باب : حاکم کا قاتل سے پوچھ گچھ کرنا یہاں تک کہ وہ اقرار کرلے اور حدود میں اقرار( اثباب جرم کیلئے) کافی ہے۔
)
Sahi-Bukhari:
Blood Money (Ad-Diyat)
(Chapter: To question the killer till he confesses)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
6876.
حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے کہ ایک یہودی نے کسی لڑکی کا سر دو پتھروں کے درمیان رکھ کر کچل دیا، پھر اس لڑکی سے پوچھا گیا: تیرے ساتھ یہ برتاؤ کس نے کیا ہے؟ کیا فلاں نے؟ یہاں تک کہ اس یہودی کا نام لیا گیا (تو لڑکی نے سر کے اشارہ سے ہاں کہا) پھر اس یہودی کو نبی ﷺ کے پاس لایا گیا۔ آپ اس سے مسلسل پوچھتے رہے حتیٰ کہ اس نے اقرار کرلیا تو اس کا سر بھی پتھروں سے کچل دیا گیا۔
تشریح:
(1) ایک روایت میں ہے کہ اس یہودی نے لڑکی کے زیورات چھیننے کے لیے اسے موت کے گھاٹ اتار دیا، لیکن ابھی کچھ سانس باقی تھے کہ اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لایا گیا۔ آپ نے پوچھا: تجھے فلاں نے قتل کیا تو اس نے سر سے اشارہ کیا کہ نہیں، پھر اس یہودی کا نام لیا گیا تو اس نے سر سے اشارہ کیا کہ ہاں، پھر اس یہودی سے تفتیش کی گئی تو اس نے اعتراف جرم کرلیا تو اسے بھی اس جرم کی پاداش میں کیفر کردار تک پہنچا دیا گیا۔ (جامع الترمذي، الدیات، حدیث:1394) (2) صرف مقتول کے کہنے سے کسی ملزم کو سزا نہیں دی جائے گی اور نہ داخلی یا خارجی قرائن ہی قصاص کے لیے کافی ہوتے ہیں بلکہ جب تک ملزم اپنے جرم کا اعتراف نہ کر لے اس وقت تک اسے سزا نہیں دی جا سکتی، چنانچہ حدیث میں ہے کہ اس یہودی نےاپنےجرم کا اعتراف کر لیا۔ (صحیح البخاري، الخصومات، حدیث:2413) اس لڑکی کے مرنے کے بعد یہودی سے اس کا قصاص لیا گیا کیونکہ لڑکی کو جب لایا گیا تھا تو وہ آخری سانس لے رہی تھی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پوچھا کہ تجھے کس نے قتل کیا ہے؟ (فتح الباري:248/12)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6629
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6876
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
6876
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
6876
تمہید کتاب
لفظ ديات، دية كی جمع ہے۔اس سے مراد" خون بہا"ہے۔ لغوی اعتبار سے یہ مصدر ہے جس کے معنی خون بہا دینا آتے ہیں۔ شرعی اعتبار سے ایسا مال جو کسی جرم کی وجہ سے انسان پر واجب ہو" دیت" کہلاتا ہے۔حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ ابنی اسرائیل میں صرف قصاص فرض تھا،ان کے ہاں دیت نہ تھی۔اللہ تعالیٰ نے اس امت کے لیے فرمایا: (كُتِبَ عَلَيْكُمُ الْقِصَاصُ) مقتولین کے بارے میں تم پر قصاص فرض کردیا گیا ہے۔"(البقرہ2: 178)نیز فرمایا: (فَمَنْ عُفِيَ لَهُ مِنْ أَخِيهِ)"جس کے لیے اس کے بھائی کی طرف سے کوئی چیز معاف کردی جائے۔"(البقرہ2: 178)اس مقام پر عفو سے مراد قتل عمدہ میں دیت قبول کرنا ہے۔(صحیح البخاری، التفسیر، حدیث:4498)حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"جس کسی کا کوئی آدمی مارا جائے تو اسے دو اختیار ہیں:یا تو وہ دیت وصول کرے یا قاتل کو مقتول کے بدلے میں قتل کردیا جائے۔"یعنی قصاص اور دیت واجب ہے لیکن ان دونوں میں اختیار ہے۔(صحیح البخاری، اللقطۃ،حدیث:2434) دیت کے وجوب میں بنیادی شرط یہ ہے کہ قتل ناحق ہو،یعنی مقتول کو کسی شرعی وجہ سے قتل نہ کیا گیا ہو بلکہ بلا وجہ اسے موت کے گھاٹ اتار دیا گیا ہو۔حربی کافر،حد یا قصاص کی بنا پر قتل کرنے سے دیت ساقط ہوجاتی ہے۔