Sahi-Bukhari:
Laws of Inheritance (Al-Faraa'id)
(Chapter: The inheritance of daughters)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
6735.
حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”مقرر حصے ان کے حق داروں کو دو باقی رہ جائے وہ اس (میت) کے قریبی مذکر رشتے دار کے لیے ہے۔“
تشریح:
(1) اس حدیث سے حجب حرمان کا دوسرا اصول معلوم ہوتا ہے کہ قریبی رشتے دار کی موجودگی میں دور والا رشتے دار محروم ہو جاتا ہے، مثلاً: بیٹا ہو تو پوتے کو کچھ نہیں ملتا اور پوتا موجود ہوتو پڑپوتا محروم ہو جاتا ہے۔ (2) اگر میت، خاوند، باپ، بیٹی، پوتا اور پوتی چھوڑ جائے تو خاوند کو 1/4، باپ کو1/(6 )، بیٹی کو 1/2 دیا جائے گا اور باقی پوتے اور پوتی میں اس طرح تقسیم کیا جائے گا کہ پوتے کو پوتی سے دوگنا ملے گا۔ (3) یتیم پوتے کی وراثت کا مسئلہ: عصر حاضر میں وراثت کے متعلق جس مسئلے کو زیادہ اہمیت دی گئی ہے وہ میت کی اپنی حقیقی اولاد کے ہوتے ہوئے یتیم پوتے اور پوتی کی وراثت کا مسئلہ ہے۔ ان کی بے چارگی اور محتاجی کو بنیاد بنا کر اسے بہت اچھالا گیا ہے، حالانکہ اس مسئلے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک سے لے کر بیسویں صدی تک کوئی اختلاف نہیں پایا جاتا، چنانچہ اس مسئلے میں نہ صرف مشہور فقہی مذاہب، حنفیہ، شافعیہ، مالکیہ اور حنابلہ، نیز شیعہ، زیدیہ، امامیہ اور ظاہریہ سب متفق ہیں، بلکہ غیر معروف ائمہ وفقہاء کا بھی اس کے خلاف کوئی قول منقول نہیں کہ دادا کے انتقال پر اگر اس کا بیٹا موجود ہو تو اس کے دوسرے مرحوم بیٹے کی اولاد، یعنی پوتوں کو اس کی جائیداد سے کچھ نہیں ملے گا، البتہ حکومت پاکستان نے 1961ء میں مارشل لاء کا ایک آرڈی نینس (ordinance) جاری کیا جس کے تحت یہ قانون نافذ کر دیا گیا کہ اگر کوئی شخص مر جائے اور اپنے پیچھے ایسے لڑکے یا لڑکی اولاد چھوڑ جائے جس نے اس کی زندگی میں وفات پائی ہو تو مرحوم یا مرحومہ کی اولاد دیگر بیٹوں کی موجودگی میں اس حصے کو لینے کی حق دار ہوگی جو ان کے باپ یا ماں کو ملنا تھا اگر وہ اس شخص کی وفات کے وقت زندہ ہوتے۔ پاکستان میں اس قانون کے خلاف شریعت ہونے کے متعلق بہت بڑی اکثریت نے دو ٹوک فیصلہ کر دیا تھا کہ یہ قانون امت مسلمہ کے اجتماعی نقطۂ نظر کے خلاف ہے کیونکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’اللہ تعالیٰ تمھیں تمھاری اولاد کے متعلق حکم دیتا ہے کہ مرد کا حصہ دوعورتوں کے برابر ہے۔‘‘ (النساء 4: 11) اس آیت کریمہ میں لفظ اولاد، ولد کی جمع ہے جو جنے ہوئے کہ معنی میں استعمال ہوا ہے۔عربی زبان میں لفظ ولد دو طرح سے مستعمل ہے: ٭حقیقی جو بلا واسطہ جنا ہوا ہو، یعنی بیٹا اور بیٹی وغیرہ۔ ٭مجازی جو کسی واسطے سے جنا ہوا ہو، یعنی پوتا اور پوتی۔ بیٹیوں کی اولاد، یعنی نواسی اور نواسے اس لفظ کے مفہوم میں شامل ہی نہیں کیونکہ نسب باپ سے چلتا ہے، اس بنا پر نواسا اور نواسی لفظ ولد میں شامل ہی نہیں کہ انھیں اولاد سمجھ کر حصہ دیا جائے، نیز یہ بھی ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ جب تک حقیقی معنی کا وجود ہوگا مجازی معنی مراد لینے جائز نہیں ہیں، یعنی لفظ ولد کے حقیقی معنی بیٹے اور بیٹی کی موجودگی میں پوتا اور پوتی مراد نہیں لیے ج اسکتے، لہٰذا آیت کریمہ کا واضح مطلب یہ ہوا کہ حقیقی بیٹے کے ہوتے ہوئے پوتے اور پوتی کا کوئی حق نہیں ہے، خواہ وہ پوتا پوتی زندہ بیٹے سے ہوں یا مرحوم بیٹے سے۔ اس کے متعلق امام جصاص اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں: ’’امت کا اہل علم کا اس میں کوئی اختلاف کہ حق تعالیٰ کے مذکورہ ارشاد میں صرف اولاد مراد ہے، اور اس میں بھی کوئی اختلاف نہیں کہ پوتا، حقیقی بیٹے کے ساتھ اس میں شامل نہیں ہے، نیز اس امر میں بھی کوئی اختلاف نہیں کہ اگر حقیقی بیٹا موجود نہ ہو تو اس سے مراد بیٹوں کی اولاد ہے، بیٹیوں کی نہیں، لہٰذا یہ لفظ صلبی اولاد کے لیے ہے اور جب صلبی اولاد نہ ہو تو بیٹے کی اولاد اس میں شامل ہے۔‘‘ (احکام القرآن:96/2) (3) امام بخاری رحمہ اللہ کی پیش کردہ حدیث سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ مقررہ حصے لینے والوں کے بعد وہ وارث ہوگا جومیت سے قریب تر ہوگا، چنانچہ بیٹا، درجے کے اعتبار سے پوتے کی نسبت قریب تر ہے، اس لیے پوتے کے مقابلے میں صرف بیٹا وارث ہوگا اور پوتا محروم رہے گا، چنانچہ حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہے جس کی تشریح ہم پہلے کر آئے ہیں۔ (4) واضح رہے کہ شریعت نے وراثت کے سلسلے میں الاقرب فالاقرب كے قانون كو پسند كيا ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’ہر ایک کے لیے ہم نے اس ترکے کے وارث بنائے ہیں جسے والدین اور قریب تر رشتے دار چھوڑ جائیں۔‘‘ (النساء 4: 33) اس آیت کریمہ سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ قریبی رشتے دار کی موجودگی میں دور والا رشتے دار محروم ہوگا، لہٰذا بیٹے کی موجودگی میں پوتا وراثت سے حصہ نہیں پائے گا۔ یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ اسلام نے وراثت کے سلسلے میں رشتے داروں کے فقرواحتیاج اور ان کی بے چارگی کو سرے سے بنیاد ہی نہیں بنایا جیسا کہ یتیم پوتے کے متعلق یہ تأثر دے کر جذباتی فضا پیدا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے، بلکہ مستقبل میں مالی معاملات کے متعلق ان کی ذمہ داری کو بنیاد قرار دیا ہے۔ اگر اس سلسلے میں کسی کا محتاج اور بے بس ہونا بنیاد ہوتا تو لڑکی کو لڑکے کے مقابلے میں دوگنا حصہ ملنا چاہیے تھا کیونکہ لڑکے کے مقابلے میں لڑکی مال ودولت کی زیادہ ضرورت مند ہے، اور اس کی بے چارگی کے سبب میت کے مال میں اسے زیادہ حق دار قرار دیا جانا چاہیے تھا جبکہ معاملہ اس کے برعکس ہے۔ اس کا واضح مطلب ہے کہ وراثت میں حاجت مندی عدم کسب معاش یا بے چارگی قطعاً ملحوظ نہیں ہے، البتہ اسلام نے اس جذباتی مسئلے کا حل یوں پیش کیا ہے کہ مرنے والا اپنے یتیم پوتے، پوتیوں اور دیگر غیر وارث حاجت مند رشتہ داروں کے حق میں مرنے سے پہلے اپنے ترکے سے 1/3 حصے کی وصیت کر جائے۔ اگر یتیم پوتے پوتیوں کے موجودگی میں دیگر غیر وارث افراد یا کسی خیراتی ادارے کے لیے وصیت کرتا ہے تو حاکم وقت کو اختیار ہونا چاہیے کہ وہ اس وصیت کو ان کے حق میں کالعدم قرار دے کر ضرورت مند یتیم پوتے پوتیوں کے حق میں اسے نافذ قرار دے، ہاں اگر دادا نے اپنی زندگی میں یتیم پوتے پوتیوں کو بذریعۂ ہبہ جائیداد سے کچھ حصہ پہلے ہی دے دیا ہے تو اس صورت میں وصیت کو کالعدم قرار دینے کے بجائے اسے جوں کا توں نافذ کر دیا جائے۔ واللہ أعلم
