باب : مدینہ منورہ کا صاع( ایک پیمانہ) اورنبی کریم ﷺکا مد( ایک پیمانہ) اور اس میں برکت، اور بعدمیں بھی اہل مدینہ کو نسلاً بعد نسل جو صاع اور مد ورثہ میں ملا اس کا بیان
)
Sahi-Bukhari:
Expiation for Unfulfilled Oaths
(Chapter: The Sa' of Al-Madina, and the Mudd of the Prophet (saws))
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
6713.
حضرت نافع سے روایت ہے انہوں نے کہا: حضرت ابن عمر ؓ رمضان المبارک کا فطرانہ نبی ﷺ ہی کے پہلے مد سے دیتے تھے اور قسم کا کفارہ بھی نبی ﷺ ہی کے مد سے دیا کرتے تھے۔ ابو قتیبہ کا بیان ہے کہ امام مالک نے ہم سے کہا: ہمارا اہل مدینہ کا مد تمہارے مد سے زیادہ باعظمت ہے اور ہم تو اسی مد کو افضل جانتے ہیں جو نبی ﷺ کا مد ہے۔ امام مالک نے مجھ سے (دوبارہ) کہا: (فرض کرو) اگر ایک حاکم آ جائے اور نبی ﷺ کے مد سے چھوٹا مد رائچ کر دے تو تم فطرانہ وغیرہ کس مد سے ادا کرو گے؟ میں نے کہا: ایسے حالات میں تو ہم نبی ﷺ کے مد ہی سے ادا کریں گے تو انہوں نے فرمایا: آخر کار نبی ﷺ ہی کے مد کا اعتبار کیا جائے گا (تو اب بھی اسی مد کا حساب رکھو، تمہیں بنو امیہ کے مد سے کیا غرض ہے؟)۔
تشریح:
(1) ایک صاع میں چار مد ہوتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں مد کی مقدار 11/3 رطل تھی، اس طرح صاع نبوی کی مقدار 51/3 رطل ہوئی۔ لیکن بنو امیہ کے دور میں ہشام نے ایک دوسرا مد رائج کیا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مد سے دو تہائی بڑا تھا، البتہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ نے اس مد کی طرف کوئی توجہ نہ دی بلکہ پہلے مد ہی کو استعمال کرتے رہے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں: ہشام کا رائج کردہ مد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مد سے دو تہائی رطل زیادہ تھا اور اس کی مقدار دو رطل تھی اور اس اعتبار سے صاع آٹھ رطل کے برابر تھا جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مد کی مقدار 11/3 رطل اور صاع 51/3 رطل کا تھا۔ (فتح الباري: 729/11) (2) عام طور پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صاع کو صاع حجازی اور بنو امیہ کے صاع کو صاع بغدادی یا صاع عراقی کہا جاتا ہے اور صاع عراقی، صاع حجازی سے ایک تہائی بڑا ہے۔ احناف نے بنو امیہ کے ایجاد کردہ مد اور صاع کو معیاری قرار دیا جبکہ محدثین نے صاع حجازی کا اعتبار کیا۔ اس سلسلے میں درج ذیل واقعہ سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے، حسین بن ولید قرشی سے روایت ہے، انہوں نے کہا: ہمارے پاس حج سے فراغت کے بعد امام ابو یوسف رحمہ اللہ تشریف لائے اور فرمایا کہ میں تمہارے لیے ایک اہم علم کا دروازہ کھولنا چاہتا ہوں جس کے متعلق میں نے خوب تحقیق کی ہے۔ واقعہ یوں ہے کہ میں نے مدینہ طیبہ جا کر لوگوں سے صاع کے متعلق دریافت کیا تو کہنے لگے: ہمارا صاع وہی ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا صاع تھا۔ میں نے اس دعویٰ کی دلیل مانگی تو کہنے لگے: ہم کل اس کی دلیل پیش کریں گے۔ جب اگلا دن ہوا تو میرے پاس انصار و مہاجرین کی اولاد میں سے پچاس کے قریب بزرگ آئے اور ہر ایک کی چادر کے نیچے بغل میں صاع تھا۔ ہر ایک نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک اس صاع کی سند بیان کی۔ میں نے دیکھا تو وہ سب برابر تھے۔ جب میں نے ان کا وزن کیا تو ہر ایک صاع کا وزن 51/3 رطل تھا۔ اس کے بعد میں نے صاع کے مسئلے میں اہل مدینہ کے قول کو صحیح اور قوی سمجھ کر اختیار کر لیا اور اپنے استاد ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا قول چھوڑ دیا۔ (السنن الکبریٰ للبیهقي: 171/4)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6475
