باب : کفارہ میں دس مسکینوں کو کھانا دیا جائے خواہ وہ قریب کے رشتہ دار ہوں یادور کے بلکہ قریب والوں کو کھلانے میں ثواب اور بھی زیادہ ہے
)
Sahi-Bukhari:
Expiation for Unfulfilled Oaths
(Chapter: For expiation one should feed ten poor persons)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
6711.
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: ایک آدمی نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کرنے لگا: میں تو ہلاک ہو گیا ہوں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”کیا بات ہے؟“ اس نے کہا: میں نے ماہ رمضان میں اپنی بیوی سے صحبت کر لی ہے۔ آپ نے فرمایا: ”تیرے پاس کوئی غلام ہے جسے تو آزاد کر سکے؟“ اس نے کہا: نہیں۔ آپ نے پوچھا: ”کیا تو متواتر دو ماہ روزے رکھ سکتا ہے؟“ اس نے کہا نہیں۔ اس کے بعد نبی ﷺ کے پاس ایک ٹوکرا لایا گیا جس میں کھجوریں تھیں آپ نے فرمایا: ”اسے لے جاؤ اور صدقہ کر دو۔“ اس نے کہا: اپنے سے زیادہ محتاج پر؟ جبکہ مدینہ طیبہ کے دونوں کناروں کے درمیان ہم سے زیادہ کوئی محتاج نہیں ہے۔ آپ ﷺ نےفرمایا: ”اسے لے جاؤ اور اپنے اہل خانہ کو کھلا دو۔“
تشریح:
(1) کفارۂ قسم کا ایک مصرف دس مساکین کو کھانا کھلانا ہے۔ اس میں عموم ہے کہ وہ مساکین قریبی رشتے دار ہوں یا دور کی تعلق داری رکھتے ہوں کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کفارۂ رمضان دینے والے سے فرمایا کہ یہ (کھجوروں کا ٹوکرا) لے جاؤ اور اپنے گھر والوں کو کھلا دو۔ گھر والوں میں دور اور نزدیک کے تمام رشتے دار آ جاتے ہیں۔ (2) اگرچہ یہ حدیث کفارۂ رمضان کے متعلق ہے مگر امام بخاری رحمہ اللہ نے قسم کے کفارے کو اس پر قیاس کرتے ہوئے مذکورہ حکم مستنبط فرمایا۔ جب قریبی رشتے دار مساکین کو کفارہ دیا جا سکتا ہے تو دور والے تعلق دار تو اس کے زیادہ حق دار ہیں۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ مذکورہ حکم کا استنباط اس شخص کی رائے کے مطابق ہے جو اہل خانہ کو کفارہ دینے کا موقف رکھتا ہے لیکن جس کی رائے یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے بطور صدقہ دیا، کفارہ جوں کا توں اس کے ذمے تھا، اس رائے کے مطابق یہ استنباط صحیح نہیں ہو گا۔ (فتح الباري: 727/11) (3) واضح رہے کہ کفارہ ان اقرباء کو دیا جا سکتا ہے جن کے نان و نفقہ کی ذمہ داری کفارہ دینے والے پر نہ ہو، اگر ان کی کفالت اس کے ذمے ہے تو انہیں کفارہ دینا جائز نہیں ہے جیسا کہ بیوی کو زکاۃ دینا جائز نہیں ہے۔ واللہ أعلم(عمدة القاري: 754/15)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6473
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6711
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
6711
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
6711
تمہید کتاب
