مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور اشعث بن قیس نے کہا کہ نبی کریم ﷺنے فرمایا تم اپنے دو گواہ لاؤ ورنہ اس( مدعیٰ علیہ) کی قسم( پر فیصلہ ہوگا) ابن ابی ملیکہ نے بیان کیا قسامت میں معاویہ رضی اللہ عنہ نے قصاص نہیں لیا( صرف دیت دلائی) اور عمر بن عبدالعزیز نے عدی بن ارطاۃ کو جنہیں انہوں نے بصرہ کا امیر بنایا تھا ایک مقتول کے بارے میں جو تیل بیچنے والوں کے محلہ کے ایک گھر کے پاس پایاگیا تھا لکھا کہ اگر مقتول کے اولیاءکے پاس کوئی گواہی ہو( تو فیصلہ کیا جاسکتا ہے) ورنہ خلق اللہ پر ظلم نہ کرو کیوں کہ ایسے معاملہ کا جس پر گواہ نہ ہوں قیامت تک فیصلہ نہیں ہوسکتا۔
6898.
حضرت بشیر بن یسار سے روایت ہے انہوں نے کہا: انصار کےایک صاحب حضرت سہل بن ابی ثمہ ؓ نے بتایا کہ ان کی قوم کے چند لوگ خیبر گئے اور وہاں انہوں نے اپنے میں سے ایک شخص کو مقتول پایا۔ جہاں مقتول ملا تھا وہاں کے لوگوں سے انہوں نے کہا: تم نے ہمارے ساتھی کو قتل کیا ہے۔ انہوں نے کہا: ہم نے قتل نہیں کیا اور نہ ہم قاتل ہی کو جانتے ہیں۔ پھر یہ لوگ رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے اور کہا: اللہ کے رسول! ہم خیبر گئے تھے، وہاں ہم نے اپنے میں سے ایک مقتول کو پایا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”تم میں سے جو بڑا ہے وہ بات کرے۔“ نیز آپ نے فرمایا: ”تم اس پر گواہ پیش کرو جس نے قتل کیاہے۔“ انہوں نے کہا: ہمارے اس کے متعلق کوئی گواہ نہیں ہے۔ آپ ﷺ فرمایا: (”اگر تمہارے پاس گواہ نہیں) تو وہ (یہودی) قسم کھائیں گے۔“ انہوں نے کہا: ان (یہود) کی قسم پر ہمیں اعتماد نہیں، چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے یہ پسند نہ فرمایا کہ مقتول کا خون رائیگاں جائے تو آپ نے صدقے کے اونٹوں میں سے اونٹ دیت میں دیے۔
تشریح:
(1) ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’وہ لوگ تمھارے ساتھی کی دیت ادا کریں گے یا جنگ کے لیے تیار ہو جائیں۔‘‘ آپ نے مزید فرمایا: ’’کیا تم لوگ قسم اٹھا کر اپنے ساتھی کے خون کے حق دار بنو گے؟‘‘ انھوں نے کہا: ہم کس طرح قسم اٹھائیں جبکہ ہم وہاں موجود نہیں تھے اور نہ ہم نے کچھ دیکھا ہی ہے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’پھر وہ پچاس قسمیں اٹھا کر تم سے خود کو بری کرلیں۔‘‘ انھوں نے کہا: ہم کافروں کی قسموں کا کیسے اعتبار کریں؟ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے پاس سے اس کی دیت ادا کر دی۔ (صحیح البخاري، الجزیة، حدیث:3173) مقصد یہ ہے کہ جھگڑا ختم کرنے کے لیے ایسے معاملات میں بیت المال سے دیت ادا کر دی جائے۔ جب بیت المال نہ ہو تو حکومت اپنے خزانے سے مقتول کا خون بہا ادا کر دے۔ (2) امام بخاری رحمہ اللہ کا اس حدیث سے مقصود یہ ہے کہ قسامت میں قصاص کے بجائے دیت دینے پر فیصلہ ہوگا جیسا کہ مذکورہ حدیث میں وضاحت ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ کا موقف یہ معلوم ہوتا ہے کہ قسامت میں قسم لینے کا آغاز مدعی علیہ سے کیا جائے گا جیسا کہ پیش کردہ حدیث میں ہے۔ ہمارے رجحان کے مطابق پہلے مدعی سے دلیل کا مطالبہ کیا جائے، اگر اس کے پاس دلیل نہ ہو تو انھیں پچاس قسمیں اٹھانے کا کہا جائے۔ اگر وہ قسمیں نہ اٹھائیں تو مدعی علیہ سے قسم لی جائے جیسا کہ ایک روایت میں اس کی وضاحت ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تم قاتل پر دوگواہ پیش کرو تو اسے تمھارے حوالے کر دیا جائے گا۔‘‘ انھوں نے کہا: اللہ کے رسول! ہم گواہ کہاں سے لائیں مقتول تو یہودیوں کے دروازے کے پاس برآمد ہوا ہے؟ آپ نے فرمایا: ’’تم پچاس قسمیں اٹھاؤ کہ ہمارے آدمی کو فلاں آدمی نے قتل کیا ہے۔‘‘ انھوں نے کہا: اللہ کے رسول! جس بات کا ہمیں یقین نہیں ہم اس کے متعلق قسم کیسے اٹھائیں؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’پھر یہودی پچاس قسمیں اٹھا کر اپنے الزام سے بری ہو جائیں گے۔‘‘ انھوں نے کہا: اللہ کے رسول! ہم یہودیوں سے کیوں قسمیں لیں؟ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جھگڑا نمٹانے کے لیے اپنے پاس سے دیت ادا کر دی۔ (سنن النسائي، القسامة، حدیث:4724) ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدعی سے گواہوں کا مطالبہ کیا تو انھوں نے عرض کی: اللہ کے رسول! وہاں تو مسلمان نہیں رہتے جو ہمارے حق میں گواہی دیں، وہاں تو یہودی بستے ہیں جو اس سے بھی بڑے کام پر جرأت کر سکتے ہیں، یعنی جھوٹی قسم اٹھا سکتے ہیں۔ (سنن أبي داود، الدیات، حدیث:4524)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6651
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6898
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
6898
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
6898
تمہید کتاب
لفظ ديات، دية كی جمع ہے۔اس سے مراد" خون بہا"ہے۔ لغوی اعتبار سے یہ مصدر ہے جس کے معنی خون بہا دینا آتے ہیں۔ شرعی اعتبار سے ایسا مال جو کسی جرم کی وجہ سے انسان پر واجب ہو" دیت" کہلاتا ہے۔حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ ابنی اسرائیل میں صرف قصاص فرض تھا،ان کے ہاں دیت نہ تھی۔اللہ تعالیٰ نے اس امت کے لیے فرمایا: (كُتِبَ عَلَيْكُمُ الْقِصَاصُ) مقتولین کے بارے میں تم پر قصاص فرض کردیا گیا ہے۔"(البقرہ2: 178)نیز فرمایا: (فَمَنْ عُفِيَ لَهُ مِنْ أَخِيهِ)"جس کے لیے اس کے بھائی کی طرف سے کوئی چیز معاف کردی جائے۔"(البقرہ2: 178)اس مقام پر عفو سے مراد قتل عمدہ میں دیت قبول کرنا ہے۔(صحیح البخاری، التفسیر، حدیث:4498)حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"جس کسی کا کوئی آدمی مارا جائے تو اسے دو اختیار ہیں:یا تو وہ دیت وصول کرے یا قاتل کو مقتول کے بدلے میں قتل کردیا جائے۔"یعنی قصاص اور دیت واجب ہے لیکن ان دونوں میں اختیار ہے۔