Sahi-Bukhari:
Limits and Punishments set by Allah (Hudood)
(Chapter: The repentance of a thief)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
6801.
حضرت عبادہ بن صامت ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: میں نے چند لوگوں کے ہمراہ رسول اللہ ﷺ سے بیعت کی تو آپ ﷺ نے فرمایا: ”میں تم سے اس شرط پر بیعت لیتا ہوں کہ کسی کو اللہ کے ساتھ شریک نہ کرو گے نہ چوری کے مرتکب ہوگے اور نہ اپنی اولاد کو قتل ہی کرو گے اور اپنے ہاتھوں اور پاؤں سے کسی کے خلاف بہتان نہیں اٹھاؤ گے، نیز بھلے کاموں میں میری نافرمانی نہیں کرو گے۔ تم میں سے جس نے اپنے اس عہد کو پورا کیا اس کا اجر اللہ کے ذمے ہے جو کوئی ان میں کوئی غلطی کر گزرے گا اور دنیا میں اسے سزا دے دی گئی تو وہ اس کے گناہ کا کفارہ اور اس کی پاکیزگی کا ذریعہ ہے اور جس پر اللہ تعالٰی نے پردہ ڈالا اس کا معاملہ اللہ کے سپرد ہے، چاہے تو اسے سزا دے اور چاہے تو اسے معاف کردے۔“ ابو عبداللہ (امام بخاری ؓ) نے کہا: جب چور کا ہاتھ کاٹ دیا جائے پھر وہ توبہ کرلے تو اس کی گواہی قبول ہوگی، نیز ہر وہ شخص جس حد لگائی گئی ہو جب وہ توبہ کرلے تو اس کی گواہی کی جائے گی۔
تشریح:
(1) اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ جس انسان کو کسی گناہ کی سزا مل جائے اور اس پر حد قائم ہو جائے تو وہ اس کے جرم کی پاکیزگی کا ذریعہ ہے، نیز وہ اس گناہ کا کفارہ بن جاتی ہے، جب اس کے ساتھ توبہ بھی کرلی جائے تو سونے پر سہاگا ہے اور اس سے وہ اپنی حالت پر واپس آجائے گا اور فسق کا دھبا بھی اس سے دور ہو جائے گا۔ اس کا تقاضا یہ ہے کہ اس کی گواہی بھی قبول ہے۔ (2) حدیث کے آخر میں امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنا رجحان بھی بیان کر دیا ہے کہ ہر وہ شخص جسے حد لگائی گئی ہو جب وہ اپنے جرم سے توبہ کرلے تو اس کی گواہی قبول ہوگی۔(فتح الباري:132/12) ڈاکا زنی کی حد بیان کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’یہ کام ان کے لیے دنیا میں ذلت کا باعث ہے اور آخرت میں اس کی پاداش میں بہت بڑے عذاب کا سامنا کرنا پڑے گا۔پھر فرمایا: مگر جو لوگ توبہ کرلیں پہلے اس سے کہ تم ان پر قابو پاؤ تو جان لوکہ اللہ تعالیٰ بے حد بخشنے والا نہایت مہربان ہے۔‘‘ (المائدة: 5: 33، 34) (3) اس آیت سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ توبہ کرنے سے اللہ تعالیٰ اس کے گناہ کو معاف کر دیتا ہے۔ لیکن یاد رہے کہ توبہ کرنے سے حقوق اللہ تو معاف ہو جائیں گے لیکن حقوق العباد ادا کیے جائیں یا وہ معاف کرا لیے جائیں۔ واللہ أعلم
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6563
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6801
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
6801
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
6801
تمہید کتاب
