Sahi-Bukhari:
Blood Money (Ad-Diyat)
(Chapter: Whoever punished with a stone)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
6879.
حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ ایک یہودی نے کسی لڑکی کو اس کے زیورات کے لالچ میں آ کر پتھر سے قتل کر دیا۔ وہ لڑکی نبی ﷺ کے پاس لائی گئی تو اس کے جسم میں کچھ جان باقی تھی۔ آپ ﷺ نے پوچھا: ”کیا تجھے فلاں نے مارا ہے؟“ اس نے سر کے اشارے سے انکار کر دیا۔ آپ ﷺ نے دوبارہ پوچھا تو اس مرتبہ بھی اس نے سر کے اشارے سے انکار کیا۔ پھر آپ ﷺ نے تیسری مرتبہ پوچھا تو اس نے سر کے اشارے سے اقرار کیا، چنانچہ نبی ﷺ نے اس (قاتل یہودی) کو دو پتھروں سے کچل کر قتل کرا دیا۔
تشریح:
(1) اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس لڑکی کے کہنے سے ہی یہودی کو قتل کرنے کا حکم دے دیا تھا، حالانکہ ایسا نہیں ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تحقیق وتفتیش کے تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے یہودی سے پوچھا۔ جب اس نے اعتراف کیا تو پھر اس کو قتل کرنے کا حکم دے دیا۔ (2) قصاص کے لیے ضروری نہیں کہ تلوار یا تیز دھار ہتھیار ہی سے قتل کیا جائے، بلکہ کوئی بھی چیز قصاص کے لیے استعمال ہو سکتی ہے۔ اگرچہ تلوار سے قصاص لینے کے متعلق ایک حدیث بیان کی جاتی ہے لیکن وہ قانل حجت نہیں ہے کیونکہ وہ ضعیف ہے۔ (فتح الباري:249/12)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6632
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6879
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
6879
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
6879
تمہید کتاب
لفظ ديات، دية كی جمع ہے۔اس سے مراد" خون بہا"ہے۔ لغوی اعتبار سے یہ مصدر ہے جس کے معنی خون بہا دینا آتے ہیں۔ شرعی اعتبار سے ایسا مال جو کسی جرم کی وجہ سے انسان پر واجب ہو" دیت" کہلاتا ہے۔حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ ابنی اسرائیل میں صرف قصاص فرض تھا،ان کے ہاں دیت نہ تھی۔اللہ تعالیٰ نے اس امت کے لیے فرمایا: (كُتِبَ عَلَيْكُمُ الْقِصَاصُ) مقتولین کے بارے میں تم پر قصاص فرض کردیا گیا ہے۔"(البقرہ2: 178)نیز فرمایا: (فَمَنْ عُفِيَ لَهُ مِنْ أَخِيهِ)"جس کے لیے اس کے بھائی کی طرف سے کوئی چیز معاف کردی جائے۔"(البقرہ2: 178)اس مقام پر عفو سے مراد قتل عمدہ میں دیت قبول کرنا ہے۔(صحیح البخاری، التفسیر، حدیث:4498)حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"جس کسی کا کوئی آدمی مارا جائے تو اسے دو اختیار ہیں:یا تو وہ دیت وصول کرے یا قاتل کو مقتول کے بدلے میں قتل کردیا جائے۔"یعنی قصاص اور دیت واجب ہے لیکن ان دونوں میں اختیار ہے۔(صحیح البخاری، اللقطۃ،حدیث:2434) دیت کے وجوب میں بنیادی شرط یہ ہے کہ قتل ناحق ہو،یعنی مقتول کو کسی شرعی وجہ سے قتل نہ کیا گیا ہو بلکہ بلا وجہ اسے موت کے گھاٹ اتار دیا گیا ہو۔حربی کافر،حد یا قصاص کی بنا پر قتل کرنے سے دیت ساقط ہوجاتی ہے۔وجوب دیت کے چند اسباب ہیں جن کی تفصیل حسب ذیل ہے:٭اس سے مراد کسی کو جان سے مارنا ہے۔