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6496
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6735
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
6735
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
6735
تمہید کتاب
فرائض، فريضة کی جمع ہے۔ فریضہ اس ذمہ داری کو کہتے ہیں جو مکلف پر شرعاً عائد کی جائے، جیسے: نماز، روزہ، حج اور زکاۃ وغیرہ فرض ہیں۔ میراث کو بھی فریضہ اور فرض کہا جاتا ہے جس کے لغوی معنی ہیں: کاٹنا اور مقرر کرنا۔ کہا جاتا ہے کہ میں نے اتنا مال فلاں کے لیے کاٹ کر الگ رکھ دیا۔ مواریث میں فرائض سے مراد وراثت کے مستحق لوگوں کے لیے وہ مقرر حصے ہیں جو قرآن و حدیث میں بیان ہوئے ہیں۔ ان میں کمی بیشی جائز نہیں۔ یہ نام قرآن کریم کی آیت کریمہ (نَصِيبًا مَّفْرُوضًا) سے ماخوذ ہے۔ (النساء: 4/7) کتاب الفرائض میں امام بخاری رحمہ اللہ نے ترکے کے مسائل اور ورثاء کو ملنے والے حصے بیان کیے ہیں۔ فرائض کا علم ایک ایسا علم ہے جس کی بہت سی تفصیلات ہیں۔ ان سے آگاہ ہونا ہر کسی کا کام نہیں کیونکہ ان میں علم ریاضی اور حساب، نیز جدید اعشاری قواعد و ضوابط کی ضرورت پڑتی ہے۔ ہم تمہید کے طور پر چند حقائق ذکر کرتے ہیں تاکہ صحیح بخاری میں آمدہ وراثت کے احکام و مسائل سمجھنے میں آسانی ہو۔٭ اسلام دین فطرت ہے، اس لیے انسان کی فطری خواہشات کا احترام کرتے ہوئے اس میں شخصی جائیداد اور انفرادی ملکیت کی پوری پوری گنجائش ہے۔ اس میں احکام وصیت و وراثت اور مسائل ہبہ و وقف کا ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ انفرادی نظریۂ ملکیت ایک تسلیم شدہ حقیقت ہے، پھر تمدن کی ترقی کے لیے انتقال ملکیت بھی ضروری ہے جس کی دو صورتیں ممکن ہیں ایک اختیاری اور دوسری غیر اختیاری۔ اختیاری انتقال ملکیت کی دو صورتیں حسب ذیل ہیں: ٭ معاوضہ لے کر کوئی چیز دوسرے کے حوالے کرنا ایسا اشیائے خریدوفروخت یا اس کے مشابہ لین دین میں ہوتا ہے۔ ٭ بلا معاوضہ کوئی چیز دوسرے کے حوالے کرنا۔ اس کی مزید دو قسمیں ہیں: اگر بلا معاوضہ انتقال ملکیت بحالت صحت ہو اور اپنی زندگی میں کوئی چیز دوسرے کے حوالے کر دی جائے تو اسے ہبہ یا ہدیہ کہا جاتا ہے اور اگر بلا معاوضہ انتقال ملکیت بحالت مرض موت ہو اور مرنے کے بعد وہ چیز کسی دوسرے کو ملے تو اسے وصیت کہا جاتا ہے۔ انتقال ملکیت کی دوسری صورت جو غیر اختیاری ہے اس میں ایک انسان کی مملوکہ اشیاء خودبخود اس کے ورثاء کی طرف منتقل ہو جاتی ہیں۔ اس میں انتقال کرنے والے کے ارادے، نیت یا اختیار کو قطعاً کوئی دخل نہیں ہوتا، اس غیر اختیاری انتقال ملکیت کو شرعی اصطلاح میں ''وراثت'' کہا جاتا ہے۔انتقال ملکیت کے ان مذکورہ دونوں طریقوں میں ایک بنیادی فرق یہ بھی ہے کہ اختیاری طریقۂ انتقال میں بعض اوقات ایجاب و قبول اور بعض صورتوں میں صرف ایجاب شرط ہوتا ہے جیسا کہ خریدوفروخت اور وقف میں ہوتا ہے جبکہ وراثت میں ایجاب و قبول نہیں ہوتا بلکہ اس کے بغیر ہی وارث اس کا مالک بن جاتا ہے۔