باب : جس نے اپنے باپ کے سوا کسی اور کا بیٹا ہونے کا دعویٰ کیا، اس کے گناہ کا بیان
)
Sahi-Bukhari:
Laws of Inheritance (Al-Faraa'id)
(Chapter: Whoever claims to be the son of a person other than his father)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
6728.
حضرت امام زہری سے روایت ہے انہوں نے کہا: مجھے محمد بن جبیر بن مطعم نے حضرت مالک بن اوس بن حدثان ؓ کی ایک حدیث بیان کی، پھر میں خود حضرت مالک بن اوس ؓ کے پاس گیا تو ان سے مذکورہ حدیث کے متعلق دریافت کیا انہوں نے بیان کیا کہ میں حضرت عمر بن خطاب ؓ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ ان کا دربان یرفا ان کے پاس آیا اور کہا:حضرت عثمان بن عفان ؓ حضرت عبدالرحمن، حضرت زبیر اور حضرت سعد ؓ آپ کےپاس آنا چاہتے ہیں اور وہ اجازت طلب کرتے ہیں انہوں نے فرمایا: اچھا انہیں آنے دو چنانچہ اس نے انہیں اندر آنے کی اجازت دی۔ اس نے پھر کہا: کیا آپ حضرت علی بن ابی طالب ؓ اور حضرت عباس ؓ کو بھی اندر آنے کی اجازت دیں گے؟ انہوں نے فرمایا: ہاں۔ حضرت عباس ؓ نے کہا: امیر المومنین میرے اور اس کے درمیان فیصلہ کر دیجیے۔ حضرت عمر بن خطاب ؓ نے فرمایا: میں تمہیں اللہ کی قسم دیتا ہوں جس کے حکم سے زمین وآسمان قائم ہے! کیا تمہیں معلوم ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”ہماری وراثت تقسیم نہیں ہوتی، جو کچھ ہم چھوڑیں وہ سب اللہ کی راہ میں صدقہ ہوتا ہے۔“ اس سے رسول اللہ ﷺ کی خود اپنی ذات ہی مراد تھی؟ جو حضرات وہاں موجود تھے سب نے کہا: ہاں رسول اللہ ﷺ نے ایسا فرمایا تھا۔ پھر آپ حضرت علی اور حضرت عباس ؓ کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: کیا تمہیں علم ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تھا؟ انہوں نے کہا: آپ ﷺ نے ضرور ایسا فرمایا تھا۔ ا س کے بعد حضرت عباس ؓ کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: کیا تمہیں علم ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تھا؟ انہوں کہا: آپ ﷺ نے ضرور ایسا فرمایا تھا۔ اس کے بعد حضرت عمر ؓ نے فرمایا: اب میں آپ لوگوں سے اس معاملے میں گفتگو کرتا ہوں، اللہ تعالٰی نے اپنے رسول اللہ ﷺ کے لیے مال فے میں سے کچھ حصہ مخصوص فرمایا جو آپ کے سوا کسی اور کو نہیں ملتا تھا چنانچہ ارشاد باری تعالٰی ہے: ﴿مَا أَفَاءَ اللَّهُ عَلَى رَسُولِهِ إِلَى قَوْلِهِ - {قَدِيرٌ﴾ یہ حصہ خالص رسول اللہ ﷺ کا تھا اللہ کی قسم! رسول اللہ ﷺ نے تمہارے سوا کسی کے لیے اسے محفوظ نہیں کیا اور نہ تم پر کسی دوسرے کو ترجیح ہی دی۔ یقیناً آپ ﷺ نے وہ زمین تمہیں دی اور تم میں ہی تقسیم کی حتٰی کہ اس میں سے یہ مال باقی رہ گیا۔ نبی ﷺ اس میں سے اپنے گھر والوں کے لیے سال بھر کا خرچہ لیتے تھے، اس کے بعد جو کچھ باقی بچتا اسے ان مصارف میں خرچ کرتے جو مقرر کردہ ہیں۔ رسول اللہ ﷺ کا یہ طرز عمل زندگی بھر قائم رہا۔ میں تمہیں اللہ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں: کیا آپ لوگوں کو اس کا علم ہے؟ حاضرین نے کہا: جی ہاں۔ پھر حضرت علی بن ابی طالب ؓ اور حضرت عباس ؓ سے کہا: میں تمہیں بھی اللہ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں: کیا آپ لوگ بھی اس حقیقت سے آگاہ ہیں؟ انہوں نے کہا: جی ہاں ہمیں اس کا علم ہے۔ حضرت عمر بن خطاب ؓ نے کہا: پھر اللہ تعالٰی نے اپنے نبی ﷺ کو وفات دی تو حضرت ابو بکر ؓ نےکہا: اب میں رسول اللہ ﷺ (کے کاروبار) کا متولی اور انہوں نے وہ مال اپنے قبضے میں کر لیا اور اس طرز عمل کو جاری رکھا جو رسول اللہ ﷺ اس میں سر انجام دیتے تھے۔ پھر اللہ تعالٰی نے حضرت ابوبکر صدیق ؓ کو وفات دی تو میں نے کہا: اب میں رسول اللہ ﷺ کے جانشین کا نائب ہوں۔ میں بھی دو سال تک اس پر قابض رہا اور اس مال میں وہی کچھ کرتا رہا جو رسول اللہ ﷺ اور ابو بکر ؓ نے کیا: پھر آپ دونوں میرے پاس آئے، میرے پاس اپنے بھتیجے کی میراث سے اپنا حصہ لینے آئے اور یہ اپنی بیوی کے حصے کے طلبگار تھے جو ان کے والد کی طرف سے انہیں ملتا۔ میں دے دیتا ہوں۔ (اس شرط پر کہ تم یہ مال انہیں مصارف میں خرچ کروگے جن میں رسول اللہ ﷺ کرتے تھے) لیکن اب تم مجھ سے اس کے علاوہ فیصلہ چاہتے ہو (کہ ان کو آدھا آدھا تقسیم کر دوں؟) اس ذات کی قسم جس کے حکم سے آسمان وزمین قائم ہیں میں اس مال میں اس کے سوا اور کوئی فیصلہ نہیں کر سکتا یہاں تک کہ قیامت قائم ہو جائے اگر آپ اس کے مطابق عمل نہیں کر سکتے تو وہ جائیداد مجھے واپس کر دیں میں (جہاں دوسرے سارے انتظامات کرتا ہوں اس کا بھی بندوبست کرلوں گا)۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6489
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6728
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
6728
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
6728
تمہید کتاب
فرائض، فريضة کی جمع ہے۔ فریضہ اس ذمہ داری کو کہتے ہیں جو مکلف پر شرعاً عائد کی جائے، جیسے: نماز، روزہ، حج اور زکاۃ وغیرہ فرض ہیں۔ میراث کو بھی فریضہ اور فرض کہا جاتا ہے جس کے لغوی معنی ہیں: کاٹنا اور مقرر کرنا۔ کہا جاتا ہے کہ میں نے اتنا مال فلاں کے لیے کاٹ کر الگ رکھ دیا۔ مواریث میں فرائض سے مراد وراثت کے مستحق لوگوں کے لیے وہ مقرر حصے ہیں جو قرآن و حدیث میں بیان ہوئے ہیں۔ ان میں کمی بیشی جائز نہیں۔ یہ نام قرآن کریم کی آیت کریمہ (نَصِيبًا مَّفْرُوضًا) سے ماخوذ ہے۔ (النساء: 4/7) کتاب الفرائض میں امام بخاری رحمہ اللہ نے ترکے کے مسائل اور ورثاء کو ملنے والے حصے بیان کیے ہیں۔ فرائض کا علم ایک ایسا علم ہے جس کی بہت سی تفصیلات ہیں۔ ان سے آگاہ ہونا ہر کسی کا کام نہیں کیونکہ ان میں علم ریاضی اور حساب، نیز جدید اعشاری قواعد و ضوابط کی ضرورت پڑتی ہے۔ ہم تمہید کے طور پر چند حقائق ذکر کرتے ہیں تاکہ صحیح بخاری میں آمدہ وراثت کے احکام و مسائل سمجھنے میں آسانی ہو۔٭ اسلام دین فطرت ہے، اس لیے انسان کی فطری خواہشات کا احترام کرتے ہوئے اس میں شخصی جائیداد اور انفرادی ملکیت کی پوری پوری گنجائش ہے۔ اس میں احکام وصیت و وراثت اور مسائل ہبہ و وقف کا ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ انفرادی نظریۂ ملکیت ایک تسلیم شدہ حقیقت ہے، پھر تمدن کی ترقی کے لیے انتقال ملکیت بھی ضروری ہے جس کی دو صورتیں ممکن ہیں ایک اختیاری اور دوسری غیر اختیاری۔ اختیاری انتقال ملکیت کی دو صورتیں حسب ذیل ہیں: ٭ معاوضہ لے کر کوئی چیز دوسرے کے حوالے کرنا ایسا اشیائے خریدوفروخت یا اس کے مشابہ لین دین میں ہوتا ہے۔ ٭ بلا معاوضہ کوئی چیز دوسرے کے حوالے کرنا۔ اس کی مزید دو قسمیں ہیں: اگر بلا معاوضہ انتقال ملکیت بحالت صحت ہو اور اپنی زندگی میں کوئی چیز دوسرے کے حوالے کر دی جائے تو اسے ہبہ یا ہدیہ کہا جاتا ہے اور اگر بلا معاوضہ انتقال ملکیت بحالت مرض موت ہو اور مرنے کے بعد وہ چیز کسی دوسرے کو ملے تو اسے وصیت کہا جاتا ہے۔ انتقال ملکیت کی دوسری صورت جو غیر اختیاری ہے اس میں ایک انسان کی مملوکہ اشیاء خودبخود اس کے ورثاء کی طرف منتقل ہو جاتی ہیں۔ اس میں انتقال کرنے والے کے ارادے، نیت یا اختیار کو قطعاً کوئی دخل نہیں ہوتا، اس غیر اختیاری انتقال ملکیت کو شرعی اصطلاح میں ''وراثت'' کہا جاتا ہے۔انتقال ملکیت کے ان مذکورہ دونوں طریقوں میں ایک بنیادی فرق یہ بھی ہے کہ اختیاری طریقۂ انتقال میں بعض اوقات ایجاب و قبول اور بعض صورتوں میں صرف ایجاب شرط ہوتا ہے جیسا کہ خریدوفروخت اور وقف میں ہوتا ہے جبکہ وراثت میں ایجاب و قبول نہیں ہوتا بلکہ اس کے بغیر ہی وارث اس کا مالک بن جاتا ہے۔آغاز اسلام میں انتقال ملکیت کے لیے وصیتی طریقہ رائج کیا گیا۔ اس کی بنیاد یہ تھی کہ جائیداد کا مالک خود اس امر کا اہتمام کرتا کہ اس کے مرنے اس کی جائیداد کا بندوبست کس طرح ہو اور کون کون لوگ اس میں حصہ دار ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ''تم پر یہ فرض کر دیا گیا ہے کہ تم میں سے کسی کو موت آ جائے اور کچھ مال و دولت چھوڑے جا رہا ہو تو مناسب طور پر اپنے والدین اور رشتہ داروں کے حق میں وصیت کر جائے، ایسا کرنا اہل تقویٰ کے ذمے حق ہے۔'' (البقرۃ: 2/180) لیکن انسان کی خودغرضی اسے اکثر اوقات ظلم و زیادتی پر آمادہ کر دیتی ہے جس کے نتیجے میں کسی رشتہ دار کی ناجائز طرف داری یا بلاوجہ حق تلفی ہو جاتی ہے جو خاندان کے مختلف افراد کے درمیان رسہ کشی کا باعث بن جاتی ہے۔ اسلام نے اس سلسلے میں واضح طور پر رہنمائی فرمائی، ارشاد باری تعالیٰ ہے: ''البتہ جس شخص کو وصیت کرنے والے کی طرف سے کسی کے متعلق جانب داری یا حق تلفی کا اندیشہ ہو اور وہ ورثاء میں سمجھوتہ کرا دے تو اس پر کچھ گناہ نہیں۔'' (البقرۃ: 2/182) اسلام نے دانستہ یا نادانستہ طرف داری یا حق تلفی کا اس طرح سدباب کیا ہے کہ مُوَرِث، یعنی فوت ہونے والے کو ایک تہائی کی حد تک وصیت کا اختیار دے کر باقی ترکے کی تقسیم کے لیے واضح اصول مقرر کر دیے تاکہ خاندان میں عزیز و اقارب کے درمیان نفرت و عداوت پیدا نہ ہو، نیز صلہ رحمی اور ہمدردی کے جذبات بھی ماند نہ پڑیں۔اس کے علاوہ وراثت کے احکام کو اس اصول پر استوار کیا کہ فوت ہونے والے کا ترکہ ان لوگوں میں تقسیم ہو جو اپنی قرابت داری کے اعتبار سے مرحوم کی جائیداد کے زیادہ حق دار ہوں، پھر حق وراثت کو ایسا محکم اور پختہ فرض قرار دیا ہے جس میں تغیر و تبدل کی قطعاً کوئی گنجائش نہیں۔ بعض دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ انسان اپنے پیچھے ایک سے زیادہ قرابت دار چھوڑ جاتا ہے جن کے متعلق وہ فیصلہ نہیں کر پاتا کہ اس کے حقوق دوسرے قرابت داروں کے اعتبار سے زیادہ اہم ہیں۔ عقل انسانی کے اس تذبذب کو اللہ تعالیٰ نے ان الفاظ میں دور فرمایا: ''تم نہیں سمجھ سکتے کہ تمہیں فائدہ پہنچانے کے لحاظ سے تمہارے والدین اور تمہاری اولاد میں سے کون تمہارے قریب تر ہے۔ یہ اللہ کی طرف سے مقرر کردہ حصے ہیں۔ یقیناً اللہ تعالیٰ سب کچھ جاننے والا کمال حکمت والا ہے۔'' (النساء: 4/114) لیکن افسوس کہ وراثت کے متعلق کتاب و سنت میں بیان کردہ واضح شرعی احکام اور ان کی خلاف ورزی پر کھلی وعید کے باوجود ہم مسلمان اس سلسلے میں برسرعام خلاف ورزی کرتے ہیں اور واضح طور پر افراط و تفریط کا شکار ہیں۔ ایک طرف مزعومہ عاق نامے کے ذریعے سے اپنی اولاد کو ان کے شرعی حق سے محروم کر دیتے ہیں تو دوسری طرف اپنے بیٹوں کی موجودگی میں اپنے پوتوں کو وراثت میں برابر کا حصے دار ٹھہراتے ہیں۔ اسی طرح ترکے کے متعلق بھی ہمارے ہاں بہت غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں۔ عام طور پر ترکہ اسے خیال کیا جاتا ہے جو باپ دادا سے بطور وراثت ملا ہو اور جو کچھ اپنی محنت سے کمایا اسے ترکے میں شمار نہیں کیا جاتا، حالانکہ ہر منقولہ اور غیر منقولہ جائیداد کو شرعاً ترکہ کہا جاتا ہے جو مرنے کے بعد اس نے اپنے پیچھے چھوڑی ہو اور کسی دوسرے شخص کا اس میں کوئی حق نہ ہو۔ ایک اور مسئلہ جس کی طرف توجہ دلانا ضروری ہے اور اس کا تعلق بھی تقسیم جائیداد سے ہے لیکن ہم اس سلسلے میں کوتاہی کا شکار ہیں، وہ یہ ہے کہ اولاد کی طرف سے بعض اوقات والد پر دباؤ ڈالا جاتا ہے یا والد ازخود کسی پیش بندی کے طور پر اپنی جائیداد زندگی ہی میں تقسیم کر دیتا ہے، حالانکہ ایسا کرنا انتہائی محل نظر ہے کیونکہ ضابطۂ وراثت کے اجراء کے لیے مُوَرِث کی موت کا یقین اور وارث کا زندہ ہونا ضروری ہے۔ زندگی میں ضابطۂ وراثت کے مطابق جائیداد کا تقسیم کرنا کئی ایک خطرات کا پیش خیمہ ہو سکتا ہے، ہاں اگر اولاد کو بطور ہبہ کچھ دینا چاہے تو اس کی شرعاً گنجائش ہے، بشرطیکہ تمام بیٹوں اور بیٹیوں کو برابر ہبہ دیا جائے۔ چند ایک کو دینا اور دوسروں کو نظر انداز کرنا شرعی طور پر جائز نہیں۔ اس کے علاوہ دوسرے شرعی ورثاء کو محروم کرنے کے لیے ہبہ کو بطور حیلہ استعمال کرنا بھی ظلم اور زیادتی ہے۔دراصل ہمارے ہاں جہالت کا دور دورہ ہے۔ عصر حاضر میں علم فرائض کو بالکل نظر انداز کر دیا گیا ہے۔ اکثر علمائے کرام بھی اس سے بے بہرہ ہیں، حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے متعلق بہت تاکید فرمائی ہے۔ فرمان نبوی ہے: ''علم وراثت سیکھو اور دوسروں کو بھی سکھاؤ کیونکہ جلد ہی میری موت واقع ہو جائے گی، علم فرائض بھی قبض کر لیا جائے گا، فتنے رونما ہوں گے حتی کہ دو آدمی اپنے کسی مقررہ حصے میں اختلاف کریں گے اور کوئی آدمی ایسا نہیں پائیں گے جو ان میں فیصلہ کر سکے۔'' (المستدرک للحاکم: 4/333) امام بخاری رحمہ اللہ نے اس سلسلے میں ہماری مکمل رہنمائی فرمائی ہے۔ انہوں نے کتاب الفرائض میں وراثت کے بہت سے پیچیدہ مسائل بیان فرمائے ہیں۔ وراثت کے علاوہ دیگر بے شمار معاشرتی مسائل بھی ذکر کیے ہیں جن سے امام بخاری رحمہ اللہ کی وسعت علم کا اندازہ ہوتا ہے۔ آپ نے اس سلسلے میں تنتالیس (43) مرفوع احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں سینتیس (37) مکرر اور باقی چھ (6) خالص ہیں، اس کے علاوہ تنتالیس (43) مرفوع احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں سینتیس (37) مکرر اور باقی چھ (6) خالص ہیں، اس کے علاوہ چوبیس (24) آثار بھی ذکر کیے ہیں جو صحابۂ کرام اور تابعین عظام سے مروی ہیں، پھر آپ نے ان منتخب احادیث پر تیس (30) سے زیادہ چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن میں وراثت کی اہمیت، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وراثت، قیدی کی وراثت، جو خود کو اپنے باپ کے علاوہ کسی دوسرے کی طرف منسوب کرتا ہے، قیافہ شناس وغیرہ بہت اہم ہیں۔ اس کے علاوہ متعدد اسنادی مباحث ہیں جن کی ہم موقع و محل کی مناسبت سے وضاحت کریں گے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں ان سے فائدہ حاصل کرنے کی توفیق دے اور ہمیں حقوق العباد ادا کرنے کی توفیق بخشے۔ آمین نوٹ: ہم نے ''اسلامی قانون وراثت'' نامی کتاب پر ایک مدلل مقدمہ لکھا ہے، قارئین سے گزارش ہے کہ وہ صحیح بخاری کو پڑھتے ہوئے اسے ضرور زیر مطالعہ لائیں۔ یہ کتاب دارالسلام نے ہی شائع کی ہے۔