اس کی تین قسمیں ہیں:٭قتل عمد: غیر مستحقِ قتل کو مار دینے کی نیت سے ایسے آلے کے ذریعے سے مارنا جس سے عام طور پر آدمی مرجاتا ہو،مثلاً: بندوق، تلوار یا تیر وغیرہ سے قتل کرنا۔٭قتل شبہ عمد:کسی آدمی کو ایسی چیز سے مارنا جس سے عموماً انسان مرتا نہیں،مثلاً:چھڑی یا کنکری سے کسی کو ماردیا جائے۔اس میں قصاص نہیں بلکہ دیت ہے۔٭قتل خطا:کسی کو غلطی سے مارنا۔ اس کی کئی صورتیں ہیں،مثلاً:٭گولی تو شکار کی طرف چلائے لیکن کسی انسان کو لگ جائے اور وہ اس سے مرجائے۔٭کسی نے اپنی ضرورت کے لیے کنواں کھودا لیکن کوئی اس میں گر کر مرجائے۔٭کسی ہنگامے میں کسی مسلمان کو کافر سمجھ کر مارے جیسا کہ غزوۂ احد میں حضرت یمان رضی اللہ عنہ قتل ہوئے تھے۔٭ٹریفک کے حادثے میں کسی گاڑی کے نیچے آکر یا اس کی ضرب سے مرجائے۔قتل خطا میں قرآن کریم کی تصریح کے مطابق دیت اور کفارہ دونوں واجب ہیں۔کسی کو جان سے مار دینا،اس میں دیت کی مقدار سو اونٹ یا ان کی قیمت کے برابر رقم ہے جو قاتل کے وارث مقتول کے ورثاء کو ادا کریں گے،چنانچہ حدیث میں ہے: "کسی بھی جان کے قتل میں سواونٹ دیت ہے۔"(سنن الدارمی:2/188) ایک روایت میں ہے کہ جن کے پاس سونا ہے ان پر ایک ہزار دینار دیت ہے۔حضرت عمرِ فاروق رضی اللہ عنہ نے دیت یوں مقرر کی تھی:جن کے پاس سونا ہے ان پر ایک ہزار دینار، جن کے پاس چاندی ہے ان پر بارہ ہزار درہم اور جن کے پاس حُلّے( ریشمی لباس) ہیں ان پر دوسوحلوں کی ادائیگی ہے۔(سنن ابی داود، الدیات، حدیث:4542)بہرحال دیت میں اصل اونٹ ہیں،ان کے علاوہ جو کچھ بھی دیا جائے وہ اونٹوں کی قیمت کے مطابق دیا جائے۔دیت کا دوسرا سبب قتل کے علاوہ کسی پر زیادتی کرنا ہے،اس کی تین قسمیں ہیں:٭اعضاء کو ضائع کرنا،یعنی کسی کو ہاتھ پاؤں یا کسی اور عضو سے محروم کردیا۔٭اعضاء کی کارکردگی سے محروم کرنا،یعنی کسی قوت گویائی، قوت سماعت یا قوت سوچ وبچار سے محروم کرنا۔٭کسی کو زخمی کرنا، یعنی سر،چہرے یا جسم کے کسی دوسرے حصے کو زخمی کرنا۔ان کے متعلق دیت کی تفصیل کتب فقہ میں موجود ہے۔بہرحال امام بخاری رحمہ الہ نے اس عنوان کے تحت قتل،قصاص اور دیت کے چیدہ چیدہ مسائل بیان کیے ہیں جن کی ہم آئندہ وضاحت کریں گے۔اس عنوان کے تحت چَوَن(54)کے قریب مرفوع احادیث بیان کی گئی ہیں جن میں سات(7)معلق اور باقی موصول ہیں۔ان میں چالیس (40)مکرر اور(14)چودہ خالص ہیں۔چند احادیث کے علاوہ باقی احادیث امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی بیان کی ہیں۔مرفوع احادیث کے علاوہ صحابۂ کرام اور تابعین عظام سے اٹھائیس(28)آثار بھی مروی ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے ان احادیث وآثار پر بتیس(32)چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کرکے متعدد مسائل واحکام اخذ کیے ہیں۔بہرحال امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان میں دیگر مسائل کے علاوہ قتل ناحق کی سنگینی کو بڑی تفصیل سے بیان کیا ہے اور بتایا ہے کہ اس قسم کے قتل میں ابدی طور پر جہنم مین رہنے کی وعید ہے۔اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس سے محفوظ رکھے۔قارئین سے گزارش ہے کہ وہ ہماری بیان کردہ معروضات کو سامنے رکھتے ہوئے ان احادیث کا مطالعہ کریں تاکہ امام بخاری رحمہ اللہ کی قوت اجتہاد کا ادراک ہو۔دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہم سب کو قیامت کے دن محدثین کرام رحمہ اللہ کے پاکیزہ گروہ میں سے اٹھائے۔ آمین
حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ ایک یہودی نے کسی لڑکی کو اس کے زیورات کے لالچ میں آ کر پتھر سے قتل کر دیا۔ وہ لڑکی نبی ﷺ کے پاس لائی گئی تو اس کے جسم میں کچھ جان باقی تھی۔ آپ ﷺ نے پوچھا: ”کیا تجھے فلاں نے مارا ہے؟“ اس نے سر کے اشارے سے انکار کر دیا۔ آپ ﷺ نے دوبارہ پوچھا تو اس مرتبہ بھی اس نے سر کے اشارے سے انکار کیا۔ پھر آپ ﷺ نے تیسری مرتبہ پوچھا تو اس نے سر کے اشارے سے اقرار کیا، چنانچہ نبی ﷺ نے اس (قاتل یہودی) کو دو پتھروں سے کچل کر قتل کرا دیا۔
حدیث حاشیہ:
(1) اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس لڑکی کے کہنے سے ہی یہودی کو قتل کرنے کا حکم دے دیا تھا، حالانکہ ایسا نہیں ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تحقیق وتفتیش کے تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے یہودی سے پوچھا۔ جب اس نے اعتراف کیا تو پھر اس کو قتل کرنے کا حکم دے دیا۔ (2) قصاص کے لیے ضروری نہیں کہ تلوار یا تیز دھار ہتھیار ہی سے قتل کیا جائے، بلکہ کوئی بھی چیز قصاص کے لیے استعمال ہو سکتی ہے۔ اگرچہ تلوار سے قصاص لینے کے متعلق ایک حدیث بیان کی جاتی ہے لیکن وہ قانل حجت نہیں ہے کیونکہ وہ ضعیف ہے۔ (فتح الباري:249/12)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے محمد بن بشار نے بیان کیا، کہا ہم سے محمد بن جعفر نے بیان کیا، ان سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے ہشام بن زید اور ان سے حضرت انس ؓ نے بیان کیا کہ ایک یہودی نے ایک لڑکی کو اس کے چاندی کے زیور کے لالچ میں مار ڈالا تھا۔ اس نے لڑکی کو پتھر سے مارا پھر لڑکی نبی کریم ﷺ کے پاس لائی گئی تو اس کے جسم میں جان باقی تھی۔ آنحضرت ﷺ نے پوچھا کیا تمہیں فلاں نے مارا ہے؟ اس نے سر کے اشارہ سے انکار کیا۔ آنحضرت ﷺ نے دوبارہ پوچھا، کیا تمہیں فلاں نے مارا ہے؟ اس مرتبہ بھی اس نے سر کے اشارے سے انکار کیا۔ آنحضرت ﷺ نے جب تیسری مرتبہ پوچھا تو اس نے سر کے اشارہ سے اقرار کیا۔ چنانچہ آنحضرت ﷺ نے یہودی کو دو پتھروں میں کچل کر قتل کر دیا۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Anas (RA) : A Jew killed a girl so that he may steal her ornaments. He struck her with a stone, and she was brought to the Prophet (ﷺ) while she was still alive. The Prophet (ﷺ) asked her, "Did such-and-such person strike you?" She gestured with her head, expressing denial. He asked her for the second time, and she again gestured with her head, expressing denial. When he asked her for the third time, she beckoned, "Yes." So the Prophet (ﷺ) killed him (the Jew) with two stones.