Sahi-Bukhari:
Expiation for Unfulfilled Oaths
(Chapter: The man who helped another person to make an expiation)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
6710.
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں ایک شخص حاضر ہوا اور کہا: میں تباہ ہوگیا ہوں۔ آپ ﷺ نے پوچھا: ”کیا بات ہے؟“ اس نے کہا: میں رمضان المبارک میں اپنی بیوی سےصحبت کر بیٹھا ہوں۔ آپ نے فرمایا: ”تیرے پاس کوئی غلام ہے(جسے تو آزاد کرسکے؟)“ اس نے کہا: نہیں۔ آپ نے پوچھا: کیا تم متواتر دو ماہ کے روزے رکھ سکتے ہو؟ اس نے کہا نہیں آپ نے پوچھا: ”کیا تم ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلا سکتے ہو؟“ اس نے کہا: اس دوران میں ایک انصاری کھجوروں سے بھرا ہوا کہ ایک ”عرق“ لے کر حاضر ہوئے۔ عرق بڑے ٹوکرے کو کہتے ہیں۔ ۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”اسے لے جاؤ اور صدقہ کردو“ اس نے کہا: اللہ کے رسول ! کیا میں اپنے سے ذیادہ ضرورت مند پر صدقہ کردوں؟ اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے! مدینہ طیبہ کے ان دونوں کناروں کے درمیان ہم سے زیادہ کوئی اور محتاج نہیں ہے۔ اس کے بعد آپ ﷺ نے فرمایا: ”اچھا لے جاؤ اور اپنے گھر والوں کو کھلا دو،۔“
تشریح:
(1) کفارہ ہر شخص پر واجب ہے جو قسم کے منافی کام کرتا ہے اگرچہ وہ تنگ دست ہی کیوں نہ ہو۔ تنگ دستی اس کی معافی کا سبب نہیں بن سکتی، چنانچہ مذکورہ حدیث کے مطابق جس شخص سے روزے کے منافی کام ہوا وہ انتہائی تنگ دست اور محتاج تھا جیسا کہ اس کے بیان سے ظاہر ہے، اس کے باوجود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے کفارہ معاف نہیں کیا بلکہ کفارے کی ادائیگی میں اس کا تعاون فرمایا ہے۔ (2) امام بخاری رحمہ اللہ نے کفارۂ قسم کو کفارہ رمضان پر قیاس کیا ہے۔ بہرحال تنگ دستی، کفارے کے لیے معافی کا سبب نہیں ہو گی، ہر حال میں کفارہ ادا کرنا ہو گا۔ اگر کوئی محتاج ہے تو کفارے کی ادائیگی میں اس کا تعاون کیا جا سکتا ہے لیکن شریعت میں اس کی معافی نہیں ہے۔ واللہ أعلم(فتح الباري: 727/11)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6472
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6710
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
6710
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
6710
تمہید کتاب
كفارات، كفارة کی جمع ہے۔ اس کی اصل ک،ف،ر ہے۔ اس کے لغوی معنی ڈھانکنا اور چھپانا ہیں۔ کفارہ گناہ کو ڈھانک لیتا ہے، اس لیے اسے یہ نام دیا گیا ہے۔ کاشتکار کو بھی کافر اس لیے کہا جاتا ہے کہ وہ بیج کو زمین میں چھپا دیتا ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے: (كَمَثَلِ غَيْثٍ أَعْجَبَ الْكُفَّارَ نَبَاتُهُ) ''جیسے بارش ہوتی ہے تو اس کی نباتات نے کاشت کاروں کو خوش کر دیا۔'' (الحدید: 57/20) اس آیت کریمہ میں کاشت کاروں کو کفار کہا گیا ہے اور اس میں اس کے لغوی معنی ملحوظ ہیں، یعنی وہ بیچ کو زمین میں چھپا دیتے ہیں۔ اسی طرح عربی زبان میں کہا جاتا ہے: (كفرت الشمس النجوم) ''سورج نے ستاروں کو چھپا دیا۔'' بادل کو بھی کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ سورج کو اوٹ میں کر دیتا ہے۔ اہلِ عرب رات پر بھی کافر کا اطلاق کرتے ہیں کیونکہ وہ آنکھوں سے ہر چیز کو چھپا دیتی ہے۔ آدمی جب ہتھیاروں سے ڈھانک دیا جاتا ہے تو اس پر لفظ کافر بولا جاتا ہے۔ اس کفارہ کے دوسرے معنی ازالۂ کفر بھی ہیں جیسا کہ تمریض کے معنی ازالۂ مرض ہیں، ارشاد باری تعالیٰ ہے: (وَلَوْ أَنَّ أَهْلَ الْكِتَابِ آمَنُوا وَاتَّقَوْا لَكَفَّرْنَا عَنْهُمْ سَيِّئَاتِهِمْ) ''اگر اہل کتاب ایمان لاتے اور اللہ سے ڈر جاتے تو ہم ان کے گناہ مٹا دیتے۔'' (المائدۃ: 5/65) اس آیت میں تکفیر کے معنی ازالۂ کفر ہیں۔ اس میں ستر کے معنی بھی کیے جا سکتے ہیں۔شرعی اصطلاح میں کفارہ اس مال کو کہا جاتا ہے جو قسم توڑنے والا دیتا ہے۔ اسی طرح قتل اور ظہار کے تاوان کو بھی کفارہ کہا جاتا ہے۔ اس میں لغت کے اعتبار سے دونوں معنوں کو ملحوظ رکھا گیا ہے، یعنی اس کفارہ کے باعث قسم توڑنے کے گناہ کو مٹا دیا جاتا ہے اور مکلف کے نامۂ اعمال سے اسے زائل اور ختم کر دیا جاتا ہے اور دوسرے معنی بھی اس میں موجود ہیں کہ کفارہ اس کے برے فعل کو چھپا دیتا ہے اور اس پر پردہ ڈال دیتا ہے۔ اس کے ادا کرنے کے بعد مکلف ایسا ہو جاتا ہے گویا اس نے وہ فعل سر انجام ہی نہیں دیا۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت قسموں کا کفارہ بیان کیا ہے اور چھوٹے چھوٹے دس (10) عنوان قائم کر کے کفارے کے احکام و مسائل بیان کیے ہیں جن کی تفصیل ہم آئندہ بیان کریں گے۔ اس مناسبت سے امام بخاری رحمہ اللہ نے صاع مدینہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مُد کو بھی ذکر کیا ہے۔ اس کی وضاحت بھی آئندہ کی جائے گی۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کی وضاحت کے لیے پندرہ (15) مرفوع احادیث کا انتخاب کیا ہے۔ اس عنوان کے معلق احادیث اور دیگر آثار و اقوال ہیں۔ جن سے امام بخاری رحمہ اللہ کی دقت فہم، قوت استنباط اور زورِ اجتہاد و استدلال کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ قارئین کرام ہماری ان معروضات کو مدنظر رکھتے ہوئے آئندہ منتخب احادیث کا مطالعہ کریں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔ آمین!
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں ایک شخص حاضر ہوا اور کہا: میں تباہ ہوگیا ہوں۔ آپ ﷺ نے پوچھا: ”کیا بات ہے؟“ اس نے کہا: میں رمضان المبارک میں اپنی بیوی سےصحبت کر بیٹھا ہوں۔ آپ نے فرمایا: ”تیرے پاس کوئی غلام ہے(جسے تو آزاد کرسکے؟)“ اس نے کہا: نہیں۔ آپ نے پوچھا: کیا تم متواتر دو ماہ کے روزے رکھ سکتے ہو؟ اس نے کہا نہیں آپ نے پوچھا: ”کیا تم ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلا سکتے ہو؟“ اس نے کہا: اس دوران میں ایک انصاری کھجوروں سے بھرا ہوا کہ ایک ”عرق“ لے کر حاضر ہوئے۔ عرق بڑے ٹوکرے کو کہتے ہیں۔ ۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”اسے لے جاؤ اور صدقہ کردو“ اس نے کہا: اللہ کے رسول ! کیا میں اپنے سے ذیادہ ضرورت مند پر صدقہ کردوں؟ اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے! مدینہ طیبہ کے ان دونوں کناروں کے درمیان ہم سے زیادہ کوئی اور محتاج نہیں ہے۔ اس کے بعد آپ ﷺ نے فرمایا: ”اچھا لے جاؤ اور اپنے گھر والوں کو کھلا دو،۔“
حدیث حاشیہ:
