ان کفارو مرتدین کی سزا کا بیان جو مسلمانوں سے لڑتے ہیں
)
Sahi-Bukhari:
Limits and Punishments set by Allah (Hudood)
(Chapter: The Prophet (saws) did not cauterize those who fought and of those who were renegades)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
6802.
حضرت انس ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: نبی ﷺ کے پاس قبیلہ عکل کے چند آدمی آئے اور اسلام قبول کیا لیکن مدینہ طیبہ کی آب وہوا ان کو موافق نہ آئی تو آپ ﷺ نے ان سے فرمایا کہ تم صدقے کے اونٹوں کے پاس رہائش رکھو اور ان کا پیشاب اور دودھ نوش کرو۔ انہوں نے (ایسا) کیا تو صحت یاب ہوگئے، لیکن اس کے بعد وہ دین سے برگزشتہ ہوگئے اور اونٹوں کے چرواہوں کو قتل کر کے اونٹوں کو ہانک کر لے گئے۔ آپ ﷺ نے ان کی تلاش میں سوار بھیجے تو وہ انہیں گرفتار کر کے لے آئے۔ آپ ﷺ نے ان کے ہاتھ اور پاؤں (مخالف سمت سے) کاٹنے کا حکم دیا، نیز ان کی آنکھیں بھی پھوڑی دی گئیں، پھر آپ نے ان کے زخموں پر داغ نہ دیا حتیٰ کہ وہ سسک سسک کر مرگئے۔
تشریح:
(1) عربوں کے ہاں ہاتھ پاؤں کاٹنے کے بعد انھیں جلتے تیل میں داغ دینے کا رواج تھا، اس طرح وہ زخم جلدی ٹھیک ہو جاتے لیکن ان ظالموں کو داغنے کے بغیر ہی چھوڑ دیا گیا، اس طرح وہ تڑپ تڑپ کر مرگئے۔ مفسرین کی تصریح کے مطابق درج بالا آیت کریمہ اس واقعے کے پس منظر میں نازل ہوئی۔ (2) امام بخاری رحمہ اللہ کا رجحان یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ لوگ کفارومرتدین تھے جیسا کہ ان کے قائم کردہ عنوان سے ظاہر ہے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ اگرچہ یہ آیت کفارومرتدین کے متعلق نازل ہوئی ہے، لیکن الفاظ کے عموم کے اعتبار سے ہر جنگجو کے لیے ہے جو مسلمانوں کے خلاف ہتھیار اٹھانے کے ساتھ ڈاکا زنی کا مرتکب ہو، البتہ ان کی سزائیں مختلف ہیں: اگر وہ کافر ہیں تو حاکم وقت کی صوابدید پر موقوف ہے کہ ان کے ساتھ کیا برتاؤ کرنا ہے اور اگر وہ مسلمان ہیں تو ان کے جرم کی نوعیت کو دیکھا جائے گا۔ اگر اس نے قتل کیا ہے تو اس کے بدلے اسے قتل کیا جائے گا، اگر مال لوٹا ہے تو ہاتھ کاٹا جائے۔ اگر قتل یا مال لوٹنے کا ارتکاب نہیں کیا تو بحالئ امن کے لیے اسے جلا وطن کیا جا سکتا ہے۔ واللہ أعلم(فتح الباري:134/12)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6564
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6802
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
6802
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
6802
تمہید کتاب
