Sahi-Bukhari:
Laws of Inheritance (Al-Faraa'id)
(Chapter: Learning about the Laws of Inheritance)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
عقبہ بن عامر نے کہا کہ دین کا علم سیکھو اس سے پہلے کہ اٹکل پچھو کرنے والے پیدا ہوں یعنی جو رائے اور قیاس سے فتویٰ دیں، حدیث اور قرآن سے جاہل ہوں۔تشریح: عقبہ کے قول میں گو فرائض کی تخصیص نہیں مگر وہ علم فرائض کو بھی شامل ہے۔ امام احمد اور ترمذی نے ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً نکالا۔ فرائض کا علم سیکھو اور سکھاؤ کیوں کہ میں دنیا سے جانے والا ہوں اور وہزمانہ قریب ہے کہ یہ علم دنیا سے اٹھ جائے گا۔ دو آدمی ترکہ میں جھگڑا کریں گے کوئی فیصلہ کرنے والے ان کو نہ ملے گا۔ ترمذی میں بھی ایک ایسی ہی حدیث مروی ہے۔ وقولہ قبل الظانین فیہ اشعار بان اہل ذالک العصر کانوا یقفون عندالنصوص ولا یتجازونہا و ان نقل عن بعضہم الفتویٰ بالرای فہو قلیل بالنسبۃ و فیہ انذار بوقوع ماحصل من کثرۃ القائلین بالرای و قیل رآہ قبل اندراس العلم و حدوث من یتکلم بمقتضی ظنہ غیر مستند الی علم قال ابن المنیر وانما خص البخاری قول عقبۃ بالفرائض لانہا ادخل فیہ من غیرہا لان الفرائض الغالب علیہ الجعبد والخسام وجوہ الرای والخوض فیہا بالظن لاانضباط لہ بخلاف غیرہا من ابواب العلم فان للرای فیہا مجالا والانضباط فیہا ممکن غالبا و یوخذ من ہذا التقریر مناسبہ الحدیث المرفوع ( فتح الباری ) لفظ قبل الظانین میں ادھر اشارہ کرناہے کہ سلف صالحین کے زمانہ میں لوگ نصوص کے آگے ٹھہر جاتے تھے اور ان سے آگے تجاوز نہیں کرتے تھے۔ اگر ان میں سے کسی سے کوئی فتویٰ رائے سے نقل ہے تو وہ بہت ہی قلیل ہے۔ اس میں بکثرت رائے سے فتویٰ دینے والوں کو ڈرانا بھی ہے۔ یہ بھی کہاگیا ہے کہ یہ علم کے حاصل نہ ہونے سے پہلے کی بات ہے اور ایسے لوگوں کے پیدا ہونے کی طرف اشارہ ہے کہ جو محض اپنے ظن سے کلام کریں گے اور علم کی کوئی سند ان کے پاس نہ ہوگی۔ حضرت امام بخاری نے عقبہ کے قول کو خاص مقائل فرائض کے ساتھ مختص کیا ہے اس لئے کہ اس علم فرائض میں غالب طورپر یہ مختلف قسم کی رائے قیاس و ظن کو دخل نہیں ہوسکتا اس لئے کہ اس کا کوئی مدون شدہ ضابطہ نہیں ہے بخلاف علم کے دوسرے شعبوں کے کہ ان میں رائے قیاس کو دخل ہے۔ اس تقریر سے حدیث مرفوع کی مناسبت نکلتی ہے۔ حدیث ذیل مراد ہے۔
6724.