دنیا میں مال ودولت کی فروانی مفاسد وخرابیاں پیدا کرنے کا باعث ہے،اسی طرح بعض اوقات دنیا کے سازو سامان سے محرومی بھی امن وسکون تباہ کرنے کا سبب بن جاتی ہے۔تقسیم ترکہ کے وقت یہ دونوں چیزیں ہوتی ہیں۔کچھ رشتے داروں کو مفت میں دولت مل جاتی ہے تو کچھ تعلق دار اس سے محروم رہ جاتے ہیں۔پھر کچھ جرائم ایسے ہوتے ہیں کہ ان کی روک تھام کے لیے صرف آخرت سے ڈرانا ہی کا فی نہیں ہوتا بلکہ سخت ترین ملامت اور تکلیف دہ سزا کا مقرر کرنا بھی ضروری ہوتا ہے۔شریعت میں ایسی سزاؤں کو حدودوتعزیرات سے تعبیر کیا جاتا ہے۔غالباً امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب الفرائض کے بعد کتاب الحدود کو اسی مقصد کے پیش نظر بیان کیا ہے۔حدود، حد کی جمع ہے۔لغوی اعتبار سے اس کے معنی رکاوٹ ہیں۔چوکیدار کو حداد اسی معنی میں کہا جاتا ہے کہ وہ لوگوں کو اندر داخل ہونے سے منع کرتا ہے اور ان کے لیے رکاوٹ بن جاتا ہے۔شریعت کی نظر میں اس سے مراد وہ سزا ہے جو اللہ تعالیٰ کا حق ہونے کی وجہ سے مقرر ہو۔اس سے تعزیر غیر مقرر سزا ور قصاص وغیرہ خارج ہے۔ چونکہ حد کی مختلف قسمیں ہیں،جیسے، حدزنا، ، حد قذف اور حد شراب نوشی وغیرہ،اس لیے قسموں کے اعتبار سے حد کی جمع حدودآئی ہے۔بعض اوقات حدود سے گناہ بھی مراد لیے جاتے ہیں،چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: "یہ معاصی اور گناہ اللہ کی حدیں ہیں تم ان قریب نہ جاؤ۔"(البقرۃ 2: 87) شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ نے حدودوتعزیرات کا فلسفہ ان الفاظ میں بیان فرمایا ہے:معلوم ہونا چاہیے کہ بعض گناہ ایسے ہیں جن میں اللہ تعالیٰ نے حد جاری فرمائی ہے اوراس قسم کے گناہ وہ ہیں جن میں مختلف قسم کے مفاسد موجود ہیں۔ان گناہوں کے کرنے سے زمین میں فساد پھیل جاتا ہے اور اہل زمین کا امن وسکون تباہ ہوجاتا ہے اور ایسے گناہوں کی خواہش انسانی نفوس میں ہمیشہ جذباتی کیفیت پیدا کردیتی ہے جس کی روک تھا سے لوگ قاصر ہوجاتے ہیں اور ان سے ایسے ایسے نقصانات ہوجاتے ہیں کہ اکثر اوقات خود مظلوم شخص بھی ان کی مدافعت نہیں کرپاتا،پھر عام لوگوں میں یہ گناہ بہت زیادہ ہوتے ہیں۔اس قسم کے گناہوں کو روکنے کے لیے صرف آخرت سے ڈرانا کافی نہیں ہوتا بلکہ ان سے لوگوں کو باز رکھنے کے لیے سخت سزائیں مقرر کرنے کی ضرورت ہوتی ہے جن میں ملامت کا پہلو بھی ہوتا ہے،تاکہ یہ عقوبت وسزا اور خطرۂ لعن طعن سامنے رہے اور لوگ اس قسم کے گناہ کرنے سے ڈرتے رہیں۔شریعت میں سزائیں مقرر کرنے کی یہی وجہ ہے۔(حجۃ اللہ البالغہ)واضح رہے کہ انسان دو طریقوں سے جرائم سے بچ سکتا ہے،چنانچہ وہ انسان جس میں حیوانیت کا غلبہ ہے اسے سخت قسم کی عقوبت اور سنگین سزا ہی جرم کرنے سے باز رکھ سکتی ہے جیسا کہ حیوانات کو سخت جسمانی سزا ہی سرکشی سے باز رکھتی ہے،اور کچھ انسان ایسے ہوتے ہیں جن کے اندر حیوانیت کے بجائے جاہ وجلال کی محبت غالب ہوتی ہے،اس قسم کے لوگوں کو سخت قسم کی عار اور غیرت جرم کرنے سے روکتی ہے۔ ایسے شخص کے حق میں جسمانی تکلیف کے مقابلے میں عاروغیرت زیادہ کار گر ثابت ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کی حدود میں یہ دونوں طریقے سمو دیے گئے ہیں۔