باب : جب کسی نے کسی کو دانت سے کاٹا اور کاٹنے والے کا دانت ٹوٹ گیا تو اس کی کوئی دیت نہیں ہے
)
Sahi-Bukhari:
Blood Money (Ad-Diyat)
(Chapter: If somebody bites a man and has his tooth broken)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
6893.
حضرت صفوان بن یعلی سے روایت ہے وہ اپنے باپ حضرت یعلی بن امیہ ؓ سے بیان کرتے ہیں، انہوں نے کہا: میں ایک غزوے میں نکلا تو ایک آدمی نے دوسرے آدمی نے دوسرے آدمی کو دانت سے کاٹا اور اس نے اس کے اگلے دانت نکال دیے۔ نبی ﷺ نے اس کی دیت باطل قرار دی۔
تشریح:
(1) پہلی روایت میں ابہام تھا، دوسری روایت میں اس ابہام کو دور کیا گیا کہ ان میں سے ایک خود حضرت یعلیٰ بن امیہ رضی اللہ عنہ تھے۔ بعض دوسری روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ جس کا ہاتھ کاٹا گیا تھا وہ ان کا خدمت گزار تھا۔ (2) بہرحال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مقدمے کو باطل قرار دیا اور فرمایا: ’’تمھارے لیے کوئی دیت وغیرہ نہیں ہے۔‘‘ ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے باطل قرار دیتے ہوئے فرمایا: ’’تم اس کا گوشت نوچنا چاہتے تھے۔‘‘ (صحیح مسلم، القسامة، حدیث:4368(1673) حضرت سلمہ رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’پھر تم میرے پاس دیت طلب کرنے کے لیے آئے ہو، جاؤ تمھارے لیے کوئی دیت نہیں۔‘‘(سنن النسائي، القسامة، حدیث:4796) بہرحال آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے ضائع قرار دیا۔ (فتح الباري:276/12)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6646
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6893
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
6893
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
6893
تمہید کتاب
لفظ ديات، دية كی جمع ہے۔اس سے مراد" خون بہا"ہے۔ لغوی اعتبار سے یہ مصدر ہے جس کے معنی خون بہا دینا آتے ہیں۔ شرعی اعتبار سے ایسا مال جو کسی جرم کی وجہ سے انسان پر واجب ہو" دیت" کہلاتا ہے۔حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ ابنی اسرائیل میں صرف قصاص فرض تھا،ان کے ہاں دیت نہ تھی۔اللہ تعالیٰ نے اس امت کے لیے فرمایا: (كُتِبَ عَلَيْكُمُ الْقِصَاصُ) مقتولین کے بارے میں تم پر قصاص فرض کردیا گیا ہے۔"(البقرہ2: 178)نیز فرمایا: (فَمَنْ عُفِيَ لَهُ مِنْ أَخِيهِ)"جس کے لیے اس کے بھائی کی طرف سے کوئی چیز معاف کردی جائے۔"(البقرہ2: 178)اس مقام پر عفو سے مراد قتل عمدہ میں دیت قبول کرنا ہے۔(صحیح البخاری، التفسیر، حدیث:4498)حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"جس کسی کا کوئی آدمی مارا جائے تو اسے دو اختیار ہیں:یا تو وہ دیت وصول کرے یا قاتل کو مقتول کے بدلے میں قتل کردیا جائے۔"یعنی قصاص اور دیت واجب ہے لیکن ان دونوں میں اختیار ہے۔