دنیا میں مال ودولت کی فروانی مفاسد وخرابیاں پیدا کرنے کا باعث ہے،اسی طرح بعض اوقات دنیا کے سازو سامان سے محرومی بھی امن وسکون تباہ کرنے کا سبب بن جاتی ہے۔تقسیم ترکہ کے وقت یہ دونوں چیزیں ہوتی ہیں۔کچھ رشتے داروں کو مفت میں دولت مل جاتی ہے تو کچھ تعلق دار اس سے محروم رہ جاتے ہیں۔پھر کچھ جرائم ایسے ہوتے ہیں کہ ان کی روک تھام کے لیے صرف آخرت سے ڈرانا ہی کا فی نہیں ہوتا بلکہ سخت ترین ملامت اور تکلیف دہ سزا کا مقرر کرنا بھی ضروری ہوتا ہے۔شریعت میں ایسی سزاؤں کو حدودوتعزیرات سے تعبیر کیا جاتا ہے۔غالباً امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب الفرائض کے بعد کتاب الحدود کو اسی مقصد کے پیش نظر بیان کیا ہے۔حدود، حد کی جمع ہے۔لغوی اعتبار سے اس کے معنی رکاوٹ ہیں۔چوکیدار کو حداد اسی معنی میں کہا جاتا ہے کہ وہ لوگوں کو اندر داخل ہونے سے منع کرتا ہے اور ان کے لیے رکاوٹ بن جاتا ہے۔شریعت کی نظر میں اس سے مراد وہ سزا ہے جو اللہ تعالیٰ کا حق ہونے کی وجہ سے مقرر ہو۔اس سے تعزیر غیر مقرر سزا ور قصاص وغیرہ خارج ہے۔ چونکہ حد کی مختلف قسمیں ہیں،جیسے، حدزنا، ، حد قذف اور حد شراب نوشی وغیرہ،اس لیے قسموں کے اعتبار سے حد کی جمع حدودآئی ہے۔بعض اوقات حدود سے گناہ بھی مراد لیے جاتے ہیں،چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: "یہ معاصی اور گناہ اللہ کی حدیں ہیں تم ان قریب نہ جاؤ۔"(البقرۃ 2: 87) شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ نے حدودوتعزیرات کا فلسفہ ان الفاظ میں بیان فرمایا ہے:معلوم ہونا چاہیے کہ بعض گناہ ایسے ہیں جن میں اللہ تعالیٰ نے حد جاری فرمائی ہے اوراس قسم کے گناہ وہ ہیں جن میں مختلف قسم کے مفاسد موجود ہیں۔ان گناہوں کے کرنے سے زمین میں فساد پھیل جاتا ہے اور اہل زمین کا امن وسکون تباہ ہوجاتا ہے اور ایسے گناہوں کی خواہش انسانی نفوس میں ہمیشہ جذباتی کیفیت پیدا کردیتی ہے جس کی روک تھا سے لوگ قاصر ہوجاتے ہیں اور ان سے ایسے ایسے نقصانات ہوجاتے ہیں کہ اکثر اوقات خود مظلوم شخص بھی ان کی مدافعت نہیں کرپاتا،پھر عام لوگوں میں یہ گناہ بہت زیادہ ہوتے ہیں۔اس قسم کے گناہوں کو روکنے کے لیے صرف آخرت سے ڈرانا کافی نہیں ہوتا بلکہ ان سے لوگوں کو باز رکھنے کے لیے سخت سزائیں مقرر کرنے کی ضرورت ہوتی ہے جن میں ملامت کا پہلو بھی ہوتا ہے،تاکہ یہ عقوبت وسزا اور خطرۂ لعن طعن سامنے رہے اور لوگ اس قسم کے گناہ کرنے سے ڈرتے رہیں۔شریعت میں سزائیں مقرر کرنے کی یہی وجہ ہے۔(حجۃ اللہ البالغہ)واضح رہے کہ انسان دو طریقوں سے جرائم سے بچ سکتا ہے،چنانچہ وہ انسان جس میں حیوانیت کا غلبہ ہے اسے سخت قسم کی عقوبت اور سنگین سزا ہی جرم کرنے سے باز رکھ سکتی ہے جیسا کہ حیوانات کو سخت جسمانی سزا ہی سرکشی سے باز رکھتی ہے،اور کچھ انسان ایسے ہوتے ہیں جن کے اندر حیوانیت کے بجائے جاہ وجلال کی محبت غالب ہوتی ہے،اس قسم کے لوگوں کو سخت قسم کی عار اور غیرت جرم کرنے سے روکتی ہے۔ ایسے شخص کے حق میں جسمانی تکلیف کے مقابلے میں عاروغیرت زیادہ کار گر ثابت ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کی حدود میں یہ دونوں طریقے سمو دیے گئے ہیں۔بہر حال جرائم کی روک تھام کے لیے حدود اللہ کا نفاذ انتہائی ضروری ہے۔