باب : سورۃ مائدہ میں فرمان کہ جس نے مرتے کو بچالیا اس نے گویا سب لوگوں کی جان بچالی
)
Sahi-Bukhari:
Blood Money (Ad-Diyat)
(Chapter: “And if anyone saved a life….”)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
ابن عباس ؓنے کہا کہ من احیاھا کا معنی یہ ہے کہ جس نے ناحق خون کرنا حرام رکھا گویا اس نے اس عمل سے تمام لوگوں کو زندہ رکھا۔اس یہ نا حق خون ایک کرے یا تمام کریں گناہ میں برابر ہیں اور جس نے نا حق خون سے پرہیز کیا تو گویا سب لوگوں کی جان بچا لی۔
6872.
حضرت اسامہ بن زید ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: ہمیں رسول اللہ ﷺ نے قبیلہ جہینہ کی ایک شاخ حرقہ کی طرف روانہ کیا۔ ہم نے ان لوگوں کو صبح صبح ہی جا لیا اور شکست سے دوچار کر دیا، چنانچہ میں اور انصار کا ایک آدمی ان کے ایک شخص تک پہنچے، جب ہم نے اسے گھیرلیا تو اس نے لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ کہہ دیا۔ انصاری نے تو (یہ سن کر) اپنا ہاتھ روک لیا لیکن میں نے اپنے نیزے سے اس کا کام تمام کر دیا۔ جب ہم واپس آئے تو نبی ﷺ کو اس واقعے کی اطلاع ملی۔ آپ نے مجھ سے فرمایا: اے اسامہ! کیا تو نے اسے لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّھ کا اقرار کرنے کے بعد قتل کر ڈالا؟ میں نے کہا: اللہ کے رسول! اس نے صرف جان بچانے کے لیے اقرار کیا تھا۔ آپ نے فرمایا: ”کیا تو نے اسے لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّھ کہنے کے بعد قتل کر دیا؟“ آپ ﷺ اس جملے کو بار بار دہراتے رہے کہ میرے دل میں یہ خواہش پیدا ہوگئی: کاش! میں اس سے پہلے مسلمان نہ ہوا ہوتا۔
تشریح:
(1)ایک روایت میں ہے کہ جب میں نے اسے قتل کردیا تو میرے دل میں کھٹکا پیدا ہوا تو میں نے خود ہی یہ بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ذکر کی دی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تم نے لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّھ کے اقرار کے بعد اسے قتل کر دیا؟‘‘ میں نے عرض کی: اس نے ہتھیار کے خوف سے اقرار کیا تھا۔ آپ نے فرمایا: ’’کیا تم نے اس کا دل پھاڑ کر دیکھا تھا کہ اس نے بچاؤ کے لیے اقرار کیا ہے۔‘‘ (صحیح مسلم، الإیمان، حدیث:277(96) مطلب یہ ہے کہ دل کا حال تو اللہ تعالیٰ کو معلوم ہے، جب اس نے زبان سے کلمۂ توحید پرھ لیا تھا تو اسے چھوڑ دینا چاہیے تھا اور اس کے کلمے کا اعتبار کرنا چاہیے تھا۔ (2) حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ نے اس شخص کا کافر خیال کرتے ہوئے قتل کیا تھا اور کلمۂ توحید سن کر یہ سمجھا کہ وہ صرف قتل سے بچنے کے لیے کلمۂ توحید کہہ رہا ہے۔حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ اس واقعے کے بعد کسی کو قتل کرنے میں جلدی نہ کرتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ جنگ صفین اور جنگ جمل میں کنارہ کش رہے۔ (فتح الباري:244/12) ایک روایت میں ہے کہ اس طرح کا ایک واقعہ کسی دوسرے شخص کے ساتھ بھی پیش آیا۔ کچھ وقت کے بعد قاتل بھی فوت ہو گیا جب اسے دفن کیا گیا تو زمین نے اسے قبول نہ کیا۔ دو تین بار دفنانے کے بعد صحابہ نے اسے دو پہاڑوں کے درمیان وادی میں پھینک دیا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اطلاع دی گئی تو آپ نے فرمایا: ’’زمین اس سے بدترین لوگوں کو قبول کر لیتی ہے لیکن اس واقعے سے اللہ تعالیٰ تمھیں لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّھ کی عظمت دکھانا چاہتا ہے۔‘‘ (سنن ابن ماجة، الفتن، حدیث:3930 م)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6625