بہر حال جرائم کی روک تھام کے لیے حدود اللہ کا نفاذ انتہائی ضروری ہے۔احادیث میں انھیں قائم کرنے کی فضیلت بھی بیان ہوئی ہے،چنانچہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ایک حد جس کے مطابق زمین میں عمل کیا جاتا ہے وہ اہل زمین کے لیے چالیس دنوں کی بارش سے بہتر ہے۔"(سنن ابن ماجہ، الحدود،حدیث:2538) سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث کے الفاظ یہ ہیں: " اللہ کی حدود میں سے ایک حد قائم کردینا اللہ کے شہروں میں چالیس راتوں کی بارش سے بہتر ہے۔" (سنن ابن ماجہ، الحدود،حدیث:2537) امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت زنا کاری،شراب نوشی اور چوری وغیرہ کی حدیں بیان کی ہیں۔حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ بعض علماء نے حد کو سترہ گناہوں پر واجب مانا ہے۔ان میں سے مرتد ہونا، ڈاکا مارنا، زنا کرنا،تہمت لگانا،شراب پینا اور چوری کرنا۔ان پر حد قائم کرنے کے متعلق علماء کا اتفاق ہے اور کچھ جرائم پر حد قائم کرنے میں اختلاف ہے،مثلاً: مانگی ہوئی چیز کا انکار کرنا،شراب کے علاوہ اور کوئی نشہ اور چیز استعمال کرنام،زنا کے علاوہ کسی چیز کی تہمت لگانا یا لواطت اگرچہ اپنی بیوی سے ہو،حیوانات سے جنسی خواہش پوری کرنا،عورتوں کا باہمی بدکاری کرنا، عورت کا کسی جانور سے خواہش پوری کرنا، جادو کرنا، سستی کہ وجہ سے نماز ترک کرنا اور شرعی عذر کے بغیر انسان کا روزہ توڑ دینا وغیرہ۔(فتح الباری:12/71)جو شخص ان گناہوں کا مرتکب ہوگا اگر دنیا میں اس پر حد قائم ہوگئی تو وہ اس کے لیے کفارہ ہوجائے گی بصورت دیگر وہ اللہ تعالیٰ کی مرضی پر موقوف ہے،وہ چاہے تو اسے معاف کردے اور چاہے تو اسے سزا دے کر اس کی تلافی کردے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے"الحدود كفارة“ کے عنوان میں اس امر کو بیان کیا ہے۔شاہ ولی اللہ محدث دہلوی لکھتے ہیں: "حدود شرعیہ سے گناہوں کے کفار کی دوجہتیں ہیں کیونکہ اس کا مرتکب یا تو ایسا شخص ہے جو امر الٰہی کا پابند اور حکم الٰہی کی اطاعت کرنے والا ہوگا اور خود کو اللہ تعالیٰ کے حوالے کرنے والا ہوگا تو ایسے شخص کے حق میں اللہ تعالیٰ کی حد کفارہ بن جاتی ہے اور دوسری جہت یہ ہے کہ اسے تکلیف وایذا پہنچائی جائے،اس طرح اسے گناہ کرنے سے روکا جاتا ہے۔یہی باز رہنا اس کا کفارہ ہے۔"(حجۃ اللہ البالغہ، بحث حدود)امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب الحدود میں مختلف مسائل واحکام کے استنباط کے لیے ایک سوتین (103)احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں اناسی(79) موصول اور چوبیس(24) کے قریب معلق اور متابعات ہیں،نیز باسٹھ(62) مکرر اور سترہ (17) خالص ہیں۔آپ نے مرفوع احادیث کے علاوہ مختلف صحابہ اور تابعین سے بیس(20)آثار بھی پیش کیے ہیں۔ان تمام مرفوع روایات اور آثار پر چھیالیس (46)چھوٹے چھوٹے عنوانات قائم کیے ہیں۔