آغاز اسلام میں انتقال ملکیت کے لیے وصیتی طریقہ رائج کیا گیا۔ اس کی بنیاد یہ تھی کہ جائیداد کا مالک خود اس امر کا اہتمام کرتا کہ اس کے مرنے اس کی جائیداد کا بندوبست کس طرح ہو اور کون کون لوگ اس میں حصہ دار ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ''تم پر یہ فرض کر دیا گیا ہے کہ تم میں سے کسی کو موت آ جائے اور کچھ مال و دولت چھوڑے جا رہا ہو تو مناسب طور پر اپنے والدین اور رشتہ داروں کے حق میں وصیت کر جائے، ایسا کرنا اہل تقویٰ کے ذمے حق ہے۔'' (البقرۃ: 2/180) لیکن انسان کی خودغرضی اسے اکثر اوقات ظلم و زیادتی پر آمادہ کر دیتی ہے جس کے نتیجے میں کسی رشتہ دار کی ناجائز طرف داری یا بلاوجہ حق تلفی ہو جاتی ہے جو خاندان کے مختلف افراد کے درمیان رسہ کشی کا باعث بن جاتی ہے۔ اسلام نے اس سلسلے میں واضح طور پر رہنمائی فرمائی، ارشاد باری تعالیٰ ہے: ''البتہ جس شخص کو وصیت کرنے والے کی طرف سے کسی کے متعلق جانب داری یا حق تلفی کا اندیشہ ہو اور وہ ورثاء میں سمجھوتہ کرا دے تو اس پر کچھ گناہ نہیں۔'' (البقرۃ: 2/182) اسلام نے دانستہ یا نادانستہ طرف داری یا حق تلفی کا اس طرح سدباب کیا ہے کہ مُوَرِث، یعنی فوت ہونے والے کو ایک تہائی کی حد تک وصیت کا اختیار دے کر باقی ترکے کی تقسیم کے لیے واضح اصول مقرر کر دیے تاکہ خاندان میں عزیز و اقارب کے درمیان نفرت و عداوت پیدا نہ ہو، نیز صلہ رحمی اور ہمدردی کے جذبات بھی ماند نہ پڑیں۔اس کے علاوہ وراثت کے احکام کو اس اصول پر استوار کیا کہ فوت ہونے والے کا ترکہ ان لوگوں میں تقسیم ہو جو اپنی قرابت داری کے اعتبار سے مرحوم کی جائیداد کے زیادہ حق دار ہوں، پھر حق وراثت کو ایسا محکم اور پختہ فرض قرار دیا ہے جس میں تغیر و تبدل کی قطعاً کوئی گنجائش نہیں۔ بعض دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ انسان اپنے پیچھے ایک سے زیادہ قرابت دار چھوڑ جاتا ہے جن کے متعلق وہ فیصلہ نہیں کر پاتا کہ اس کے حقوق دوسرے قرابت داروں کے اعتبار سے زیادہ اہم ہیں۔ عقل انسانی کے اس تذبذب کو اللہ تعالیٰ نے ان الفاظ میں دور فرمایا: ''تم نہیں سمجھ سکتے کہ تمہیں فائدہ پہنچانے کے لحاظ سے تمہارے والدین اور تمہاری اولاد میں سے کون تمہارے قریب تر ہے۔ یہ اللہ کی طرف سے مقرر کردہ حصے ہیں۔ یقیناً اللہ تعالیٰ سب کچھ جاننے والا کمال حکمت والا ہے۔'' (النساء: 4/114) لیکن افسوس کہ وراثت کے متعلق کتاب و سنت میں بیان کردہ واضح شرعی احکام اور ان کی خلاف ورزی پر کھلی وعید کے باوجود ہم مسلمان اس سلسلے میں برسرعام خلاف ورزی کرتے ہیں اور واضح طور پر افراط و تفریط کا شکار ہیں۔ ایک طرف مزعومہ عاق نامے کے ذریعے سے اپنی اولاد کو ان کے شرعی حق سے محروم کر دیتے ہیں تو دوسری طرف اپنے بیٹوں کی موجودگی میں اپنے پوتوں کو وراثت میں برابر کا حصے دار ٹھہراتے ہیں۔ اسی طرح ترکے کے متعلق بھی ہمارے ہاں بہت غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں۔ عام طور پر ترکہ اسے خیال کیا جاتا ہے جو باپ دادا سے بطور وراثت ملا ہو اور جو کچھ اپنی محنت سے کمایا اسے ترکے میں شمار نہیں کیا جاتا، حالانکہ ہر منقولہ اور غیر منقولہ جائیداد کو شرعاً ترکہ کہا جاتا ہے جو مرنے کے بعد اس نے اپنے پیچھے چھوڑی ہو اور کسی دوسرے شخص کا اس میں کوئی حق نہ ہو۔ ایک اور مسئلہ جس کی طرف توجہ دلانا ضروری ہے اور اس کا تعلق بھی تقسیم جائیداد سے ہے لیکن ہم اس سلسلے میں کوتاہی کا شکار ہیں، وہ یہ ہے کہ اولاد کی طرف سے بعض اوقات والد پر دباؤ ڈالا جاتا ہے یا والد ازخود کسی پیش بندی کے طور پر اپنی جائیداد زندگی ہی میں تقسیم کر دیتا ہے، حالانکہ ایسا کرنا انتہائی محل نظر ہے کیونکہ ضابطۂ وراثت کے اجراء کے لیے مُوَرِث کی موت کا یقین اور وارث کا زندہ ہونا ضروری ہے۔ زندگی میں ضابطۂ وراثت کے مطابق جائیداد کا تقسیم کرنا کئی ایک خطرات کا پیش خیمہ ہو سکتا ہے، ہاں اگر اولاد کو بطور ہبہ کچھ دینا چاہے تو اس کی شرعاً گنجائش ہے، بشرطیکہ تمام بیٹوں اور بیٹیوں کو برابر ہبہ دیا جائے۔ چند ایک کو دینا اور دوسروں کو نظر انداز کرنا شرعی طور پر جائز نہیں۔ اس کے علاوہ دوسرے شرعی ورثاء کو محروم کرنے کے لیے ہبہ کو بطور حیلہ استعمال کرنا بھی ظلم اور زیادتی ہے۔دراصل ہمارے ہاں جہالت کا دور دورہ ہے۔ عصر حاضر میں علم فرائض کو بالکل نظر انداز کر دیا گیا ہے۔ اکثر علمائے کرام بھی اس سے بے بہرہ ہیں، حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے متعلق بہت تاکید فرمائی ہے۔ فرمان نبوی ہے: ''علم وراثت سیکھو اور دوسروں کو بھی سکھاؤ کیونکہ جلد ہی میری موت واقع ہو جائے گی، علم فرائض بھی قبض کر لیا جائے گا، فتنے رونما ہوں گے حتی کہ دو آدمی اپنے کسی مقررہ حصے میں اختلاف کریں گے اور کوئی آدمی ایسا نہیں پائیں گے جو ان میں فیصلہ کر سکے۔'' (المستدرک للحاکم: 4/333) امام بخاری رحمہ اللہ نے اس سلسلے میں ہماری مکمل رہنمائی فرمائی ہے۔ انہوں نے کتاب الفرائض میں وراثت کے بہت سے پیچیدہ مسائل بیان فرمائے ہیں۔ وراثت کے علاوہ دیگر بے شمار معاشرتی مسائل بھی ذکر کیے ہیں جن سے امام بخاری رحمہ اللہ کی وسعت علم کا اندازہ ہوتا ہے۔ آپ نے اس سلسلے میں تنتالیس (43) مرفوع احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں سینتیس (37) مکرر اور باقی چھ (6) خالص ہیں، اس کے علاوہ تنتالیس (43) مرفوع احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں سینتیس (37) مکرر اور باقی چھ (6) خالص ہیں، اس کے علاوہ چوبیس (24) آثار بھی ذکر کیے ہیں جو صحابۂ کرام اور تابعین عظام سے مروی ہیں، پھر آپ نے ان منتخب احادیث پر تیس (30) سے زیادہ چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن میں وراثت کی اہمیت، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وراثت، قیدی کی وراثت، جو خود کو اپنے باپ کے علاوہ کسی دوسرے کی طرف منسوب کرتا ہے، قیافہ شناس وغیرہ بہت اہم ہیں۔ اس کے علاوہ متعدد اسنادی مباحث ہیں جن کی ہم موقع و محل کی مناسبت سے وضاحت کریں گے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں ان سے فائدہ حاصل کرنے کی توفیق دے اور ہمیں حقوق العباد ادا کرنے کی توفیق بخشے۔ آمین نوٹ: ہم نے ''اسلامی قانون وراثت'' نامی کتاب پر ایک مدلل مقدمہ لکھا ہے، قارئین سے گزارش ہے کہ وہ صحیح بخاری کو پڑھتے ہوئے اسے ضرور زیر مطالعہ لائیں۔ یہ کتاب دارالسلام نے ہی شائع کی ہے۔