حضرت ابو ہریرہ روایت ہے انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”گمان سے اجتناب کرو کیونکہ بدظنی انتہائی جھوٹی بات ہوتی ہے۔ آپس میں ایک دوسرے کی ٹوہ میں نہ رہو (ایک دوسرے کی برائی کی تلاش نہ کرو) اور نہ ایک دوسرے سے بغض ہی رکھو، نیز پیٹھ پیچھے کسی دوسرے کی برائی بیان نہ کرو، اللہ کے بندو ! بھائی بھائی بن کر رہو۔“
تشریح:
(1) جس وقت علم اور علماء نہیں رہیں گے تو جہالت عام ہو گی۔ اس وقت گفتگو کا دارومدار صرف ظن و تخمین پر ہو گا۔ ایسے لوگوں کی زبانوں پر جھوٹ جلدی جاری ہوتا ہے۔ جب کسی کو قرآن و حدیث کا علم نہیں ہو گا تو اپنے گمان کے فیصلے کرے گا، اس طرح علم فرائض بھی ان کی بھینٹ چڑھ جائے گا۔ (2) امام بخاری رحمہ اللہ کو علم فرائض کے متعلق اپنے معیار کی کوئی حدیث نہ مل سکی، اس لیے مذکورہ حدیث سے تعلیم فرائض کی اہمیت کو اجاگر کیا ہے۔ ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’فرائض کا علم سیکھو اور سکھاؤ کیونکہ میں جلد ہی دنیا سے رخصت ہونے والا ہوں اور وہ وقت آنے والا ہے کہ علم دنیا سے اٹھ جائے گا، اس حد تک کہ دو آدمی ترکے کے متعلق جھگڑا کریں گے، لیکن صحیح فیصلہ کرنے والا انہیں نہیں ملے گا۔‘‘ (المستدرك للحاکم: 333/4) ایک اور حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’علم فرائض حاصل کرو کیونکہ یہ نصف علم ہے اور یہ پہلا علم ہو گا جو میری امت کے سینوں سے چھین لیا جائے گا۔‘‘ (سنن ابن ماجة، الفرائض، حدیث: 2719) علم فرائض کو نصف علم اس لیے کہا گیا ہے کہ انسان کی دو حالتیں ہوتی ہیں: حالت حیات اور حالت موت، اس علم کا تعلق حالت موت سے ہے۔ واللہ أعلم
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6486
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6724
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
6724
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
6724
تمہید کتاب
فرائض، فريضة کی جمع ہے۔ فریضہ اس ذمہ داری کو کہتے ہیں جو مکلف پر شرعاً عائد کی جائے، جیسے: نماز، روزہ، حج اور زکاۃ وغیرہ فرض ہیں۔ میراث کو بھی فریضہ اور فرض کہا جاتا ہے جس کے لغوی معنی ہیں: کاٹنا اور مقرر کرنا۔ کہا جاتا ہے کہ میں نے اتنا مال فلاں کے لیے کاٹ کر الگ رکھ دیا۔ مواریث میں فرائض سے مراد وراثت کے مستحق لوگوں کے لیے وہ مقرر حصے ہیں جو قرآن و حدیث میں بیان ہوئے ہیں۔ ان میں کمی بیشی جائز نہیں۔ یہ نام قرآن کریم کی آیت کریمہ (نَصِيبًا مَّفْرُوضًا) سے ماخوذ ہے۔ (النساء: 4/7) کتاب الفرائض میں امام بخاری رحمہ اللہ نے ترکے کے مسائل اور ورثاء کو ملنے والے حصے بیان کیے ہیں۔ فرائض کا علم ایک ایسا علم ہے جس کی بہت سی تفصیلات ہیں۔ ان سے آگاہ ہونا ہر کسی کا کام نہیں کیونکہ ان میں علم ریاضی اور حساب، نیز جدید اعشاری قواعد و ضوابط کی ضرورت پڑتی ہے۔ ہم تمہید کے طور پر چند حقائق ذکر کرتے ہیں تاکہ صحیح بخاری میں آمدہ وراثت کے احکام و مسائل سمجھنے میں آسانی ہو۔٭ اسلام دین فطرت ہے، اس لیے انسان کی فطری خواہشات کا احترام کرتے ہوئے اس میں شخصی جائیداد اور انفرادی ملکیت کی پوری پوری گنجائش ہے۔ اس میں احکام وصیت و وراثت اور مسائل ہبہ و وقف کا ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ انفرادی نظریۂ ملکیت ایک تسلیم شدہ حقیقت ہے، پھر تمدن کی ترقی کے لیے انتقال ملکیت بھی ضروری ہے جس کی دو صورتیں ممکن ہیں ایک اختیاری اور دوسری غیر اختیاری۔ اختیاری انتقال ملکیت کی دو صورتیں حسب ذیل ہیں: ٭ معاوضہ لے کر کوئی چیز دوسرے کے حوالے کرنا ایسا اشیائے خریدوفروخت یا اس کے مشابہ لین دین میں ہوتا ہے۔ ٭ بلا معاوضہ کوئی چیز دوسرے کے حوالے کرنا۔ اس کی مزید دو قسمیں ہیں: اگر بلا معاوضہ انتقال ملکیت بحالت صحت ہو اور اپنی زندگی میں کوئی چیز دوسرے کے حوالے کر دی جائے تو اسے ہبہ یا ہدیہ کہا جاتا ہے اور اگر بلا معاوضہ انتقال ملکیت بحالت مرض موت ہو اور مرنے کے بعد وہ چیز کسی دوسرے کو ملے تو اسے وصیت کہا جاتا ہے۔ انتقال ملکیت کی دوسری صورت جو غیر اختیاری ہے اس میں ایک انسان کی مملوکہ اشیاء خودبخود اس کے ورثاء کی طرف منتقل ہو جاتی ہیں۔ اس میں انتقال کرنے والے کے ارادے، نیت یا اختیار کو قطعاً کوئی دخل نہیں ہوتا، اس غیر اختیاری انتقال ملکیت کو شرعی اصطلاح میں ''وراثت'' کہا جاتا ہے۔انتقال ملکیت کے ان مذکورہ دونوں طریقوں میں ایک بنیادی فرق یہ بھی ہے کہ اختیاری طریقۂ انتقال میں بعض اوقات ایجاب و قبول اور بعض صورتوں میں صرف ایجاب شرط ہوتا ہے جیسا کہ خریدوفروخت اور وقف میں ہوتا ہے جبکہ وراثت میں ایجاب و قبول نہیں ہوتا بلکہ اس کے بغیر ہی وارث اس کا مالک بن جاتا ہے۔آغاز اسلام میں انتقال ملکیت کے لیے وصیتی طریقہ رائج کیا گیا۔ اس کی بنیاد یہ تھی کہ جائیداد کا مالک خود اس امر کا اہتمام کرتا کہ اس کے مرنے اس کی جائیداد کا بندوبست کس طرح ہو اور کون کون لوگ اس میں حصہ دار ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ''تم پر یہ فرض کر دیا گیا ہے کہ تم میں سے کسی کو موت آ جائے اور کچھ مال و دولت چھوڑے جا رہا ہو تو مناسب طور پر اپنے والدین اور رشتہ داروں کے حق میں وصیت کر جائے، ایسا کرنا اہل تقویٰ کے ذمے حق ہے۔'' (البقرۃ: 2/180) لیکن انسان کی خودغرضی اسے اکثر اوقات ظلم و زیادتی پر آمادہ کر دیتی ہے جس کے نتیجے میں کسی رشتہ دار کی ناجائز طرف داری یا بلاوجہ حق تلفی ہو جاتی ہے جو خاندان کے مختلف افراد کے درمیان رسہ کشی کا باعث بن جاتی ہے۔ اسلام نے اس سلسلے میں واضح طور پر رہنمائی فرمائی، ارشاد باری تعالیٰ ہے: ''البتہ جس شخص کو وصیت کرنے والے کی طرف سے کسی کے متعلق جانب داری یا حق تلفی کا اندیشہ ہو اور وہ ورثاء میں سمجھوتہ کرا دے تو اس پر کچھ گناہ نہیں۔'' (البقرۃ: 2/182) اسلام نے دانستہ یا نادانستہ طرف داری یا حق تلفی کا اس طرح سدباب کیا ہے کہ مُوَرِث، یعنی فوت ہونے والے کو ایک تہائی کی حد تک وصیت کا اختیار دے کر باقی ترکے کی تقسیم کے لیے واضح اصول مقرر کر دیے تاکہ خاندان میں عزیز و اقارب کے درمیان نفرت و عداوت پیدا نہ ہو، نیز صلہ رحمی اور ہمدردی کے جذبات بھی ماند نہ پڑیں۔اس کے علاوہ وراثت کے احکام کو اس اصول پر استوار کیا کہ فوت ہونے والے کا ترکہ ان لوگوں میں تقسیم ہو جو اپنی قرابت داری کے اعتبار سے مرحوم کی جائیداد کے زیادہ حق دار ہوں، پھر حق وراثت کو ایسا محکم اور پختہ فرض قرار دیا ہے جس میں تغیر و تبدل کی قطعاً کوئی گنجائش نہیں۔ بعض دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ انسان اپنے پیچھے ایک سے زیادہ قرابت دار چھوڑ جاتا ہے جن کے متعلق وہ فیصلہ نہیں کر پاتا کہ اس کے حقوق دوسرے قرابت داروں کے اعتبار سے زیادہ اہم ہیں۔ عقل انسانی کے اس تذبذب کو اللہ تعالیٰ نے ان الفاظ میں دور فرمایا: ''تم نہیں سمجھ سکتے کہ تمہیں فائدہ پہنچانے کے لحاظ سے تمہارے والدین اور تمہاری اولاد میں سے کون تمہارے قریب تر ہے۔ یہ اللہ کی طرف سے مقرر کردہ حصے ہیں۔ یقیناً اللہ تعالیٰ سب کچھ جاننے والا کمال حکمت والا ہے۔'' (النساء: 4/114) لیکن افسوس کہ وراثت کے متعلق کتاب و سنت میں بیان کردہ واضح شرعی احکام اور ان کی خلاف ورزی پر کھلی وعید کے باوجود ہم مسلمان اس سلسلے میں برسرعام خلاف ورزی کرتے ہیں اور واضح طور پر افراط و تفریط کا شکار ہیں۔ ایک طرف مزعومہ عاق نامے کے ذریعے سے اپنی اولاد کو ان کے شرعی حق سے محروم کر دیتے ہیں تو دوسری طرف اپنے بیٹوں کی موجودگی میں اپنے پوتوں کو وراثت میں برابر کا حصے دار ٹھہراتے ہیں۔ اسی طرح ترکے کے متعلق بھی ہمارے ہاں بہت غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں۔ عام طور پر ترکہ اسے خیال کیا جاتا ہے جو باپ دادا سے بطور وراثت ملا ہو اور جو کچھ اپنی محنت سے کمایا اسے ترکے میں شمار نہیں کیا جاتا، حالانکہ ہر منقولہ اور غیر منقولہ جائیداد کو شرعاً ترکہ کہا جاتا ہے جو مرنے کے بعد اس نے اپنے پیچھے چھوڑی ہو اور کسی دوسرے شخص کا اس میں کوئی حق نہ ہو۔ ایک اور مسئلہ جس کی طرف توجہ دلانا ضروری ہے اور اس کا تعلق بھی تقسیم جائیداد سے ہے لیکن ہم اس سلسلے میں کوتاہی کا شکار ہیں، وہ یہ ہے کہ اولاد کی طرف سے بعض اوقات والد پر دباؤ ڈالا جاتا ہے یا والد ازخود کسی پیش بندی کے طور پر اپنی جائیداد زندگی ہی میں تقسیم کر دیتا ہے، حالانکہ ایسا کرنا انتہائی محل نظر ہے کیونکہ ضابطۂ وراثت کے اجراء کے لیے مُوَرِث کی موت کا یقین اور وارث کا زندہ ہونا ضروری ہے۔ زندگی میں ضابطۂ وراثت کے مطابق جائیداد کا تقسیم کرنا کئی ایک خطرات کا پیش خیمہ ہو سکتا ہے، ہاں اگر اولاد کو بطور ہبہ کچھ دینا چاہے تو اس کی شرعاً گنجائش ہے، بشرطیکہ تمام بیٹوں اور بیٹیوں کو برابر ہبہ دیا جائے۔ چند ایک کو دینا اور دوسروں کو نظر انداز کرنا شرعی طور پر جائز نہیں۔ اس کے علاوہ دوسرے شرعی ورثاء کو محروم کرنے کے لیے ہبہ کو بطور حیلہ استعمال کرنا بھی ظلم اور زیادتی ہے۔دراصل ہمارے ہاں جہالت کا دور دورہ ہے۔ عصر حاضر میں علم فرائض کو بالکل نظر انداز کر دیا گیا ہے۔ اکثر علمائے کرام بھی اس سے بے بہرہ ہیں، حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے متعلق بہت تاکید فرمائی ہے۔ فرمان نبوی ہے: ''علم وراثت سیکھو اور دوسروں کو بھی سکھاؤ کیونکہ جلد ہی میری موت واقع ہو جائے گی، علم فرائض بھی قبض کر لیا جائے گا، فتنے رونما ہوں گے حتی کہ دو آدمی اپنے کسی مقررہ حصے میں اختلاف کریں گے اور کوئی آدمی ایسا نہیں پائیں گے جو ان میں فیصلہ کر سکے۔'' (المستدرک للحاکم: 4/333) امام بخاری رحمہ اللہ نے اس سلسلے میں ہماری مکمل رہنمائی فرمائی ہے۔ انہوں نے کتاب الفرائض میں وراثت کے بہت سے پیچیدہ مسائل بیان فرمائے ہیں۔ وراثت کے علاوہ دیگر بے شمار معاشرتی مسائل بھی ذکر کیے ہیں جن سے امام بخاری رحمہ اللہ کی وسعت علم کا اندازہ ہوتا ہے۔ آپ نے اس سلسلے میں تنتالیس (43) مرفوع احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں سینتیس (37) مکرر اور باقی چھ (6) خالص ہیں، اس کے علاوہ تنتالیس (43) مرفوع احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں سینتیس (37) مکرر اور باقی چھ (6) خالص ہیں، اس کے علاوہ چوبیس (24) آثار بھی ذکر کیے ہیں جو صحابۂ کرام اور تابعین عظام سے مروی ہیں، پھر آپ نے ان منتخب احادیث پر تیس (30) سے زیادہ چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن میں وراثت کی اہمیت، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وراثت، قیدی کی وراثت، جو خود کو اپنے باپ کے علاوہ کسی دوسرے کی طرف منسوب کرتا ہے، قیافہ شناس وغیرہ بہت اہم ہیں۔ اس کے علاوہ متعدد اسنادی مباحث ہیں جن کی ہم موقع و محل کی مناسبت سے وضاحت کریں گے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں ان سے فائدہ حاصل کرنے کی توفیق دے اور ہمیں حقوق العباد ادا کرنے کی توفیق بخشے۔ آمین نوٹ: ہم نے ''اسلامی قانون وراثت'' نامی کتاب پر ایک مدلل مقدمہ لکھا ہے، قارئین سے گزارش ہے کہ وہ صحیح بخاری کو پڑھتے ہوئے اسے ضرور زیر مطالعہ لائیں۔ یہ کتاب دارالسلام نے ہی شائع کی ہے۔
تمہید باب
حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ کا مذکورہ قول متصل سند سے ہمیں کہیں نہیں مل سکا۔ اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت لوگ ظن و تخمین سے پرہیز کرتے تھے اور کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے آگے نہیں بڑھتے تھے۔ اس قول میں اگرچہ تمام علوم آ جاتے ہیں لیکن علم فرائض اس میں بطور خاص داخل ہے کیونکہ اس کے مسائل و احکام میں رائے اور قیاس کو قطعاً کوئی دخل نہیں ہے جبکہ دوسرے علوم میں رائے وغیرہ کا بہت عمل دخل ہے۔ (فتح الباری: 12/7)