احادیث میں انھیں قائم کرنے کی فضیلت بھی بیان ہوئی ہے،چنانچہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ایک حد جس کے مطابق زمین میں عمل کیا جاتا ہے وہ اہل زمین کے لیے چالیس دنوں کی بارش سے بہتر ہے۔"(سنن ابن ماجہ، الحدود،حدیث:2538) سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث کے الفاظ یہ ہیں: " اللہ کی حدود میں سے ایک حد قائم کردینا اللہ کے شہروں میں چالیس راتوں کی بارش سے بہتر ہے۔" (سنن ابن ماجہ، الحدود،حدیث:2537) امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت زنا کاری،شراب نوشی اور چوری وغیرہ کی حدیں بیان کی ہیں۔حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ بعض علماء نے حد کو سترہ گناہوں پر واجب مانا ہے۔ان میں سے مرتد ہونا، ڈاکا مارنا، زنا کرنا،تہمت لگانا،شراب پینا اور چوری کرنا۔ان پر حد قائم کرنے کے متعلق علماء کا اتفاق ہے اور کچھ جرائم پر حد قائم کرنے میں اختلاف ہے،مثلاً: مانگی ہوئی چیز کا انکار کرنا،شراب کے علاوہ اور کوئی نشہ اور چیز استعمال کرنام،زنا کے علاوہ کسی چیز کی تہمت لگانا یا لواطت اگرچہ اپنی بیوی سے ہو،حیوانات سے جنسی خواہش پوری کرنا،عورتوں کا باہمی بدکاری کرنا، عورت کا کسی جانور سے خواہش پوری کرنا، جادو کرنا، سستی کہ وجہ سے نماز ترک کرنا اور شرعی عذر کے بغیر انسان کا روزہ توڑ دینا وغیرہ۔(فتح الباری:12/71)جو شخص ان گناہوں کا مرتکب ہوگا اگر دنیا میں اس پر حد قائم ہوگئی تو وہ اس کے لیے کفارہ ہوجائے گی بصورت دیگر وہ اللہ تعالیٰ کی مرضی پر موقوف ہے،وہ چاہے تو اسے معاف کردے اور چاہے تو اسے سزا دے کر اس کی تلافی کردے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے"الحدود كفارة“ کے عنوان میں اس امر کو بیان کیا ہے۔شاہ ولی اللہ محدث دہلوی لکھتے ہیں: "حدود شرعیہ سے گناہوں کے کفار کی دوجہتیں ہیں کیونکہ اس کا مرتکب یا تو ایسا شخص ہے جو امر الٰہی کا پابند اور حکم الٰہی کی اطاعت کرنے والا ہوگا اور خود کو اللہ تعالیٰ کے حوالے کرنے والا ہوگا تو ایسے شخص کے حق میں اللہ تعالیٰ کی حد کفارہ بن جاتی ہے اور دوسری جہت یہ ہے کہ اسے تکلیف وایذا پہنچائی جائے،اس طرح اسے گناہ کرنے سے روکا جاتا ہے۔یہی باز رہنا اس کا کفارہ ہے۔"(حجۃ اللہ البالغہ، بحث حدود)امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب الحدود میں مختلف مسائل واحکام کے استنباط کے لیے ایک سوتین (103)احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں اناسی(79) موصول اور چوبیس(24) کے قریب معلق اور متابعات ہیں،نیز باسٹھ(62) مکرر اور سترہ (17) خالص ہیں۔آپ نے مرفوع احادیث کے علاوہ مختلف صحابہ اور تابعین سے بیس(20)آثار بھی پیش کیے ہیں۔ان تمام مرفوع روایات اور آثار پر چھیالیس (46)چھوٹے چھوٹے عنوانات قائم کیے ہیں۔