(صحیح البخاری، اللقطۃ،حدیث:2434) دیت کے وجوب میں بنیادی شرط یہ ہے کہ قتل ناحق ہو،یعنی مقتول کو کسی شرعی وجہ سے قتل نہ کیا گیا ہو بلکہ بلا وجہ اسے موت کے گھاٹ اتار دیا گیا ہو۔حربی کافر،حد یا قصاص کی بنا پر قتل کرنے سے دیت ساقط ہوجاتی ہے۔وجوب دیت کے چند اسباب ہیں جن کی تفصیل حسب ذیل ہے:٭اس سے مراد کسی کو جان سے مارنا ہے۔اس کی تین قسمیں ہیں:٭قتل عمد: غیر مستحقِ قتل کو مار دینے کی نیت سے ایسے آلے کے ذریعے سے مارنا جس سے عام طور پر آدمی مرجاتا ہو،مثلاً: بندوق، تلوار یا تیر وغیرہ سے قتل کرنا۔٭قتل شبہ عمد:کسی آدمی کو ایسی چیز سے مارنا جس سے عموماً انسان مرتا نہیں،مثلاً:چھڑی یا کنکری سے کسی کو ماردیا جائے۔اس میں قصاص نہیں بلکہ دیت ہے۔٭قتل خطا:کسی کو غلطی سے مارنا۔ اس کی کئی صورتیں ہیں،مثلاً:٭گولی تو شکار کی طرف چلائے لیکن کسی انسان کو لگ جائے اور وہ اس سے مرجائے۔٭کسی نے اپنی ضرورت کے لیے کنواں کھودا لیکن کوئی اس میں گر کر مرجائے۔٭کسی ہنگامے میں کسی مسلمان کو کافر سمجھ کر مارے جیسا کہ غزوۂ احد میں حضرت یمان رضی اللہ عنہ قتل ہوئے تھے۔٭ٹریفک کے حادثے میں کسی گاڑی کے نیچے آکر یا اس کی ضرب سے مرجائے۔قتل خطا میں قرآن کریم کی تصریح کے مطابق دیت اور کفارہ دونوں واجب ہیں۔کسی کو جان سے مار دینا،اس میں دیت کی مقدار سو اونٹ یا ان کی قیمت کے برابر رقم ہے جو قاتل کے وارث مقتول کے ورثاء کو ادا کریں گے،چنانچہ حدیث میں ہے: "کسی بھی جان کے قتل میں سواونٹ دیت ہے۔"(سنن الدارمی:2/188) ایک روایت میں ہے کہ جن کے پاس سونا ہے ان پر ایک ہزار دینار دیت ہے۔حضرت عمرِ فاروق رضی اللہ عنہ نے دیت یوں مقرر کی تھی:جن کے پاس سونا ہے ان پر ایک ہزار دینار، جن کے پاس چاندی ہے ان پر بارہ ہزار درہم اور جن کے پاس حُلّے( ریشمی لباس) ہیں ان پر دوسوحلوں کی ادائیگی ہے۔(سنن ابی داود، الدیات، حدیث:4542)بہرحال دیت میں اصل اونٹ ہیں،ان کے علاوہ جو کچھ بھی دیا جائے وہ اونٹوں کی قیمت کے مطابق دیا جائے۔دیت کا دوسرا سبب قتل کے علاوہ کسی پر زیادتی کرنا ہے،اس کی تین قسمیں ہیں:٭اعضاء کو ضائع کرنا،یعنی کسی کو ہاتھ پاؤں یا کسی اور عضو سے محروم کردیا۔٭اعضاء کی کارکردگی سے محروم کرنا،یعنی کسی قوت گویائی، قوت سماعت یا قوت سوچ وبچار سے محروم کرنا۔٭کسی کو زخمی کرنا، یعنی سر،چہرے یا جسم کے کسی دوسرے حصے کو زخمی کرنا۔ان کے متعلق دیت کی تفصیل کتب فقہ میں موجود ہے۔بہرحال امام بخاری رحمہ الہ نے اس عنوان کے تحت قتل،قصاص اور دیت کے چیدہ چیدہ مسائل بیان کیے ہیں جن کی ہم آئندہ وضاحت کریں گے۔اس عنوان کے تحت چَوَن(54)کے قریب مرفوع احادیث بیان کی گئی ہیں جن میں سات(7)معلق اور باقی موصول ہیں۔ان میں چالیس (40)مکرر اور(14)چودہ خالص ہیں۔چند احادیث کے علاوہ باقی احادیث امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی بیان کی ہیں۔مرفوع احادیث کے علاوہ صحابۂ کرام اور تابعین عظام سے اٹھائیس(28)آثار بھی مروی ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے ان احادیث وآثار پر بتیس(32)چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کرکے متعدد مسائل واحکام اخذ کیے ہیں۔