باب : مدینہ منورہ کا صاع( ایک پیمانہ) اورنبی کریم ﷺکا مد( ایک پیمانہ) اور اس میں برکت، اور بعدمیں بھی اہل مدینہ کو نسلاً بعد نسل جو صاع اور مد ورثہ میں ملا اس کا بیان
)
Sahi-Bukhari:
Expiation for Unfulfilled Oaths
(Chapter: The Sa' of Al-Madina, and the Mudd of the Prophet (saws))
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
6712.
حضرت سائب بن یزید ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: نبی ﷺ کے عہد مبارک میں ایک صاع تمہارے ہاں رائج الوقت 1/1/3 (ایک مد اور تہائی) مد کے برابر ہوتا تھا پھر حضرت عمر بن عبدالعزیز ؓ کے دور حکومت میں اس کے اندر اضافہ کر دیا گیا۔
تشریح:
(1) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں مد کی مقدار دو رطل سے کم تھی۔ ہشام کے دور میں کمی کو پورا کر کے مد کی مقدار دو رطل کے برابر کر دی گئی، پھر حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کے عہد خلافت میں دو گنا اضافہ کر کے مد کی مقدار چار رطل کر دی گئی۔ اگر اس میں ایک تہائی جمع کیا جائے تو عہد نبوی کے صاع کے برابر ہو جاتا ہے، یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں صاع کی مقدار 51/3 رطل تھی۔ جب عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کے دور میں رائج مد، یعنی چار رطل میں مزید ایک تہائی مد، یعنی 1/1/3 رطل کا اضافہ کیا جائے تو صاع نبوی کی مقدار کے برابر ہو جاتا ہے۔ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں صاع آٹھ رطل کا ہو تو حضرت سائب بن یزید رضی اللہ عنہ کو یوں کہنا چاہیے تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں ایک صاع تمہارے آج کے مد کے حساب سے دو مد کا تھا پھر عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کے دور میں اضافہ ہو گیا لیکن انہوں نے ایسا نہیں کہا بلکہ یوں کہا ہے کہ عہد نبوی میں جو صاع تھا وہ تمہارے آج کے مد کے حساب سے ایک مد اور تہائی مد، یعنی 1/1/3(ایک مد اور تہائی) مد کے برابر تھا۔ (2) بہرحال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں ایک صاع 51/3 رطل کا تھا، آٹھ رطل کا نہیں تھا بصورت دیگر مذکورہ حدیث میں حضرت سائب بن یزید رضی اللہ عنہ کا بیان صحیح نہیں ہو گا۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6474
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6712
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
6712
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
6712
تمہید کتاب
كفارات، كفارة کی جمع ہے۔ اس کی اصل ک،ف،ر ہے۔ اس کے لغوی معنی ڈھانکنا اور چھپانا ہیں۔ کفارہ گناہ کو ڈھانک لیتا ہے، اس لیے اسے یہ نام دیا گیا ہے۔ کاشتکار کو بھی کافر اس لیے کہا جاتا ہے کہ وہ بیج کو زمین میں چھپا دیتا ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے: (كَمَثَلِ غَيْثٍ أَعْجَبَ الْكُفَّارَ نَبَاتُهُ) ''جیسے بارش ہوتی ہے تو اس کی نباتات نے کاشت کاروں کو خوش کر دیا۔'' (الحدید: 57/20) اس آیت کریمہ میں کاشت کاروں کو کفار کہا گیا ہے اور اس میں اس کے لغوی معنی ملحوظ ہیں، یعنی وہ بیچ کو زمین میں چھپا دیتے ہیں۔ اسی طرح عربی زبان میں کہا جاتا ہے: (كفرت الشمس النجوم) ''سورج نے ستاروں کو چھپا دیا۔'' بادل کو بھی کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ سورج کو اوٹ میں کر دیتا ہے۔ اہلِ عرب رات پر بھی کافر کا اطلاق کرتے ہیں کیونکہ وہ آنکھوں سے ہر چیز کو چھپا دیتی ہے۔ آدمی جب ہتھیاروں سے ڈھانک دیا جاتا ہے تو اس پر لفظ کافر بولا جاتا ہے۔ اس کفارہ کے دوسرے معنی ازالۂ کفر بھی ہیں جیسا کہ تمریض کے معنی ازالۂ مرض ہیں، ارشاد باری تعالیٰ ہے: (وَلَوْ أَنَّ أَهْلَ الْكِتَابِ آمَنُوا وَاتَّقَوْا لَكَفَّرْنَا عَنْهُمْ سَيِّئَاتِهِمْ) ''اگر اہل کتاب ایمان لاتے اور اللہ سے ڈر جاتے تو ہم ان کے گناہ مٹا دیتے۔'' (المائدۃ: 5/65) اس آیت میں تکفیر کے معنی ازالۂ کفر ہیں۔ اس میں ستر کے معنی بھی کیے جا سکتے ہیں۔شرعی اصطلاح میں کفارہ اس مال کو کہا جاتا ہے جو قسم توڑنے والا دیتا ہے۔ اسی طرح قتل اور ظہار کے تاوان کو بھی کفارہ کہا جاتا ہے۔ اس میں لغت کے اعتبار سے دونوں معنوں کو ملحوظ رکھا گیا ہے، یعنی اس کفارہ کے باعث قسم توڑنے کے گناہ کو مٹا دیا جاتا ہے اور مکلف کے نامۂ اعمال سے اسے زائل اور ختم کر دیا جاتا ہے اور دوسرے معنی بھی اس میں موجود ہیں کہ کفارہ اس کے برے فعل کو چھپا دیتا ہے اور اس پر پردہ ڈال دیتا ہے۔ اس کے ادا کرنے کے بعد مکلف ایسا ہو جاتا ہے گویا اس نے وہ فعل سر انجام ہی نہیں دیا۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت قسموں کا کفارہ بیان کیا ہے اور چھوٹے چھوٹے دس (10) عنوان قائم کر کے کفارے کے احکام و مسائل بیان کیے ہیں جن کی تفصیل ہم آئندہ بیان کریں گے۔ اس مناسبت سے امام بخاری رحمہ اللہ نے صاع مدینہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مُد کو بھی ذکر کیا ہے۔ اس کی وضاحت بھی آئندہ کی جائے گی۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کی وضاحت کے لیے پندرہ (15) مرفوع احادیث کا انتخاب کیا ہے۔ اس عنوان کے معلق احادیث اور دیگر آثار و اقوال ہیں۔ جن سے امام بخاری رحمہ اللہ کی دقت فہم، قوت استنباط اور زورِ اجتہاد و استدلال کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ قارئین کرام ہماری ان معروضات کو مدنظر رکھتے ہوئے آئندہ منتخب احادیث کا مطالعہ کریں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔ آمین!
تمہید باب
اس عنوان کے دو جز ہیں جس کی تفصیل حسب ذیل ہے: ٭ مدینہ طیبہ کے صاع اور مد، نیز ان کی برکت کا بیان، اس میں اشارہ ہے کہ واجبات کی ادائیگی کے لیے اہل مدینہ کا صاع ضروری ہے کیونکہ پہلے اس کے ساتھ ادائیگی ہوتی تھی۔ ٭ ایک زمانے تک بطور وراثت یہی پیمانہ جاری رہا اور اس میں کوئی تبدیلی نہ آئی اگرچہ بعض حکمرانوں نے اس میں اضافہ کیا لیکن پذیرائی نہ ملی۔ اس عنوان کی مناسبت یہ ہے کہ قسم کے کفارے میں اہل مدینہ کا پیمانہ ہی معتبر ہو گا، جس کی تفصیل ہم آئندہ بیان کریں گے۔
حضرت سائب بن یزید ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: نبی ﷺ کے عہد مبارک میں ایک صاع تمہارے ہاں رائج الوقت 1/1/3 (ایک مد اور تہائی) مد کے برابر ہوتا تھا پھر حضرت عمر بن عبدالعزیز ؓ کے دور حکومت میں اس کے اندر اضافہ کر دیا گیا۔
حدیث حاشیہ:
(1) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں مد کی مقدار دو رطل سے کم تھی۔ ہشام کے دور میں کمی کو پورا کر کے مد کی مقدار دو رطل کے برابر کر دی گئی، پھر حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کے عہد خلافت میں دو گنا اضافہ کر کے مد کی مقدار چار رطل کر دی گئی۔ اگر اس میں ایک تہائی جمع کیا جائے تو عہد نبوی کے صاع کے برابر ہو جاتا ہے، یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں صاع کی مقدار 51/3 رطل تھی۔ جب عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کے دور میں رائج مد، یعنی چار رطل میں مزید ایک تہائی مد، یعنی 1/1/3 رطل کا اضافہ کیا جائے تو صاع نبوی کی مقدار کے برابر ہو جاتا ہے۔ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں صاع آٹھ رطل کا ہو تو حضرت سائب بن یزید رضی اللہ عنہ کو یوں کہنا چاہیے تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں ایک صاع تمہارے آج کے مد کے حساب سے دو مد کا تھا پھر عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کے دور میں اضافہ ہو گیا لیکن انہوں نے ایسا نہیں کہا بلکہ یوں کہا ہے کہ عہد نبوی میں جو صاع تھا وہ تمہارے آج کے مد کے حساب سے ایک مد اور تہائی مد، یعنی 1/1/3(ایک مد اور تہائی) مد کے برابر تھا۔ (2) بہرحال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں ایک صاع 51/3 رطل کا تھا، آٹھ رطل کا نہیں تھا بصورت دیگر مذکورہ حدیث میں حضرت سائب بن یزید رضی اللہ عنہ کا بیان صحیح نہیں ہو گا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
سے عثمان بن ابی شیبہ نے بیان کیا، کہا ہم سے قاسم بن مالک مزنی نے بیان کیا، کہا ہم سے جعید بن عبدالرحمن نے بیان کیا، ان سے حضرت سائب بن یزید ؓ نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ کے زمانہ میں ایک صاع تمہارے زمانہ کے مد سے ایک مد اور تہائی کے برابر ہوتا تھا۔ بعد میں حضرت عمر بن عبدالعزیز کے زمانہ میں اس میں زیادتی کی گئی۔
حدیث حاشیہ:
مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ کا صاع ہی لیا جائے گا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Al-Ju'aid bin Abdur-Rahman (RA) : As-Sa'ib bin Yazid said, "The Sa' at the time of the Prophet (ﷺ) was equal to one Mudd plus one-third of a Mudd of your time, and then it was increased in the time of Caliph 'Umar bin 'Abdul Aziz (RA) ."