وجوب دیت کے چند اسباب ہیں جن کی تفصیل حسب ذیل ہے:٭اس سے مراد کسی کو جان سے مارنا ہے۔اس کی تین قسمیں ہیں:٭قتل عمد: غیر مستحقِ قتل کو مار دینے کی نیت سے ایسے آلے کے ذریعے سے مارنا جس سے عام طور پر آدمی مرجاتا ہو،مثلاً: بندوق، تلوار یا تیر وغیرہ سے قتل کرنا۔٭قتل شبہ عمد:کسی آدمی کو ایسی چیز سے مارنا جس سے عموماً انسان مرتا نہیں،مثلاً:چھڑی یا کنکری سے کسی کو ماردیا جائے۔اس میں قصاص نہیں بلکہ دیت ہے۔٭قتل خطا:کسی کو غلطی سے مارنا۔ اس کی کئی صورتیں ہیں،مثلاً:٭گولی تو شکار کی طرف چلائے لیکن کسی انسان کو لگ جائے اور وہ اس سے مرجائے۔٭کسی نے اپنی ضرورت کے لیے کنواں کھودا لیکن کوئی اس میں گر کر مرجائے۔٭کسی ہنگامے میں کسی مسلمان کو کافر سمجھ کر مارے جیسا کہ غزوۂ احد میں حضرت یمان رضی اللہ عنہ قتل ہوئے تھے۔٭ٹریفک کے حادثے میں کسی گاڑی کے نیچے آکر یا اس کی ضرب سے مرجائے۔قتل خطا میں قرآن کریم کی تصریح کے مطابق دیت اور کفارہ دونوں واجب ہیں۔کسی کو جان سے مار دینا،اس میں دیت کی مقدار سو اونٹ یا ان کی قیمت کے برابر رقم ہے جو قاتل کے وارث مقتول کے ورثاء کو ادا کریں گے،چنانچہ حدیث میں ہے: "کسی بھی جان کے قتل میں سواونٹ دیت ہے۔"(سنن الدارمی:2/188) ایک روایت میں ہے کہ جن کے پاس سونا ہے ان پر ایک ہزار دینار دیت ہے۔حضرت عمرِ فاروق رضی اللہ عنہ نے دیت یوں مقرر کی تھی:جن کے پاس سونا ہے ان پر ایک ہزار دینار، جن کے پاس چاندی ہے ان پر بارہ ہزار درہم اور جن کے پاس حُلّے( ریشمی لباس) ہیں ان پر دوسوحلوں کی ادائیگی ہے۔(سنن ابی داود، الدیات، حدیث:4542)بہرحال دیت میں اصل اونٹ ہیں،ان کے علاوہ جو کچھ بھی دیا جائے وہ اونٹوں کی قیمت کے مطابق دیا جائے۔دیت کا دوسرا سبب قتل کے علاوہ کسی پر زیادتی کرنا ہے،اس کی تین قسمیں ہیں:٭اعضاء کو ضائع کرنا،یعنی کسی کو ہاتھ پاؤں یا کسی اور عضو سے محروم کردیا۔٭اعضاء کی کارکردگی سے محروم کرنا،یعنی کسی قوت گویائی، قوت سماعت یا قوت سوچ وبچار سے محروم کرنا۔٭کسی کو زخمی کرنا، یعنی سر،چہرے یا جسم کے کسی دوسرے حصے کو زخمی کرنا۔ان کے متعلق دیت کی تفصیل کتب فقہ میں موجود ہے۔بہرحال امام بخاری رحمہ الہ نے اس عنوان کے تحت قتل،قصاص اور دیت کے چیدہ چیدہ مسائل بیان کیے ہیں جن کی ہم آئندہ وضاحت کریں گے۔اس عنوان کے تحت چَوَن(54)کے قریب مرفوع احادیث بیان کی گئی ہیں جن میں سات(7)معلق اور باقی موصول ہیں۔ان میں چالیس (40)مکرر اور(14)چودہ خالص ہیں۔چند احادیث کے علاوہ باقی احادیث امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی بیان کی ہیں۔مرفوع احادیث کے علاوہ صحابۂ کرام اور تابعین عظام سے اٹھائیس(28)آثار بھی مروی ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے ان احادیث وآثار پر بتیس(32)چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کرکے متعدد مسائل واحکام اخذ کیے ہیں۔بہرحال امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان میں دیگر مسائل کے علاوہ قتل ناحق کی سنگینی کو بڑی تفصیل سے بیان کیا ہے اور بتایا ہے کہ اس قسم کے قتل میں ابدی طور پر جہنم مین رہنے کی وعید ہے۔اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس سے محفوظ رکھے۔قارئین سے گزارش ہے کہ وہ ہماری بیان کردہ معروضات کو سامنے رکھتے ہوئے ان احادیث کا مطالعہ کریں تاکہ امام بخاری رحمہ اللہ کی قوت اجتہاد کا ادراک ہو۔دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہم سب کو قیامت کے دن محدثین کرام رحمہ اللہ کے پاکیزہ گروہ میں سے اٹھائے۔ آمین
حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے کہ ایک یہودی نے کسی لڑکی کا سر دو پتھروں کے درمیان رکھ کر کچل دیا، پھر اس لڑکی سے پوچھا گیا: تیرے ساتھ یہ برتاؤ کس نے کیا ہے؟ کیا فلاں نے؟ یہاں تک کہ اس یہودی کا نام لیا گیا (تو لڑکی نے سر کے اشارہ سے ہاں کہا) پھر اس یہودی کو نبی ﷺ کے پاس لایا گیا۔ آپ اس سے مسلسل پوچھتے رہے حتیٰ کہ اس نے اقرار کرلیا تو اس کا سر بھی پتھروں سے کچل دیا گیا۔
حدیث حاشیہ:
(1) ایک روایت میں ہے کہ اس یہودی نے لڑکی کے زیورات چھیننے کے لیے اسے موت کے گھاٹ اتار دیا، لیکن ابھی کچھ سانس باقی تھے کہ اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لایا گیا۔ آپ نے پوچھا: تجھے فلاں نے قتل کیا تو اس نے سر سے اشارہ کیا کہ نہیں، پھر اس یہودی کا نام لیا گیا تو اس نے سر سے اشارہ کیا کہ ہاں، پھر اس یہودی سے تفتیش کی گئی تو اس نے اعتراف جرم کرلیا تو اسے بھی اس جرم کی پاداش میں کیفر کردار تک پہنچا دیا گیا۔ (جامع الترمذي، الدیات، حدیث:1394) (2) صرف مقتول کے کہنے سے کسی ملزم کو سزا نہیں دی جائے گی اور نہ داخلی یا خارجی قرائن ہی قصاص کے لیے کافی ہوتے ہیں بلکہ جب تک ملزم اپنے جرم کا اعتراف نہ کر لے اس وقت تک اسے سزا نہیں دی جا سکتی، چنانچہ حدیث میں ہے کہ اس یہودی نےاپنےجرم کا اعتراف کر لیا۔ (صحیح البخاري، الخصومات، حدیث:2413) اس لڑکی کے مرنے کے بعد یہودی سے اس کا قصاص لیا گیا کیونکہ لڑکی کو جب لایا گیا تھا تو وہ آخری سانس لے رہی تھی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پوچھا کہ تجھے کس نے قتل کیا ہے؟ (فتح الباري:248/12)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے حجاج بن منہال نے بیان کیا، کہا ہم سے ہمام بن یحییٰ نے بیان کیا، ان سے قتادہ نے اور ان سے انس بن مالک ؓ نے کہ ایک یہودی نے ایک لڑکی کا سر دو پتھروں کے درمیان رکھ کر کچل دیا پھر اس لڑکی سے پوچھا گیا کہ یہ کس نے کیا ہے؟ فلاں نے، فلاں نے؟ آخر جب اس یہودی کا نام لیا گیا (تو لڑکی نے سر کے اشارہ سے ہاں کہا) پھر یہودی کو نبی کریم ﷺ کے یہاں لایا گیا اور اس سے پوچھ گچھ کی جاتی رہی یہاں تک کہ اس نے جرم کا اقرار کر لیا چنانچہ کا سر بھی پتھروں سے کچلا گیا۔
حدیث حاشیہ:
اس حدیث سے حنفیہ کا رد ہوا جو کہتے ہیں کہ قصاص ہمیشہ تلوار ہی سے لیا جائے گا اور یہ بھی ثابت ہوا کہ مرد عورت کے بدلے قلت کیا جائے گا۔ بعض لوگوں نے اس سے دلیل لی ہے کہ اجماع کا منکر کافر ہے مگر یہ صحیح نہیں ہے۔ ایسی اجماعی بات کا منکر کافر ہے جس کا وجوب شریعت سے تواتراً ثابت ہو لیکن جس مسئلہ کا ثبوت حدیث صحیح متواتر یا آیت قرآن سے ثابت نہ ہو اور اس میں کوئی اجماع کا خلاف کرے تو وہ کافر نہ ہوگا۔ قاضی عیاض نے کہا جو عالم کے حدوث کا منکر ہو اور اسے قدیم کہے وہ کافر ہے اور جماعت کے چھوڑنے میں باغی اور رہزن اور اس قول سے مڑنے والے اور امام برحق سے مخالفت کرنے والے بھی آگئے ان کا بھی قتل درست ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Anas bin Malik (RA): A Jew crushed the head of a girl between two stones, and the girl was asked, "Who has done that to you, so-and-so or so and so?" (Some names were mentioned for her) till the name of that Jew was mentioned (whereupon she agreed). The Jew was brought to the Prophet (ﷺ) and the Prophet (ﷺ) kept on questioning him till he confessed, whereupon his head was crushed with stones.