عقبہ بن عامر نے کہا کہ دین کا علم سیکھو اس سے پہلے کہ اٹکل پچھو کرنے والے پیدا ہوں یعنی جو رائے اور قیاس سے فتویٰ دیں، حدیث اور قرآن سے جاہل ہوں۔تشریح: عقبہ کے قول میں گو فرائض کی تخصیص نہیں مگر وہ علم فرائض کو بھی شامل ہے۔ امام احمد اور ترمذی نے ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً نکالا۔ فرائض کا علم سیکھو اور سکھاؤ کیوں کہ میں دنیا سے جانے والا ہوں اور وہزمانہ قریب ہے کہ یہ علم دنیا سے اٹھ جائے گا۔ دو آدمی ترکہ میں جھگڑا کریں گے کوئی فیصلہ کرنے والے ان کو نہ ملے گا۔ ترمذی میں بھی ایک ایسی ہی حدیث مروی ہے۔ وقولہ قبل الظانین فیہ اشعار بان اہل ذالک العصر کانوا یقفون عندالنصوص ولا یتجازونہا و ان نقل عن بعضہم الفتویٰ بالرای فہو قلیل بالنسبۃ و فیہ انذار بوقوع ماحصل من کثرۃ القائلین بالرای و قیل رآہ قبل اندراس العلم و حدوث من یتکلم بمقتضی ظنہ غیر مستند الی علم قال ابن المنیر وانما خص البخاری قول عقبۃ بالفرائض لانہا ادخل فیہ من غیرہا لان الفرائض الغالب علیہ الجعبد والخسام وجوہ الرای والخوض فیہا بالظن لاانضباط لہ بخلاف غیرہا من ابواب العلم فان للرای فیہا مجالا والانضباط فیہا ممکن غالبا و یوخذ من ہذا التقریر مناسبہ الحدیث المرفوع ( فتح الباری ) لفظ قبل الظانین میں ادھر اشارہ کرناہے کہ سلف صالحین کے زمانہ میں لوگ نصوص کے آگے ٹھہر جاتے تھے اور ان سے آگے تجاوز نہیں کرتے تھے۔ اگر ان میں سے کسی سے کوئی فتویٰ رائے سے نقل ہے تو وہ بہت ہی قلیل ہے۔ اس میں بکثرت رائے سے فتویٰ دینے والوں کو ڈرانا بھی ہے۔ یہ بھی کہاگیا ہے کہ یہ علم کے حاصل نہ ہونے سے پہلے کی بات ہے اور ایسے لوگوں کے پیدا ہونے کی طرف اشارہ ہے کہ جو محض اپنے ظن سے کلام کریں گے اور علم کی کوئی سند ان کے پاس نہ ہوگی۔ حضرت امام بخاری نے عقبہ کے قول کو خاص مقائل فرائض کے ساتھ مختص کیا ہے اس لئے کہ اس علم فرائض میں غالب طورپر یہ مختلف قسم کی رائے قیاس و ظن کو دخل نہیں ہوسکتا اس لئے کہ اس کا کوئی مدون شدہ ضابطہ نہیں ہے بخلاف علم کے دوسرے شعبوں کے کہ ان میں رائے قیاس کو دخل ہے۔ اس تقریر سے حدیث مرفوع کی مناسبت نکلتی ہے۔ حدیث ذیل مراد ہے۔
حدیث ترجمہ:
حضرت ابو ہریرہ روایت ہے انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”گمان سے اجتناب کرو کیونکہ بدظنی انتہائی جھوٹی بات ہوتی ہے۔ آپس میں ایک دوسرے کی ٹوہ میں نہ رہو (ایک دوسرے کی برائی کی تلاش نہ کرو) اور نہ ایک دوسرے سے بغض ہی رکھو، نیز پیٹھ پیچھے کسی دوسرے کی برائی بیان نہ کرو، اللہ کے بندو ! بھائی بھائی بن کر رہو۔“
حدیث حاشیہ:
