باب : اللہ تعالی نے سورۃ نساءمیں فرمایا اور جو شخص کسی مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کردے اس کی سزا جہنم ہے۔
)
Sahi-Bukhari:
Blood Money (Ad-Diyat)
(Chapter: “… And whoever kills a believer intentionally, his recompense is Hell …”)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
6865.
حضرت مقداد بن عمرو بن کندی ؓ سے روایت ہے۔ یہ بنو زہرہ کے حلیف اور غزوہ بدر میں نبی ﷺ کے ساتھ تھے۔ انہوں نے عرض کیا: اللہ کےرسول! اگر دوران جنگ میں میری کسی کافر سے مڈ بھیڑ ہو جائے، پھر ہم ایک دوسرے کو قتل کرنے کی کوشش میں لگ جائیں پھر وہ کافر میرے ہاتھ پر اپنی تلوار مار کر اسے کاٹ دے، پھر کسی درخت کی آڑ لے کر کہے: میں اللہ کے تابع ہوگیا ہوں، تو کیا میں اس اقرار کے بعد اسے قتل کر سکتا ہوں؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”اسے قتل مت کرنا۔“ میں نے کہا: اللہ کے رسول! اس نے میرا ہاتھ کاٹ ڈالا ہے۔ میرا ہاتھ کاٹنے کے بعد اس نے یہ کلمات کہے ہیں۔ کیا اب بھی اسے قتل نہ کروں؟ آپ نے فرمایا: ”اسے قتل نہ کرنا، اگر تو نے اسے قتل کیا تو وہ تیرے مرتبے میں ہوگا جو تمہارا اسے قتل کرنے سے پہلے تھا اور تم اس کے مقام میں ہوگے جو اس کا اس اقرار سے پہلے تھا۔“
تشریح:
(1) کافر، کلمہ پڑھنے سے پہلے مباح الدم تھا، یعنی اسے قتل کرنا حلال تھا، جب اس نے کلمہ پڑھ تو دوسرے مسلمانوں کی طرح اس کا خون محفوظ ہو گیا، یعنی وہ معصوم الدم ٹھہرا، اس کے بعد اگر کوئی مسلمان اسے قتل کرے گا تو اسے قصاص کے طور پر قتل کر دیا جائے گا۔ (2) حدیث میں تشبیہ اباحت دم میں ہے، کافر ہو جانے میں تشبیہ نہیں۔ مقصد یہ ہے کہ کلمۂ اسلام کہنے والے کو قتل کرنا ممنوع اور حرام ہے۔ ابن بطال رحمہ اللہ نے مہلب سے اس کے معنی اس طرح بیان کیے ہیں کہ تو اس کے قتل کے ارادے سے گناہ گار ہوگا جیسے وہ تیرے قتل کے ارادے سے گناہ گار تھا۔ نافرمانی کرنے میں تم دونوں ایک ہی مقام پر ہوگے۔ (فتح الباري:235/12)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6619
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6865
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
6865
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
6865
تمہید کتاب
لفظ ديات، دية كی جمع ہے۔اس سے مراد" خون بہا"ہے۔ لغوی اعتبار سے یہ مصدر ہے جس کے معنی خون بہا دینا آتے ہیں۔ شرعی اعتبار سے ایسا مال جو کسی جرم کی وجہ سے انسان پر واجب ہو" دیت" کہلاتا ہے۔حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ ابنی اسرائیل میں صرف قصاص فرض تھا،ان کے ہاں دیت نہ تھی۔اللہ تعالیٰ نے اس امت کے لیے فرمایا: (كُتِبَ عَلَيْكُمُ الْقِصَاصُ) مقتولین کے بارے میں تم پر قصاص فرض کردیا گیا ہے۔"(البقرہ2: 178)نیز فرمایا: (فَمَنْ عُفِيَ لَهُ مِنْ أَخِيهِ)"جس کے لیے اس کے بھائی کی طرف سے کوئی چیز معاف کردی جائے۔"(البقرہ2: 178)اس مقام پر عفو سے مراد قتل عمدہ میں دیت قبول کرنا ہے۔