(صحیح البخاری، اللقطۃ،حدیث:2434) دیت کے وجوب میں بنیادی شرط یہ ہے کہ قتل ناحق ہو،یعنی مقتول کو کسی شرعی وجہ سے قتل نہ کیا گیا ہو بلکہ بلا وجہ اسے موت کے گھاٹ اتار دیا گیا ہو۔حربی کافر،حد یا قصاص کی بنا پر قتل کرنے سے دیت ساقط ہوجاتی ہے۔وجوب دیت کے چند اسباب ہیں جن کی تفصیل حسب ذیل ہے:٭اس سے مراد کسی کو جان سے مارنا ہے۔اس کی تین قسمیں ہیں:٭قتل عمد: غیر مستحقِ قتل کو مار دینے کی نیت سے ایسے آلے کے ذریعے سے مارنا جس سے عام طور پر آدمی مرجاتا ہو،مثلاً: بندوق، تلوار یا تیر وغیرہ سے قتل کرنا۔٭قتل شبہ عمد:کسی آدمی کو ایسی چیز سے مارنا جس سے عموماً انسان مرتا نہیں،مثلاً:چھڑی یا کنکری سے کسی کو ماردیا جائے۔اس میں قصاص نہیں بلکہ دیت ہے۔٭قتل خطا:کسی کو غلطی سے مارنا۔ اس کی کئی صورتیں ہیں،مثلاً:٭گولی تو شکار کی طرف چلائے لیکن کسی انسان کو لگ جائے اور وہ اس سے مرجائے۔٭کسی نے اپنی ضرورت کے لیے کنواں کھودا لیکن کوئی اس میں گر کر مرجائے۔٭کسی ہنگامے میں کسی مسلمان کو کافر سمجھ کر مارے جیسا کہ غزوۂ احد میں حضرت یمان رضی اللہ عنہ قتل ہوئے تھے۔٭ٹریفک کے حادثے میں کسی گاڑی کے نیچے آکر یا اس کی ضرب سے مرجائے۔قتل خطا میں قرآن کریم کی تصریح کے مطابق دیت اور کفارہ دونوں واجب ہیں۔کسی کو جان سے مار دینا،اس میں دیت کی مقدار سو اونٹ یا ان کی قیمت کے برابر رقم ہے جو قاتل کے وارث مقتول کے ورثاء کو ادا کریں گے،چنانچہ حدیث میں ہے: "کسی بھی جان کے قتل میں سواونٹ دیت ہے۔"(سنن الدارمی:2/188) ایک روایت میں ہے کہ جن کے پاس سونا ہے ان پر ایک ہزار دینار دیت ہے۔حضرت عمرِ فاروق رضی اللہ عنہ نے دیت یوں مقرر کی تھی:جن کے پاس سونا ہے ان پر ایک ہزار دینار، جن کے پاس چاندی ہے ان پر بارہ ہزار درہم اور جن کے پاس حُلّے( ریشمی لباس) ہیں ان پر دوسوحلوں کی ادائیگی ہے۔(سنن ابی داود، الدیات، حدیث:4542)بہرحال دیت میں اصل اونٹ ہیں،ان کے علاوہ جو کچھ بھی دیا جائے وہ اونٹوں کی قیمت کے مطابق دیا جائے۔دیت کا دوسرا سبب قتل کے علاوہ کسی پر زیادتی کرنا ہے،اس کی تین قسمیں ہیں:٭اعضاء کو ضائع کرنا،یعنی کسی کو ہاتھ پاؤں یا کسی اور عضو سے محروم کردیا۔٭اعضاء کی کارکردگی سے محروم کرنا،یعنی کسی قوت گویائی، قوت سماعت یا قوت سوچ وبچار سے محروم کرنا۔٭کسی کو زخمی کرنا، یعنی سر،چہرے یا جسم کے کسی دوسرے حصے کو زخمی کرنا۔ان کے متعلق دیت کی تفصیل کتب فقہ میں موجود ہے۔بہرحال امام بخاری رحمہ الہ نے اس عنوان کے تحت قتل،قصاص اور دیت کے چیدہ چیدہ مسائل بیان کیے ہیں جن کی ہم آئندہ وضاحت کریں گے۔اس عنوان کے تحت چَوَن(54)کے قریب مرفوع احادیث بیان کی گئی ہیں جن میں سات(7)معلق اور باقی موصول ہیں۔ان میں چالیس (40)مکرر اور(14)چودہ خالص ہیں۔چند احادیث کے علاوہ باقی احادیث امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی بیان کی ہیں۔مرفوع احادیث کے علاوہ صحابۂ کرام اور تابعین عظام سے اٹھائیس(28)آثار بھی مروی ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے ان احادیث وآثار پر بتیس(32)چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کرکے متعدد مسائل واحکام اخذ کیے ہیں۔