حضرت امام زہری سے روایت ہے انہوں نے کہا: مجھے محمد بن جبیر بن مطعم نے حضرت مالک بن اوس بن حدثان ؓ کی ایک حدیث بیان کی، پھر میں خود حضرت مالک بن اوس ؓ کے پاس گیا تو ان سے مذکورہ حدیث کے متعلق دریافت کیا انہوں نے بیان کیا کہ میں حضرت عمر بن خطاب ؓ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ ان کا دربان یرفا ان کے پاس آیا اور کہا:حضرت عثمان بن عفان ؓ حضرت عبدالرحمن، حضرت زبیر اور حضرت سعد ؓ آپ کےپاس آنا چاہتے ہیں اور وہ اجازت طلب کرتے ہیں انہوں نے فرمایا: اچھا انہیں آنے دو چنانچہ اس نے انہیں اندر آنے کی اجازت دی۔ اس نے پھر کہا: کیا آپ حضرت علی بن ابی طالب ؓ اور حضرت عباس ؓ کو بھی اندر آنے کی اجازت دیں گے؟ انہوں نے فرمایا: ہاں۔ حضرت عباس ؓ نے کہا: امیر المومنین میرے اور اس کے درمیان فیصلہ کر دیجیے۔ حضرت عمر بن خطاب ؓ نے فرمایا: میں تمہیں اللہ کی قسم دیتا ہوں جس کے حکم سے زمین وآسمان قائم ہے! کیا تمہیں معلوم ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”ہماری وراثت تقسیم نہیں ہوتی، جو کچھ ہم چھوڑیں وہ سب اللہ کی راہ میں صدقہ ہوتا ہے۔“ اس سے رسول اللہ ﷺ کی خود اپنی ذات ہی مراد تھی؟ جو حضرات وہاں موجود تھے سب نے کہا: ہاں رسول اللہ ﷺ نے ایسا فرمایا تھا۔ پھر آپ حضرت علی اور حضرت عباس ؓ کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: کیا تمہیں علم ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تھا؟ انہوں نے کہا: آپ ﷺ نے ضرور ایسا فرمایا تھا۔ ا س کے بعد حضرت عباس ؓ کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: کیا تمہیں علم ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تھا؟ انہوں کہا: آپ ﷺ نے ضرور ایسا فرمایا تھا۔ اس کے بعد حضرت عمر ؓ نے فرمایا: اب میں آپ لوگوں سے اس معاملے میں گفتگو کرتا ہوں، اللہ تعالٰی نے اپنے رسول اللہ ﷺ کے لیے مال فے میں سے کچھ حصہ مخصوص فرمایا جو آپ کے سوا کسی اور کو نہیں ملتا تھا چنانچہ ارشاد باری تعالٰی ہے: ﴿مَا أَفَاءَ اللَّهُ عَلَى رَسُولِهِ إِلَى قَوْلِهِ - {قَدِيرٌ﴾ یہ حصہ خالص رسول اللہ ﷺ کا تھا اللہ کی قسم! رسول اللہ ﷺ نے تمہارے سوا کسی کے لیے اسے محفوظ نہیں کیا اور نہ تم پر کسی دوسرے کو ترجیح ہی دی۔ یقیناً آپ ﷺ نے وہ زمین تمہیں دی اور تم میں ہی تقسیم کی حتٰی کہ اس میں سے یہ مال باقی رہ گیا۔ نبی ﷺ اس میں سے اپنے گھر والوں کے لیے سال بھر کا خرچہ لیتے تھے، اس کے بعد جو کچھ باقی بچتا اسے ان مصارف میں خرچ کرتے جو مقرر کردہ ہیں۔ رسول اللہ ﷺ کا یہ طرز عمل زندگی بھر قائم رہا۔ میں تمہیں اللہ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں: کیا آپ لوگوں کو اس کا علم ہے؟ حاضرین نے کہا: جی ہاں۔ پھر حضرت علی بن ابی طالب ؓ اور حضرت عباس ؓ سے کہا: میں تمہیں بھی اللہ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں: کیا آپ لوگ بھی اس حقیقت سے آگاہ ہیں؟ انہوں نے کہا: جی ہاں ہمیں اس کا علم ہے۔ حضرت عمر بن خطاب ؓ نے کہا: پھر اللہ تعالٰی نے اپنے نبی ﷺ کو وفات دی تو حضرت ابو بکر ؓ نےکہا: اب میں رسول اللہ ﷺ (کے کاروبار) کا متولی اور انہوں نے وہ مال اپنے قبضے میں کر لیا اور اس طرز عمل کو جاری رکھا جو رسول اللہ ﷺ اس میں سر انجام دیتے تھے۔ پھر اللہ تعالٰی نے حضرت ابوبکر صدیق ؓ کو وفات دی تو میں نے کہا: اب میں رسول اللہ ﷺ کے جانشین کا نائب ہوں۔ میں بھی دو سال تک اس پر قابض رہا اور اس مال میں وہی کچھ کرتا رہا جو رسول اللہ ﷺ اور ابو بکر ؓ نے کیا: پھر آپ دونوں میرے پاس آئے، میرے پاس اپنے بھتیجے کی میراث سے اپنا حصہ لینے آئے اور یہ اپنی بیوی کے حصے کے طلبگار تھے جو ان کے والد کی طرف سے انہیں ملتا۔ میں دے دیتا ہوں۔ (اس شرط پر کہ تم یہ مال انہیں مصارف میں خرچ کروگے جن میں رسول اللہ ﷺ کرتے تھے) لیکن اب تم مجھ سے اس کے علاوہ فیصلہ چاہتے ہو (کہ ان کو آدھا آدھا تقسیم کر دوں؟) اس ذات کی قسم جس کے حکم سے آسمان وزمین قائم ہیں میں اس مال میں اس کے سوا اور کوئی فیصلہ نہیں کر سکتا یہاں تک کہ قیامت قائم ہو جائے اگر آپ اس کے مطابق عمل نہیں کر سکتے تو وہ جائیداد مجھے واپس کر دیں میں (جہاں دوسرے سارے انتظامات کرتا ہوں اس کا بھی بندوبست کرلوں گا)۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا، کہا ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا، ان سے عقیل نے، ان سے ابن شہاب نے بیان کیا کہ مجھے مالک بن اوس بن حدثان نے خبر دی کہ محمد بن جبیر بن مطعم نے مجھ سے مالک بن اوس کی اس حدیث کا ایک حصہ ذکر کیا تھا۔ پھر میں خود مالک بن اوس کے پاس گیا اور ان سے یہ حدیث پوچھی تو انہوں نے بیان کیا کہ میں عمر ؓ کی خدمت میں حاضر ہوا پھر ان کے حاجب یرفاء نے جا کر ان سے کہا کہ عثمان، عبدالرحمن بن زبیر اور سعد آپ کے پاس آنا چاہتے ہیں؟ انہوں نے کہا کہ اچھا آنے دو۔ چنانچہ انہیں اندر آنے کی اجازت دے دی۔ پھر کہا، کیا آپ علی و عباس ؓ کو بھی آنے کی اجازت دیں گے؟ کہا کہ ہاں آنے دو۔ چنانچہ عباس ؓ نے کہا کہ امیرالمؤمنین میرے اور علی ؓ کے درمیان فیصلہ کر دیجے۔ عمر ؓ نے کہا میں تمہیں اللہ کی قسم دیتا ہوں جس کے حکم سے آسمان وزمین قائم ہیں کیا تمہیں معلوم ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تھا کہ ہماری وراثت تقسیم نہیں ہوتی جو کچھ ہم چھوڑیں وہ سب راہ اللہ صدقہ ہے؟ اس سے مراد آنحضرت ﷺ نے کی خود اپنی ہی ذات تھی۔ جملہ حاضرین بولے کہ ہاں، آنحضرت ﷺ نے یہ ارشاد فرمایا تھا۔ پھر حضرت عمر، حضرت علی اور حضرت عباس ؓ کی طرف متوجہ ہوئے اور پوچھا، کیا تمہیں معلوم ہے کہ آنحضرت ﷺ نے یہ فرمایا تھا؟ انہوں نے بھی تصدیق کی کہ آنحضرت ﷺ نے یہ ارشاد فرمایا تھا۔ عمر ؓ نے فرمایا پھر میں اب آپ لوگوں سے اس معاملہ میں گفتگو کروں گا۔ اللہ تعالیٰ نے اس فے کے معاملہ میں آنحضرت ﷺ کے لئے کچھ حصے مخصوص کر ديے جو آپ کے سوا کسی اور کو نہیں ملتا تھا۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا تھا کہ ﴿مَا أَفَاءَ اللَّهُ عَلَى رَسُولِهِ إِلَى قَوْلِهِ - {قَدِيرٌ﴾ یہ تو خاص آنحضرت ﷺ کا حصہ تھا۔ اللہ کی قسم آنحضرت ﷺ نے اسے تمہارے لئے ہی مخصوص کیا تھا اور تمہارے سوا کسی کو اس پر ترجیح نہیں دی تھی، تمہیں کو اس میں سے دیتے تھے اور تقسیم کرتے تھے۔ آخر اس میں سے یہ مال باقی رہ گیا اور آنحضرت ﷺ اس میں سے اپنے گھر والوں کے لئے سال بھر کا خرچہ لیتے تھے، اس کے بعد جو کچھ باقی بچتا اسے ان مصارف میں خرچ کرتے جو اللہ کے مقرر کردہ ہیں۔ آنحضرت ﷺ کا یہ طرز عمل آپ کی زندگی بھر رہا۔ میں آپ کو اللہ کی قسم دے کر کہتا ہوں، کیا آپ لوگوں کو معلوم ہے؟ لوگوں نے کہا کہ ہاں۔ پھر آپ نے علی اور عباس ؓ سے پوچھا، میں اللہ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کیا آپ لوگوں کو یہ معلوم ہے؟ انہوں نے بھی کہا کہ ہاں۔ پھر آنحضرت ﷺ کی وفات ہوگئی اور ابوبکرؓ نے کہا کہ اب میں آنحضرت ﷺ کا نائب ہوں چنانچہ انہوں نے اس پر قبضہ رکھ کر اس طرز عمل کو جاری رکھا جو آنحضرت ﷺ کا اس میں تھا۔ اللہ تعالیٰ نے ابوبکر ؓ کو بھی وفات دی تو میں نے کہا کہ میں آنحضرت ﷺ کے نائب کا نائب ہوں۔ میں بھی دو سال سے اس پر قابض ہوں اور اس مال میں وہی کرتا ہوں جو رسول کریم ﷺ اور ابوبکر ؓ نے کیا۔ پھر آپ دونوں میرے پاس آئے ہو۔ آپ دونوں کی بات ایک ہے اور معاملہ بھی ایک ہی ہے۔ آپ (عباس ؓ) میرے پاس اپنے بھتیجے کی میراث سے اپنا حصہ لینے آئے ہو اور آپ (علی ؓ) اپنی بیوی کا حصہ لینے آئے ہو جو ان کے والد کی طرف سے انہیں ملتا۔ میں کہتا ہوں کہ اگر آپ دونوں چاہتے ہیں تو میں اسے آپ کو دے سکتا ہوں لکن آپ لوگ اس کے سوا کوئی اور فیصلہ چاہتے ہیں تو اس ذات کی قسم جس کے حکم سے آسمان و زمین قائم ہیں، میں اس مال میں اس کے سوا اور کوئى فیصلہ نہیں کر سکتا، قیامت تک، اگر آپ اس کے مطابق عمل نہیں کر سکتے تو وہ جائیداد مجھے واپس کر دیجئے میں اس کا بھی بندوبست کر لوں گا۔
حدیث حاشیہ:
ہوا یہ تھا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے یہ سب جائیداد جو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اپنی خلافت میں حضرت فاطمہ اور حضرت عباس رضی اللہ عنہما کو نہیں دی تھی۔ حضرت عباس اورحضرت علی رضی اللہ عنہما کے حوالہ کر دی تھی اس شرط پر کہ وہ اس جائیداد کو ان ہی کاموں میں خرچ کرتے رہیں گے جن میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خرچ کیا کرتے تھے یعنی یہ سپردگی محض انتظام کے طور پر تھی نہ بطور تملک اور تقسیم کے۔ حدیث ہٰذا میں اسی کی بابت قضیہ مذکور ہے۔ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے حدیث لانرثُ ولانورثُ، ما تَرکنَا صدقة خود رسو کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے نہیں سنی تھی۔ اسی لئے وہ عام قانون فرائض کے مطابق ترکہ کی طلب گار ہوئیں۔ مگر فرمان نبوی برحق تھا۔ اسی لئے ان کو یہ ترکہ تقسیم نہیں کیا گیا جس پر وہ خفا ہوگئی تھیں۔ دوسری روایت میں یوں ہے کہ بعد میں حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے حضرت فاطمہ رضی للہ عنہا کو راضی کر ليا تھا۔ (دیکھو شرح وحیدی۔ پارہ27، ص: 92) (حقیقت یہ ہے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے ناراض ہی نہیں ہوئی تھیں بلکہ انہیں جب حدیث سنائی گئی تو وہ خاموشی کے ساتھ واپس چلی گئیں اور وفات تک ابوبکر سے اس وراثت کے مسئلہ میں کوئی گفتگو نہیں کی۔ فما تکلمت بعد۔ عبدالرشید تونسوی)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Malik bin Aus (RA) : 'I went and entered upon 'Umar, his doorman, Yarfa came saying 'Uthman, 'Abdur-Rahman, Az-Zubair and Sa'd are asking your permission (to see you). May I admit them? 