چیدہ چیدہ حسب ذیل ہیں:شراب نوشی کی سنگینی، شرابی کو مارنا، شراب کا رسیا دین اسلام سے خارج نہیں ہوتا،غیر معین چور کو لعنت کرنا،حدود کفارہ ہیں،اللہ کی خاطر حدود قائم کرنا،امیرو غریب پر حد قائم کرنا،حدود کے متعلق سفارش کی حیثیت، چور کی توبہ،فحش کاری ترک کرنے کی فضیلت ، زنا کاروں کا گناہ، شادی شدہ زانی کو سنگسار کرنا، دیوانے مردوعورت کورجم نہ کیا جائے، غیر شادی شدہ زنا کار کو کوڑے مارے جائیں،جرائم پیشہ لوگوں اور ہیجڑوں کو جلا وطن کرنا،تعزیرو تادیب کی سزا،پاک دامن عورتوں پر تہمت لگانا،غلام پر تہمت لگانا،حاکم کی غیر موجودگی میں حدلگانا۔بہرحال اس عنوان کے تحت امام بخاری رحمہ اللہ نے بہت سے ایسے مسائل کا ذکر کیا ہے جن کا تعلق اصلاح معاشرہ سے ہے۔ہماری گزارشات کو مدنظر رکھتے ہوئے کتاب الحدود کا مطالعہ کریں اور اپنے گردوپیش میں پھیلی ہوئی برائیوں کی روک تھام کے لیے بھر پور کوشش کریں۔اللہ تعالیٰ ہم سب کا حامی وناصر ہو۔آمیں یا رب العالمین.
تمہید باب
پہلے بدنی سزا اور ہاتھ کاٹنے کا بیان تھا،اب ان جرائم کا ذکر کیا جارہا ہے جن کی پاداش میں مجرموں کو اس دنیا سے نیست ونابود کیا جاتا ہے۔چونکہ ڈاکا زنی اور قتل وغارت کی سزا قرآن کریم نے بیان کی ہے،اس لیے امام بخاری رحمہ اللہ نے حد زنا سے پہلے اسے بیان کیا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ کی پیش کردہ آیت کو آیتِ محاربہ کہتے ہیں۔بہرحال جرم کی شدت کے ساتھ ہی سزا کی شدت میں بھی اضافہ ہوجاتا ہے۔سعودی عرب میں جب اس قسم کی سزادی جاتی ہے تو مجرم کو موت کے گھاٹ اتارنے کے بعد یہی آیت تلاوت کی جاتی ہے۔ ملک میں بدامنی کے سدباب کے لیے اس قسم کی سخت سزائیں نافذ کرنا ضروری ہیں،تاکہ مفسدین کو اپنے بال پرزے نکالنے کا موقع نہ ملے۔ سعودی عرب میں امن وامان کا مشاہدہ اپنی آنکھوں سے کیا جاسکتا ہے اور یہ امن صرف حدود اللہ کے نفاذ کی برکت اور اسی کا نتیجہ ہے۔
حضرت انس ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: نبی ﷺ کے پاس قبیلہ عکل کے چند آدمی آئے اور اسلام قبول کیا لیکن مدینہ طیبہ کی آب وہوا ان کو موافق نہ آئی تو آپ ﷺ نے ان سے فرمایا کہ تم صدقے کے اونٹوں کے پاس رہائش رکھو اور ان کا پیشاب اور دودھ نوش کرو۔ انہوں نے (ایسا) کیا تو صحت یاب ہوگئے، لیکن اس کے بعد وہ دین سے برگزشتہ ہوگئے اور اونٹوں کے چرواہوں کو قتل کر کے اونٹوں کو ہانک کر لے گئے۔ آپ ﷺ نے ان کی تلاش میں سوار بھیجے تو وہ انہیں گرفتار کر کے لے آئے۔ آپ ﷺ نے ان کے ہاتھ اور پاؤں (مخالف سمت سے) کاٹنے کا حکم دیا، نیز ان کی آنکھیں بھی پھوڑی دی گئیں، پھر آپ نے ان کے زخموں پر داغ نہ دیا حتیٰ کہ وہ سسک سسک کر مرگئے۔
حدیث حاشیہ:
