باب : مسلمان کی پیٹھ محفوظ ہے ہاں جب کوئی حد کا کام کرے تو اس کی پیٹھ پر مار لگاسکتے ہیں ۔
)
Sahi-Bukhari:
Limits and Punishments set by Allah (Hudood)
(Chapter: A believer is safe except if he transgresses Allah’s legal limits or takes others’ rights)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
6785.
حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے حجۃ الوداع کے موقع پر فرمایا: ”تم کس مہینےکو حرمت میں عظیم تر جانتے ہو؟“ صحابہ نے کہا: اسی مہینے (ذوالحجہ) کو۔ آپ نے فرمایا: ”بتاؤ تم کس شہر کو سے زیادہ حرمت والا خیال کرتے ہو؟“ لوگوں نے جواب دیا: اسی شہر (مکہ) کو۔ پھر آپ نے دریافت فرمایا: ”تم کس دن کو سب سے زیادہ عزت والا سمجھتے ہو؟“ صحابہ کرام نے کہا: اپنے اسی دن (یوم نحر) کو۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”بے شک اللہ تعالٰی نے حق شرع کے سوا تمہارے خون تمہارے مال اور تمہاری عزتیں تم پر حرام کر دی ہیں جیسا کہ اس دن کی حرمت اس شہر اور اس مہینے میں ہے۔“ پھر آپ نے تین مرتبہ فرمایا: ”کیا میں نے تمہیں اللہ کا پیغام پہنچا دیا ہے؟“ صحابہ کرام نے ہر مرتبہ یہی جواب دیا کہ ہاں پہنچا دیا ہے۔ اس کے بعد آپ نے فرمایا: ”تمہاری خرابی ہو! میرے بعد تم کفار جیسے نہ بن جانا کہ ایک دوسرے کی گردنیں اڑانے لگو۔“
تشریح:
(1) حدیث کا مطلب یہ ہے کہ مومن کی پیٹھ ہر قسم کی ایذا رسانی سے محفوظ ہے لیکن اگر اس پر حد واجب ہوتو محفوظ نہیں۔ اسی طرح اگر کسی کا حق اس کے ذمے ہوتو اسے وصول کر لینے کے لیے اس کی پیٹھ کو مارا جا سکتا ہے، اس کے سوا مومن کا خون، مال اور اس کی آبرو محفوظ ہے۔ کسی کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ اس کے جان ومال کو اپنے لیے مباح اور حلال خیال کرے یا اس کی آبرو کو اپنے لیے جائز سمجھے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں مسلمان کا مقام بہت بلند ہے جس کا لحاظ رکھنا ہر مسلمان کا اہم فریضہ ہے۔ (فتح الباري:104/12) (2) ’’میرے بعد تم کافر نہ بن جانا‘‘ اس جملے کے کئی ایک مفہوم شارحین نے بیان کیے ہیں: ٭حق کے بغیر کسی کے قتل کو حلال خیال کرنا کفر ہے۔ ٭اس سے مراد کفران نعمت ہے۔٭یہ فعل کفر کے قریب کر دیتا ہے۔ ٭یہ فعل کافروں کے فعل جیسا ہے۔ ٭اس سے حقیقت کفر مراد ہے، یعنی کفرنہ کرو اور ہمیشہ اسلام پر قائم رہو۔ ٭ یہ جملہ ان کے لیے ہے جو ہتھیار پہن کر خود کو ڈھانپ لیتے ہیں، ہتھیار لگانے والے کو کافر کہا جاتا ہے۔ ایک دوسرے کو کافر نہ کہو ورنہ ایک دوسرے کو قتل کرنے لگو گے۔ ان تمام اقوال میں سے چوتھا قول زیادہ قرین قیاس ہے۔ (عمدة القاري:66/16)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6546
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6785
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
6785
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
6785
تمہید کتاب
