسم کھائی ہے وہ کام جب نہ کرے گا یا جس کام کے نہ کرنے کی قسم کھائی ہے وہ کرے گا تو اسے کفارہ دینا پڑے گا جس کا ذکر امام بخاری رحمہ اللہ ایک مستقل عنوان کے تحت کریں گے۔ حلف کی اس قسم میں قصد و ارادے کا پایا جانا ضروری ہے کیونکہ قرآن کریم نے اس کے لیے عَقَّدتُّمُ الْأَيْمَانَ اور كَسَبَتْ قُلُوبُكُمْ کے الفاظ استعمال کیے ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ جب تک دل کا ارادہ اور نیت شامل نہ ہو قسم نہ ہو گی۔امام بخاری رحمہ اللہ نے قسم اور نذر کے احکام و مسائل بیان کرنے کے لیے ستاسی (87) مرفوع احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں اٹھارہ (18) احادیث نذر سے متعلق ہیں، ان پر تقریباً (33) تینتیس چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن میں تئیس (23) قسم کے بارے میں اور دس (10) عنوان نذر سے متعلق ہیں۔ چیدہ چیدہ حسب ذیل ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قسم کس انداز سے ہوتی تھی؟ اپنے باپ دادا کی قسم نہ اٹھائی جائے۔ لات و عزیٰ اور دیگر طواغیت کے نام کی قسم نہ اٹھائی جائے۔ اگر بھول کر قسم کے منافی کام کر لیا جائے تو کیا حکم ہے؟ یمین غموس کا کیا حکم ہے؟ قسم میں نیت کا اعتبار ہوتا ہے۔اسی طرح نذر کے متعلق جستہ جستہ عنوانات حسب ذیل ہیں: نذر کے طور پر اپنا مال ہدیہ کر دینا، نذر کے اعتبار سے کسی چیز کو خود پر حرام کر لینا، نذر کو پورا کرنے کی اہمیت، نذر کو پورا نہ کرنے کا گناہ، نذر اچھے کاموں میں ہونی چاہیے۔ اگر مرنے والے کے ذمے کوئی نذر ہو تو کیا کیا جائے؟ ایسی چیز کی نذر ماننا جس کا وہ مالک نہیں یا کسی گناہ کی نذر ماننا۔اس طرح امام بخاری رحمہ اللہ نے قسم اور نذر کے متعلق بے شمار احکام ذکر کیے ہیں جن کی ہم آئندہ تفصیل بیان کریں گے۔ بہرحال قسم کے متعلق درج ذیل امور کا خیال رکھنا چاہیے: ٭ قسم ہمیشہ اچھے امر کے متعلق کھائی جائے۔ قسم کھانے کے بعد قسم کی حفاظت کرنی چاہیے۔ ٭ تکیۂ کلام کے طور پر قسم اٹھانے سے پرہیز کرنا چاہیے کیونکہ اس سے اعتماد مجروح ہوتا ہے۔ ٭ جب قسم کھانی ہو تو صرف اللہ تعالیٰ کے نام کی قسم اٹھائی جائے کیونکہ اللہ تعالیٰ کے سوا دوسری کسی چیز کی قسم اٹھانا کفر یا شرک ہے۔ ٭ جھوٹی قسم نہ اٹھائی جائے کیونکہ ایسا کرنا کبیرہ گناہ اور جہنم میں جانے کا موجب ہے۔ ٭ جو شخص کسی کام کرنے کی قسم اٹھائے، پھر ان شاءاللہ کہہ دے تو کام نہ کرنے پر کوئی گناہ نہیں ہو گا اور نہ کفارہ ہی دینا پڑے گا۔ ٭ قسم میں قسم دلانے والے کی نیت کا اعتبار ہو گا۔ ٭ اگر کسی کام کے کرنے یا نہ کرنے کی قسم اٹھا لی جائے پھر اس کے کرنے یا نہ کرنے میں بہتری ہو تو بہتر چیز کا لحاظ کرتے ہوئے اپنی قسم کو توڑ دیا جائے اور کفارہ دیا جائے۔اسی طرح نذر کے سلسلے میں درج ذیل باتوں کا خیال رکھا جائے: ٭ نذر ایسے عہد کو کہا جاتا ہے جو خود انسان اپنے اوپر واجب قرار دے لیتا ہے، لہذا انسان کو چاہیے کہ وہ کسی اچھے عہد کو اپنے اوپر واجب کرے، اسے نذر طاعت کہتے ہیں۔ اس کی تین قسمیں ہیں: ٭ واجبات کی ادائیگی، مثلاً نماز پنجگانہ، صوم رمضان اور بیت اللہ کا حج کرنا۔ ٭ واجبات کے علاوہ دیگر عبادات کی نذر، مثلاً: صدقہ کرنا یا اعتکاف بیٹھنا۔ ٭ عبادات کے علاوہ دیگر قربات کی نذر، مثلاً: تیمارداری اور فقراء کی خبر گیری کرنا۔ نذر کی ایک قسم نذر معصیت بھی ہے۔ وہ ایسا عہد ہے جس سے شریعت نے منع کیا ہے، مثلاً: شراب نوشی، سود خوری اور رشوت ستانی۔ اس قسم کی نذر کو ترک کرنا ضروری ہے بلکہ شریعت نے ایسی نذر سے منع کیا ہے اور اس قسم کی نذر کا کفارہ قسم کا کفارہ ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس قسم کے متعدد احکام و مسائل بیان کیے ہیں۔ قارئین کرام ہماری مذکورہ گزارشات کو پیش نظر رکھتے ہوئے پیش کردہ احادیث کا مطالعہ کریں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اچھے کام کرنے اور برے کاموں سے بچنے کی توفیق دے۔ آمین
تمہید باب
