کتاب: ان کفار و مرتدوں کے احکام میں جو مسلمان سے لڑتے ہیں
(
باب: نبی ﷺکا مرتدین لڑنے والوں کی آنکھوں میں سلائی پھروانا
)
Sahi-Bukhari:
(Chapter: The Prophet (saws) branded the eyes of those who fought)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
6805.
حضرتانس ؓ سے روایت ہے کہ قبیلہ عکل کے چند آدمی مدینہ طیبہ آئے تو نبی ﷺ نے ان کے لیے دودھ دینے والی اونٹنیوں کا بندوبست کر دیا اور فرمایا کہ وہ اونٹوں کے گلے میں جائیں اور ان کا پیشاب اور دودھ نوش کریں، چنانچہ انہوں نے ایسا ہی کیا۔ جب وہ تندرست ہو گئے تو انہوں نے چرواہے کو قتل کر دیا اور اونٹوں کو ہانک کر لے گئے۔ نبی ﷺ کے پاس یہ خبر صبح کے وقت پہنچی تو آپ نے ان کے تعاقب میں سوار دوڑائے۔ ابھی دھوپ زیادہ نہیں پھیلی تھی کہ انہیں گرفتار کرکے لایا گیا۔ آپ ﷺ نے ان کے ہاتھ اور پاؤں کاٹ دینے کا حکم دیا اور ان کی آنکھوں میں لوہے کی گرم سلائیاں پھیری گئیں۔ پھر انہیں پتھریلے گرم میدان میں پھینک دیا گیا۔ وہ پانی مانگتے تھے لیکن انہیں پانی نہ پلایا گیا۔ ابو قلابہ نے کہا: وہ لوگ تھے جنہوں نے چوری کی، قتل کیا ایمان کے بعد کفر اختیار کیا تھا نیز انہوں نے اللہ اور اس کے رسول کے خلاف باغیانہ کارروائی کی تھی۔
تشریح:
وہ نمک حرام انتہائی احسان فراموش نکلے۔ ان کے ساتھ جو سلوک ہوا وہ انھی کا کیا دھرا تھا۔ انھوں نے اونٹوں کے چرواہے کے ساتھ اسی قسم کا برتاؤ کیا تھا۔ اس مقام پر ایک اشکال ہے کہ حدیثِ عبادہ کے مطابق جس پر حد جاری ہو جائے وہ اس کے گناہ کا کفارہ بن جاتی ہے جبکہ عسکریت پسندوں کے متعلق ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’یہ سزا ان کے لیے دنیا میں رسوائی کا باعث اور آخرت میں سخت ترین عذاب کا پیش خیمہ ہوگی۔‘‘(المائدة:5: 33) اس آیت کے مطابق دنیا کی سزا ان کے لیے کفارہ نہیں ہوگی۔ اس کا جواب حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اس طرح دیا ہے کہ حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کی حدیث اہل اسلام کے ساتھ خاص ہے لیکن کافر یا مشرک کا قتل اس کے لیے کفارہ نہیں ہوگا کیونکہ کفروشرک ناقابل معافی جرم ہیں، جو توبہ کے بغیر معاف نہیں ہوں گے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’بے شک اللہ تعالیٰ شرک کو معاف نہیں کرے گا۔‘‘(النساء:4: 48) بہرحال مسلمان اور کافر کا معاملہ الگ الگ ہے۔ (فتح الباري:12/137)واللہ أعلم
حضرتانس ؓ سے روایت ہے کہ قبیلہ عکل کے چند آدمی مدینہ طیبہ آئے تو نبی ﷺ نے ان کے لیے دودھ دینے والی اونٹنیوں کا بندوبست کر دیا اور فرمایا کہ وہ اونٹوں کے گلے میں جائیں اور ان کا پیشاب اور دودھ نوش کریں، چنانچہ انہوں نے ایسا ہی کیا۔ جب وہ تندرست ہو گئے تو انہوں نے چرواہے کو قتل کر دیا اور اونٹوں کو ہانک کر لے گئے۔ نبی ﷺ کے پاس یہ خبر صبح کے وقت پہنچی تو آپ نے ان کے تعاقب میں سوار دوڑائے۔ ابھی دھوپ زیادہ نہیں پھیلی تھی کہ انہیں گرفتار کرکے لایا گیا۔ آپ ﷺ نے ان کے ہاتھ اور پاؤں کاٹ دینے کا حکم دیا اور ان کی آنکھوں میں لوہے کی گرم سلائیاں پھیری گئیں۔ پھر انہیں پتھریلے گرم میدان میں پھینک دیا گیا۔ وہ پانی مانگتے تھے لیکن انہیں پانی نہ پلایا گیا۔ ابو قلابہ نے کہا: وہ لوگ تھے جنہوں نے چوری کی، قتل کیا ایمان کے بعد کفر اختیار کیا تھا نیز انہوں نے اللہ اور اس کے رسول کے خلاف باغیانہ کارروائی کی تھی۔
حدیث حاشیہ:
وہ نمک حرام انتہائی احسان فراموش نکلے۔ ان کے ساتھ جو سلوک ہوا وہ انھی کا کیا دھرا تھا۔ انھوں نے اونٹوں کے چرواہے کے ساتھ اسی قسم کا برتاؤ کیا تھا۔ اس مقام پر ایک اشکال ہے کہ حدیثِ عبادہ کے مطابق جس پر حد جاری ہو جائے وہ اس کے گناہ کا کفارہ بن جاتی ہے جبکہ عسکریت پسندوں کے متعلق ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’یہ سزا ان کے لیے دنیا میں رسوائی کا باعث اور آخرت میں سخت ترین عذاب کا پیش خیمہ ہوگی۔‘‘(المائدة:5: 33) اس آیت کے مطابق دنیا کی سزا ان کے لیے کفارہ نہیں ہوگی۔ اس کا جواب حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اس طرح دیا ہے کہ حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کی حدیث اہل اسلام کے ساتھ خاص ہے لیکن کافر یا مشرک کا قتل اس کے لیے کفارہ نہیں ہوگا کیونکہ کفروشرک ناقابل معافی جرم ہیں، جو توبہ کے بغیر معاف نہیں ہوں گے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’بے شک اللہ تعالیٰ شرک کو معاف نہیں کرے گا۔‘‘(النساء:4: 48) بہرحال مسلمان اور کافر کا معاملہ الگ الگ ہے۔ (فتح الباري:12/137)واللہ أعلم
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہا ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا، ان سے ایوب سختیانی نے، ان سے ابوقلابہ نے اور ان سے حضرت انس بن مالک ؓ نے کہ قبیلہ عکل یا عرینہ کے چند لوگ میں سمجھتا ہوں عکل کا لفظ کہا، مدینہ آئے اور آنحضرت ﷺ نے ان کے لیے دودھ دینے والی اونٹنیوں کا انتظام کر دیا اور فرمایا کہ وہ اونٹوں کے گلہ میں جائیں اور ان کا پیشاب اور دودھ پئیں۔ چنانچہ انہوں نے پیا اور جب وہ تندرست ہوگئے تو چرواہے کو قتل کر دیا اور اونٹوں کو ہنکالے گئے۔ آنحضرت ﷺ کے پاس یہ خبر صبح کے وقت پہنچی تو آپ نے ان کے پیچھے سوار دوڑائے۔ ابھی دھوپ زیادہ پھیلی بھی نہیں تھی کہ وہ پکڑ کر لائے گئے۔ چنانچہ آنحضرت ﷺ کے حکم سے ان کے بھی ہاتھ پاؤں کاٹ ديے گئے اور ان کی بھی آنکھوں میں سلائی پھیر دی گئی اور انہیں”حرہ“ میں ڈال دیا گیا۔ وہ پانی مانگتے تھے لیکن انہیں پانی نہیں دیا جاتا تھا۔ ابوقلابہ نے کہا کہ یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے چوری کی تھی، قتل کیا تھا، ایمان کے بعد کفر اختیار کیا تھا اور اللہ اور اس کے رسول سے غدارانہ لڑائی لڑی تھی۔
حدیث حاشیہ:
بلکہ نمک حرامی کی اور چرواہے کا مثلہ کر ڈالا اوراونٹوں کو لے کر چلتے بنے۔ اسی لیے ان کے ساتھ بھی ایسا ہی برتاؤ کیا گیا۔ واقعہ ایک ہی ہے مگر مجتہد اعظم حضرت امام بخاری نے اس سے کئی ایک سیاسی مسائل کا استنباط فرمایا ہے۔ ایک مجتہد کی شان یہی ہوتی ہے، کوئی شک نہیں کہ حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ ایک مجتہد اعظم تھے، اسلام کے نباض تھے، قرآن و حدیث کے حکیم حاذق تھے، معاندین آپ کی شان میں کچھ بھی تنقیص کریں آپ کی خداداد عظمت پر کچھ اثر نہ پڑا ہے نہ پڑے گا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Anas bin Malik (RA): A group of people from 'Ukl (or 'Uraina) tribe ----but I think he said that they were from 'Ukl came to Madinah and (they became ill, so) the Prophet (ﷺ) ordered them to go to the herd of (Milch) she-camels and told them to go out and drink the camels' urine and milk (as a medicine). So they went and drank it, and when they became healthy, they killed the shepherd and drove away the camels. This news reached the Prophet (ﷺ) early in the morning, so he sent (some) men in their pursuit and they were captured and brought to the Prophet (ﷺ) before midday. He ordered to cut off their hands and legs and their eyes to be branded with heated iron pieces and they were thrown at Al-Harra, and when they asked for water to drink, they were not given water. (Abu Qilaba said, "Those were the people who committed theft and murder and reverted to disbelief after being believers (Muslims), and fought against Allah and His Apostle").