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6713
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
6713
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
6713
تمہید کتاب
كفارات، كفارة کی جمع ہے۔ اس کی اصل ک،ف،ر ہے۔ اس کے لغوی معنی ڈھانکنا اور چھپانا ہیں۔ کفارہ گناہ کو ڈھانک لیتا ہے، اس لیے اسے یہ نام دیا گیا ہے۔ کاشتکار کو بھی کافر اس لیے کہا جاتا ہے کہ وہ بیج کو زمین میں چھپا دیتا ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے: (كَمَثَلِ غَيْثٍ أَعْجَبَ الْكُفَّارَ نَبَاتُهُ) ''جیسے بارش ہوتی ہے تو اس کی نباتات نے کاشت کاروں کو خوش کر دیا۔'' (الحدید: 57/20) اس آیت کریمہ میں کاشت کاروں کو کفار کہا گیا ہے اور اس میں اس کے لغوی معنی ملحوظ ہیں، یعنی وہ بیچ کو زمین میں چھپا دیتے ہیں۔ اسی طرح عربی زبان میں کہا جاتا ہے: (كفرت الشمس النجوم) ''سورج نے ستاروں کو چھپا دیا۔'' بادل کو بھی کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ سورج کو اوٹ میں کر دیتا ہے۔ اہلِ عرب رات پر بھی کافر کا اطلاق کرتے ہیں کیونکہ وہ آنکھوں سے ہر چیز کو چھپا دیتی ہے۔ آدمی جب ہتھیاروں سے ڈھانک دیا جاتا ہے تو اس پر لفظ کافر بولا جاتا ہے۔ اس کفارہ کے دوسرے معنی ازالۂ کفر بھی ہیں جیسا کہ تمریض کے معنی ازالۂ مرض ہیں، ارشاد باری تعالیٰ ہے: (وَلَوْ أَنَّ أَهْلَ الْكِتَابِ آمَنُوا وَاتَّقَوْا لَكَفَّرْنَا عَنْهُمْ سَيِّئَاتِهِمْ) ''اگر اہل کتاب ایمان لاتے اور اللہ سے ڈر جاتے تو ہم ان کے گناہ مٹا دیتے۔'' (المائدۃ: 5/65) اس آیت میں تکفیر کے معنی ازالۂ کفر ہیں۔ اس میں ستر کے معنی بھی کیے جا سکتے ہیں۔شرعی اصطلاح میں کفارہ اس مال کو کہا جاتا ہے جو قسم توڑنے والا دیتا ہے۔ اسی طرح قتل اور ظہار کے تاوان کو بھی کفارہ کہا جاتا ہے۔ اس میں لغت کے اعتبار سے دونوں معنوں کو ملحوظ رکھا گیا ہے، یعنی اس کفارہ کے باعث قسم توڑنے کے گناہ کو مٹا دیا جاتا ہے اور مکلف کے نامۂ اعمال سے اسے زائل اور ختم کر دیا جاتا ہے اور دوسرے معنی بھی اس میں موجود ہیں کہ کفارہ اس کے برے فعل کو چھپا دیتا ہے اور اس پر پردہ ڈال دیتا ہے۔ اس کے ادا کرنے کے بعد مکلف ایسا ہو جاتا ہے گویا اس نے وہ فعل سر انجام ہی نہیں دیا۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت قسموں کا کفارہ بیان کیا ہے اور چھوٹے چھوٹے دس (10) عنوان قائم کر کے کفارے کے احکام و مسائل بیان کیے ہیں جن کی تفصیل ہم آئندہ بیان کریں گے۔ اس مناسبت سے امام بخاری رحمہ اللہ نے صاع مدینہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مُد کو بھی ذکر کیا ہے۔ اس کی وضاحت بھی آئندہ کی جائے گی۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کی وضاحت کے لیے پندرہ (15) مرفوع احادیث کا انتخاب کیا ہے۔ اس عنوان کے معلق احادیث اور دیگر آثار و اقوال ہیں۔ جن سے امام بخاری رحمہ اللہ کی دقت فہم، قوت استنباط اور زورِ اجتہاد و استدلال کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ قارئین کرام ہماری ان معروضات کو مدنظر رکھتے ہوئے آئندہ منتخب احادیث کا مطالعہ کریں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔ آمین!
تمہید باب
اس عنوان کے دو جز ہیں جس کی تفصیل حسب ذیل ہے: ٭ مدینہ طیبہ کے صاع اور مد، نیز ان کی برکت کا بیان، اس میں اشارہ ہے کہ واجبات کی ادائیگی کے لیے اہل مدینہ کا صاع ضروری ہے کیونکہ پہلے اس کے ساتھ ادائیگی ہوتی تھی۔ ٭ ایک زمانے تک بطور وراثت یہی پیمانہ جاری رہا اور اس میں کوئی تبدیلی نہ آئی اگرچہ بعض حکمرانوں نے اس میں اضافہ کیا لیکن پذیرائی نہ ملی۔ اس عنوان کی مناسبت یہ ہے کہ قسم کے کفارے میں اہل مدینہ کا پیمانہ ہی معتبر ہو گا، جس کی تفصیل ہم آئندہ بیان کریں گے۔
حضرت نافع سے روایت ہے انہوں نے کہا: حضرت ابن عمر ؓ رمضان المبارک کا فطرانہ نبی ﷺ ہی کے پہلے مد سے دیتے تھے اور قسم کا کفارہ بھی نبی ﷺ ہی کے مد سے دیا کرتے تھے۔ ابو قتیبہ کا بیان ہے کہ امام مالک نے ہم سے کہا: ہمارا اہل مدینہ کا مد تمہارے مد سے زیادہ باعظمت ہے اور ہم تو اسی مد کو افضل جانتے ہیں جو نبی ﷺ کا مد ہے۔ امام مالک نے مجھ سے (دوبارہ) کہا: (فرض کرو) اگر ایک حاکم آ جائے اور نبی ﷺ کے مد سے چھوٹا مد رائچ کر دے تو تم فطرانہ وغیرہ کس مد سے ادا کرو گے؟ میں نے کہا: ایسے حالات میں تو ہم نبی ﷺ کے مد ہی سے ادا کریں گے تو انہوں نے فرمایا: آخر کار نبی ﷺ ہی کے مد کا اعتبار کیا جائے گا (تو اب بھی اسی مد کا حساب رکھو، تمہیں بنو امیہ کے مد سے کیا غرض ہے؟)۔
حدیث حاشیہ:
(1) ایک صاع میں چار مد ہوتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں مد کی مقدار 11/3 رطل تھی، اس طرح صاع نبوی کی مقدار 51/3 رطل ہوئی۔ لیکن بنو امیہ کے دور میں ہشام نے ایک دوسرا مد رائج کیا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مد سے دو تہائی بڑا تھا، البتہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ نے اس مد کی طرف کوئی توجہ نہ دی بلکہ پہلے مد ہی کو استعمال کرتے رہے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں: ہشام کا رائج کردہ مد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مد سے دو تہائی رطل زیادہ تھا اور اس کی مقدار دو رطل تھی اور اس اعتبار سے صاع آٹھ رطل کے برابر تھا جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مد کی مقدار 11/3 رطل اور صاع 51/3 رطل کا تھا۔ (فتح الباري: 729/11) (2) عام طور پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صاع کو صاع حجازی اور بنو امیہ کے صاع کو صاع بغدادی یا صاع عراقی کہا جاتا ہے اور صاع عراقی، صاع حجازی سے ایک تہائی بڑا ہے۔ احناف نے بنو امیہ کے ایجاد کردہ مد اور صاع کو معیاری قرار دیا جبکہ محدثین نے صاع حجازی کا اعتبار کیا۔ اس سلسلے میں درج ذیل واقعہ سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے، حسین بن ولید قرشی سے روایت ہے، انہوں نے کہا: ہمارے پاس حج سے فراغت کے بعد امام ابو یوسف رحمہ اللہ تشریف لائے اور فرمایا کہ میں تمہارے لیے ایک اہم علم کا دروازہ کھولنا چاہتا ہوں جس کے متعلق میں نے خوب تحقیق کی ہے۔ واقعہ یوں ہے کہ میں نے مدینہ طیبہ جا کر لوگوں سے صاع کے متعلق دریافت کیا تو کہنے لگے: ہمارا صاع وہی ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا صاع تھا۔ میں نے اس دعویٰ کی دلیل مانگی تو کہنے لگے: ہم کل اس کی دلیل پیش کریں گے۔ جب اگلا دن ہوا تو میرے پاس انصار و مہاجرین کی اولاد میں سے پچاس کے قریب بزرگ آئے اور ہر ایک کی چادر کے نیچے بغل میں صاع تھا۔ ہر ایک نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک اس صاع کی سند بیان کی۔ میں نے دیکھا تو وہ سب برابر تھے۔ جب میں نے ان کا وزن کیا تو ہر ایک صاع کا وزن 51/3 رطل تھا۔ اس کے بعد میں نے صاع کے مسئلے میں اہل مدینہ کے قول کو صحیح اور قوی سمجھ کر اختیار کر لیا اور اپنے استاد ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا قول چھوڑ دیا۔ (السنن الکبریٰ للبیهقي: 171/4)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے منذر بن الولید الجارودی نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوقتیبہ سلم شعیری نے بیان کیا، کہا ہم سے امام مالک نے، ان سے نافع نے بیان کیا کہ ابن عمر ؓ رمضان کا فطرانہ نبی کریم ﷺ ہی کے پہلے مد کے وزن سے دیتے تھے اور قسم کا کفارہ بھی آنحضرت ﷺ کے مد سے ہی دیتے تھے۔ ابوقتیبہ نے اسی سند سے بیان کیا کہ ہم سے امام مالک نے بیان کیا کہ ہمارا مد تمہارے مد سے بڑا ہے اور ہمارے نزدیک ترجیح صرف آنحضرت ﷺ ہی کے مد کو ہے۔ اور مجھ سے امام مالک نے بیان کیا کہ اگر ایسا کوئی حاکم آیا جو آنحضرت ﷺ کے مد سے چھوٹا مد مقرر کر دے تو تم کس حساب سے (صدقہ فطر وغیرہ) نکالو گے؟ میں نے عرض کیا کہ ایسی صورت میں ہم آنحضرت ﷺ ہی کے مد کے حساب سے فطرہ نکالا کریں گے؟ انہوں نے کہا کہ کیا تم دیکھتے نہیں کہ معاملہ ہمیشہ آنحضرت ﷺ ہی کے مد کی طرف لوٹتا ہے۔
حدیث حاشیہ:
اسی لیے کوفی مد اور صاع ناقابل اعتبار ہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Nafi (RA) : Ibn Umar (RA) used to give the Zakat of Ramadan (Zakat-al-Fitr) according to the Mudd of the Prophet, the first Mudd, and he also used to give things for expiation for oaths according to the Mudd of the Prophet. Abu Qutaiba said, "Malik said to us, 'Our Mudd (i.e., of Medina) is better than yours and we do not see any superiority except in the Mudd of the Prophet!' Malik further said, to me, 'If a ruler came to you and fixed a Mudd smaller than the one of the Prophet, by what Mudd would you measure what you give (for expiation or Zakat-al-Fitr?' I replied, 'We would give it according to the Mudd of the Prophet' On that, Malik said, 'Then, don't you see that we have to revert to the Mudd of the Prophet (ﷺ) ultimately?'"