باب: اور سورۂ مائدہ میں اللہ تعالی کا فرمان” پس قسم کا کفارہ دس مسکینوں کو کھانا کھلانا ہے“
)
Sahi-Bukhari:
Expiation for Unfulfilled Oaths
(Chapter: “(Then for the) expiation feed ten Masakin…”)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور یہ کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو نبی کریمﷺنے حکم دیا کہ پھر روزے یا صدقہ یا قربانی کا فدیہ دینا ہے اور ابن عباسؓ اور عطاء و عکرمہ سے منقول ہے کہ قرآن مجید میں جہاں او، او( بمعنی یا) کا لفظ آتا ہے تو اس میں اختیار بتانا مقصود ہوتا ہے اور نبی کریمﷺ نے کعب ؓ کو فدیہ کے معاملہ میں اختیار دیا تھا۔ ( کہ مسکینوں کو کھانا کھلائیں یا ایک بکرے کا صدقہ کریں) ۔
6708.
حضرت کعب بن عجرہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: میں نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ نے فرمایا: ”قریب ہوجاؤ“ پھر میں قریب ہوا تو آپ نے پوچھا: ”کیا تمہارے سر کی جوئیں تمہیں تکلیف دے رہی ہیں؟“ میں نے کہا: جی ہاں۔ آپ نے فرمایا: ”پھر روزے رکھو یا صدقہ دو یا قربانی کا فدیہ دو،۔“ ابن عون کے طریق سے ایوب نے کہا: روزے تین دن کے ہوں گے قربانی ایک بکری کی اور کھانا چھ مساکین کے لیے ہوگا۔
تشریح:
(1) ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اپنا سر منڈوا دو لیکن تین دن کے روزے رکھو، یا چھ مسکینوں کو کھانا کھلاؤ یا ایک بکری ذبح کر دو۔‘‘ (صحیح البخاري، المحصر، حدیث: 1814) امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث کا حوالہ اس لیے دیا ہے کہ قسم کے کفارے میں انسان کو اختیار ہے، ان میں سے جسے چاہے اختیار کرے، جیسا کہ حضرت کعب رضی اللہ عنہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کفارۂ اذی، یعنی حالت احرام میں کسی مجبوری اور ضرورت کی بنا پر سر کے بال منڈوانے کے کفارے میں اختیار دیا تھا کیونکہ کفارۂ یمین اور کفارۂ اذی، اختیار میں دونوں ایک جیسے ہیں بلکہ کفارۂ یمین میں ترتیب کا اضافہ ہے، اس لیے قسم کے کفارے میں کھانا کھلانے، لباس دینے اور غلام آزاد کرنے میں اختیار ہے پھر ان تینوں اور تین دن کے روزے رکھنے میں ترتیب ہے، جبکہ کفارۂ اذی میں روزے رکھنے، کھانا کھلانے اور قربانی دینے میں اختیار ہے، ان میں ترتیب وغیرہ نہیں ہے۔ واللہ أعلم (2) حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اس حدیث کو ذکر کرنے کی ایک دوسری توجیہ بیان کی ہے، فرماتے ہیں: امام بخاری رحمہ اللہ کا مقصود ان لوگوں کی تردید کرنا ہے جو کہتے ہیں: پانچ مساکین کو کھانا اور پانچ کو لباس دیا جا سکتا ہے، اسی طرح پانچ کو لباس اور نصف غلام آزاد کیا جا سکتا ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ کا یہ موقف ہے کہ آیت کریمہ کے مطابق اختیار کی یہ توجیہ غلط ہے بلکہ دس مساکین کو کھانا دیا جائے یا دس مساکین کو لباس پہنایا جائے یا ایک غلام آزاد کیا جائے۔ اگر تینوں میسر نہیں ہیں تو تین دن کے روزے رکھ لیے جائیں۔ (فتح الباري: 725/11)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6470
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6708
