باب : جب کفارہ میں غلام آزاد کرے گا تو اس کی ولاءکسے حاصل ہوگی؟
)
Sahi-Bukhari:
Expiation for Unfulfilled Oaths
(Chapter: If somebody manumits a slave for expiation, for whom will the slave’s Wala be?)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
6717.
سیدہ عائشہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے سیدہ بریرہ ؓ کو خریدنے کا ارادہ کیا تو اس کے آقاؤں نے شرط عائد کی کہ ولا ان کی ہوگی۔ سیدہ عائشہ نے جب نبی ﷺ سے اس کا ذکر کیا تو آپ نے فرمایا: ”اسے خرید کر آزاد کر دو، ولا تو اسی کے لیے ہوتی ہے جو آزاد کرتا ہے۔“
تشریح:
ولاء اس تعلق کو کہتے ہیں جو مالک اور غلام کے درمیان قائم ہوتا ہے۔ جب غلام مر جاتا ہے تو اس کا ترکہ ولاء کی وجہ سے مالک کو ملتا ہے۔ اگر کوئی کسی مالک سے خرید کر اسے آزاد کرتا ہے تو ولاء آزاد کرنے والے کی طرف منتقل ہو جاتی ہے۔ اگر کفارۂ قسم میں کوئی غلام کسی سے خرید کر آزاد کرتا ہے تو اس صورت میں بھی ولاء اس کی ہو گی جو اسے آزاد کرتا ہے۔ اس میں کسی کا اختلاف نہیں ہے۔ واللہ أعلم
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6479
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6717
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
6717
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
6717
تمہید کتاب
كفارات، كفارة کی جمع ہے۔ اس کی اصل ک،ف،ر ہے۔ اس کے لغوی معنی ڈھانکنا اور چھپانا ہیں۔ کفارہ گناہ کو ڈھانک لیتا ہے، اس لیے اسے یہ نام دیا گیا ہے۔ کاشتکار کو بھی کافر اس لیے کہا جاتا ہے کہ وہ بیج کو زمین میں چھپا دیتا ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے: (كَمَثَلِ غَيْثٍ أَعْجَبَ الْكُفَّارَ نَبَاتُهُ) ''جیسے بارش ہوتی ہے تو اس کی نباتات نے کاشت کاروں کو خوش کر دیا۔'' (الحدید: 57/20) اس آیت کریمہ میں کاشت کاروں کو کفار کہا گیا ہے اور اس میں اس کے لغوی معنی ملحوظ ہیں، یعنی وہ بیچ کو زمین میں چھپا دیتے ہیں۔ اسی طرح عربی زبان میں کہا جاتا ہے: (كفرت الشمس النجوم) ''سورج نے ستاروں کو چھپا دیا۔'' بادل کو بھی کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ سورج کو اوٹ میں کر دیتا ہے۔ اہلِ عرب رات پر بھی کافر کا اطلاق کرتے ہیں کیونکہ وہ آنکھوں سے ہر چیز کو چھپا دیتی ہے۔ آدمی جب ہتھیاروں سے ڈھانک دیا جاتا ہے تو اس پر لفظ کافر بولا جاتا ہے۔ اس کفارہ کے دوسرے معنی ازالۂ کفر بھی ہیں جیسا کہ تمریض کے معنی ازالۂ مرض ہیں، ارشاد باری تعالیٰ ہے: (وَلَوْ أَنَّ أَهْلَ الْكِتَابِ آمَنُوا وَاتَّقَوْا لَكَفَّرْنَا عَنْهُمْ سَيِّئَاتِهِمْ) ''اگر اہل کتاب ایمان لاتے اور اللہ سے ڈر جاتے تو ہم ان کے گناہ مٹا دیتے۔'' (المائدۃ: 5/65) اس آیت میں تکفیر کے معنی ازالۂ کفر ہیں۔ اس میں ستر کے معنی بھی کیے جا سکتے ہیں۔شرعی اصطلاح میں کفارہ اس مال کو کہا جاتا ہے جو قسم توڑنے والا دیتا ہے۔ اسی طرح قتل اور ظہار کے تاوان کو بھی کفارہ کہا جاتا ہے۔ اس میں لغت کے اعتبار سے دونوں معنوں کو ملحوظ رکھا گیا ہے، یعنی اس کفارہ کے باعث قسم توڑنے کے گناہ کو مٹا دیا جاتا ہے اور مکلف کے نامۂ اعمال سے اسے زائل اور ختم کر دیا جاتا ہے اور دوسرے معنی بھی اس میں موجود ہیں کہ کفارہ اس کے برے فعل کو چھپا دیتا ہے اور اس پر پردہ ڈال دیتا ہے۔ اس کے ادا کرنے کے بعد مکلف ایسا ہو جاتا ہے گویا اس نے وہ فعل سر انجام ہی نہیں دیا۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت قسموں کا کفارہ بیان کیا ہے اور چھوٹے چھوٹے دس (10) عنوان قائم کر کے کفارے کے احکام و مسائل بیان کیے ہیں جن کی تفصیل ہم آئندہ بیان کریں گے۔ اس مناسبت سے امام بخاری رحمہ اللہ نے صاع مدینہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مُد کو بھی ذکر کیا ہے۔ اس کی وضاحت بھی آئندہ کی جائے گی۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کی وضاحت کے لیے پندرہ (15) مرفوع احادیث کا انتخاب کیا ہے۔ اس عنوان کے معلق احادیث اور دیگر آثار و اقوال ہیں۔ جن سے امام بخاری رحمہ اللہ کی دقت فہم، قوت استنباط اور زورِ اجتہاد و استدلال کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ قارئین کرام ہماری ان معروضات کو مدنظر رکھتے ہوئے آئندہ منتخب احادیث کا مطالعہ کریں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔ آمین!
سیدہ عائشہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے سیدہ بریرہ ؓ کو خریدنے کا ارادہ کیا تو اس کے آقاؤں نے شرط عائد کی کہ ولا ان کی ہوگی۔ سیدہ عائشہ نے جب نبی ﷺ سے اس کا ذکر کیا تو آپ نے فرمایا: ”اسے خرید کر آزاد کر دو، ولا تو اسی کے لیے ہوتی ہے جو آزاد کرتا ہے۔“
حدیث حاشیہ:
ولاء اس تعلق کو کہتے ہیں جو مالک اور غلام کے درمیان قائم ہوتا ہے۔ جب غلام مر جاتا ہے تو اس کا ترکہ ولاء کی وجہ سے مالک کو ملتا ہے۔ اگر کوئی کسی مالک سے خرید کر اسے آزاد کرتا ہے تو ولاء آزاد کرنے والے کی طرف منتقل ہو جاتی ہے۔ اگر کفارۂ قسم میں کوئی غلام کسی سے خرید کر آزاد کرتا ہے تو اس صورت میں بھی ولاء اس کی ہو گی جو اسے آزاد کرتا ہے۔ اس میں کسی کا اختلاف نہیں ہے۔ واللہ أعلم
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کے، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے حکم بن عتبہ نے، ان سے ابراہیم نخعی نے، ان سے اسود بن یزید نے اور ان سے عائشہ ؓ نے کہ انہو ں نے بریرہ ؓ کو(آزاد کرنے کے لئے) خریدنا چاہا، تو ان کے پہلے مالکوں نے اپنے لئے ولاء کی شرط لگائی۔ میں نے اس کا ذکر نبی کریم ﷺ سے کیا تو آپ نے فرمایا خرید لو، ولاء تو اسی سے ہوتی ہے جو آزاد کرتا ہے۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated ' Aisha (RA) : that she intended to buy Barira (a slave girl) and her masters stipulated that they would have her Wala'. When 'Aisha (RA) mentioned that to the Prophet (ﷺ) ; he said, "Buy her, for the Wala' is for the one who manumits."