(1) جس وقت علم اور علماء نہیں رہیں گے تو جہالت عام ہو گی۔ اس وقت گفتگو کا دارومدار صرف ظن و تخمین پر ہو گا۔ ایسے لوگوں کی زبانوں پر جھوٹ جلدی جاری ہوتا ہے۔ جب کسی کو قرآن و حدیث کا علم نہیں ہو گا تو اپنے گمان کے فیصلے کرے گا، اس طرح علم فرائض بھی ان کی بھینٹ چڑھ جائے گا۔ (2) امام بخاری رحمہ اللہ کو علم فرائض کے متعلق اپنے معیار کی کوئی حدیث نہ مل سکی، اس لیے مذکورہ حدیث سے تعلیم فرائض کی اہمیت کو اجاگر کیا ہے۔ ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’فرائض کا علم سیکھو اور سکھاؤ کیونکہ میں جلد ہی دنیا سے رخصت ہونے والا ہوں اور وہ وقت آنے والا ہے کہ علم دنیا سے اٹھ جائے گا، اس حد تک کہ دو آدمی ترکے کے متعلق جھگڑا کریں گے، لیکن صحیح فیصلہ کرنے والا انہیں نہیں ملے گا۔‘‘ (المستدرك للحاکم: 333/4) ایک اور حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’علم فرائض حاصل کرو کیونکہ یہ نصف علم ہے اور یہ پہلا علم ہو گا جو میری امت کے سینوں سے چھین لیا جائے گا۔‘‘ (سنن ابن ماجة، الفرائض، حدیث: 2719) علم فرائض کو نصف علم اس لیے کہا گیا ہے کہ انسان کی دو حالتیں ہوتی ہیں: حالت حیات اور حالت موت، اس علم کا تعلق حالت موت سے ہے۔ واللہ أعلم
ترجمۃ الباب:
حضرت عقبہ بن عامر ؓبیان کرتے ہیں: گمان سے گفتگو کرنے والوں سے پہلے پہلے تم علم حاصل کرو۔
فائدہ: اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت لوگ ظن وتخمین سے اجتناب کرتے تھے اور کتاب کرتے تھے اور کتاب اللہ اور سنت رسول ﷺسے آگے نہیں بڑھتے تھے۔ اس قول میں اگرچہ تمام علوم آجاتے ہیں لیکن علم فرائض اس میں بطور خاص داخل ہے کیونکہ اس کے مسائل واحکام میں رائے اور قیاس کو قطعاً کوئی دخل نہیں جبکہ دوسرے علوم میں رائے وغیرہ کا بہت عمل دخل ہے۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا ہم سے وہیب نے بیان کیا، کہا ہم سے عبداللہ بن طاؤس نے بیان کیا، ان سے ان کے والد نے اور ان سے حضرت ابوہریرہ ؓ نے بیان کیا کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا بدگمانی سے بچتے رہو، کیوں کہ گمان ( بدظنی) سب سے جھوٹی بات ہے۔ آپس میں ایک دوسرے کی برائی کی تلاش میں نہ لگے رہو نہ ایک دوسرے سے بغض رکھو اور نہ پیٹھ پیچھے کسی کی برائی کرو، بلکہ اللہ کے بندے بھائی بھائی بن کر رہو۔
حدیث حاشیہ:
اس حدیث کی مطابقت ترجمہ باب سے اس طرح پر ہے کہ جب آدمی کو قرآن و حدیث کا علم نہ ہوگا تو اپنے گمان سے فیصلہ کرے گا حکم دے گا اس میں علم فرائض بھی آگیا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Hurairah (RA) : Allah's Apostle (ﷺ) said, 'Beware of suspicion, for it is the worst of false tales and don't look for the other's faults and don't spy and don't hate each other, and don't desert (cut your relations with) one another O Allah's slaves, be brothers!" (See Hadith No. 90)