(صحیح البخاری، التفسیر، حدیث:4498)حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"جس کسی کا کوئی آدمی مارا جائے تو اسے دو اختیار ہیں:یا تو وہ دیت وصول کرے یا قاتل کو مقتول کے بدلے میں قتل کردیا جائے۔"یعنی قصاص اور دیت واجب ہے لیکن ان دونوں میں اختیار ہے۔(صحیح البخاری، اللقطۃ،حدیث:2434) دیت کے وجوب میں بنیادی شرط یہ ہے کہ قتل ناحق ہو،یعنی مقتول کو کسی شرعی وجہ سے قتل نہ کیا گیا ہو بلکہ بلا وجہ اسے موت کے گھاٹ اتار دیا گیا ہو۔حربی کافر،حد یا قصاص کی بنا پر قتل کرنے سے دیت ساقط ہوجاتی ہے۔وجوب دیت کے چند اسباب ہیں جن کی تفصیل حسب ذیل ہے:٭اس سے مراد کسی کو جان سے مارنا ہے۔اس کی تین قسمیں ہیں:٭قتل عمد: غیر مستحقِ قتل کو مار دینے کی نیت سے ایسے آلے کے ذریعے سے مارنا جس سے عام طور پر آدمی مرجاتا ہو،مثلاً: بندوق، تلوار یا تیر وغیرہ سے قتل کرنا۔٭قتل شبہ عمد:کسی آدمی کو ایسی چیز سے مارنا جس سے عموماً انسان مرتا نہیں،مثلاً:چھڑی یا کنکری سے کسی کو ماردیا جائے۔اس میں قصاص نہیں بلکہ دیت ہے۔٭قتل خطا:کسی کو غلطی سے مارنا۔ اس کی کئی صورتیں ہیں،مثلاً:٭گولی تو شکار کی طرف چلائے لیکن کسی انسان کو لگ جائے اور وہ اس سے مرجائے۔٭کسی نے اپنی ضرورت کے لیے کنواں کھودا لیکن کوئی اس میں گر کر مرجائے۔٭کسی ہنگامے میں کسی مسلمان کو کافر سمجھ کر مارے جیسا کہ غزوۂ احد میں حضرت یمان رضی اللہ عنہ قتل ہوئے تھے۔٭ٹریفک کے حادثے میں کسی گاڑی کے نیچے آکر یا اس کی ضرب سے مرجائے۔قتل خطا میں قرآن کریم کی تصریح کے مطابق دیت اور کفارہ دونوں واجب ہیں۔کسی کو جان سے مار دینا،اس میں دیت کی مقدار سو اونٹ یا ان کی قیمت کے برابر رقم ہے جو قاتل کے وارث مقتول کے ورثاء کو ادا کریں گے،چنانچہ حدیث میں ہے: "کسی بھی جان کے قتل میں سواونٹ دیت ہے۔"(سنن الدارمی:2/188) ایک روایت میں ہے کہ جن کے پاس سونا ہے ان پر ایک ہزار دینار دیت ہے۔حضرت عمرِ فاروق رضی اللہ عنہ نے دیت یوں مقرر کی تھی:جن کے پاس سونا ہے ان پر ایک ہزار دینار، جن کے پاس چاندی ہے ان پر بارہ ہزار درہم اور جن کے پاس حُلّے( ریشمی لباس) ہیں ان پر دوسوحلوں کی ادائیگی ہے۔(سنن ابی داود، الدیات، حدیث:4542)بہرحال دیت میں اصل اونٹ ہیں،ان کے علاوہ جو کچھ بھی دیا جائے وہ اونٹوں کی قیمت کے مطابق دیا جائے۔دیت کا دوسرا سبب قتل کے علاوہ کسی پر زیادتی کرنا ہے،اس کی تین قسمیں ہیں:٭اعضاء کو ضائع کرنا،یعنی کسی کو ہاتھ پاؤں یا کسی اور عضو سے محروم کردیا۔٭اعضاء کی کارکردگی سے محروم کرنا،یعنی کسی قوت گویائی، قوت سماعت یا قوت سوچ وبچار سے محروم کرنا۔٭کسی کو زخمی کرنا، یعنی سر،چہرے یا جسم کے کسی دوسرے حصے کو زخمی کرنا۔ان کے متعلق دیت کی تفصیل کتب فقہ میں موجود ہے۔بہرحال امام بخاری رحمہ الہ نے اس عنوان کے تحت قتل،قصاص اور دیت کے چیدہ چیدہ مسائل بیان کیے ہیں جن کی ہم آئندہ وضاحت کریں گے۔اس عنوان کے تحت چَوَن(54)کے قریب مرفوع احادیث بیان کی گئی ہیں جن میں سات(7)معلق اور باقی موصول ہیں۔ان میں چالیس (40)مکرر اور(14)چودہ خالص ہیں۔چند احادیث کے علاوہ باقی احادیث امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی بیان کی ہیں۔