(1) عربوں کے ہاں ہاتھ پاؤں کاٹنے کے بعد انھیں جلتے تیل میں داغ دینے کا رواج تھا، اس طرح وہ زخم جلدی ٹھیک ہو جاتے لیکن ان ظالموں کو داغنے کے بغیر ہی چھوڑ دیا گیا، اس طرح وہ تڑپ تڑپ کر مرگئے۔ مفسرین کی تصریح کے مطابق درج بالا آیت کریمہ اس واقعے کے پس منظر میں نازل ہوئی۔ (2) امام بخاری رحمہ اللہ کا رجحان یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ لوگ کفارومرتدین تھے جیسا کہ ان کے قائم کردہ عنوان سے ظاہر ہے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ اگرچہ یہ آیت کفارومرتدین کے متعلق نازل ہوئی ہے، لیکن الفاظ کے عموم کے اعتبار سے ہر جنگجو کے لیے ہے جو مسلمانوں کے خلاف ہتھیار اٹھانے کے ساتھ ڈاکا زنی کا مرتکب ہو، البتہ ان کی سزائیں مختلف ہیں: اگر وہ کافر ہیں تو حاکم وقت کی صوابدید پر موقوف ہے کہ ان کے ساتھ کیا برتاؤ کرنا ہے اور اگر وہ مسلمان ہیں تو ان کے جرم کی نوعیت کو دیکھا جائے گا۔ اگر اس نے قتل کیا ہے تو اس کے بدلے اسے قتل کیا جائے گا، اگر مال لوٹا ہے تو ہاتھ کاٹا جائے۔ اگر قتل یا مال لوٹنے کا ارتکاب نہیں کیا تو بحالئ امن کے لیے اسے جلا وطن کیا جا سکتا ہے۔ واللہ أعلم(فتح الباري:134/12)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا، کہا ہم سے ولید بن مسلم نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے ابوقلابہ جرمی نے بیان کیا، ان سے حضرت انس ؓ نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ کے پاس قبیلہ عکل کے چند لوگ آئے اور اسلام قبول کیا لیکن مدینہ کی آب و ہوا انہیں موافق نہیں آئی (ان کے پیٹ پھول گئے) تو آنحضرت ﷺ نے ان سے فرمایا کہ صدقہ کے اونٹوں کے ریوڑ میں جائیں اور ان کا پیشاب اور دودھ ملا کر پئیں۔ انہوں نے اس کے مطابق عمل کیا اور تندرست ہوگئے لیکن اس کے بعد وہ مرتد ہو گئے اور ان اونٹوں کے چراہوں کو قتل کر کے اونٹ ہنکا لے گئے۔ آنحضرت ﷺ نے ان کی تلاش میں سوار بھیجے اور انہیں پکڑ کے لایا گیا پھر ان کے ہاتھ پاؤں کاٹ ديے گئے اور ان کی آنکھیں پھوڑ دی گئیں ( کیوں کہ انہوں نے اسلامی چرواہے کے ساتھ ایسا ہی برتاؤ کیا تھا) اور ان کے زخموں پر داغ نہیں لگوایا گیا یہاں تک کہ وہ مرگئے۔
حدیث حاشیہ:
عرب میں ہاتھ پاؤں کاٹ کر جلتے تیل میں داغ دیا کرتے تھے اس طرح خون بند ہو جاتا تھا مگر ان کو بغیر داغ دیئے چھوڑ دیا گیا اور یہ تڑپ تڑپ کر مرگئے۔ (کذالك جزاءالظالمین)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Anas (RA) : Some people from the tribe of 'Ukl came to the Prophet (ﷺ) and embraced Islam. The climate of Madinah did not suit them, so the Prophet (ﷺ) ordered them to go to the (herd of milch) camels of charity and to drink, their milk and urine (as a medicine). They did so, and after they had recovered from their ailment (became healthy) they turned renegades (reverted from Islam) and killed the shepherd of the camels and took the camels away. The Prophet (ﷺ) sent (some people) in their pursuit and so they were (caught and) brought, and the Prophets ordered that their hands and legs should be cut off and that their eyes should be branded with heated pieces of iron, and that their cut hands and legs should not be cauterized, till they die.