Sahi-Bukhari:
Laws of Inheritance (Al-Faraa'id)
(Chapter: The Qa’if)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
6771.
سیدہ عائشہ ؓ ہی سے روایت ہے،انہوں نے کہا: ایک دن رسول اللہ ﷺ میرے ہاں بہت خوش خوش تشریف لائے اور فرمایا: ”اے عائشہ! تم نے نہیں دیکھا کہ مجزز مدلجی آیا اور اس نے حضرت اسامہ اور زید کو دیکھا جبکہ ان دونوں کے جسم پر ایک چادر تھی، جس نے دونوں کے سروں کو چھپا رکھا تھا، ان کے صرف پاؤں کھلے تھے تو اس نے کہا: یہ پاؤں ایک دوسرے سے تعلق رکھتے ہیں۔“
تشریح:
(1) زمانۂ جاہلیت میں لوگ حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ کے نسب میں بہت طعن کرتے تھے کیونکہ ان کا رنگ انتہائی سیاہ تھا، جبکہ ان کے والد گرامی حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ بہت سفید تھے۔ حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ اس لیے سیاہ تھے کہ ان کی والدہ حضرت ام ایمن رضی اللہ عنہما سیاہ فام تھی۔ ان دونوں کے رنگ مختلف ہونے کے باوجود قیافہ شناس نے ان کے پاؤں دیکھ کر کہا یہ باپ بیٹے کے قدم ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قیافہ شناس کی بات سے بہت خوش ہوئے کیونکہ اس سے طعن کرنے والوں کے منہ بند ہوگئے۔ (2) اگرچہ قیافہ شناسی سے کوئی حکم ثابت نہیں ہوتا، تاہم ثابت شدہ حکم کی تائید اس سے ضرور ہوتی ہے۔ حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ کا نسب پہلے سے ثابت شدہ تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نسب کے اثبات کے لیے اس قسم کے اندازے اور قیافے کے محتاج نہ تھے، تاہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قیافہ شناس کی تردید نہیں کی کیونکہ اس سے کوئی نیا حکم ثابت کرنا مقصود نہ تھا جو پہلے سے ثابت نہ ہو۔ (فتح الباري: 70/12، وعمدة القاري:51/16)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6531
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6771
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
6771
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
6771
تمہید کتاب
فرائض، فريضة کی جمع ہے۔ فریضہ اس ذمہ داری کو کہتے ہیں جو مکلف پر شرعاً عائد کی جائے، جیسے: نماز، روزہ، حج اور زکاۃ وغیرہ فرض ہیں۔ میراث کو بھی فریضہ اور فرض کہا جاتا ہے جس کے لغوی معنی ہیں: کاٹنا اور مقرر کرنا۔ کہا جاتا ہے کہ میں نے اتنا مال فلاں کے لیے کاٹ کر الگ رکھ دیا۔ مواریث میں فرائض سے مراد وراثت کے مستحق لوگوں کے لیے وہ مقرر حصے ہیں جو قرآن و حدیث میں بیان ہوئے ہیں۔ ان میں کمی بیشی جائز نہیں۔ یہ نام قرآن کریم کی آیت کریمہ (نَصِيبًا مَّفْرُوضًا) سے ماخوذ ہے۔ (النساء: 4/7) کتاب الفرائض میں امام بخاری رحمہ اللہ نے ترکے کے مسائل اور ورثاء کو ملنے والے حصے بیان کیے ہیں۔ فرائض کا علم ایک ایسا علم ہے جس کی بہت سی تفصیلات ہیں۔ ان سے آگاہ ہونا ہر کسی کا کام نہیں کیونکہ ان میں علم ریاضی اور حساب، نیز جدید اعشاری قواعد و ضوابط کی ضرورت پڑتی ہے۔ ہم تمہید کے طور پر چند حقائق ذکر کرتے ہیں تاکہ صحیح بخاری میں آمدہ وراثت کے احکام و مسائل سمجھنے میں آسانی ہو۔٭ اسلام دین فطرت ہے، اس لیے انسان کی فطری خواہشات کا احترام کرتے ہوئے اس میں شخصی جائیداد اور انفرادی ملکیت کی پوری پوری گنجائش ہے۔ اس میں احکام وصیت و وراثت اور مسائل ہبہ و وقف کا ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ انفرادی نظریۂ ملکیت ایک تسلیم شدہ حقیقت ہے، پھر تمدن کی ترقی کے لیے انتقال ملکیت بھی ضروری ہے جس کی دو صورتیں ممکن ہیں ایک اختیاری اور دوسری غیر اختیاری۔ اختیاری انتقال ملکیت کی دو صورتیں حسب ذیل ہیں: ٭ معاوضہ لے کر کوئی چیز دوسرے کے حوالے کرنا ایسا اشیائے خریدوفروخت یا اس کے مشابہ لین دین میں ہوتا ہے۔ ٭ بلا معاوضہ کوئی چیز دوسرے کے حوالے کرنا۔ اس کی مزید دو قسمیں ہیں: اگر بلا معاوضہ انتقال ملکیت بحالت صحت ہو اور اپنی زندگی میں کوئی چیز دوسرے کے حوالے کر دی جائے تو اسے ہبہ یا ہدیہ کہا جاتا ہے اور اگر بلا معاوضہ انتقال ملکیت بحالت مرض موت ہو اور مرنے کے بعد وہ چیز کسی دوسرے کو ملے تو اسے وصیت کہا جاتا ہے۔ انتقال ملکیت کی دوسری صورت جو غیر اختیاری ہے اس میں ایک انسان کی مملوکہ اشیاء خودبخود اس کے ورثاء کی طرف منتقل ہو جاتی ہیں۔ اس میں انتقال کرنے والے کے ارادے، نیت یا اختیار کو قطعاً کوئی دخل نہیں ہوتا، اس غیر اختیاری انتقال ملکیت کو شرعی اصطلاح میں ''وراثت'' کہا جاتا ہے۔انتقال ملکیت کے ان مذکورہ دونوں طریقوں میں ایک بنیادی فرق یہ بھی ہے کہ اختیاری طریقۂ انتقال میں بعض اوقات ایجاب و قبول اور بعض صورتوں میں صرف ایجاب شرط ہوتا ہے جیسا کہ خریدوفروخت اور وقف میں ہوتا ہے جبکہ وراثت میں ایجاب و قبول نہیں ہوتا بلکہ اس کے بغیر ہی وارث اس کا مالک بن جاتا ہے۔آغاز اسلام میں انتقال ملکیت کے لیے وصیتی طریقہ رائج کیا گیا۔ اس کی بنیاد یہ تھی کہ جائیداد کا مالک خود اس امر کا اہتمام کرتا کہ اس کے مرنے اس کی جائیداد کا بندوبست کس طرح ہو اور کون کون لوگ اس میں حصہ دار ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ''تم پر یہ فرض کر دیا گیا ہے کہ تم میں سے کسی کو موت آ جائے اور کچھ مال و دولت چھوڑے جا رہا ہو تو مناسب طور پر اپنے والدین اور رشتہ داروں کے حق میں وصیت کر جائے، ایسا کرنا اہل تقویٰ کے ذمے حق ہے۔'' (البقرۃ: 2/180) لیکن انسان کی خودغرضی اسے اکثر اوقات ظلم و زیادتی پر آمادہ کر دیتی ہے جس کے نتیجے میں کسی رشتہ دار کی ناجائز طرف داری یا بلاوجہ حق تلفی ہو جاتی ہے جو خاندان کے مختلف افراد کے درمیان رسہ کشی کا باعث بن جاتی ہے۔ اسلام نے اس سلسلے میں واضح طور پر رہنمائی فرمائی، ارشاد باری تعالیٰ ہے: ''البتہ جس شخص کو وصیت کرنے والے کی طرف سے کسی کے متعلق جانب داری یا حق تلفی کا اندیشہ ہو اور وہ ورثاء میں سمجھوتہ کرا دے تو اس پر کچھ گناہ نہیں۔'' (البقرۃ: 2/182) اسلام نے دانستہ یا نادانستہ طرف داری یا حق تلفی کا اس طرح سدباب کیا ہے کہ مُوَرِث، یعنی فوت ہونے والے کو ایک تہائی کی حد تک وصیت کا اختیار دے کر باقی ترکے کی تقسیم کے لیے واضح اصول مقرر کر دیے تاکہ خاندان میں عزیز و اقارب کے درمیان نفرت و عداوت پیدا نہ ہو، نیز صلہ رحمی اور ہمدردی کے جذبات بھی ماند نہ پڑیں۔اس کے علاوہ وراثت کے احکام کو اس اصول پر استوار کیا کہ فوت ہونے والے کا ترکہ ان لوگوں میں تقسیم ہو جو اپنی قرابت داری کے اعتبار سے مرحوم کی جائیداد کے زیادہ حق دار ہوں، پھر حق وراثت کو ایسا محکم اور پختہ فرض قرار دیا ہے جس میں تغیر و تبدل کی قطعاً کوئی گنجائش نہیں۔ بعض دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ انسان اپنے پیچھے ایک سے زیادہ قرابت دار چھوڑ جاتا ہے جن کے متعلق وہ فیصلہ نہیں کر پاتا کہ اس کے حقوق دوسرے قرابت داروں کے اعتبار سے زیادہ اہم ہیں۔ عقل انسانی کے اس تذبذب کو اللہ تعالیٰ نے ان الفاظ میں دور فرمایا: ''تم نہیں سمجھ سکتے کہ تمہیں فائدہ پہنچانے کے لحاظ سے تمہارے والدین اور تمہاری اولاد میں سے کون تمہارے قریب تر ہے۔ یہ اللہ کی طرف سے مقرر کردہ حصے ہیں۔ یقیناً اللہ تعالیٰ سب کچھ جاننے والا کمال حکمت والا ہے۔'' (النساء: 4/114) لیکن افسوس کہ وراثت کے متعلق کتاب و سنت میں بیان کردہ واضح شرعی احکام اور ان کی خلاف ورزی پر کھلی وعید کے باوجود ہم مسلمان اس سلسلے میں برسرعام خلاف ورزی کرتے ہیں اور واضح طور پر افراط و تفریط کا شکار ہیں۔ ایک طرف مزعومہ عاق نامے کے ذریعے سے اپنی اولاد کو ان کے شرعی حق سے محروم کر دیتے ہیں تو دوسری طرف اپنے بیٹوں کی موجودگی میں اپنے پوتوں کو وراثت میں برابر کا حصے دار ٹھہراتے ہیں۔ اسی طرح ترکے کے متعلق بھی ہمارے ہاں بہت غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں۔ عام طور پر ترکہ اسے خیال کیا جاتا ہے جو باپ دادا سے بطور وراثت ملا ہو اور جو کچھ اپنی محنت سے کمایا اسے ترکے میں شمار نہیں کیا جاتا، حالانکہ ہر منقولہ اور غیر منقولہ جائیداد کو شرعاً ترکہ کہا جاتا ہے جو مرنے کے بعد اس نے اپنے پیچھے چھوڑی ہو اور کسی دوسرے شخص کا اس میں کوئی حق نہ ہو۔ ایک اور مسئلہ جس کی طرف توجہ دلانا ضروری ہے اور اس کا تعلق بھی تقسیم جائیداد سے ہے لیکن ہم اس سلسلے میں کوتاہی کا شکار ہیں، وہ یہ ہے کہ اولاد کی طرف سے بعض اوقات والد پر دباؤ ڈالا جاتا ہے یا والد ازخود کسی پیش بندی کے طور پر اپنی جائیداد زندگی ہی میں تقسیم کر دیتا ہے، حالانکہ ایسا کرنا انتہائی محل نظر ہے کیونکہ ضابطۂ وراثت کے اجراء کے لیے مُوَرِث کی موت کا یقین اور وارث کا زندہ ہونا ضروری ہے۔ زندگی میں ضابطۂ وراثت کے مطابق جائیداد کا تقسیم کرنا کئی ایک خطرات کا پیش خیمہ ہو سکتا ہے، ہاں اگر اولاد کو بطور ہبہ کچھ دینا چاہے تو اس کی شرعاً گنجائش ہے، بشرطیکہ تمام بیٹوں اور بیٹیوں کو برابر ہبہ دیا جائے۔ چند ایک کو دینا اور دوسروں کو نظر انداز کرنا شرعی طور پر جائز نہیں۔ اس کے علاوہ دوسرے شرعی ورثاء کو محروم کرنے کے لیے ہبہ کو بطور حیلہ استعمال کرنا بھی ظلم اور زیادتی ہے۔دراصل ہمارے ہاں جہالت کا دور دورہ ہے۔ عصر حاضر میں علم فرائض کو بالکل نظر انداز کر دیا گیا ہے۔ اکثر علمائے کرام بھی اس سے بے بہرہ ہیں، حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے متعلق بہت تاکید فرمائی ہے۔ فرمان نبوی ہے: ''علم وراثت سیکھو اور دوسروں کو بھی سکھاؤ کیونکہ جلد ہی میری موت واقع ہو جائے گی، علم فرائض بھی قبض کر لیا جائے گا، فتنے رونما ہوں گے حتی کہ دو آدمی اپنے کسی مقررہ حصے میں اختلاف کریں گے اور کوئی آدمی ایسا نہیں پائیں گے جو ان میں فیصلہ کر سکے۔'' (المستدرک للحاکم: 4/333) امام بخاری رحمہ اللہ نے اس سلسلے میں ہماری مکمل رہنمائی فرمائی ہے۔ انہوں نے کتاب الفرائض میں وراثت کے بہت سے پیچیدہ مسائل بیان فرمائے ہیں۔ وراثت کے علاوہ دیگر بے شمار معاشرتی مسائل بھی ذکر کیے ہیں جن سے امام بخاری رحمہ اللہ کی وسعت علم کا اندازہ ہوتا ہے۔ آپ نے اس سلسلے میں تنتالیس (43) مرفوع احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں سینتیس (37) مکرر اور باقی چھ (6) خالص ہیں، اس کے علاوہ تنتالیس (43) مرفوع احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں سینتیس (37) مکرر اور باقی چھ (6) خالص ہیں، اس کے علاوہ چوبیس (24) آثار بھی ذکر کیے ہیں جو صحابۂ کرام اور تابعین عظام سے مروی ہیں، پھر آپ نے ان منتخب احادیث پر تیس (30) سے زیادہ چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن میں وراثت کی اہمیت، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وراثت، قیدی کی وراثت، جو خود کو اپنے باپ کے علاوہ کسی دوسرے کی طرف منسوب کرتا ہے، قیافہ شناس وغیرہ بہت اہم ہیں۔ اس کے علاوہ متعدد اسنادی مباحث ہیں جن کی ہم موقع و محل کی مناسبت سے وضاحت کریں گے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں ان سے فائدہ حاصل کرنے کی توفیق دے اور ہمیں حقوق العباد ادا کرنے کی توفیق بخشے۔ آمین نوٹ: ہم نے ''اسلامی قانون وراثت'' نامی کتاب پر ایک مدلل مقدمہ لکھا ہے، قارئین سے گزارش ہے کہ وہ صحیح بخاری کو پڑھتے ہوئے اسے ضرور زیر مطالعہ لائیں۔ یہ کتاب دارالسلام نے ہی شائع کی ہے۔
تمہید باب
قیافہ کے معنیٰ ہیں: آثار کی جان پہچان،اصلاح میں قائف اس شخص کو کہا جاتا ہے جو مشابہت کو پہچانے اور آثار میں نظر کرے، ایسے شخص کو قائف اس لیے کہا جاتا ہے کہ وہ اشیاء کی تتبیع وتلاش کرتا ہے، اسے کتاب الفرائض میں اس لیے بیان کیا ہے کہ قیافہ شناسی کی بنا پر بعض اوقات ملحق اور ملحق بہ میں وراثت جاری ہوتی ہے۔ اس سے کوئی حکم تو ثابت نہیں ہوتا البتہ تائید کے لیے اسے پیش کیا جاسکتا ہے۔