دنیا میں مال ودولت کی فروانی مفاسد وخرابیاں پیدا کرنے کا باعث ہے،اسی طرح بعض اوقات دنیا کے سازو سامان سے محرومی بھی امن وسکون تباہ کرنے کا سبب بن جاتی ہے۔تقسیم ترکہ کے وقت یہ دونوں چیزیں ہوتی ہیں۔کچھ رشتے داروں کو مفت میں دولت مل جاتی ہے تو کچھ تعلق دار اس سے محروم رہ جاتے ہیں۔پھر کچھ جرائم ایسے ہوتے ہیں کہ ان کی روک تھام کے لیے صرف آخرت سے ڈرانا ہی کا فی نہیں ہوتا بلکہ سخت ترین ملامت اور تکلیف دہ سزا کا مقرر کرنا بھی ضروری ہوتا ہے۔شریعت میں ایسی سزاؤں کو حدودوتعزیرات سے تعبیر کیا جاتا ہے۔غالباً امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب الفرائض کے بعد کتاب الحدود کو اسی مقصد کے پیش نظر بیان کیا ہے۔حدود، حد کی جمع ہے۔لغوی اعتبار سے اس کے معنی رکاوٹ ہیں۔چوکیدار کو حداد اسی معنی میں کہا جاتا ہے کہ وہ لوگوں کو اندر داخل ہونے سے منع کرتا ہے اور ان کے لیے رکاوٹ بن جاتا ہے۔شریعت کی نظر میں اس سے مراد وہ سزا ہے جو اللہ تعالیٰ کا حق ہونے کی وجہ سے مقرر ہو۔اس سے تعزیر غیر مقرر سزا ور قصاص وغیرہ خارج ہے۔ چونکہ حد کی مختلف قسمیں ہیں،جیسے، حدزنا، ، حد قذف اور حد شراب نوشی وغیرہ،اس لیے قسموں کے اعتبار سے حد کی جمع حدودآئی ہے۔بعض اوقات حدود سے گناہ بھی مراد لیے جاتے ہیں،چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: "یہ معاصی اور گناہ اللہ کی حدیں ہیں تم ان قریب نہ جاؤ۔"(البقرۃ 2: 87) شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ نے حدودوتعزیرات کا فلسفہ ان الفاظ میں بیان فرمایا ہے:معلوم ہونا چاہیے کہ بعض گناہ ایسے ہیں جن میں اللہ تعالیٰ نے حد جاری فرمائی ہے اوراس قسم کے گناہ وہ ہیں جن میں مختلف قسم کے مفاسد موجود ہیں۔ان گناہوں کے کرنے سے زمین میں فساد پھیل جاتا ہے اور اہل زمین کا امن وسکون تباہ ہوجاتا ہے اور ایسے گناہوں کی خواہش انسانی نفوس میں ہمیشہ جذباتی کیفیت پیدا کردیتی ہے جس کی روک تھا سے لوگ قاصر ہوجاتے ہیں اور ان سے ایسے ایسے نقصانات ہوجاتے ہیں کہ اکثر اوقات خود مظلوم شخص بھی ان کی مدافعت نہیں کرپاتا،پھر عام لوگوں میں یہ گناہ بہت زیادہ ہوتے ہیں۔اس قسم کے گناہوں کو روکنے کے لیے صرف آخرت سے ڈرانا کافی نہیں ہوتا بلکہ ان سے لوگوں کو باز رکھنے کے لیے سخت سزائیں مقرر کرنے کی ضرورت ہوتی ہے جن میں ملامت کا پہلو بھی ہوتا ہے،تاکہ یہ عقوبت وسزا اور خطرۂ لعن طعن سامنے رہے اور لوگ اس قسم کے گناہ کرنے سے ڈرتے رہیں۔شریعت میں سزائیں مقرر کرنے کی یہی وجہ ہے۔(حجۃ اللہ البالغہ)واضح رہے کہ انسان دو طریقوں سے جرائم سے بچ سکتا ہے،چنانچہ وہ انسان جس میں حیوانیت کا غلبہ ہے اسے سخت قسم کی عقوبت اور سنگین سزا ہی جرم کرنے سے باز رکھ سکتی ہے جیسا کہ حیوانات کو سخت جسمانی سزا ہی سرکشی سے باز رکھتی ہے،اور کچھ انسان ایسے ہوتے ہیں جن کے اندر حیوانیت کے بجائے جاہ وجلال کی محبت غالب ہوتی ہے،اس قسم کے لوگوں کو سخت قسم کی عار اور غیرت جرم کرنے سے روکتی ہے۔ ایسے شخص کے حق میں جسمانی تکلیف کے مقابلے میں عاروغیرت زیادہ کار گر ثابت ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کی حدود میں یہ دونوں طریقے سمو دیے گئے ہیں۔بہر حال جرائم کی روک تھام کے لیے حدود اللہ کا نفاذ انتہائی ضروری ہے۔احادیث میں انھیں قائم کرنے کی فضیلت بھی بیان ہوئی ہے،چنانچہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ایک حد جس کے مطابق زمین میں عمل کیا جاتا ہے وہ اہل زمین کے لیے چالیس دنوں کی بارش سے بہتر ہے۔"(سنن ابن ماجہ، الحدود،حدیث:2538) سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث کے الفاظ یہ ہیں: " اللہ کی حدود میں سے ایک حد قائم کردینا اللہ کے شہروں میں چالیس راتوں کی بارش سے بہتر ہے۔" (سنن ابن ماجہ، الحدود،حدیث:2537) امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت زنا کاری،شراب نوشی اور چوری وغیرہ کی حدیں بیان کی ہیں۔حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ بعض علماء نے حد کو سترہ گناہوں پر واجب مانا ہے۔ان میں سے مرتد ہونا، ڈاکا مارنا، زنا کرنا،تہمت لگانا،شراب پینا اور چوری کرنا۔ان پر حد قائم کرنے کے متعلق علماء کا اتفاق ہے اور کچھ جرائم پر حد قائم کرنے میں اختلاف ہے،مثلاً: مانگی ہوئی چیز کا انکار کرنا،شراب کے علاوہ اور کوئی نشہ اور چیز استعمال کرنام،زنا کے علاوہ کسی چیز کی تہمت لگانا یا لواطت اگرچہ اپنی بیوی سے ہو،حیوانات سے جنسی خواہش پوری کرنا،عورتوں کا باہمی بدکاری کرنا، عورت کا کسی جانور سے خواہش پوری کرنا، جادو کرنا، سستی کہ وجہ سے نماز ترک کرنا اور شرعی عذر کے بغیر انسان کا روزہ توڑ دینا وغیرہ۔(فتح الباری:12/71)جو شخص ان گناہوں کا مرتکب ہوگا اگر دنیا میں اس پر حد قائم ہوگئی تو وہ اس کے لیے کفارہ ہوجائے گی بصورت دیگر وہ اللہ تعالیٰ کی مرضی پر موقوف ہے،وہ چاہے تو اسے معاف کردے اور چاہے تو اسے سزا دے کر اس کی تلافی کردے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے"الحدود كفارة“ کے عنوان میں اس امر کو بیان کیا ہے۔شاہ ولی اللہ محدث دہلوی لکھتے ہیں: "حدود شرعیہ سے گناہوں کے کفار کی دوجہتیں ہیں کیونکہ اس کا مرتکب یا تو ایسا شخص ہے جو امر الٰہی کا پابند اور حکم الٰہی کی اطاعت کرنے والا ہوگا اور خود کو اللہ تعالیٰ کے حوالے کرنے والا ہوگا تو ایسے شخص کے حق میں اللہ تعالیٰ کی حد کفارہ بن جاتی ہے اور دوسری جہت یہ ہے کہ اسے تکلیف وایذا پہنچائی جائے،اس طرح اسے گناہ کرنے سے روکا جاتا ہے۔یہی باز رہنا اس کا کفارہ ہے۔"(حجۃ اللہ البالغہ، بحث حدود)امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب الحدود میں مختلف مسائل واحکام کے استنباط کے لیے ایک سوتین (103)احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں اناسی(79) موصول اور چوبیس(24) کے قریب معلق اور متابعات ہیں،نیز باسٹھ(62) مکرر اور سترہ (17) خالص ہیں۔آپ نے مرفوع احادیث کے علاوہ مختلف صحابہ اور تابعین سے بیس(20)آثار بھی پیش کیے ہیں۔