باب : اگر کسی کے لڑکا نہ ہو تو پوتے کی میراث کا بیان؟
)
Sahi-Bukhari:
Laws of Inheritance (Al-Faraa'id)
(Chapter: The inheritance of one’s grandchild)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
زید بن ثابت نے کہا کہ بیٹوں کی اولاد بیٹوں کے درجہ میں ہے۔ اگر مرنے والے کا کوئی بیٹا نہ ہو۔ ایسی صورت میں پوتے بیٹوں کی طرح اور پوتیاں بیٹیوں کی طرح ہوں گی۔ انہیں اسی طرح وراثت ملے گی جس طرح بیٹوں اور بیٹیوں کو ملتی ہے اور ان کی وجہ سے بہت سے عزیز و اقارب اسی طرح وراثت کے حق سے محروم ہوجائیں گے جس طرح بیٹوں اور بیٹیوں کی موجودگی میں محروم ہوجاتے ہیں، البتہ اگر بیٹاموجود ہو تو پوتا وراثت میں کچھ نہیں پائے گا۔ اس صورت میں دادا اس کے لئے حسب شریعت وصیت کرے گا۔ اس صورت میں اسے ترکہ میں سے مل جائے گا۔
6736.
حضرت ہذیل بن شرجیل سے روایت ہے انہوں نے کہا: حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ سے بیٹی، پوتی اور بہن کی وراثت کے متعلق دریافت کیا گیا تو انہوں نے فرمایا: بیٹی کے لیے نصف اور بہن کے لیے بھی نصف ہے۔ تم حضرت ابن مسعود ؓ کے پاس جاؤ وہ بھی اس مسئلے میں میری موافقت کریں گے۔ پھر جب حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے پوچھا گیا اور انہیں حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ کی بات پہنچائی گئی تو انہوں نے فرمایا: اگر میں ایسا فتوٰی دے دوں تو یقیناً میں گمراہ ہو گیا اور ٹھیک راستے سے بھٹک گیا۔ میں اس کے متعلق وہی فیصلہ کروں گا جو نبی ﷺ نے کیا تھا کہ بیٹی کو نصف ملے گا پوتی کو چھٹا حصہ دیا جائے گا، اس طرح دو تہائی پورے ہو جائیں گے اور جو باقی بچے گا وہ بہن کو دیا جائے گا، وہ بہن کو دیا جائے گا۔ ہم دوبارہ حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ کے پاس آئے اور انہیں حضرت ابن مسعود ؓ کے فتویٰ سے آگاہ کیا تو انہوں نے فرمایا: جب تک علم کا یہ سمندر تم میں موجود ہے مجھ سےمسائل نہ پوچھا کرو۔
تشریح:
(1) یہ واقعہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں پیش آیا کیونکہ انھوں نے حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کو کوفہ کا حاکم بنایا تھا۔ اس سے پہلے حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ وہاں کے امیر تھے۔ انھیں معزول کر کے ان کی جگہ حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کی تعیناتی عمل میں آئی تھی۔ حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کے ساتھ مذکورہ فتویٰ دینے میں سلمان بن ربیعہ باہلی بھی شریک تھے جنھیں جنگی گھوڑوں کے متعلق بہت مہارت تھی، اس لیے انھیں سلمان بن الخیل کہا جاتا تھا۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے فتوے کے بعد دونوں حضرات نے اپنے موقف سے رجوع کرلیا تھا۔(فتح الباري:32/12) (2) حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ کے فتوے کی بنیاد قرآن کی ظاہری آیات تھیں کیونکہ قرآن کریم میں ایک بیٹی کے متعلق نصف حصہ ملنے کی صراحت موجود ہے۔ اسی طرح ایک بہن کو نصف ملنے کی بھی وضاحت ہے۔ جب میت کا ترکہ پورا تقسیم ہوگیا تو بہن کے لیے کچھ نہین بچا، اس لیے وہ محروم ہوگئی، لیکن حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا موقف تھا کہ اللہ تعالیٰ نے لڑکیوں کو زیادہ سےزیادہ دو تہائی دیا ہے، جب ایک لڑکی کو نصف دیا تو دوتہائی سے1/6 باقی بچا جو دوتہائی پورا کرنے کے لیے پوتی کو دیا جائے گا۔ چونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: بہنوں کو بیٹیوں کے ساتھ عصبہ بنایا جائے۔ (صحیح البخاري، الفرائض، حدیث:6742) اس لیے دوتہائی سے باقی ماندہ1/3 بہن کو مل جائے گا۔ اس کی تائید رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلے سے بھی ہوتی ہے، جس کی طرف حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے اشارہ فرمایا ہے۔ واللہ أعلم
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6497
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6736
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
6736
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
6736
تمہید کتاب
فرائض، فريضة کی جمع ہے۔ فریضہ اس ذمہ داری کو کہتے ہیں جو مکلف پر شرعاً عائد کی جائے، جیسے: نماز، روزہ، حج اور زکاۃ وغیرہ فرض ہیں۔ میراث کو بھی فریضہ اور فرض کہا جاتا ہے جس کے لغوی معنی ہیں: کاٹنا اور مقرر کرنا۔ کہا جاتا ہے کہ میں نے اتنا مال فلاں کے لیے کاٹ کر الگ رکھ دیا۔ مواریث میں فرائض سے مراد وراثت کے مستحق لوگوں کے لیے وہ مقرر حصے ہیں جو قرآن و حدیث میں بیان ہوئے ہیں۔ ان میں کمی بیشی جائز نہیں۔ یہ نام قرآن کریم کی آیت کریمہ (نَصِيبًا مَّفْرُوضًا) سے ماخوذ ہے۔ (النساء: 4/7) کتاب الفرائض میں امام بخاری رحمہ اللہ نے ترکے کے مسائل اور ورثاء کو ملنے والے حصے بیان کیے ہیں۔ فرائض کا علم ایک ایسا علم ہے جس کی بہت سی تفصیلات ہیں۔ ان سے آگاہ ہونا ہر کسی کا کام نہیں کیونکہ ان میں علم ریاضی اور حساب، نیز جدید اعشاری قواعد و ضوابط کی ضرورت پڑتی ہے۔ ہم تمہید کے طور پر چند حقائق ذکر کرتے ہیں تاکہ صحیح بخاری میں آمدہ وراثت کے احکام و مسائل سمجھنے میں آسانی ہو۔٭ اسلام دین فطرت ہے، اس لیے انسان کی فطری خواہشات کا احترام کرتے ہوئے اس میں شخصی جائیداد اور انفرادی ملکیت کی پوری پوری گنجائش ہے۔ اس میں احکام وصیت و وراثت اور مسائل ہبہ و وقف کا ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ انفرادی نظریۂ ملکیت ایک تسلیم شدہ حقیقت ہے، پھر تمدن کی ترقی کے لیے انتقال ملکیت بھی ضروری ہے جس کی دو صورتیں ممکن ہیں ایک اختیاری اور دوسری غیر اختیاری۔ اختیاری انتقال ملکیت کی دو صورتیں حسب ذیل ہیں: ٭ معاوضہ لے کر کوئی چیز دوسرے کے حوالے کرنا ایسا اشیائے خریدوفروخت یا اس کے مشابہ لین دین میں ہوتا ہے۔ ٭ بلا معاوضہ کوئی چیز دوسرے کے حوالے کرنا۔ اس کی مزید دو قسمیں ہیں: اگر بلا معاوضہ انتقال ملکیت بحالت صحت ہو اور اپنی زندگی میں کوئی چیز دوسرے کے حوالے کر دی جائے تو اسے ہبہ یا ہدیہ کہا جاتا ہے اور اگر بلا معاوضہ انتقال ملکیت بحالت مرض موت ہو اور مرنے کے بعد وہ چیز کسی دوسرے کو ملے تو اسے وصیت کہا جاتا ہے۔ انتقال ملکیت کی دوسری صورت جو غیر اختیاری ہے اس میں ایک انسان کی مملوکہ اشیاء خودبخود اس کے ورثاء کی طرف منتقل ہو جاتی ہیں۔ اس میں انتقال کرنے والے کے ارادے، نیت یا اختیار کو قطعاً کوئی دخل نہیں ہوتا، اس غیر اختیاری انتقال ملکیت کو شرعی اصطلاح میں ''وراثت'' کہا جاتا ہے۔انتقال ملکیت کے ان مذکورہ دونوں طریقوں میں ایک بنیادی فرق یہ بھی ہے کہ اختیاری طریقۂ انتقال میں بعض اوقات ایجاب و قبول اور بعض صورتوں میں صرف ایجاب شرط ہوتا ہے جیسا کہ خریدوفروخت اور وقف میں ہوتا ہے جبکہ وراثت میں ایجاب و قبول نہیں ہوتا بلکہ اس کے بغیر ہی وارث اس کا مالک بن جاتا ہے۔آغاز اسلام میں انتقال ملکیت کے لیے وصیتی طریقہ رائج کیا گیا۔ اس کی بنیاد یہ تھی کہ جائیداد کا مالک خود اس امر کا اہتمام کرتا کہ اس کے مرنے اس کی جائیداد کا بندوبست کس طرح ہو اور کون کون لوگ اس میں حصہ دار ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ''تم پر یہ فرض کر دیا گیا ہے کہ تم میں سے کسی کو موت آ جائے اور کچھ مال و دولت چھوڑے جا رہا ہو تو مناسب طور پر اپنے والدین اور رشتہ داروں کے حق میں وصیت کر جائے، ایسا کرنا اہل تقویٰ کے ذمے حق ہے۔'' (البقرۃ: 2/180) لیکن انسان کی خودغرضی اسے اکثر اوقات ظلم و زیادتی پر آمادہ کر دیتی ہے جس کے نتیجے میں کسی رشتہ دار کی ناجائز طرف داری یا بلاوجہ حق تلفی ہو جاتی ہے جو خاندان کے مختلف افراد کے درمیان رسہ کشی کا باعث بن جاتی ہے۔ اسلام نے اس سلسلے میں واضح طور پر رہنمائی فرمائی، ارشاد باری تعالیٰ ہے: ''البتہ جس شخص کو وصیت کرنے والے کی طرف سے کسی کے متعلق جانب داری یا حق تلفی کا اندیشہ ہو اور وہ ورثاء میں سمجھوتہ کرا دے تو اس پر کچھ گناہ نہیں۔'' (البقرۃ: 2/182) اسلام نے دانستہ یا نادانستہ طرف داری یا حق تلفی کا اس طرح سدباب کیا ہے کہ مُوَرِث، یعنی فوت ہونے والے کو ایک تہائی کی حد تک وصیت کا اختیار دے کر باقی ترکے کی تقسیم کے لیے واضح اصول مقرر کر دیے تاکہ خاندان میں عزیز و اقارب کے درمیان نفرت و عداوت پیدا نہ ہو، نیز صلہ رحمی اور ہمدردی کے جذبات بھی ماند نہ پڑیں۔اس کے علاوہ وراثت کے احکام کو اس اصول پر استوار کیا کہ فوت ہونے والے کا ترکہ ان لوگوں میں تقسیم ہو جو اپنی قرابت داری کے اعتبار سے مرحوم کی جائیداد کے زیادہ حق دار ہوں، پھر حق وراثت کو ایسا محکم اور پختہ فرض قرار دیا ہے جس میں تغیر و تبدل کی قطعاً کوئی گنجائش نہیں۔ بعض دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ انسان اپنے پیچھے ایک سے زیادہ قرابت دار چھوڑ جاتا ہے جن کے متعلق وہ فیصلہ نہیں کر پاتا کہ اس کے حقوق دوسرے قرابت داروں کے اعتبار سے زیادہ اہم ہیں۔ عقل انسانی کے اس تذبذب کو اللہ تعالیٰ نے ان الفاظ میں دور فرمایا: ''تم نہیں سمجھ سکتے کہ تمہیں فائدہ پہنچانے کے لحاظ سے تمہارے والدین اور تمہاری اولاد میں سے کون تمہارے قریب تر ہے۔ یہ اللہ کی طرف سے مقرر کردہ حصے ہیں۔ یقیناً اللہ تعالیٰ سب کچھ جاننے والا کمال حکمت والا ہے۔'' (النساء: 4/114) لیکن افسوس کہ وراثت کے متعلق کتاب و سنت میں بیان کردہ واضح شرعی احکام اور ان کی خلاف ورزی پر کھلی وعید کے باوجود ہم مسلمان اس سلسلے میں برسرعام خلاف ورزی کرتے ہیں اور واضح طور پر افراط و تفریط کا شکار ہیں۔ ایک طرف مزعومہ عاق نامے کے ذریعے سے اپنی اولاد کو ان کے شرعی حق سے محروم کر دیتے ہیں تو دوسری طرف اپنے بیٹوں کی موجودگی میں اپنے پوتوں کو وراثت میں برابر کا حصے دار ٹھہراتے ہیں۔ اسی طرح ترکے کے متعلق بھی ہمارے ہاں بہت غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں۔ عام طور پر ترکہ اسے خیال کیا جاتا ہے جو باپ دادا سے بطور وراثت ملا ہو اور جو کچھ اپنی محنت سے کمایا اسے ترکے میں شمار نہیں کیا جاتا، حالانکہ ہر منقولہ اور غیر منقولہ جائیداد کو شرعاً ترکہ کہا جاتا ہے جو مرنے کے بعد اس نے اپنے پیچھے چھوڑی ہو اور کسی دوسرے شخص کا اس میں کوئی حق نہ ہو۔ ایک اور مسئلہ جس کی طرف توجہ دلانا ضروری ہے اور اس کا تعلق بھی تقسیم جائیداد سے ہے لیکن ہم اس سلسلے میں کوتاہی کا شکار ہیں، وہ یہ ہے کہ اولاد کی طرف سے بعض اوقات والد پر دباؤ ڈالا جاتا ہے یا والد ازخود کسی پیش بندی کے طور پر اپنی جائیداد زندگی ہی میں تقسیم کر دیتا ہے، حالانکہ ایسا کرنا انتہائی محل نظر ہے کیونکہ ضابطۂ وراثت کے اجراء کے لیے مُوَرِث کی موت کا یقین اور وارث کا زندہ ہونا ضروری ہے۔ زندگی میں ضابطۂ وراثت کے مطابق جائیداد کا تقسیم کرنا کئی ایک خطرات کا پیش خیمہ ہو سکتا ہے، ہاں اگر اولاد کو بطور ہبہ کچھ دینا چاہے تو اس کی شرعاً گنجائش ہے، بشرطیکہ تمام بیٹوں اور بیٹیوں کو برابر ہبہ دیا جائے۔ چند ایک کو دینا اور دوسروں کو نظر انداز کرنا شرعی طور پر جائز نہیں۔ اس کے علاوہ دوسرے شرعی ورثاء کو محروم کرنے کے لیے ہبہ کو بطور حیلہ استعمال کرنا بھی ظلم اور زیادتی ہے۔دراصل ہمارے ہاں جہالت کا دور دورہ ہے۔ عصر حاضر میں علم فرائض کو بالکل نظر انداز کر دیا گیا ہے۔ اکثر علمائے کرام بھی اس سے بے بہرہ ہیں، حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے متعلق بہت تاکید فرمائی ہے۔ فرمان نبوی ہے: ''علم وراثت سیکھو اور دوسروں کو بھی سکھاؤ کیونکہ جلد ہی میری موت واقع ہو جائے گی، علم فرائض بھی قبض کر لیا جائے گا، فتنے رونما ہوں گے حتی کہ دو آدمی اپنے کسی مقررہ حصے میں اختلاف کریں گے اور کوئی آدمی ایسا نہیں پائیں گے جو ان میں فیصلہ کر سکے۔'' (المستدرک للحاکم: 4/333) امام بخاری رحمہ اللہ نے اس سلسلے میں ہماری مکمل رہنمائی فرمائی ہے۔ انہوں نے کتاب الفرائض میں وراثت کے بہت سے پیچیدہ مسائل بیان فرمائے ہیں۔ وراثت کے علاوہ دیگر بے شمار معاشرتی مسائل بھی ذکر کیے ہیں جن سے امام بخاری رحمہ اللہ کی وسعت علم کا اندازہ ہوتا ہے۔ آپ نے اس سلسلے میں تنتالیس (43) مرفوع احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں سینتیس (37) مکرر اور باقی چھ (6) خالص ہیں، اس کے علاوہ تنتالیس (43) مرفوع احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں سینتیس (37) مکرر اور باقی چھ (6) خالص ہیں، اس کے علاوہ چوبیس (24) آثار بھی ذکر کیے ہیں جو صحابۂ کرام اور تابعین عظام سے مروی ہیں، پھر آپ نے ان منتخب احادیث پر تیس (30) سے زیادہ چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن میں وراثت کی اہمیت، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وراثت، قیدی کی وراثت، جو خود کو اپنے باپ کے علاوہ کسی دوسرے کی طرف منسوب کرتا ہے، قیافہ شناس وغیرہ بہت اہم ہیں۔ اس کے علاوہ متعدد اسنادی مباحث ہیں جن کی ہم موقع و محل کی مناسبت سے وضاحت کریں گے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں ان سے فائدہ حاصل کرنے کی توفیق دے اور ہمیں حقوق العباد ادا کرنے کی توفیق بخشے۔ آمین نوٹ: ہم نے ''اسلامی قانون وراثت'' نامی کتاب پر ایک مدلل مقدمہ لکھا ہے، قارئین سے گزارش ہے کہ وہ صحیح بخاری کو پڑھتے ہوئے اسے ضرور زیر مطالعہ لائیں۔ یہ کتاب دارالسلام نے ہی شائع کی ہے۔
تمہید باب
بیٹا پوتے کے لیے حاجب ہے۔یہ لفظ حجب سے ماخوذ ہے۔لغوی طور پر اس کے معنی روکنے اور پردہ کرنے کے ہیں۔ اصطلاح میں کسی وارث کی موجودگی دوسرے کو کل یا بعض حصے سے محروم کردے تو اسے حجب کہتے ہیں۔اس کی دو قسمیں ہیں: ٭حجب نقصان۔٭حجب حرمان۔ حجب نقصان: کسی وارث کا دوسرے کے پائے جانے کی وجہ سے زیادہ حصے سے کم حصے کی طرف منتقل ہوجانا، مثلاً: خاوند کا میت کی اولاد کی وجہ سے نصف سے چوتھائی کی طرف منتقل ہوجانا۔یہ صرف پانچ افراد میں ہوت ہے:٭ خاوند۔٭ بیوی۔٭ ماں۔٭ پوتی۔٭پدری بہن۔ حجب حرمان: کسی وارث کا دوسرے وارث کی وجہ سے کل حصے سے محروم ہوجانا، مثلاً: بیٹے کی موجودگی میں پوتے اور باپ کی موجود گی میں دادے کا محروم ہوجانا،حجب حرمان ہے۔مندرجہ ذیل افراد کے علاوہ باقی تمام ورثاء میں حجب حرمان ممکن ہے۔٭ابوين (ماں، باپ)٭ زوجين (مياں، بيوی)٭ولدين (بیٹا، بیٹی)۔ حجب حرمان معلوم کرنے کے دو اصول حسب ذیل ہیں: جس وارث کی وجہ سے کوئی شخص میت کی طرف منسوب ہوتو اس کی موجودگی میں وہ محروم ہوجاتا ہے،مثلاً: باپ کی موجودگی میں دادے کا محروم ہوجانا ۔٭قریب رشتے دار کی موجودگی میں دور والے رشتے دار محروم ہوتے ہیں،مثلاً: بیٹے کی موجودگی میں پوتا محروم ہوجاتا ہے۔
زید بن ثابت نے کہا کہ بیٹوں کی اولاد بیٹوں کے درجہ میں ہے۔ اگر مرنے والے کا کوئی بیٹا نہ ہو۔ ایسی صورت میں پوتے بیٹوں کی طرح اور پوتیاں بیٹیوں کی طرح ہوں گی۔ انہیں اسی طرح وراثت ملے گی جس طرح بیٹوں اور بیٹیوں کو ملتی ہے اور ان کی وجہ سے بہت سے عزیز و اقارب اسی طرح وراثت کے حق سے محروم ہوجائیں گے جس طرح بیٹوں اور بیٹیوں کی موجودگی میں محروم ہوجاتے ہیں، البتہ اگر بیٹاموجود ہو تو پوتا وراثت میں کچھ نہیں پائے گا۔ اس صورت میں دادا اس کے لئے حسب شریعت وصیت کرے گا۔ اس صورت میں اسے ترکہ میں سے مل جائے گا۔
حدیث ترجمہ:
حضرت ہذیل بن شرجیل سے روایت ہے انہوں نے کہا: حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ سے بیٹی، پوتی اور بہن کی وراثت کے متعلق دریافت کیا گیا تو انہوں نے فرمایا: بیٹی کے لیے نصف اور بہن کے لیے بھی نصف ہے۔ تم حضرت ابن مسعود ؓ کے پاس جاؤ وہ بھی اس مسئلے میں میری موافقت کریں گے۔ پھر جب حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے پوچھا گیا اور انہیں حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ کی بات پہنچائی گئی تو انہوں نے فرمایا: اگر میں ایسا فتوٰی دے دوں تو یقیناً میں گمراہ ہو گیا اور ٹھیک راستے سے بھٹک گیا۔ میں اس کے متعلق وہی فیصلہ کروں گا جو نبی ﷺ نے کیا تھا کہ بیٹی کو نصف ملے گا پوتی کو چھٹا حصہ دیا جائے گا، اس طرح دو تہائی پورے ہو جائیں گے اور جو باقی بچے گا وہ بہن کو دیا جائے گا، وہ بہن کو دیا جائے گا۔ ہم دوبارہ حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ کے پاس آئے اور انہیں حضرت ابن مسعود ؓ کے فتویٰ سے آگاہ کیا تو انہوں نے فرمایا: جب تک علم کا یہ سمندر تم میں موجود ہے مجھ سےمسائل نہ پوچھا کرو۔
حدیث حاشیہ:
(1) یہ واقعہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں پیش آیا کیونکہ انھوں نے حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کو کوفہ کا حاکم بنایا تھا۔ اس سے پہلے حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ وہاں کے امیر تھے۔ انھیں معزول کر کے ان کی جگہ حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کی تعیناتی عمل میں آئی تھی۔ حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کے ساتھ مذکورہ فتویٰ دینے میں سلمان بن ربیعہ باہلی بھی شریک تھے جنھیں جنگی گھوڑوں کے متعلق بہت مہارت تھی، اس لیے انھیں سلمان بن الخیل کہا جاتا تھا۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے فتوے کے بعد دونوں حضرات نے اپنے موقف سے رجوع کرلیا تھا۔(فتح الباري:32/12) (2) حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ کے فتوے کی بنیاد قرآن کی ظاہری آیات تھیں کیونکہ قرآن کریم میں ایک بیٹی کے متعلق نصف حصہ ملنے کی صراحت موجود ہے۔ اسی طرح ایک بہن کو نصف ملنے کی بھی وضاحت ہے۔ جب میت کا ترکہ پورا تقسیم ہوگیا تو بہن کے لیے کچھ نہین بچا، اس لیے وہ محروم ہوگئی، لیکن حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا موقف تھا کہ اللہ تعالیٰ نے لڑکیوں کو زیادہ سےزیادہ دو تہائی دیا ہے، جب ایک لڑکی کو نصف دیا تو دوتہائی سے1/6 باقی بچا جو دوتہائی پورا کرنے کے لیے پوتی کو دیا جائے گا۔ چونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: بہنوں کو بیٹیوں کے ساتھ عصبہ بنایا جائے۔ (صحیح البخاري، الفرائض، حدیث:6742) اس لیے دوتہائی سے باقی ماندہ1/3 بہن کو مل جائے گا۔ اس کی تائید رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلے سے بھی ہوتی ہے، جس کی طرف حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے اشارہ فرمایا ہے۔ واللہ أعلم
ترجمۃ الباب:
حضرت زیدبن ثابت ؓ نے فرمایا: بیٹوں کی اولاد بیٹوں کے درجے میں ہے۔ اگر مرنے والے کا کوئی بیٹا نہ ہو تو ایسی صورت میں پوتے بیٹوں کی طرح اور پوتیاں بیٹیوں کی طرح ہوں گی۔ انہیں اسی طرح وراثت ملے گی جس طرح بیٹوں اور بیٹیوں کو ملتی ہے۔ ان کی وجہ سے کچھ رشتے دار اسی طرح حق وراثت سے محروم ہوں گے جس طرح بیٹوں اور بیٹیوں کی موجودگی میں محروم ہوجاتے ہیں۔ البتہ اگر بیٹا ہوتو پوتا وراثت میں سے کچھ نہیں پائے گا۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے، کہا ہم سے ابوقیس عبدالرحمن بن ثروان نے، انہوں نے ہزیل بن شرحبیل سے سنا، بیان کیا کہ ابوموسیٰ ؓ سے بیٹی، پوتی اور بہن کی میراث کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ بیٹی کو آدھا ملے گا اور بہن کو آدھا ملے گا اور تو ابن مسعود ؓ کے یہاں جا، شاید وہ بھی یہی بتائیں گے۔ پھر ابن مسعود ؓ سے پوچھا گیا اور ابوموسیٰ ؓ کی بات بھی پہنچائی گئی تو انہوں نے کہا کہ میں اگر ایسا فتویٰ دوں تو گمراہ ہو چکا اور ٹھیک راستے سے بھٹک گیا۔ میں تو اس میں وہی فیصلہ کروں گا جو رسول اللہ ﷺ نے کیا تھا کہ بیٹی کو آدھا ملے گا، پوتھی کو چھٹا حصہ ملے گا، اس طرح دو تہائی پوری ہو جائے گی اور پھر جو باقی بچے گا وہ بہن کو ملے گا۔ پھر ابوموسیٰ ؓ کے پاس آئے اور ابن مسعود ؓ کی گفتگو ان تک پہنچائی تو انہوں نے کہا کہ جب تک یہ عالم تم میں موجود ہیں مجھ سے مسائل نہ پوچھا کرو۔
حدیث حاشیہ:
حضرت سلمان فارسی بھی اس مسئلہ میں یہی حکم دیتے تھے جو ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ نے دیا تھا۔ کہتے ہیں کہ اس کے بعد ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ نے اپنے قول سے رجوع کر لیا تھا۔ یہاں سے مقلدین جامدین کو سبق لینا چاہئے کہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے جب حدیث بیان کی تو حضرت ابوموسیٰ نے اپنے قیاس اور رائے کو چھوڑ دیا بلکہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے سامنے اپنے کو ناقابل فتویٰ قرار دیا۔ ایمانداری اور انصاف پروری اسی کا نام ۔ دعوا کل قول عند قول محمد (صلی اﷲ علیه وسلم)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Huzail bin Shirahbil (RA) : Abu Musa (RA) was asked regarding (the inheritance of) a daughter, a son's daughter, and a sister. He said, "The daughter will take one-half and the sister will take one-half. If you go to Ibn Mas'ud (RA), he will tell you the same." Ibn Mas'ud (RA) was asked and was told of Abu Musa's verdict. Ibn Mas'ud (RA) then said, "If I give the same verdict, I would stray and would not be of the rightly-guided. The verdict I will give in this case, will be the same as the Prophet (ﷺ) did, i.e. one-half is for daughter, and one-sixth for the son's daughter, i.e. both shares make two-thirds of the total property; and the rest is for the sister." Afterwards we cams to Abu Musa (RA) and informed him of Ibn Mas'ud's verdict, whereupon he said, "So, do not ask me for verdicts, as long as this learned man is among you."