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
6708
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
6708
تمہید کتاب
كفارات، كفارة کی جمع ہے۔ اس کی اصل ک،ف،ر ہے۔ اس کے لغوی معنی ڈھانکنا اور چھپانا ہیں۔ کفارہ گناہ کو ڈھانک لیتا ہے، اس لیے اسے یہ نام دیا گیا ہے۔ کاشتکار کو بھی کافر اس لیے کہا جاتا ہے کہ وہ بیج کو زمین میں چھپا دیتا ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے: (كَمَثَلِ غَيْثٍ أَعْجَبَ الْكُفَّارَ نَبَاتُهُ) ''جیسے بارش ہوتی ہے تو اس کی نباتات نے کاشت کاروں کو خوش کر دیا۔'' (الحدید: 57/20) اس آیت کریمہ میں کاشت کاروں کو کفار کہا گیا ہے اور اس میں اس کے لغوی معنی ملحوظ ہیں، یعنی وہ بیچ کو زمین میں چھپا دیتے ہیں۔ اسی طرح عربی زبان میں کہا جاتا ہے: (كفرت الشمس النجوم) ''سورج نے ستاروں کو چھپا دیا۔'' بادل کو بھی کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ سورج کو اوٹ میں کر دیتا ہے۔ اہلِ عرب رات پر بھی کافر کا اطلاق کرتے ہیں کیونکہ وہ آنکھوں سے ہر چیز کو چھپا دیتی ہے۔ آدمی جب ہتھیاروں سے ڈھانک دیا جاتا ہے تو اس پر لفظ کافر بولا جاتا ہے۔ اس کفارہ کے دوسرے معنی ازالۂ کفر بھی ہیں جیسا کہ تمریض کے معنی ازالۂ مرض ہیں، ارشاد باری تعالیٰ ہے: (وَلَوْ أَنَّ أَهْلَ الْكِتَابِ آمَنُوا وَاتَّقَوْا لَكَفَّرْنَا عَنْهُمْ سَيِّئَاتِهِمْ) ''اگر اہل کتاب ایمان لاتے اور اللہ سے ڈر جاتے تو ہم ان کے گناہ مٹا دیتے۔'' (المائدۃ: 5/65) اس آیت میں تکفیر کے معنی ازالۂ کفر ہیں۔ اس میں ستر کے معنی بھی کیے جا سکتے ہیں۔شرعی اصطلاح میں کفارہ اس مال کو کہا جاتا ہے جو قسم توڑنے والا دیتا ہے۔ اسی طرح قتل اور ظہار کے تاوان کو بھی کفارہ کہا جاتا ہے۔ اس میں لغت کے اعتبار سے دونوں معنوں کو ملحوظ رکھا گیا ہے، یعنی اس کفارہ کے باعث قسم توڑنے کے گناہ کو مٹا دیا جاتا ہے اور مکلف کے نامۂ اعمال سے اسے زائل اور ختم کر دیا جاتا ہے اور دوسرے معنی بھی اس میں موجود ہیں کہ کفارہ اس کے برے فعل کو چھپا دیتا ہے اور اس پر پردہ ڈال دیتا ہے۔ اس کے ادا کرنے کے بعد مکلف ایسا ہو جاتا ہے گویا اس نے وہ فعل سر انجام ہی نہیں دیا۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت قسموں کا کفارہ بیان کیا ہے اور چھوٹے چھوٹے دس (10) عنوان قائم کر کے کفارے کے احکام و مسائل بیان کیے ہیں جن کی تفصیل ہم آئندہ بیان کریں گے۔ اس مناسبت سے امام بخاری رحمہ اللہ نے صاع مدینہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مُد کو بھی ذکر کیا ہے۔ اس کی وضاحت بھی آئندہ کی جائے گی۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کی وضاحت کے لیے پندرہ (15) مرفوع احادیث کا انتخاب کیا ہے۔ اس عنوان کے معلق احادیث اور دیگر آثار و اقوال ہیں۔ جن سے امام بخاری رحمہ اللہ کی دقت فہم، قوت استنباط اور زورِ اجتہاد و استدلال کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ قارئین کرام ہماری ان معروضات کو مدنظر رکھتے ہوئے آئندہ منتخب احادیث کا مطالعہ کریں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔ آمین!
تمہید باب
پوری آیت کا ترجمہ حسب ذیل ہے: ''اللہ تمہاری لغو قسموں پر تمہاری پکڑ نہیں کرے گا لیکن جو قسمیں تم سچے دل سے، یعنی پختہ قسمیں کھاتے ہو، ان پر ضرور مؤاخذہ کرے گا۔ (اگر تم ایسی قسموں کو توڑ دو تو) اس کا کفارہ دس مسکینوں کو اوسط درجے کا کھانا کھلانا ہے جو تم اپنے اہل و عیال کو کھلاتے ہو یا ان کے لیے لباس مہیا کرنا ہے یا ایک غلام آزاد کرنا ہے اور جسے یہ میسر نہ ہوں وہ تین دن کے روزے رکھے۔ یہ تمہاری قسموں کا کفارہ ہے جو تم قسم اٹھا کر توڑ دو اور اپنی قسموں کی حفاظت کیا کرو۔'' کتاب و سنت میں بہت سے ایسے گناہوں کا ذکر آیا ہے جن کے کفارے بیان کیے گئے ہیں، مثلاً: قتل خطا کا کفارہ، ظہار کا کفارہ، حالتِ احرام میں شکار کرنے کا کفارہ، فرض روزہ توڑنے کا کفارہ۔ کسی کو زخمی کرنے کا کفارہ اور قسم توڑنے کا کفارہ، ان تمام کفاروں میں قدر مشترک غلام آزاد کرنا ہے جیسا کہ درج بالا آیت میں بھی اس کا ذکر ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلامی نقطۂ نظر سے غلامی کا رواج ایک مذموم چیز تھی جسے آہستہ آہستہ ختم کر دیا گیا ہے۔ آج اللہ تعالیٰ کی مہربانی سے غلامی کا رواج نہیں رہا۔ اب قسم کا کفارہ باقی تین متبادل چیزیں باقی ہیں: ٭ دس مسکینوں کو اپنی اپنی حیثیت کے مطابق اوسط درجے کا کھانا کھلانا۔ ٭ یا دس مسکینوں کو لباس دینا۔ ٭ یا تین دن کے روزے رکھنا۔ پہلے دو میں سے کوئی ایک دیا جا سکتا ہے کیونکہ اس میں او، او کا لفظ آیا ہے۔ یہ دونوں میسر نہ آنے کی صورت میں تین دن کے مسلسل اور متفرق طور پر روزے رکھے جا سکتے ہیں۔ یہ بھی ضروری نہیں کہ دس مسکینوں کو اکٹھے بٹھا کر ہی کھانا کھلایا جائے بلکہ اس کھانے کی قیمت لگا کر یہ رقم دس مسکینوں یا دو تین کو یا کسی ایک کو بھی دی جا سکتی ہے۔ یہی صورت حال لباس کی بھی ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے عنوان کے بعد جس آیت کا ذکر کیا ہے وہ کفارۂ اذی سے متعلق ہے جو حضرت کعب بن عجرہ رضی اللہ عنہ کے متعلق نازل ہوا، ارشاد باری تعالیٰ ہے: مگر جو شخص مریض ہو یا اس کے سر میں کچھ تکلیف ہو (تو سر منڈوا سکتا ہے بشرطیکہ) روزوں سے یا صدقے سے یا قربانی سے اس کا فدیہ ادا کر دے۔'' (البقرۃ: 2/196) اس آیت کریمہ میں بھی اَو اَو آیا ہے، اس لیے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کی وضاحت کے مطابق ان تینوں میں سے کسی ایک کو اختیار کیا جا سکتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی حضرت کعب کو فدیے کے معاملے میں اختیار دیا تھا جیسا کہ آئندہ حدیث میں ہے۔
اور یہ کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو نبی کریمﷺنے حکم دیا کہ پھر روزے یا صدقہ یا قربانی کا فدیہ دینا ہے اور ابن عباسؓ اور عطاء و عکرمہ سے منقول ہے کہ قرآن مجید میں جہاں او، او( بمعنی یا) کا لفظ آتا ہے تو اس میں اختیار بتانا مقصود ہوتا ہے اور نبی کریمﷺ نے کعب ؓ کو فدیہ کے معاملہ میں اختیار دیا تھا۔ ( کہ مسکینوں کو کھانا کھلائیں یا ایک بکرے کا صدقہ کریں) ۔
حدیث ترجمہ:
حضرت کعب بن عجرہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: میں نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ نے فرمایا: ”قریب ہوجاؤ“ پھر میں قریب ہوا تو آپ نے پوچھا: ”کیا تمہارے سر کی جوئیں تمہیں تکلیف دے رہی ہیں؟“ میں نے کہا: جی ہاں۔ آپ نے فرمایا: ”پھر روزے رکھو یا صدقہ دو یا قربانی کا فدیہ دو،۔“ ابن عون کے طریق سے ایوب نے کہا: روزے تین دن کے ہوں گے قربانی ایک بکری کی اور کھانا چھ مساکین کے لیے ہوگا۔
حدیث حاشیہ:
(1) ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اپنا سر منڈوا دو لیکن تین دن کے روزے رکھو، یا چھ مسکینوں کو کھانا کھلاؤ یا ایک بکری ذبح کر دو۔‘‘ (صحیح البخاري، المحصر، حدیث: 1814) امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث کا حوالہ اس لیے دیا ہے کہ قسم کے کفارے میں انسان کو اختیار ہے، ان میں سے جسے چاہے اختیار کرے، جیسا کہ حضرت کعب رضی اللہ عنہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کفارۂ اذی، یعنی حالت احرام میں کسی مجبوری اور ضرورت کی بنا پر سر کے بال منڈوانے کے کفارے میں اختیار دیا تھا کیونکہ کفارۂ یمین اور کفارۂ اذی، اختیار میں دونوں ایک جیسے ہیں بلکہ کفارۂ یمین میں ترتیب کا اضافہ ہے، اس لیے قسم کے کفارے میں کھانا کھلانے، لباس دینے اور غلام آزاد کرنے میں اختیار ہے پھر ان تینوں اور تین دن کے روزے رکھنے میں ترتیب ہے، جبکہ کفارۂ اذی میں روزے رکھنے، کھانا کھلانے اور قربانی دینے میں اختیار ہے، ان میں ترتیب وغیرہ نہیں ہے۔ واللہ أعلم (2) حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اس حدیث کو ذکر کرنے کی ایک دوسری توجیہ بیان کی ہے، فرماتے ہیں: امام بخاری رحمہ اللہ کا مقصود ان لوگوں کی تردید کرنا ہے جو کہتے ہیں: پانچ مساکین کو کھانا اور پانچ کو لباس دیا جا سکتا ہے، اسی طرح پانچ کو لباس اور نصف غلام آزاد کیا جا سکتا ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ کا یہ موقف ہے کہ آیت کریمہ کے مطابق اختیار کی یہ توجیہ غلط ہے بلکہ دس مساکین کو کھانا دیا جائے یا دس مساکین کو لباس پہنایا جائے یا ایک غلام آزاد کیا جائے۔ اگر تینوں میسر نہیں ہیں تو تین دن کے روزے رکھ لیے جائیں۔ (فتح الباري: 725/11)
ترجمۃ الباب:
درج ذیل آیت جب نازل ہوئی: ”پھر روزے صدقہ یا قربانی کا فدیہ دینا ہے۔“ تو نبی ﷺ نے(حضرت کعب رضی اللہ عنہ کو) کیا حکم دیا؟ حضرت ابن عباس ؓ حضرت عطاء اور حضرت عکرمہ سے منقول ہے کہ قرآن مجید میں جہاں اَوُ اَوُ لا لفظ آیا ہے تو وہاں کفارہ دینے والے کو اختیار ہوتا ہے جیسا کہ نبی ﷺنے حضرت کعب رضی اللہ عنہ کو فدیے کے معاملے میں اختیار دیا تھا۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے احمد بن یونس نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوشہاب عبداللہ بن نافع نے بیان کیا، ان سے ابن عون نے، ان سے مجاہد نے، ان سے عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ نے، ان سے کعب بن عجزہ ؓ نے بیان کیا کہ میں نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تو آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ قریب ہوجا، میں قریب ہوا تو آپ نے پوچھا کیا تمہارے سر کے کپڑے تکلیف دے رہے ہیں؟ میں نے عرض کیا، جی ہاں، آنحضرت ﷺ نے فرمایا، پھر روزے صدقہ یا قربانی کا فدیہ دے دے۔ اور مجھے ابن عون نے خبر دی، ان سے ایوب نے بیان کیا کہ روزے تین دن کے ہوں گے اور قربانی ایک بکری کی اور (کھانے کے لئے) چھ مسکین ہوں گے۔
حدیث حاشیہ:
کعب بن عجرہ کی حدیث حج کے فدیہ کے بارے میں ہے اس کو قسم کے فدیہ سے کوئی تعلق نہ تھا۔ مگر امام بخاری اس باب میں اس کو اس لیے لائے کہ جیسے حج کے فدیہ میں اختیار ہے تینوں میں سے جو چاہے وہ کرے ایسے ہی قسم کے کفارہ میں بھی قسم کھانے والے کو اختیار ہے کہ تینوں کفاروں میں سے جو قرآن میں مذکورہ ہیں جو کفارہ چاہے ادا کرے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Ka'b bin 'Ujra (RA) : I came to the Prophet (ﷺ) and he said to me, "Come near." So I went near to him and he said, "Are your lice troubling you?" I replied, "Yes." He said, "(Shave your head and) make expiation in the form of fasting, Sadaqa (giving in charity), or offering a sacrifice." (The sub-narrator) Aiyub said, "Fasting should be for three days, and the Nusuk (sacrifice) is to be a sheep, and the Sadaqa is to be given to six poor persons."