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6872
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
6872
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
6872
تمہید کتاب
لفظ ديات، دية كی جمع ہے۔اس سے مراد" خون بہا"ہے۔ لغوی اعتبار سے یہ مصدر ہے جس کے معنی خون بہا دینا آتے ہیں۔ شرعی اعتبار سے ایسا مال جو کسی جرم کی وجہ سے انسان پر واجب ہو" دیت" کہلاتا ہے۔حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ ابنی اسرائیل میں صرف قصاص فرض تھا،ان کے ہاں دیت نہ تھی۔اللہ تعالیٰ نے اس امت کے لیے فرمایا: (كُتِبَ عَلَيْكُمُ الْقِصَاصُ) مقتولین کے بارے میں تم پر قصاص فرض کردیا گیا ہے۔"(البقرہ2: 178)نیز فرمایا: (فَمَنْ عُفِيَ لَهُ مِنْ أَخِيهِ)"جس کے لیے اس کے بھائی کی طرف سے کوئی چیز معاف کردی جائے۔"(البقرہ2: 178)اس مقام پر عفو سے مراد قتل عمدہ میں دیت قبول کرنا ہے۔(صحیح البخاری، التفسیر، حدیث:4498)حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"جس کسی کا کوئی آدمی مارا جائے تو اسے دو اختیار ہیں:یا تو وہ دیت وصول کرے یا قاتل کو مقتول کے بدلے میں قتل کردیا جائے۔"یعنی قصاص اور دیت واجب ہے لیکن ان دونوں میں اختیار ہے۔(صحیح البخاری، اللقطۃ،حدیث:2434) دیت کے وجوب میں بنیادی شرط یہ ہے کہ قتل ناحق ہو،یعنی مقتول کو کسی شرعی وجہ سے قتل نہ کیا گیا ہو بلکہ بلا وجہ اسے موت کے گھاٹ اتار دیا گیا ہو۔حربی کافر،حد یا قصاص کی بنا پر قتل کرنے سے دیت ساقط ہوجاتی ہے۔وجوب دیت کے چند اسباب ہیں جن کی تفصیل حسب ذیل ہے:٭اس سے مراد کسی کو جان سے مارنا ہے۔اس کی تین قسمیں ہیں:٭قتل عمد: غیر مستحقِ قتل کو مار دینے کی نیت سے ایسے آلے کے ذریعے سے مارنا جس سے عام طور پر آدمی مرجاتا ہو،مثلاً: بندوق، تلوار یا تیر وغیرہ سے قتل کرنا۔٭قتل شبہ عمد:کسی آدمی کو ایسی چیز سے مارنا جس سے عموماً انسان مرتا نہیں،مثلاً:چھڑی یا کنکری سے کسی کو ماردیا جائے۔اس میں قصاص نہیں بلکہ دیت ہے۔٭قتل خطا:کسی کو غلطی سے مارنا۔ اس کی کئی صورتیں ہیں،مثلاً:٭گولی تو شکار کی طرف چلائے لیکن کسی انسان کو لگ جائے اور وہ اس سے مرجائے۔٭کسی نے اپنی ضرورت کے لیے کنواں کھودا لیکن کوئی اس میں گر کر مرجائے۔٭کسی ہنگامے میں کسی مسلمان کو کافر سمجھ کر مارے جیسا کہ غزوۂ احد میں حضرت یمان رضی اللہ عنہ قتل ہوئے تھے۔٭ٹریفک کے حادثے میں کسی گاڑی کے نیچے آکر یا اس کی ضرب سے مرجائے۔قتل خطا میں قرآن کریم کی تصریح کے مطابق دیت اور کفارہ دونوں واجب ہیں۔کسی کو جان سے مار دینا،اس میں دیت کی مقدار سو اونٹ یا ان کی قیمت کے برابر رقم ہے جو قاتل کے وارث مقتول کے ورثاء کو ادا کریں گے،چنانچہ حدیث میں ہے: "کسی بھی جان کے قتل میں سواونٹ دیت ہے۔"