بہرحال امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان میں دیگر مسائل کے علاوہ قتل ناحق کی سنگینی کو بڑی تفصیل سے بیان کیا ہے اور بتایا ہے کہ اس قسم کے قتل میں ابدی طور پر جہنم مین رہنے کی وعید ہے۔اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس سے محفوظ رکھے۔قارئین سے گزارش ہے کہ وہ ہماری بیان کردہ معروضات کو سامنے رکھتے ہوئے ان احادیث کا مطالعہ کریں تاکہ امام بخاری رحمہ اللہ کی قوت اجتہاد کا ادراک ہو۔دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہم سب کو قیامت کے دن محدثین کرام رحمہ اللہ کے پاکیزہ گروہ میں سے اٹھائے۔ آمین
تمہید باب
امام بخاری رحمہ اللہ نے اس کے متعلق کوئی فیصلہ نہیں فرمایا کیونکہ حدیث میں اس کی وضاحت تھی کہ ایسے آدمی کو کسی قسم کا تاوان نہین دیا جائے گا کیونکہ اس کی اپنی غلطی سے اس کے دانت ٹوٹے ہیں۔
حضرت صفوان بن یعلی سے روایت ہے وہ اپنے باپ حضرت یعلی بن امیہ ؓ سے بیان کرتے ہیں، انہوں نے کہا: میں ایک غزوے میں نکلا تو ایک آدمی نے دوسرے آدمی نے دوسرے آدمی کو دانت سے کاٹا اور اس نے اس کے اگلے دانت نکال دیے۔ نبی ﷺ نے اس کی دیت باطل قرار دی۔
حدیث حاشیہ:
(1) پہلی روایت میں ابہام تھا، دوسری روایت میں اس ابہام کو دور کیا گیا کہ ان میں سے ایک خود حضرت یعلیٰ بن امیہ رضی اللہ عنہ تھے۔ بعض دوسری روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ جس کا ہاتھ کاٹا گیا تھا وہ ان کا خدمت گزار تھا۔ (2) بہرحال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مقدمے کو باطل قرار دیا اور فرمایا: ’’تمھارے لیے کوئی دیت وغیرہ نہیں ہے۔‘‘ ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے باطل قرار دیتے ہوئے فرمایا: ’’تم اس کا گوشت نوچنا چاہتے تھے۔‘‘ (صحیح مسلم، القسامة، حدیث:4368(1673) حضرت سلمہ رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’پھر تم میرے پاس دیت طلب کرنے کے لیے آئے ہو، جاؤ تمھارے لیے کوئی دیت نہیں۔‘‘(سنن النسائي، القسامة، حدیث:4796) بہرحال آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے ضائع قرار دیا۔ (فتح الباري:276/12)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے ابوعاصم نے بیان کیا، ان سے ابن جریج نے، ان سے عطاء نے، ان سے صفوان بن یعلیٰ نے اور ان سے ان کے والد نے کہ میں ایک غزوہ میں باہر تھا اور ایک شخص نے دانت سے کاٹ لیا تھا جس کی وجہ سے اس کے آگے کے دانٹ ٹوٹ گئے تھے پھر رسول اللہ ﷺ نے اس مقدمہ کو باطل قرار دے کر اس کی دیت نہیں دلائی۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Ya'la (RA) : I went out in one of the Ghazwa and a man bit another man and as a result, an incisor tooth of the former was pulled out. The Prophet (ﷺ) cancelled the case.