چیدہ چیدہ حسب ذیل ہیں:شراب نوشی کی سنگینی، شرابی کو مارنا، شراب کا رسیا دین اسلام سے خارج نہیں ہوتا،غیر معین چور کو لعنت کرنا،حدود کفارہ ہیں،اللہ کی خاطر حدود قائم کرنا،امیرو غریب پر حد قائم کرنا،حدود کے متعلق سفارش کی حیثیت، چور کی توبہ،فحش کاری ترک کرنے کی فضیلت ، زنا کاروں کا گناہ، شادی شدہ زانی کو سنگسار کرنا، دیوانے مردوعورت کورجم نہ کیا جائے، غیر شادی شدہ زنا کار کو کوڑے مارے جائیں،جرائم پیشہ لوگوں اور ہیجڑوں کو جلا وطن کرنا،تعزیرو تادیب کی سزا،پاک دامن عورتوں پر تہمت لگانا،غلام پر تہمت لگانا،حاکم کی غیر موجودگی میں حدلگانا۔بہرحال اس عنوان کے تحت امام بخاری رحمہ اللہ نے بہت سے ایسے مسائل کا ذکر کیا ہے جن کا تعلق اصلاح معاشرہ سے ہے۔ہماری گزارشات کو مدنظر رکھتے ہوئے کتاب الحدود کا مطالعہ کریں اور اپنے گردوپیش میں پھیلی ہوئی برائیوں کی روک تھام کے لیے بھر پور کوشش کریں۔اللہ تعالیٰ ہم سب کا حامی وناصر ہو۔آمیں یا رب العالمین.
حضرت عبادہ بن صامت ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: میں نے چند لوگوں کے ہمراہ رسول اللہ ﷺ سے بیعت کی تو آپ ﷺ نے فرمایا: ”میں تم سے اس شرط پر بیعت لیتا ہوں کہ کسی کو اللہ کے ساتھ شریک نہ کرو گے نہ چوری کے مرتکب ہوگے اور نہ اپنی اولاد کو قتل ہی کرو گے اور اپنے ہاتھوں اور پاؤں سے کسی کے خلاف بہتان نہیں اٹھاؤ گے، نیز بھلے کاموں میں میری نافرمانی نہیں کرو گے۔ تم میں سے جس نے اپنے اس عہد کو پورا کیا اس کا اجر اللہ کے ذمے ہے جو کوئی ان میں کوئی غلطی کر گزرے گا اور دنیا میں اسے سزا دے دی گئی تو وہ اس کے گناہ کا کفارہ اور اس کی پاکیزگی کا ذریعہ ہے اور جس پر اللہ تعالٰی نے پردہ ڈالا اس کا معاملہ اللہ کے سپرد ہے، چاہے تو اسے سزا دے اور چاہے تو اسے معاف کردے۔“ ابو عبداللہ (امام بخاری ؓ) نے کہا: جب چور کا ہاتھ کاٹ دیا جائے پھر وہ توبہ کرلے تو اس کی گواہی قبول ہوگی، نیز ہر وہ شخص جس حد لگائی گئی ہو جب وہ توبہ کرلے تو اس کی گواہی کی جائے گی۔
حدیث حاشیہ:
(1) اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ جس انسان کو کسی گناہ کی سزا مل جائے اور اس پر حد قائم ہو جائے تو وہ اس کے جرم کی پاکیزگی کا ذریعہ ہے، نیز وہ اس گناہ کا کفارہ بن جاتی ہے، جب اس کے ساتھ توبہ بھی کرلی جائے تو سونے پر سہاگا ہے اور اس سے وہ اپنی حالت پر واپس آجائے گا اور فسق کا دھبا بھی اس سے دور ہو جائے گا۔ اس کا تقاضا یہ ہے کہ اس کی گواہی بھی قبول ہے۔ (2) حدیث کے آخر میں امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنا رجحان بھی بیان کر دیا ہے کہ ہر وہ شخص جسے حد لگائی گئی ہو جب وہ اپنے جرم سے توبہ کرلے تو اس کی گواہی قبول ہوگی۔(فتح الباري:132/12) ڈاکا زنی کی حد بیان کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’یہ کام ان کے لیے دنیا میں ذلت کا باعث ہے اور آخرت میں اس کی پاداش میں بہت بڑے عذاب کا سامنا کرنا پڑے گا۔پھر فرمایا: مگر جو لوگ توبہ کرلیں پہلے اس سے کہ تم ان پر قابو پاؤ تو جان لوکہ اللہ تعالیٰ بے حد بخشنے والا نہایت مہربان ہے۔‘‘ (المائدة: 5: 33، 34) (3) اس آیت سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ توبہ کرنے سے اللہ تعالیٰ اس کے گناہ کو معاف کر دیتا ہے۔ لیکن یاد رہے کہ توبہ کرنے سے حقوق اللہ تو معاف ہو جائیں گے لیکن حقوق العباد ادا کیے جائیں یا وہ معاف کرا لیے جائیں۔ واللہ أعلم