كفارات، كفارة کی جمع ہے۔ اس کی اصل ک،ف،ر ہے۔ اس کے لغوی معنی ڈھانکنا اور چھپانا ہیں۔ کفارہ گناہ کو ڈھانک لیتا ہے، اس لیے اسے یہ نام دیا گیا ہے۔ کاشتکار کو بھی کافر اس لیے کہا جاتا ہے کہ وہ بیج کو زمین میں چھپا دیتا ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے: (كَمَثَلِ غَيْثٍ أَعْجَبَ الْكُفَّارَ نَبَاتُهُ) ''جیسے بارش ہوتی ہے تو اس کی نباتات نے کاشت کاروں کو خوش کر دیا۔'' (الحدید: 57/20) اس آیت کریمہ میں کاشت کاروں کو کفار کہا گیا ہے اور اس میں اس کے لغوی معنی ملحوظ ہیں، یعنی وہ بیچ کو زمین میں چھپا دیتے ہیں۔ اسی طرح عربی زبان میں کہا جاتا ہے: (كفرت الشمس النجوم) ''سورج نے ستاروں کو چھپا دیا۔'' بادل کو بھی کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ سورج کو اوٹ میں کر دیتا ہے۔ اہلِ عرب رات پر بھی کافر کا اطلاق کرتے ہیں کیونکہ وہ آنکھوں سے ہر چیز کو چھپا دیتی ہے۔ آدمی جب ہتھیاروں سے ڈھانک دیا جاتا ہے تو اس پر لفظ کافر بولا جاتا ہے۔ اس کفارہ کے دوسرے معنی ازالۂ کفر بھی ہیں جیسا کہ تمریض کے معنی ازالۂ مرض ہیں، ارشاد باری تعالیٰ ہے: (وَلَوْ أَنَّ أَهْلَ الْكِتَابِ آمَنُوا وَاتَّقَوْا لَكَفَّرْنَا عَنْهُمْ سَيِّئَاتِهِمْ) ''اگر اہل کتاب ایمان لاتے اور اللہ سے ڈر جاتے تو ہم ان کے گناہ مٹا دیتے۔'' (المائدۃ: 5/65) اس آیت میں تکفیر کے معنی ازالۂ کفر ہیں۔ اس میں ستر کے معنی بھی کیے جا سکتے ہیں۔شرعی اصطلاح میں کفارہ اس مال کو کہا جاتا ہے جو قسم توڑنے والا دیتا ہے۔ اسی طرح قتل اور ظہار کے تاوان کو بھی کفارہ کہا جاتا ہے۔ اس میں لغت کے اعتبار سے دونوں معنوں کو ملحوظ رکھا گیا ہے، یعنی اس کفارہ کے باعث قسم توڑنے کے گناہ کو مٹا دیا جاتا ہے اور مکلف کے نامۂ اعمال سے اسے زائل اور ختم کر دیا جاتا ہے اور دوسرے معنی بھی اس میں موجود ہیں کہ کفارہ اس کے برے فعل کو چھپا دیتا ہے اور اس پر پردہ ڈال دیتا ہے۔ اس کے ادا کرنے کے بعد مکلف ایسا ہو جاتا ہے گویا اس نے وہ فعل سر انجام ہی نہیں دیا۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت قسموں کا کفارہ بیان کیا ہے اور چھوٹے چھوٹے دس (10) عنوان قائم کر کے کفارے کے احکام و مسائل بیان کیے ہیں جن کی تفصیل ہم آئندہ بیان کریں گے۔ اس مناسبت سے امام بخاری رحمہ اللہ نے صاع مدینہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مُد کو بھی ذکر کیا ہے۔ اس کی وضاحت بھی آئندہ کی جائے گی۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کی وضاحت کے لیے پندرہ (15) مرفوع احادیث کا انتخاب کیا ہے۔ اس عنوان کے معلق احادیث اور دیگر آثار و اقوال ہیں۔ جن سے امام بخاری رحمہ اللہ کی دقت فہم، قوت استنباط اور زورِ اجتہاد و استدلال کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ قارئین کرام ہماری ان معروضات کو مدنظر رکھتے ہوئے آئندہ منتخب احادیث کا مطالعہ کریں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔ آمین!
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: ایک آدمی نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کرنے لگا: میں تو ہلاک ہو گیا ہوں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”کیا بات ہے؟“ اس نے کہا: میں نے ماہ رمضان میں اپنی بیوی سے صحبت کر لی ہے۔ آپ نے فرمایا: ”تیرے پاس کوئی غلام ہے جسے تو آزاد کر سکے؟“ اس نے کہا: نہیں۔ آپ نے پوچھا: ”کیا تو متواتر دو ماہ روزے رکھ سکتا ہے؟“ اس نے کہا نہیں۔ اس کے بعد نبی ﷺ کے پاس ایک ٹوکرا لایا گیا جس میں کھجوریں تھیں آپ نے فرمایا: ”اسے لے جاؤ اور صدقہ کر دو۔“ اس نے کہا: اپنے سے زیادہ محتاج پر؟ جبکہ مدینہ طیبہ کے دونوں کناروں کے درمیان ہم سے زیادہ کوئی محتاج نہیں ہے۔ آپ ﷺ نےفرمایا: ”اسے لے جاؤ اور اپنے اہل خانہ کو کھلا دو۔“
حدیث حاشیہ:
(1) کفارۂ قسم کا ایک مصرف دس مساکین کو کھانا کھلانا ہے۔ اس میں عموم ہے کہ وہ مساکین قریبی رشتے دار ہوں یا دور کی تعلق داری رکھتے ہوں کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کفارۂ رمضان دینے والے سے فرمایا کہ یہ (کھجوروں کا ٹوکرا) لے جاؤ اور اپنے گھر والوں کو کھلا دو۔ گھر والوں میں دور اور نزدیک کے تمام رشتے دار آ جاتے ہیں۔ (2) اگرچہ یہ حدیث کفارۂ رمضان کے متعلق ہے مگر امام بخاری رحمہ اللہ نے قسم کے کفارے کو اس پر قیاس کرتے ہوئے مذکورہ حکم مستنبط فرمایا۔ جب قریبی رشتے دار مساکین کو کفارہ دیا جا سکتا ہے تو دور والے تعلق دار تو اس کے زیادہ حق دار ہیں۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ مذکورہ حکم کا استنباط اس شخص کی رائے کے مطابق ہے جو اہل خانہ کو کفارہ دینے کا موقف رکھتا ہے لیکن جس کی رائے یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے بطور صدقہ دیا، کفارہ جوں کا توں اس کے ذمے تھا، اس رائے کے مطابق یہ استنباط صحیح نہیں ہو گا۔ (فتح الباري: 727/11) (3) واضح رہے کہ کفارہ ان اقرباء کو دیا جا سکتا ہے جن کے نان و نفقہ کی ذمہ داری کفارہ دینے والے پر نہ ہو، اگر ان کی کفالت اس کے ذمے ہے تو انہیں کفارہ دینا جائز نہیں ہے جیسا کہ بیوی کو زکاۃ دینا جائز نہیں ہے۔ واللہ أعلم(عمدة القاري: 754/15)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبداللہ بن مسلمہ نے بیان کیا، کہا ہم سے حضرت سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، ان سے زہری نے، ان سے حمید بن عبدالرحمن نے اور ان سے حضرت ابوہریرہ ؓ نے بیان کیا کہ ایک صاحب نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ میں تو تباہ ہوگیا۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کیا بات ہے؟ کہا کہ میں نے رمضان میں اپنی بیوی سے صحبت کرلی ہے۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کیا تمہارے پاس کوئی غلام ہے جسے آزاد کر سکو؟ انہوں نے کہا نہیں۔ دریافت فرمایا، کیا متواتر دو مہینے تم روزے رکھ سکتے ہو؟ کہا کہ نہیں، دریافت فرمایا کیا ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلا سکتے ہو؟ عرض کیا کہ اس کے لیے بھی میرے پاس کچھ نہیں ہے۔ اس کے بعد آنحضرت ﷺ کے پاس ایک ٹوکرا لایا گیا جس میں کھجوریں تھیں۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا اسے لے جا اور صدقہ کر۔ انہوں نے پوچھا کہ اپنے سے زیادہ محتاج پر؟ ان دونوں میدان کے درمیان ہم سے زیادہ محتاج کوئی نہیں ہے۔ آخر آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ اچھا اسے لے جا اور اپنے گھروالوں کو کھلا دے۔
حدیث حاشیہ:
گھر والوں میں دور اور نزدیک کے سب رشتہ دار آگئے گو یہ حدیث کفارہ رمضان کے باب میں ہے مگر قسم کے کفارے کو بھی اسی پر قیاس کیا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Hurairah (RA) : A man came to the Prophets and said, "I am ruined!" The Prophet (ﷺ) said, "What is the matter with you?" He said, "I have done a sexual relation with my wife (while fasting) in Ramadan" The Prophet (ﷺ) said to him, "Can you afford to manumit a slave?" He said, "No." The Prophet (ﷺ) said, "Can you fast for two successive months?" He said, "No." The Prophet (ﷺ) said, "Can you feed sixty poor persons?" He said, "I have nothing." Later on an Irq (big basket) containing dates was given to the Prophet, and the Prophet (ﷺ) said (to him), "Take this basket and give it in charity." The man said, "To poorer people than we? Indeed, there is nobody between its (i.e., Medina's) two mountains who is poorer than we." The Prophet (ﷺ) then said, "Take it and feed your family with it."