'Umar said, 'Yes.' So he admitted them Then he came again and said, 'May I admit 'Ali and 'Abbas?' He said, 'Yes.' 'Abbas said, 'O, chief of the believers! Judge between me and this man (Ali ). 'Umar said, 'I beseech you by Allah by Whose permission both the heaven and the earth exist, do you know that Allah's Apostle (ﷺ) said, 'Our (the Apostles') property will not be inherited, and whatever we leave (after our death) is to be spent in charity?' And by that Allah's Apostle (ﷺ) meant himself.' The group said, '(No doubt), he said so.' 'Umar then faced 'Ali and 'Abbas and said, 'Do you both know that Allah's Apostle (ﷺ) said that?' They replied, '(No doubt), he said so.' 'Umar said, 'So let me talk to you about this matter. Allah favored His Apostle (ﷺ) with something of this Fai' (i.e. booty won by the Muslims at war without fighting) which He did not give to anybody else; Allah said:-- 'And what Allah gave to His Apostle (ﷺ) ( Fai' Booty) .........to do all things....(59.6) And so that property was only for Allah's Apostle (ﷺ) . Yet, by Allah, he neither gathered that property for himself nor withheld it from you, but he gave its income to you, and distributed it among you till there remained the present property out of which the Prophet (ﷺ) used to spend the yearly maintenance for his family, and whatever used to remain, he used to spend it where Allah's property is spent (i.e. in charity etc.). Allah's Apostle (ﷺ) followed that throughout his life. Now I beseech you by Allah, do you know all that?' They said, 'Yes.' 'Umar then said to 'Ali and 'Abbas, 'I beseech you by Allah, do you know that?' Both of them said, 'Yes.' 'Umar added, 'And when the Prophet (ﷺ) died, Abu Bakr (RA) said, ' I am the successor of Allah's Apostle, and took charge of that property and managed it in the same way as Allah's Apostle (ﷺ) did. Then I took charge of this property for two years during which I managed it as Allah's Apostle (ﷺ) and Abu Bakr (RA) did. Then you both ('Ali and 'Abbas) came to talk to me, bearing the same claim and presenting the same case. (O 'Abbas!) You came to me asking for your share from the property of your nephew, and this man (Ali) came to me, asking for the share of h is wife from the property of her father. I said, 'If you both wish, I will give that to you on that condition (i.e. that you would follow the way of the Prophet (ﷺ) and Abu Bakr (RA) and as I (Umar) have done in man aging it).' Now both of you seek of me a verdict other than that? Lo! By Allah, by Whose permission both the heaven and the earth exist, I will not give any verdict other than that till the Hour is established. If you are unable to manage it, then return it to me, and I will be sufficient to manage it on your behalf.' "