تمہید باب
دور جاہلیت میں عربوں کے ہاں ترکے کے وارث صرف وہ بیٹے خیال کیے جاتے تھے جو دشمنوں سے لڑنے اور ان سے انتقام لینے کے اہل ہوں۔عورتوں کو بطور خاص وراثت میں شامل کرنے کا دستور نہ تھا بلکہ عورت خود ترکہ شمار ہوتی تھی۔اللہ تعالیٰ نے عورت کو اس ذلت کے مقام سے نکال کر وراثت میں حصے دار بنایا، ارشاد باری تعالیٰ ہے: "مردوں کے لیے اس مال سے حصہ ہے جو والدین اور قریبی رشتے دار چھوڑ جائیں،خواہ یہ ترکہ تھوڑا ہو یا زیادہ۔ہر ایک کا طے شدہ حصہ ہے۔"(النساء 4: 7) ہمارے ہاں بھی بیٹیوں کو جہیز کی آڑ میں جائیداد سے محروم کرنے رواج ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں بیٹیوں کو محروم کرنے کا ایک واقعہ پیش آیا تو آپ نے اس کا سختی سے نوٹس لیا،چنانچہ حضرت سعد بن ربیع رضی اللہ عنہ کی بیوی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کی :اللہ کے رسول! میرے خاوند حضرت سعد تو آپ کے ہمراہ غزوۂ احد میں شہید ہوگئے اور ان کی یہ دوبیٹیاں ہیں لیکن سعد کے بھائی نے ان کے سارے مال پر قبضہ کرلیا ہے۔آپ نے فرمایا: "اس کے متعلق اللہ تعالیٰ ضرور فیصلہ فرمائے گا۔"اس کے بعد یہ آیت نازل ہوئی: " اللہ تعالیٰ تمھیں تمھاری اولاد کے متعلق تاکیدی حکم دیتا ہے کہ مرد کا حصہ،دوعورتوں کے برابر ہے۔"(النساء4: 11) آیت نازل ہونے کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سعد رضی اللہ عنہ کے بھائی کو بلایا اور فرمایا: "سعد کے ترکے سے دوتہائی اس کی بیٹیوں کو دو،آٹھواں حصہ اس کی بیوہ کو اور باقی ماندہ ترکہ آپ کا ہے۔"(مسند احمد:3/352) بہرحال امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان سے بیٹیوں کی میراث کو ثابت کیا ہے جیسا کہ مندرجہ ذیل احادیث سے واضح ہے۔
حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”مقرر حصے ان کے حق داروں کو دو باقی رہ جائے وہ اس (میت) کے قریبی مذکر رشتے دار کے لیے ہے۔“
حدیث حاشیہ:
(1) اس حدیث سے حجب حرمان کا دوسرا اصول معلوم ہوتا ہے کہ قریبی رشتے دار کی موجودگی میں دور والا رشتے دار محروم ہو جاتا ہے، مثلاً: بیٹا ہو تو پوتے کو کچھ نہیں ملتا اور پوتا موجود ہوتو پڑپوتا محروم ہو جاتا ہے۔ (2) اگر میت، خاوند، باپ، بیٹی، پوتا اور پوتی چھوڑ جائے تو خاوند کو 1/4، باپ کو1/(6 )، بیٹی کو 1/2 دیا جائے گا اور باقی پوتے اور پوتی میں اس طرح تقسیم کیا جائے گا کہ پوتے کو پوتی سے دوگنا ملے گا۔ (3) یتیم پوتے کی وراثت کا مسئلہ: عصر حاضر میں وراثت کے متعلق جس مسئلے کو زیادہ اہمیت دی گئی ہے وہ میت کی اپنی حقیقی اولاد کے ہوتے ہوئے یتیم پوتے اور پوتی کی وراثت کا مسئلہ ہے۔ ان کی بے چارگی اور محتاجی کو بنیاد بنا کر اسے بہت اچھالا گیا ہے، حالانکہ اس مسئلے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک سے لے کر بیسویں صدی تک کوئی اختلاف نہیں پایا جاتا، چنانچہ اس مسئلے میں نہ صرف مشہور فقہی مذاہب، حنفیہ، شافعیہ، مالکیہ اور حنابلہ، نیز شیعہ، زیدیہ، امامیہ اور ظاہریہ سب متفق ہیں، بلکہ غیر معروف ائمہ وفقہاء کا بھی اس کے خلاف کوئی قول منقول نہیں کہ دادا کے انتقال پر اگر اس کا بیٹا موجود ہو تو اس کے دوسرے مرحوم بیٹے کی اولاد، یعنی پوتوں کو اس کی جائیداد سے کچھ نہیں ملے گا، البتہ حکومت پاکستان نے 1961ء میں مارشل لاء کا ایک آرڈی نینس (ordinance) جاری کیا جس کے تحت یہ قانون نافذ کر دیا گیا کہ اگر کوئی شخص مر جائے اور اپنے پیچھے ایسے لڑکے یا لڑکی اولاد چھوڑ جائے جس نے اس کی زندگی میں وفات پائی ہو تو مرحوم یا مرحومہ کی اولاد دیگر بیٹوں کی موجودگی میں اس حصے کو لینے کی حق دار ہوگی جو ان کے باپ یا ماں کو ملنا تھا اگر وہ اس شخص کی وفات کے وقت زندہ ہوتے۔ پاکستان میں اس قانون کے خلاف شریعت ہونے کے متعلق بہت بڑی اکثریت نے دو ٹوک فیصلہ کر دیا تھا کہ یہ قانون امت مسلمہ کے اجتماعی نقطۂ نظر کے خلاف ہے کیونکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’اللہ تعالیٰ تمھیں تمھاری اولاد کے متعلق حکم دیتا ہے کہ مرد کا حصہ دوعورتوں کے برابر ہے۔‘‘ (النساء 4: 11) اس آیت کریمہ میں لفظ اولاد، ولد کی جمع ہے جو جنے ہوئے کہ معنی میں استعمال ہوا ہے۔عربی زبان میں لفظ ولد دو طرح سے مستعمل ہے: ٭حقیقی جو بلا واسطہ جنا ہوا ہو، یعنی بیٹا اور بیٹی وغیرہ۔ ٭مجازی جو کسی واسطے سے جنا ہوا ہو، یعنی پوتا اور پوتی۔ بیٹیوں کی اولاد، یعنی نواسی اور نواسے اس لفظ کے مفہوم میں شامل ہی نہیں کیونکہ نسب باپ سے چلتا ہے، اس بنا پر نواسا اور نواسی لفظ ولد میں شامل ہی نہیں کہ انھیں اولاد سمجھ کر حصہ دیا جائے، نیز یہ بھی ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ جب تک حقیقی معنی کا وجود ہوگا مجازی معنی مراد لینے جائز نہیں ہیں، یعنی لفظ ولد کے حقیقی معنی بیٹے اور بیٹی کی موجودگی میں پوتا اور پوتی مراد نہیں لیے ج اسکتے، لہٰذا آیت کریمہ کا واضح مطلب یہ ہوا کہ حقیقی بیٹے کے ہوتے ہوئے پوتے اور پوتی کا کوئی حق نہیں ہے، خواہ وہ پوتا پوتی زندہ بیٹے سے ہوں یا مرحوم بیٹے سے۔ اس کے متعلق امام جصاص اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں: ’’امت کا اہل علم کا اس میں کوئی اختلاف کہ حق تعالیٰ کے مذکورہ ارشاد میں صرف اولاد مراد ہے، اور اس میں بھی کوئی اختلاف نہیں کہ پوتا، حقیقی بیٹے کے ساتھ اس میں شامل نہیں ہے، نیز اس امر میں بھی کوئی اختلاف نہیں کہ اگر حقیقی بیٹا موجود نہ ہو تو اس سے مراد بیٹوں کی اولاد ہے، بیٹیوں کی نہیں، لہٰذا یہ لفظ صلبی اولاد کے لیے ہے اور جب صلبی اولاد نہ ہو تو بیٹے کی اولاد اس میں شامل ہے۔‘‘ (احکام القرآن:96/2) (3) امام بخاری رحمہ اللہ کی پیش کردہ حدیث سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ مقررہ حصے لینے والوں کے بعد وہ وارث ہوگا جومیت سے قریب تر ہوگا، چنانچہ بیٹا، درجے کے اعتبار سے پوتے کی نسبت قریب تر ہے، اس لیے پوتے کے مقابلے میں صرف بیٹا وارث ہوگا اور پوتا محروم رہے گا، چنانچہ حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہے جس کی تشریح ہم پہلے کر آئے ہیں۔ (4) واضح رہے کہ شریعت نے وراثت کے سلسلے میں الاقرب فالاقرب كے قانون كو پسند كيا ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’ہر ایک کے لیے ہم نے اس ترکے کے وارث بنائے ہیں جسے والدین اور قریب تر رشتے دار چھوڑ جائیں۔‘‘ (النساء 4: 33) اس آیت کریمہ سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ قریبی رشتے دار کی موجودگی میں دور والا رشتے دار محروم ہوگا، لہٰذا بیٹے کی موجودگی میں پوتا وراثت سے حصہ نہیں پائے گا۔ یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ اسلام نے وراثت کے سلسلے میں رشتے داروں کے فقرواحتیاج اور ان کی بے چارگی کو سرے سے بنیاد ہی نہیں بنایا جیسا کہ یتیم پوتے کے متعلق یہ تأثر دے کر جذباتی فضا پیدا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے، بلکہ مستقبل میں مالی معاملات کے متعلق ان کی ذمہ داری کو بنیاد قرار دیا ہے۔ اگر اس سلسلے میں کسی کا محتاج اور بے بس ہونا بنیاد ہوتا تو لڑکی کو لڑکے کے مقابلے میں دوگنا حصہ ملنا چاہیے تھا کیونکہ لڑکے کے مقابلے میں لڑکی مال ودولت کی زیادہ ضرورت مند ہے، اور اس کی بے چارگی کے سبب میت کے مال میں اسے زیادہ حق دار قرار دیا جانا چاہیے تھا جبکہ معاملہ اس کے برعکس ہے۔ اس کا واضح مطلب ہے کہ وراثت میں حاجت مندی عدم کسب معاش یا بے چارگی قطعاً ملحوظ نہیں ہے، البتہ اسلام نے اس جذباتی مسئلے کا حل یوں پیش کیا ہے کہ مرنے والا اپنے یتیم پوتے، پوتیوں اور دیگر غیر وارث حاجت مند رشتہ داروں کے حق میں مرنے سے پہلے اپنے ترکے سے 1/3 حصے کی وصیت کر جائے۔ اگر یتیم پوتے پوتیوں کے موجودگی میں دیگر غیر وارث افراد یا کسی خیراتی ادارے کے لیے وصیت کرتا ہے تو حاکم وقت کو اختیار ہونا چاہیے کہ وہ اس وصیت کو ان کے حق میں کالعدم قرار دے کر ضرورت مند یتیم پوتے پوتیوں کے حق میں اسے نافذ قرار دے، ہاں اگر دادا نے اپنی زندگی میں یتیم پوتے پوتیوں کو بذریعۂ ہبہ جائیداد سے کچھ حصہ پہلے ہی دے دیا ہے تو اس صورت میں وصیت کو کالعدم قرار دینے کے بجائے اسے جوں کا توں نافذ کر دیا جائے۔ واللہ أعلم
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے مسلم بن ابراہیم نے بیان کیا، کہا ہم سے وہیب نے بیان کیا، کہا ہم سے عبداللہ ابن طاؤس نے بیان کیا، ان سے ان کے والد نے اور ان سے حضرت ابن طاؤس نے بیان کیا، ان سے ان کے والد نے اور ان سے حضرت عبداللہ بن عباس ؓ نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا پہلے میراث ان کے وارثوں تک پہنچا دو اور جو باقی رہ جائے وہ اس کو ملے گا جو مرد میت کا بہت نزدیکی رشتہ دار ہو۔
حدیث حاشیہ:
مثلاً بیٹا ہو تو پوتے کو کچھ نہ ملے گا پوتا ہو تو پڑ پوتے کو کچھ نہ ملے گا۔ اگر کوئی میت خاوند اور باپ اور بیٹی اور پوتا چھوڑ جائے تو خاوند کو چوتھائی باپ کا چھٹا حصہ بیٹی کو آدھا حصہ دے کر مابقی پوتا پوتی میں تقسیم ہوگا۔ ﴿للذکرِ مِثلُ حَظِّ الأُنثیینِ﴾(النساء: 11)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Ibn 'Abbas (RA) : Allah's Apostle (ﷺ) said, "Give the Fara'id (shares prescribed in the Qur'an) to those who are entitled to receive it; and whatever remains, should be given to the closest male relative of the deceased.'