(1) کفارہ ہر شخص پر واجب ہے جو قسم کے منافی کام کرتا ہے اگرچہ وہ تنگ دست ہی کیوں نہ ہو۔ تنگ دستی اس کی معافی کا سبب نہیں بن سکتی، چنانچہ مذکورہ حدیث کے مطابق جس شخص سے روزے کے منافی کام ہوا وہ انتہائی تنگ دست اور محتاج تھا جیسا کہ اس کے بیان سے ظاہر ہے، اس کے باوجود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے کفارہ معاف نہیں کیا بلکہ کفارے کی ادائیگی میں اس کا تعاون فرمایا ہے۔ (2) امام بخاری رحمہ اللہ نے کفارۂ قسم کو کفارہ رمضان پر قیاس کیا ہے۔ بہرحال تنگ دستی، کفارے کے لیے معافی کا سبب نہیں ہو گی، ہر حال میں کفارہ ادا کرنا ہو گا۔ اگر کوئی محتاج ہے تو کفارے کی ادائیگی میں اس کا تعاون کیا جا سکتا ہے لیکن شریعت میں اس کی معافی نہیں ہے۔ واللہ أعلم(فتح الباري: 727/11)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے محمد بن محبوب بصری نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالواحد بن زیاد نے بیان کیا، کہا ہم سے معمر بن راشد نے، ان سے زہری نے، ان سے حمید بن عبدالرحمن بن عوف نے اور ان سے حضرت ابوہریرہ ؓ نے بیان کیا کہ ایک صاحب رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضرت ہوئے اور عرض کی، میں تو تباہ ہوگیا۔ آنحضرت ﷺ نے پوچھا کیا بات ہے؟ انہوں نے کہا کہ رمضان میں اپنی بیوی سے صحبت کرلی۔ آنحضرت ﷺ نے دریافت فرمایا کوئی غلام ہے؟ انہوں نے کہا کہ نہیں۔ دریافت فرمایا متواتر دو مہینے روزے رکھ سکتے ہو، انہوں نے کہا کہ نہیں۔ دریافت فرمایا ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلاسکتے ہو؟ انہوں نے کہا کہ نہیں۔ راوی نے بیان کیا کہ پھر ایک انصاری صحابی” عرق“ لے کر حاضر ہوئے، عرق ایک پیمانہ ہے، اس میں کھجوریں تھیں، آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ اسے لے جا اور صدقہ کردے۔ انہوں نے پوچھا یا رسول اللہ! کیا میں اپنے سے زیادہ ضرورت مند پر صدقہ کروں؟ اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے۔ ان دونوں میدانوں کے درمیان کوئی گھرانہ ہم سے زیادہ محتاج نہیں ہے پھر آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ جا اور اپنے گھروالوں ہی کو کھلادے۔
حدیث حاشیہ:
اس حدیث کو لا کر حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے یہ ثابت کیا کہ کفارہ ہر شخص پر واجب ہے گو وہ محتاج ہی کیوں نہ ہو۔ یہ شخص بہت محتاج تھا مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نہیں فرمایا کہ تجھ کو کفارہ معاف ہے۔ بلکہ کفارہ دینے میں اس کی مدد فرمائی۔ عرق وہ ٹوکرا جس میں پندرہ صاع کھجور سما جاتی ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Hurairah (RA) : A man came to Allah's Apostle (ﷺ) and said, "I am ruined!" The Prophet (ﷺ) said to him, "What is the matter?" He said, "I have done a sexual relation with my wife (while fasting) in Ramadan." The Prophet (ﷺ) said to him?" "Can you afford to manumit a slave?" He said, "No." The Prophet (ﷺ) said, "Can you fast for two successive months?" He said, "No." The Prophet (ﷺ) said, "Can you feed sixty poor persons?" He said, "No." Then an Ansari man came with an Irq (a big basket full of dates). The Prophet (ﷺ) said (to the man), "Take this (basket) and give it in charity." That man said, "To poorer people than we, O Allah's Apostle? By Him Who has sent you with the Truth! There is no house in between the two mountains (of the city of Medina) poorer than we." So the Prophet (ﷺ) said (to him), "Go and feed it to your family."