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے فرمایا: کوئی دوسرے کی طرف سے نہ نماز پڑھے اور نہ روزے ہی رکھے۔ (الموطا لامام مالک، الصیام، حدیث: 688) نسائی میں اس طرح کی ایک روایت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے بھی مروی ہے، (السنن الکبریٰ للنسائی، الصیام، حدیث: 2930) جبکہ امام بخاری رحمہ اللہ کی پیش کردہ روایات ان کے خلاف ہیں۔ ان روایات میں تطبیق کی یہ صورت ہے کہ کوئی زندہ آدمی کسی زندہ کی طرف سے نماز روزہ نہیں کر سکتا اور میت کی طرف سے کرنے کی اجازت ہے جیسا کہ آئندہ بیان ہو گا۔ (فتح الباری: 11/711)
ابن عمر ؓنے ایک عورت سے، جس کی ماں نے قباء میں نماز پڑھنے کی نذر مانی تھی، کہا کہ اس کی طرف سے تم پڑھ لو۔ ابن عباسؓ نے بھی یہی کہا تھاتشریح:نسائی نے ابن عباسؓ سے یوں نکالا کہ کوئی کسی کی طرف سے نماز نہ پڑھے نہ روزہ رکھے اب ان دونوں قولوں میں یوں تطبیق ہو گئی ہے کہ زندہ کی طرف نماز روزہ نہیں کر سکتا مردہ کی طرف سے کر سکتا ہے(وحیدی)
حدیث ترجمہ:
حضرت ابن عباس ؓ ہی سے روایت ہے انہوں نے کہا: ایک آدمی نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا: میری بہن نے حج کرنے کی نذر مانی تھی لیکن وہ فوت ہو گئی ہے۔ نبی ﷺ نے فرمایا: ”اگر اس کی ذمے کوئی قرض ہوتا تو کیا اسے ادا کرتا؟“ اس نے کہا: جی ہاں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”پھر اللہ کے قرض کو بھی ادا کرو کیونکہ وہ اس بات کا زیادہ حقدار ہے کہ اس کا قرض ادا کیا جائے۔“
حدیث حاشیہ:
(1) حضرت سعد رضی اللہ عنہ کی والدہ کے ذمے نذر کیا تھی؟ اس کے تعین میں اختلاف ہے۔ کچھ حضرات کا خیال ہے کہ وہ روزے کی نذر تھی جیسا کہ صحیح مسلم کی ایک روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور عرض کی: اللہ کے رسول! میری والدہ اس حالت میں فوت ہوئی ہے کہ اس کے ذمے ایک ماہ کے روزے تھے، کیا میں اس کی طرف سے روزے رکھوں تو آپ نے فرمایا: ’‘ہاں۔‘‘ (صحیح مسلم، الصیام، حدیث: (154) 1148) لیکن اس روایت میں آدمی کی تعیین کے متعلق یقین نہیں کہ وہ حضرت سعد رضی اللہ عنہ تھے۔ بعض حضرات کہتے ہیں کہ والدہ کی نذر مالی صدقے کے متعلق تھی جیسا کہ موطا امام مالک کی ایک روایت سے معلوم ہوتا ہے لیکن اس روایت میں نذر کی صراحت نہیں ہے۔ (الموطأ لإمام مالك، الأقضیة، حدیث: 1515) ظاہر روایات سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ ان کی نذر مال کے متعلق تھی۔ (2) اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے۔ میت کے ذمے واجب حقوق کی ادائیگی ضروری ہے۔ جمہور اہل علم کا خیال ہے کہ اگر کوئی مر جائے اور اس کے ذمے مالی نذر ہو تو اس کے ترکے سے اس کا پورا کرنا ضروری ہے، اگرچہ مرنے والے نے وصیت نہ کی ہو، ہاں اگر نذر مرض موت میں مانی تھی تو ایک تہائی مال سے اس کی نذر پوری کی جا سکے گی۔ واللہ أعلم(فتح الباری: 713/11)
ترجمۃ الباب:
حضرت ابن عمر ؓ نے ایک عورت سے کہا جس کی ماں نے قباء میں نماز پڑھنے کی نذر مانی تھی: تو اس کی طرف سے نماز پڑھ لے، حضرت ابن عباس ؓ نے بھی یہی کہا تھا۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے آدم نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے ابوبشر نے، کہا کہ میں نے سعید بن جبیر سے سنا، ان سے ابن عباس ؓ نے بیان کیا کہ ایک صاحب رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں آئے اور عرض کیا کہ میری بہن نے نذر مانی تھی کہ حج کریں گی لیکن اب ان کا انتقال ہو چکا ہے؟ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ اگر ان پر کوئی قرض ہوتا تو کیا تم اسے ادا کرتے؟ انہوں نے عرض کی ضرور ادا کرتے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ پھر اللہ کا قرض بھی ادا کرو کیونکہ وہ اس کا زیادہ مستحق ہے کہ اس کا قرض پورا ادا کیا جائے۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Ibn 'Abbas (RA) : A man came to the Prophet (ﷺ) and said to him, "My sister vowed to perform the Hajj, but she died (before fulfilling it)." The Prophet (ﷺ) said, "Would you not have paid her debts if she had any?" The man said, "Yes." The Prophet (ﷺ) said, "So pay Allah's Rights, as He is more entitled to receive His rights."