مرفوع احادیث کے علاوہ صحابۂ کرام اور تابعین عظام سے اٹھائیس(28)آثار بھی مروی ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے ان احادیث وآثار پر بتیس(32)چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کرکے متعدد مسائل واحکام اخذ کیے ہیں۔بہرحال امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان میں دیگر مسائل کے علاوہ قتل ناحق کی سنگینی کو بڑی تفصیل سے بیان کیا ہے اور بتایا ہے کہ اس قسم کے قتل میں ابدی طور پر جہنم مین رہنے کی وعید ہے۔اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس سے محفوظ رکھے۔قارئین سے گزارش ہے کہ وہ ہماری بیان کردہ معروضات کو سامنے رکھتے ہوئے ان احادیث کا مطالعہ کریں تاکہ امام بخاری رحمہ اللہ کی قوت اجتہاد کا ادراک ہو۔دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہم سب کو قیامت کے دن محدثین کرام رحمہ اللہ کے پاکیزہ گروہ میں سے اٹھائے۔ آمین
تمہید باب
پوری آیت کا ترجمہ حسب ذیل ہے: "اور جو شخص کسی مومن کو جان بوجھ کر قتل کرے تو اس کی سزا جہنم ہے جس میں وہ ہمیشہ (مدت دراز تک)رہے گا،اس پر اللہ کا غضب اور اس کی لعنت ہے اور اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے بہت بڑا عذاب تیار کررکھا ہے۔"(النساء4: 93)کسی مومن کو جان بوجھ کر قتل کرنا انتہائی شدید جرم ہے جس کا اس عالم رنگ وبو میں کفارہ ممکن ہی نہیں۔قتل ناحق کسی غیر مسلم کا ہوتو وہ بھی شدید جرم ہے،پھر اگر وہ قتل مومن کا ہوتو مزید شدید جرم بن جاتا ہے،نیز جرم بیان کرنے کے بعد اللہ کا غضب اور اس کی لعنت کے الفاظ سے اس جرم کی شدت واضح ہوجاتی ہے۔رہا یہ سوال کہ ایسے مجرم کی توبہ قبول ہے یا نہیں؟ اگرچہ اس میں علماء کا اختلاف ہے،تاہم حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہم اس بات کے قائل ہیں کہ ایسے مجرم کی توبہ قبول نہیں ہوتی۔ان کا کہنا ہے کہ یہ آیت محکم ہے اور اس کا حکم باقی ہے۔دیگر اہل علم کا موقف ہے کہ ایسا قاتل اللہ تعالیٰ کی مشیت کے تحت ہوگا،اگر چاہت تو اسے معاف کردے اور اگر چاہے تو اسے عذاب دے،نیز خلود سے مراد مدت دراز ہے،ہمیشہ رہنا نہیں کیونکہ ہمیشہ تو دوزخ میں وہی رہے گا جو بحالتِ کفرو شرک مرے گا۔واللہ اعلم
حضرت مقداد بن عمرو بن کندی ؓ سے روایت ہے۔ یہ بنو زہرہ کے حلیف اور غزوہ بدر میں نبی ﷺ کے ساتھ تھے۔ انہوں نے عرض کیا: اللہ کےرسول! اگر دوران جنگ میں میری کسی کافر سے مڈ بھیڑ ہو جائے، پھر ہم ایک دوسرے کو قتل کرنے کی کوشش میں لگ جائیں پھر وہ کافر میرے ہاتھ پر اپنی تلوار مار کر اسے کاٹ دے، پھر کسی درخت کی آڑ لے کر کہے: میں اللہ کے تابع ہوگیا ہوں، تو کیا میں اس اقرار کے بعد اسے قتل کر سکتا ہوں؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”اسے قتل مت کرنا۔“ میں نے کہا: اللہ کے رسول! اس نے میرا ہاتھ کاٹ ڈالا ہے۔ میرا ہاتھ کاٹنے کے بعد اس نے یہ کلمات کہے ہیں۔ کیا اب بھی اسے قتل نہ کروں؟ آپ نے فرمایا: ”اسے قتل نہ کرنا، اگر تو نے اسے قتل کیا تو وہ تیرے مرتبے میں ہوگا جو تمہارا اسے قتل کرنے سے پہلے تھا اور تم اس کے مقام میں ہوگے جو اس کا اس اقرار سے پہلے تھا۔“