سیدہ عائشہ ؓ ہی سے روایت ہے،انہوں نے کہا: ایک دن رسول اللہ ﷺ میرے ہاں بہت خوش خوش تشریف لائے اور فرمایا: ”اے عائشہ! تم نے نہیں دیکھا کہ مجزز مدلجی آیا اور اس نے حضرت اسامہ اور زید کو دیکھا جبکہ ان دونوں کے جسم پر ایک چادر تھی، جس نے دونوں کے سروں کو چھپا رکھا تھا، ان کے صرف پاؤں کھلے تھے تو اس نے کہا: یہ پاؤں ایک دوسرے سے تعلق رکھتے ہیں۔“
حدیث حاشیہ:
(1) زمانۂ جاہلیت میں لوگ حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ کے نسب میں بہت طعن کرتے تھے کیونکہ ان کا رنگ انتہائی سیاہ تھا، جبکہ ان کے والد گرامی حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ بہت سفید تھے۔ حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ اس لیے سیاہ تھے کہ ان کی والدہ حضرت ام ایمن رضی اللہ عنہما سیاہ فام تھی۔ ان دونوں کے رنگ مختلف ہونے کے باوجود قیافہ شناس نے ان کے پاؤں دیکھ کر کہا یہ باپ بیٹے کے قدم ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قیافہ شناس کی بات سے بہت خوش ہوئے کیونکہ اس سے طعن کرنے والوں کے منہ بند ہوگئے۔ (2) اگرچہ قیافہ شناسی سے کوئی حکم ثابت نہیں ہوتا، تاہم ثابت شدہ حکم کی تائید اس سے ضرور ہوتی ہے۔ حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ کا نسب پہلے سے ثابت شدہ تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نسب کے اثبات کے لیے اس قسم کے اندازے اور قیافے کے محتاج نہ تھے، تاہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قیافہ شناس کی تردید نہیں کی کیونکہ اس سے کوئی نیا حکم ثابت کرنا مقصود نہ تھا جو پہلے سے ثابت نہ ہو۔ (فتح الباري: 70/12، وعمدة القاري:51/16)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے سفیان نے بیان کیا، ان سے زہری نے بیان کیا، ان سے عروہ نے اور ان سے ام المؤمنین عائشہ ؓ نے بیان کیا کہ ایک دن رسول اللہ ﷺ میرے یہاں تشریف لائے، آپ بہت خوش تھے اور فرمایا عائشہ! تم نے دیکھا نہیں، مجزز المدلجی آیا اور اس نے اسامہ اور زید ؓ کو دیکھا، دونوں کے جسم پر ایک چادر تھی، جس نے دونوں کے سروں کو ڈھک لیا تھا اور ان کے صرف پاؤں کھلے ہوئے تھے تو اس نے کہا کہ یہ پاؤں ایک دوسرے سے تعلق رکھتے ہیں۔
حدیث حاشیہ:
یہ شخص قیافہ شناس تھا۔ اس نے ان دونوں کے پیروں ہی سے پہچان لیا کہ یہ دونوں باپ بیٹے ہیں۔ بعض لوگ اس بارے میں شک کرنے والے بھی تھے ان کی اس سے تردید ہو گئی۔ آپ کو اس سے خوشی حاصل ہوئی۔ بعض دفعہ قیافہ شناس کا اندازہ بالکل صحیح ہو جاتا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated ' Aisha (RA) : Once Allah's Apostle (ﷺ) entered upon me and he was in a very happy mood and said, "O ' Aisha (RA) : Don't you know that Mujazziz Al-Mudliji entered and saw Usama and Zaid with a velvet covering on them and their heads were covered while their feet were uncovered. He said, 'These feet belong to each other.'