کتاب: ان کفار و مرتدوں کے احکام میں جو مسلمان سے لڑتے ہیں
(
باب : اشارے کنائے کے طور پر کوئی بات کہنا
)
Sahi-Bukhari:
(Chapter: At-Ta’rid)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
6847.
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس ایک دیہاتی آیا اور کہا: اللہ کے رسول! میری بیوی نے کالا بچہ جنا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”کیا تیرے پاس اونٹ ہیں“ اس نے کہا:جی ہاں۔ آپ نے فرمایا: ان کے رنگ کیسے ہیں؟ اس نے کہا: وہ سرخ ہیں۔ آپ نے فرمایا: ”کیا ان میں کوئی سیاہ بھی ہے؟“ اس نے کہا: ہاں۔ آپ نے فرمایا: وہ سیاہ کیسے ہوگیا؟ اس نے کہا: میرے خیال کے مطابق کسی رگ نے یہ رنگ کھینچ لیا ہے۔ آپ نے فرمایا: ”شاید تیرے بیٹے کا رنگ بھی کسی رگ نے کھینچ لیا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: شاید تیرے بیٹے کا رنگ بھی کسی رگ نے کھینچ لیا ہو۔“
تشریح:
(1) اس حدیث میں تعریض اور اشارہ اس طرح ہے کہ بچے کا کالا پیدا ہونا اس امر کی طرف اشارہ ہے کہ اس کی ماں نے ایسے شخص سے زنا کیا ہے جس کا رنگ کالا تھا کیونکہ میں سفید رنگ کا ہوں۔ یہ امر واضح ہے کہ تعریض کے ساتھ قذف، صریح قذف کے حکم میں نہیں، لہٰذا ایسا شخص قاذف نہیں ہوگا اور نہ ایسے شخص کی گواہی ہی مردود ہوگی کیونکہ حد قذف واضح تصریح سے واجب ہوتی ہے، تعریض یا اشارے میں حد قذف کا سامنا نہیں کرنا پڑتا، البتہ ایسے شخص کے لیے بھی ڈانٹ ڈپٹ ضروری ہے۔ تعریض اور تصریح میں فرق یہ ہے کہ دوران عدت میں عورت سے نکاح کی تعریض ہو سکتی ہے لیکن تصریح نہیں ہونی چاہیے جیسا کہ قرآن کریم نے اس کی وضاحت کی ہے۔ (2) واضح رہے کہ اس قسم کا سوال تین طرح سے کیا جا سکتا ہے: ٭جس خاوند کا رنگ سفید ہو اور اس کی بیوی سیاہ رنگ کا بچہ جنم دے تو اس کا کیا حکم ہے؟ ٭میری بیوی نے سیاہ رنگ کا بچہ جنم دیا ہے جبکہ میں سفید رنگ کا ہوں، اس کا کیا حکم ہے؟ ٭میری بیوی نے زنا کیا ہے اور سیاہ رنگ کا بچہ جنم دیا ہے جبکہ میں سفید رنگ کا ہوں، اس کا کیا حکم ہے؟پہلا سوال، محض سوال، دوسرا تعریض اور تیسرا تصریح قذف ہے۔ بہرحال اس قسم کی تعریض سے حد قذف نہیں لگتی۔ امام بخاری رحمہ اللہ کا رجحان بھی یہی ہے بصورت دیگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اسے قذف لگاتے۔ واللہ أعلم
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس ایک دیہاتی آیا اور کہا: اللہ کے رسول! میری بیوی نے کالا بچہ جنا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”کیا تیرے پاس اونٹ ہیں“ اس نے کہا:جی ہاں۔ آپ نے فرمایا: ان کے رنگ کیسے ہیں؟ اس نے کہا: وہ سرخ ہیں۔ آپ نے فرمایا: ”کیا ان میں کوئی سیاہ بھی ہے؟“ اس نے کہا: ہاں۔ آپ نے فرمایا: وہ سیاہ کیسے ہوگیا؟ اس نے کہا: میرے خیال کے مطابق کسی رگ نے یہ رنگ کھینچ لیا ہے۔ آپ نے فرمایا: ”شاید تیرے بیٹے کا رنگ بھی کسی رگ نے کھینچ لیا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: شاید تیرے بیٹے کا رنگ بھی کسی رگ نے کھینچ لیا ہو۔“
حدیث حاشیہ:
(1) اس حدیث میں تعریض اور اشارہ اس طرح ہے کہ بچے کا کالا پیدا ہونا اس امر کی طرف اشارہ ہے کہ اس کی ماں نے ایسے شخص سے زنا کیا ہے جس کا رنگ کالا تھا کیونکہ میں سفید رنگ کا ہوں۔ یہ امر واضح ہے کہ تعریض کے ساتھ قذف، صریح قذف کے حکم میں نہیں، لہٰذا ایسا شخص قاذف نہیں ہوگا اور نہ ایسے شخص کی گواہی ہی مردود ہوگی کیونکہ حد قذف واضح تصریح سے واجب ہوتی ہے، تعریض یا اشارے میں حد قذف کا سامنا نہیں کرنا پڑتا، البتہ ایسے شخص کے لیے بھی ڈانٹ ڈپٹ ضروری ہے۔ تعریض اور تصریح میں فرق یہ ہے کہ دوران عدت میں عورت سے نکاح کی تعریض ہو سکتی ہے لیکن تصریح نہیں ہونی چاہیے جیسا کہ قرآن کریم نے اس کی وضاحت کی ہے۔ (2) واضح رہے کہ اس قسم کا سوال تین طرح سے کیا جا سکتا ہے: ٭جس خاوند کا رنگ سفید ہو اور اس کی بیوی سیاہ رنگ کا بچہ جنم دے تو اس کا کیا حکم ہے؟ ٭میری بیوی نے سیاہ رنگ کا بچہ جنم دیا ہے جبکہ میں سفید رنگ کا ہوں، اس کا کیا حکم ہے؟ ٭میری بیوی نے زنا کیا ہے اور سیاہ رنگ کا بچہ جنم دیا ہے جبکہ میں سفید رنگ کا ہوں، اس کا کیا حکم ہے؟پہلا سوال، محض سوال، دوسرا تعریض اور تیسرا تصریح قذف ہے۔ بہرحال اس قسم کی تعریض سے حد قذف نہیں لگتی۔ امام بخاری رحمہ اللہ کا رجحان بھی یہی ہے بصورت دیگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اسے قذف لگاتے۔ واللہ أعلم
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے اسماعیل نے بیان کیا، کہا ہم سے امام مالک نے بیان کیا، ان سے شہاب نے، ان سے سعید بن مسیب نے اور ان سے حضرت ابوہریرہ ؓ نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس ایک دیہاتی آیا اور کہا کہ یا رسول اللہ! میری بیوی نے کالا لڑکا جنا ہے۔ آنحضرت ﷺ نے پوچھا، تمہارے پاس اونٹ ہیں؟ انہوں نے کہا کہ ہاں۔ آپ نے پوچھا ان کے رنگ کیسے ہیں؟ انہوں نے کہا کہ سرخ۔ آنحضرت ﷺ نے پوچھا ان میں کوئی خاکی رنگ کا بھی ہے؟ انہوں نے کہا کہ ہاں۔ آنحضرت ﷺ نے پوچھا پھر یہ کہاں سے آگیا؟ انہوں نے کہا میرا خیال ہے کہ کسی رگ نے یہ رنگ کھینچ لیا جس کی وجہ سے ایسا اونٹ پیدا ہوا۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا پھر ایسا بھی ممکن ہے کہ تیرے بیٹے کا رنگ بھی کسی رگ نے کھینچ لیا ہو۔
حدیث حاشیہ:
حکیموں نے لکھا ہے کہ رنگ کے اختلاف سے یہ نہیں کہہ سکتے کہ وہ بچہ اس مرد کا نہیں ہے۔ اس لیے کہ بعض اوقات ماں باپ دونوں گورے ہوتے ہیں مگر لڑکا سانولا پیدا ہوتا ہے اور اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ ماں حمل کی حالت میں کسی سانولے مرد کو یا کالی چیز کو دیکھتی رہتی ہے۔ اس کا رنگ بچہ کے رنگ پر اثر کرتا ہے۔ البتہ اعضاء میں مناسبت ماں باپ سے ضرور ہوتی ہے مگر وہ بھی ایسی مخلوط کہ جس کو قیافہ کا علم نہ ہو وہ نہیں سمجھ سکتا۔ اس حدیث سے یہ نکلا کہ تعریض کے طور پر قذف کرنے میں حد نہیں پڑتی۔ امام شافعی اور امام بخاری رحمۃ اللہ علیہما کا یہی قول ہے ورنہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس کو حد لگاتے۔ مرد نے اپنی عورت کے متعلق جو کہا یہی تعریف کی مثال ہے۔ اس نے صاف یوں نہیں کہا کہ لڑکا حرام کا ہے مگر مطلب یہی ہے کہ وہ لڑکا میرے نطفے سے نہیں ہے کیوں کہ میں گورا ہوں میرا لڑکا تو میری طرح گورا ہی ہوتا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے جواب میں یہی حکمت بتائی اور اس مرد کی تشفی ہو گئی۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Hurairah (RA) : A bedouin came to Allah's Apostle (ﷺ) and said, "My wife has delivered a black child." The Prophet (ﷺ) said to him, "Have you camels?" He replied, "Yes." The Prophet (ﷺ) said, "What color are they?" He replied, "They are red." The Prophet (ﷺ) further asked, "Are any of them gray in color?" He replied, "Yes." The Prophet (ﷺ) asked him, "Whence did that grayness come?" He said, "I thing it descended from the camel's ancestors." Then the Prophet (ﷺ) said (to him), "Therefore, this child of yours has most probably inherited the color from his ancestors."