(سنن الدارمی:2/188) ایک روایت میں ہے کہ جن کے پاس سونا ہے ان پر ایک ہزار دینار دیت ہے۔حضرت عمرِ فاروق رضی اللہ عنہ نے دیت یوں مقرر کی تھی:جن کے پاس سونا ہے ان پر ایک ہزار دینار، جن کے پاس چاندی ہے ان پر بارہ ہزار درہم اور جن کے پاس حُلّے( ریشمی لباس) ہیں ان پر دوسوحلوں کی ادائیگی ہے۔(سنن ابی داود، الدیات، حدیث:4542)بہرحال دیت میں اصل اونٹ ہیں،ان کے علاوہ جو کچھ بھی دیا جائے وہ اونٹوں کی قیمت کے مطابق دیا جائے۔دیت کا دوسرا سبب قتل کے علاوہ کسی پر زیادتی کرنا ہے،اس کی تین قسمیں ہیں:٭اعضاء کو ضائع کرنا،یعنی کسی کو ہاتھ پاؤں یا کسی اور عضو سے محروم کردیا۔٭اعضاء کی کارکردگی سے محروم کرنا،یعنی کسی قوت گویائی، قوت سماعت یا قوت سوچ وبچار سے محروم کرنا۔٭کسی کو زخمی کرنا، یعنی سر،چہرے یا جسم کے کسی دوسرے حصے کو زخمی کرنا۔ان کے متعلق دیت کی تفصیل کتب فقہ میں موجود ہے۔بہرحال امام بخاری رحمہ الہ نے اس عنوان کے تحت قتل،قصاص اور دیت کے چیدہ چیدہ مسائل بیان کیے ہیں جن کی ہم آئندہ وضاحت کریں گے۔اس عنوان کے تحت چَوَن(54)کے قریب مرفوع احادیث بیان کی گئی ہیں جن میں سات(7)معلق اور باقی موصول ہیں۔ان میں چالیس (40)مکرر اور(14)چودہ خالص ہیں۔چند احادیث کے علاوہ باقی احادیث امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی بیان کی ہیں۔مرفوع احادیث کے علاوہ صحابۂ کرام اور تابعین عظام سے اٹھائیس(28)آثار بھی مروی ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے ان احادیث وآثار پر بتیس(32)چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کرکے متعدد مسائل واحکام اخذ کیے ہیں۔بہرحال امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان میں دیگر مسائل کے علاوہ قتل ناحق کی سنگینی کو بڑی تفصیل سے بیان کیا ہے اور بتایا ہے کہ اس قسم کے قتل میں ابدی طور پر جہنم مین رہنے کی وعید ہے۔اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس سے محفوظ رکھے۔قارئین سے گزارش ہے کہ وہ ہماری بیان کردہ معروضات کو سامنے رکھتے ہوئے ان احادیث کا مطالعہ کریں تاکہ امام بخاری رحمہ اللہ کی قوت اجتہاد کا ادراک ہو۔دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہم سب کو قیامت کے دن محدثین کرام رحمہ اللہ کے پاکیزہ گروہ میں سے اٹھائے۔ آمین
تمہید باب
پیش کردہ آیت کا آغاز اس طرح ہے: "ہم نے بنی اسرائیل پر لکھ دیا تھا کہ جس شخص نے دوسرے کو جان کے بدلے یا زمین میں فساد برپا کرنے کے علاوہ سے قتل کیا تو اس نے گویا سب لوگوں کو ہی مار ڈالا۔"(المائدہ5: 32) شریعت نے صرف تین صورتوں میں قتل کو جائز قرار دیا ہے:٭قتل کے بدلے قتل،یعنی قصاص۔٭شادی شدہ مرد عورت زنا کریں تو رجم کرکے مار ڈالنا۔٭ اگر کوئی دین اسلام سے پھر جائے تو اسے قتل کرنا۔ان تینوں صورتوں کے علاوہ جو بھی قتل ہوگا وہ قتل ناحق اور فساد فی الارض کے ضمن میں آئے گا۔ واللہ اعلم
ابن عباس ؓنے کہا کہ من احیاھا کا معنی یہ ہے کہ جس نے ناحق خون کرنا حرام رکھا گویا اس نے اس عمل سے تمام لوگوں کو زندہ رکھا۔اس یہ نا حق خون ایک کرے یا تمام کریں گناہ میں برابر ہیں اور جس نے نا حق خون سے پرہیز کیا تو گویا سب لوگوں کی جان بچا لی۔
حدیث ترجمہ:
حضرت اسامہ بن زید ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: ہمیں رسول اللہ ﷺ نے قبیلہ جہینہ کی ایک شاخ حرقہ کی طرف روانہ کیا۔ ہم نے ان لوگوں کو صبح صبح ہی جا لیا اور شکست سے دوچار کر دیا، چنانچہ میں اور انصار کا ایک آدمی ان کے ایک شخص تک پہنچے، جب ہم نے اسے گھیرلیا تو اس نے لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ کہہ دیا۔ انصاری نے تو (یہ سن کر) اپنا ہاتھ روک لیا لیکن میں نے اپنے نیزے سے اس کا کام تمام کر دیا۔ جب ہم واپس آئے تو نبی ﷺ کو اس واقعے کی اطلاع ملی۔ آپ نے مجھ سے فرمایا: اے اسامہ! کیا تو نے اسے لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّھ کا اقرار کرنے کے بعد قتل کر ڈالا؟ میں نے کہا: اللہ کے رسول! اس نے صرف جان بچانے کے لیے اقرار کیا تھا۔ آپ نے فرمایا: ”کیا تو نے اسے لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّھ کہنے کے بعد قتل کر دیا؟“ آپ ﷺ اس جملے کو بار بار دہراتے رہے کہ میرے دل میں یہ خواہش پیدا ہوگئی: کاش! میں اس سے پہلے مسلمان نہ ہوا ہوتا۔
حدیث حاشیہ:
(1)ایک روایت میں ہے کہ جب میں نے اسے قتل کردیا تو میرے دل میں کھٹکا پیدا ہوا تو میں نے خود ہی یہ بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ذکر کی دی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تم نے لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّھ کے اقرار کے بعد اسے قتل کر دیا؟‘‘ میں نے عرض کی: اس نے ہتھیار کے خوف سے اقرار کیا تھا۔ آپ نے فرمایا: ’’کیا تم نے اس کا دل پھاڑ کر دیکھا تھا کہ اس نے بچاؤ کے لیے اقرار کیا ہے۔‘‘ (صحیح مسلم، الإیمان، حدیث:277(96) مطلب یہ ہے کہ دل کا حال تو اللہ تعالیٰ کو معلوم ہے، جب اس نے زبان سے کلمۂ توحید پرھ لیا تھا تو اسے چھوڑ دینا چاہیے تھا اور اس کے کلمے کا اعتبار کرنا چاہیے تھا۔ (2) حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ نے اس شخص کا کافر خیال کرتے ہوئے قتل کیا تھا اور کلمۂ توحید سن کر یہ سمجھا کہ وہ صرف قتل سے بچنے کے لیے کلمۂ توحید کہہ رہا ہے۔حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ اس واقعے کے بعد کسی کو قتل کرنے میں جلدی نہ کرتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ جنگ صفین اور جنگ جمل میں کنارہ کش رہے۔ (فتح الباري:244/12) ایک روایت میں ہے کہ اس طرح کا ایک واقعہ کسی دوسرے شخص کے ساتھ بھی پیش آیا۔ کچھ وقت کے بعد قاتل بھی فوت ہو گیا جب اسے دفن کیا گیا تو زمین نے اسے قبول نہ کیا۔ دو تین بار دفنانے کے بعد صحابہ نے اسے دو پہاڑوں کے درمیان وادی میں پھینک دیا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اطلاع دی گئی تو آپ نے فرمایا: ’’زمین اس سے بدترین لوگوں کو قبول کر لیتی ہے لیکن اس واقعے سے اللہ تعالیٰ تمھیں لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّھ کی عظمت دکھانا چاہتا ہے۔‘‘ (سنن ابن ماجة، الفتن، حدیث:3930 م)
ترجمۃ الباب:
حضرت عباس ؓنے اس کے معنی یوں کیے ہیں: جس نے ناحق خون کرنا حرام رکھا تو گویا اس نے اس عمل سے تمام لوگوں کو زندہ رکھا۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے عمرو بن زرارہ نے بیان کیا، کہا ہم سے ہشیم نے بیان کیا، کہا ہم سے حصین نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوظبیان نے بیان کیا، کہا کہ میں نے اسامہ بن زید بن حارثہ ؓ سے سنا، انہوں نے بیان کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں رسول اللہ ﷺ نے قبیلہ جہینہ کی ایک شاخ کی طرح (مہم پر) بھیجا۔ بیان کیا کہ پھر ہم نے ان لوگوں کو صبح کے وقت جا لیا اور انہیں شکست دے دی۔ راوی نے بیان کیا کہ میں اور قبیلہ انصار کے ایک صاحب قبیلہ جہینہ کے ایک شخص تک پہنچے اور جب ہم نے اسے گھیر لیا تو اس نے کہا لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّھ انصاری صحابی نے تو(یہ سنتے ہی) ہاتھ روک لیا لیکن میں نے اپنے نیزے سے اسے قتل کر دیا۔ راوی نے بیان کیا کہ جب ہم واپس آئے تو اس واقعہ کی خبر نبی کریم ﷺ کو ملی۔ بیان کیا کہ پھر آنحضرت ﷺ نے مجھ سے فرمایا اسامہ! کیا تم نے کلمہ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّھ کا اقرار کرنے کے بعد اسے قتل کر ڈالا۔ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! اس نے صرف جان بچانے کے لیے اس کا اقرار کیا تھا۔ آنحضرت ﷺ نے پھر فرمایا تم نے اسے لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّھ کا اقرار کرنے کے بعد قتل کر ڈالا۔ بیان کیا کہ آنحضرت اس جملہ کو اتنی دفعہ دہراتے رہے کہ میرے دل میں یہ خواہش پیدا ہوگئی کہ کاش میں اس سے پہلے مسلمان نہ ہوا ہوتا۔
حدیث حاشیہ:
اسی دن مسلمان ہوا ہوتا کہ اگلے گناہ میرے اوپر نہ رہتے۔ دوسری روایت میں یوں ہے کہ کیا تو نے اس کا دل چیر کر دیکھ لیا تھا۔ مطلب یہ ہے کہ دل کا حال اللہ کو معلوم ہے، جب اس نے زبان سے کلمہ توحید پڑھا تو اس کو چھوڑ دینا تھا، مسلمان سمجھنا تھا۔ اس حدیث سے کلمہ توحید پڑھنے والے کا مقام سمجھا جا سکتا ہے۔ کاش ہمارے وہ علمائے کرام و واعظین حضرات جو بات بات پر تیر کفر چلاتے رہتے ہیں اور اپنے مخالف کو فوراً کافر بے ایمان کہہ ڈالتے ہیں کاش اس حدیث پر غور کر سکیں اور اپنے طرز عمل پر نظر ثانی کر سکیں، لیکن بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Usama bin Zaid bin Haritha (RA) : Allah's Apostle (ﷺ) sent us (to fight) against Al-Huraqa (one of the sub-tribes) of Juhaina. We reached those people in the morning and defeated them. A man from the Ansar and I chased one of their men and when we attacked him, he said, "None has the right to be worshipped but Allah." The Ansari refrained from killing him but I stabbed him with my spear till I killed him. When we reached (Medina), this news reached the Prophet. He said to me, "O Usama! You killed him after he had said, 'None has the right to be worshipped but Allah?"' I said, "O Allah's Apostle (ﷺ) ! He said so in order to save himself." The Prophet (ﷺ) said, "You killed him after he had said, 'None has the right to be worshipped but Allah." The Prophet (ﷺ) kept on repeating that statement till I wished I had not been a Muslim before that day.