ان تمام مرفوع روایات اور آثار پر چھیالیس (46)چھوٹے چھوٹے عنوانات قائم کیے ہیں۔چیدہ چیدہ حسب ذیل ہیں:شراب نوشی کی سنگینی، شرابی کو مارنا، شراب کا رسیا دین اسلام سے خارج نہیں ہوتا،غیر معین چور کو لعنت کرنا،حدود کفارہ ہیں،اللہ کی خاطر حدود قائم کرنا،امیرو غریب پر حد قائم کرنا،حدود کے متعلق سفارش کی حیثیت، چور کی توبہ،فحش کاری ترک کرنے کی فضیلت ، زنا کاروں کا گناہ، شادی شدہ زانی کو سنگسار کرنا، دیوانے مردوعورت کورجم نہ کیا جائے، غیر شادی شدہ زنا کار کو کوڑے مارے جائیں،جرائم پیشہ لوگوں اور ہیجڑوں کو جلا وطن کرنا،تعزیرو تادیب کی سزا،پاک دامن عورتوں پر تہمت لگانا،غلام پر تہمت لگانا،حاکم کی غیر موجودگی میں حدلگانا۔بہرحال اس عنوان کے تحت امام بخاری رحمہ اللہ نے بہت سے ایسے مسائل کا ذکر کیا ہے جن کا تعلق اصلاح معاشرہ سے ہے۔ہماری گزارشات کو مدنظر رکھتے ہوئے کتاب الحدود کا مطالعہ کریں اور اپنے گردوپیش میں پھیلی ہوئی برائیوں کی روک تھام کے لیے بھر پور کوشش کریں۔اللہ تعالیٰ ہم سب کا حامی وناصر ہو۔آمیں یا رب العالمین.
حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے حجۃ الوداع کے موقع پر فرمایا: ”تم کس مہینےکو حرمت میں عظیم تر جانتے ہو؟“ صحابہ نے کہا: اسی مہینے (ذوالحجہ) کو۔ آپ نے فرمایا: ”بتاؤ تم کس شہر کو سے زیادہ حرمت والا خیال کرتے ہو؟“ لوگوں نے جواب دیا: اسی شہر (مکہ) کو۔ پھر آپ نے دریافت فرمایا: ”تم کس دن کو سب سے زیادہ عزت والا سمجھتے ہو؟“ صحابہ کرام نے کہا: اپنے اسی دن (یوم نحر) کو۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”بے شک اللہ تعالٰی نے حق شرع کے سوا تمہارے خون تمہارے مال اور تمہاری عزتیں تم پر حرام کر دی ہیں جیسا کہ اس دن کی حرمت اس شہر اور اس مہینے میں ہے۔“ پھر آپ نے تین مرتبہ فرمایا: ”کیا میں نے تمہیں اللہ کا پیغام پہنچا دیا ہے؟“ صحابہ کرام نے ہر مرتبہ یہی جواب دیا کہ ہاں پہنچا دیا ہے۔ اس کے بعد آپ نے فرمایا: ”تمہاری خرابی ہو! میرے بعد تم کفار جیسے نہ بن جانا کہ ایک دوسرے کی گردنیں اڑانے لگو۔“
حدیث حاشیہ:
(1) حدیث کا مطلب یہ ہے کہ مومن کی پیٹھ ہر قسم کی ایذا رسانی سے محفوظ ہے لیکن اگر اس پر حد واجب ہوتو محفوظ نہیں۔ اسی طرح اگر کسی کا حق اس کے ذمے ہوتو اسے وصول کر لینے کے لیے اس کی پیٹھ کو مارا جا سکتا ہے، اس کے سوا مومن کا خون، مال اور اس کی آبرو محفوظ ہے۔ کسی کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ اس کے جان ومال کو اپنے لیے مباح اور حلال خیال کرے یا اس کی آبرو کو اپنے لیے جائز سمجھے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں مسلمان کا مقام بہت بلند ہے جس کا لحاظ رکھنا ہر مسلمان کا اہم فریضہ ہے۔ (فتح الباري:104/12) (2) ’’میرے بعد تم کافر نہ بن جانا‘‘ اس جملے کے کئی ایک مفہوم شارحین نے بیان کیے ہیں: ٭حق کے بغیر کسی کے قتل کو حلال خیال کرنا کفر ہے۔ ٭اس سے مراد کفران نعمت ہے۔٭یہ فعل کفر کے قریب کر دیتا ہے۔ ٭یہ فعل کافروں کے فعل جیسا ہے۔ ٭اس سے حقیقت کفر مراد ہے، یعنی کفرنہ کرو اور ہمیشہ اسلام پر قائم رہو۔ ٭ یہ جملہ ان کے لیے ہے جو ہتھیار پہن کر خود کو ڈھانپ لیتے ہیں، ہتھیار لگانے والے کو کافر کہا جاتا ہے۔ ایک دوسرے کو کافر نہ کہو ورنہ ایک دوسرے کو قتل کرنے لگو گے۔ ان تمام اقوال میں سے چوتھا قول زیادہ قرین قیاس ہے۔ (عمدة القاري:66/16)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
مجھ سے محمد بن عبداللہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے عاصم بن علی نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم عاصم بن محمد نے بیان کیا، ان سے واقد بن محمد نے بیان کیا، انہوں نے اپنے والد سے سنا کہ عبداللہ رضی اللہ صنہ نے کہا رسول اللہ ﷺ نے حجۃ الوداع کے موقع پر فرمایا، ہاں تم لوگ کس چیز کو سب سے زیادہ حرمت والی سمجھتے ہو؟ لوگوں نے کہا کہ اپنے اسی مہینہ کو۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا، ہاں، کس شہر کو تم سب سے زیادہ حرمت والا سمجھتے ہو؟ لوگوں نے جواب دیا کہ اپنے اسی شہر کو۔ آنحضرت ﷺ نے دریافت فرمایا، ہاں، کس دن کو تم سب سے زیادہ حرمت والا خیال کرتے ہو؟ لوگوں نے کہا کہ اپنے اسی دن کو۔ آنحضرت ﷺ نے اب فرمایا کہ پھر بلاشبہ اللہ نے تمہارے خون، تمہارے مال اور تمہاری عزتوں کو حرمت والا قرار دیا ہے، سوا اس کے حق کے، جیسا کہ اس دن کی حرمت اس شہر اور اس مہینہ میں ہے۔ ہاں! کیا میں نے تمہیں پہنچا دیا۔ تین مرتبہ آپ نے فرمایا اور ہر مرتبہ صحابہ نے جواب دیا کہ ہاں، پہنچا دیا۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا افسوس میرے بعد تم کافر نہ بن جانا کہ ایک دوسرے کی گردن مارنے لگو۔
حدیث حاشیہ:
اس حدیث سے ظاہر ہے کہ مسلمان کا عنداللہ کتنا بڑا مقام ہے۔ جس کا لحاظ ہر مسلمان کا اہم فریضہ ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abdullah (RA) : Allah Apostle (ﷺ) said in Hajjat-al-Wada, "Which month (of the year) do you think is most sacred?" The people said, "This current month of ours (the month of Dhull-Hijja)." He said, "Which town (country) do you think is the most sacred?" They said, "This city of ours (Makkah)." He said, "Which day do you think is the most sacred?" The people said, "This day of ours." He then said, "Allah, the Blessed, the Supreme, has made your blood, your property and your honor as sacred as this day of yours in this town of yours, in this month of yours (and such protection cannot be slighted) except rightfully." He then said thrice, "Have I conveyed Allah's Message (to you)?" The people answered him each time saying, 'Yes." The Prophet (ﷺ) added, 'May Allah be merciful to you (or, woe on you)! Do not revert to disbelief after me by cutting the necks of each other.'