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبداللہ بن محمد الجعفی نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے ہشام بن یوسف نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم کو معمر نے خبر دی، انہیں زہری نے، انہیں ابوادریس نے اور ان سے عبادہ بن الصامت ؓ نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے ایک جماعت کے ساتھ بیعت کی تھی۔ آنحضرت ﷺ نے اس پر فرمایا کہ میں تم سے عہد لیتا ہوں کہ تم اللہ کا کسی کو شریک نہیں ٹھہراؤ گے، تم چوری نہیں کرو گے، اپنی اولاد کی جان نہیں لوگے، اپنے دل سے گھڑ کر کسی پر تہمت نہیں لگاؤ گے اور نیک کاموں میں میری نافرمانی نہ کرو گے۔ پس تم میں سے جو کوئی وعدے پورا کرے گا اس کا ثبوت اللہ کے اوپر لازم ہے اور جو کوئی ان میں سے کچھ غلطی کر گزرے گا اور دنیا میں ہی اسے اس کی سزا مل جائے گی تو یہ اس کا کفارہ ہوگی اور اسے پاک کرنے والی ہوگی اور جس کی غلطی کو اللہ چھپا لے گا تو اس کا معاملہ اللہ کے ساتھ ہے، چاہے تو اسے عذاب دے اور چاہے تو اس کی مغفرت کر دے۔ ابوعبداللہ امام بخاری ؓ نے کہا کہ ہاتھ کٹنے کے بعد اگر چور نے توبہ کرلی تو اس کی گواہی قبول ہوگی۔ یہی حال ہر اس شخص کا ہے جس پر حد جاری کی گئی ہو کہ اگر وہ توبہ کرلے گا تو اس کی گواہی قبول کی جائے گی۔
حدیث حاشیہ:
حضرت عبادہ بن صامت انصاری سالمی نقیب انصار ہیں۔ عقبہ کی دونوں بیعتوں میں شریک ہوئے اور جنگ بدر اور تمام لڑائیوں میں شامل ہوئے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان کو شام میں قاضی اور معلم بنا کر بھیجا۔ پھر فلسطین میں جا رہے اور بیت المقدس میں 72 سال عمر پا کر34ھ میں انتقال فرمایا۔ رضي اللہ و أرضاہ آمین۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Ubadah bin As-Samit (RA): I gave the pledge of allegiance to the Prophet (ﷺ) with a group of people, and he said, "I take your pledge that you will not worship anything besides Allah, will not steal, will not commit infanticide, will not slander others by forging false statements and spreading it, and will not disobey me in anything good. And whoever among you fulfill all these (obligations of the pledge), his reward is with Allah. And whoever commits any of the above crimes and receives his legal punishment in this world, that will be his expiation and purification. But if Allah screens his sin, it will be up to Allah, Who will either punish or forgive him according to His wish." Abu Abdullah said: "If a thief repents after his hand has been cut off, the his witness well be accepted. Similarly, if any person upon whom any legal punishment has been inflicted, repents, his witness will be accepted."