حدیث حاشیہ:
(1) کافر، کلمہ پڑھنے سے پہلے مباح الدم تھا، یعنی اسے قتل کرنا حلال تھا، جب اس نے کلمہ پڑھ تو دوسرے مسلمانوں کی طرح اس کا خون محفوظ ہو گیا، یعنی وہ معصوم الدم ٹھہرا، اس کے بعد اگر کوئی مسلمان اسے قتل کرے گا تو اسے قصاص کے طور پر قتل کر دیا جائے گا۔ (2) حدیث میں تشبیہ اباحت دم میں ہے، کافر ہو جانے میں تشبیہ نہیں۔ مقصد یہ ہے کہ کلمۂ اسلام کہنے والے کو قتل کرنا ممنوع اور حرام ہے۔ ابن بطال رحمہ اللہ نے مہلب سے اس کے معنی اس طرح بیان کیے ہیں کہ تو اس کے قتل کے ارادے سے گناہ گار ہوگا جیسے وہ تیرے قتل کے ارادے سے گناہ گار تھا۔ نافرمانی کرنے میں تم دونوں ایک ہی مقام پر ہوگے۔ (فتح الباري:235/12)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبدان نے بیان کیا، کہا ہم سے عبداللہ بن مبارک نے بیان کیا، کہا ہم کو یونس نے خبر دی، ان سے زہری نے، کہا مجھ سے عطاء بن یزید نے بیان کیا، ان سے عبیداللہ بن عدی نے بیان کیا، ان سے بنی زہرہ کے حلیف مقداد بن عمرو الکندی ؓ نے بیان کیا وہ بدر کی لڑائی میں نبی کریم ﷺ کے ساتھ شریک تھے کہ آپ نے پوچھا یا رسول اللہ! اگر جنگ کے دوران میری کسی کافر سے مڈ بھیڑ ہو جائے اور ہم ایک دوسرے کو قتل کرنے کی کوشش کرنے لگیں پھر وہ میرے ہاتھ پر اپنی تلوار مار کر اسے کاٹ دے اور اس کے بعد کسی درخت کی آڑ لے کر کہے کہ میں اللہ پر ایمان لایا تو کیا میں اسے اس کے اس اقرار کے بعد قتل کر سکتا ہوں؟ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ اسے قتل نہ کرنا۔ انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ! اس نے تو میرا ہاتھ بھی کاٹ ڈالا اور یہ اقرار اس وقت کیا جب اسے یقین ہو گیا کہ اب میں اسے قتل ہی کر دوں گا؟ آنحضرت ﷺ نے فرمایا اسے قتل نہ کرنا کیوں کہ اگر تم نے اسے اسلام لانے کے بعد قتل کر دیا تو وہ تمہارے مرتبہ میں ہوگا جو تمہارا اسے قتل کرنے سے پہلے تھا یعنی معصوم معلوم الدم اور تم اس کے مرتبہ میں ہوگے جو اس کا اس کلمہ کے اقرار سے پہلے تھا جو اس نے اب کیا ہے۔ (یعنی ظالم مباح الدم)۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Al-Miqdad bin 'Amr Al-Kindi (RA) : An ally of Bani Zuhra who took part in the battle of Badr with the Prophet, that he said, "O Allah's Apostle (ﷺ) ! If I meet an unbeliever and we have a fight, and he strikes my hand with the sword and cuts it off, and then takes refuge from me under a tree, and says, 'I have surrendered to Allah (i.e. embraced Islam),' may I kill him after he has said so?" Allah's Apostle (ﷺ) said, "Do not kill him." Al-Miqdad said, "But O Allah's Apostle (ﷺ) ! He had chopped off one of my hands and he said that after he had cut it off. May I kill him?" The Prophet (ﷺ) said. "Do not kill him for if you kill him, he would be in the position in which you had been before you kill him, and you would be in the position in which he was before he said the sentence."