بہرحال امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان میں دیگر مسائل کے علاوہ قتل ناحق کی سنگینی کو بڑی تفصیل سے بیان کیا ہے اور بتایا ہے کہ اس قسم کے قتل میں ابدی طور پر جہنم مین رہنے کی وعید ہے۔اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس سے محفوظ رکھے۔قارئین سے گزارش ہے کہ وہ ہماری بیان کردہ معروضات کو سامنے رکھتے ہوئے ان احادیث کا مطالعہ کریں تاکہ امام بخاری رحمہ اللہ کی قوت اجتہاد کا ادراک ہو۔دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہم سب کو قیامت کے دن محدثین کرام رحمہ اللہ کے پاکیزہ گروہ میں سے اٹھائے۔ آمین
تمہید باب
قسامہ سے مراد ایسا حلف ہے جسے مقتول کے ورثاء ملزم پر قتل ثابت کرنے کے لیے اٹھائیں کہ اللہ کی قسم!فلاں نے اسے قتل کیا ہے۔قسامت کی صورت یہ ہے کہ کسی بستی یا شہر میں کوئی آدمی مقتول پایا جائے جبکہ اس کے قاتل کا علم نہ ہو اور اس کے قتل پر کوئی گواہ بھی نہ ہو لیکن مقتول کا وارث اس کے قتل کا الزام کسی آدمی یا جماعت پر لگائے۔جس علاقے میں مقتول پایا جائے اس کی ان کے ساتھ دشمنی تھی۔مقتول کے ورثاء کو ان کے خلاف پچاس قسمیں اٹھانے کا حکم دیا جائے گا۔اگر انھوں نے قسمیں اٹھالیں تو مقتول کی دیت کے مستحق قرار پائیں گے اور اگر مقتول کے ورثاء قسمیں نہ اٹھائیں تو پھر جن کے خلاف دعویٰ ہے انھیں قسمیں اٹھانے کے متعلق کہا جائے گا کہ نہ تو انھوں نے خود قتل کیا ہے اور نہ انھیں قاتل ہی کا علم ہے۔اگر وہ قسمیں اٹھالیں تو قتل کے الزام سے بری ہوجائیں گے اور اگر وہ قسمیں نہ اٹھائیں تو ان پر دیت کی ادائیگی لازم کردی جائے گی۔جمہور صحابہ وتابعین کا یہی موقف ہے کہ قسامت مشروع ہے جیسا کہ حدیث میں ہے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قسامت کو اسی طرح برقرار رکھا جیسا کہ دور جاہلیت میں تھی۔(صحیح مسلم،القسامۃ، حدیث:4350(1670) دور جاہلیت میں قسامت کے متعلق حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ دور جاہلیت میں پہلی مرتبہ قسامت بنو ہاشم میں ہوئی۔اس کے بعد لمبی حدیث ہے کہ قاتل معین شخص تھا۔ابو طالب اس کے پاس آئے اور کہا کہ ان تین چیزوں میں سے کوئی ایک پسند کرلے:اگر تم چاہو تو سو اونٹ دیت دے دو کیونکہ تم نے ہمارے قبیلے کے آدمی کو قتل کیا ہے اور اگر چاہو تو تمھارے قبیلے کے پچاس آدمی یہ قسم اٹھالیں کہ تم نے اسے قتل نہیں کیا۔اگر تم اس کے لیے تیار نہیں ہوتو ہم تمھیں اس کے بدلے میں قتل کردیں گے۔وہ شخص اپنی قوم کے پاس آیا تو وہ قسم اٹھانے کے لیے تیار ہوگئے۔اس کے بعد بنو ہاشم کی ایک عورت ابو طالب کے پاس آئی جو اس قبیلے کے ایک شخص کی منکوحہ تھی اور اپنے اس شوہر سے اس کا ایک بیٹا بھی تھا۔اس نے کہا:ابو طالب! آپ مہربانی کریں اور ان پچاس آدمیوں میں سے میرے اس بیٹے کو معاف کردیں اور جہاں قسمیں لی جاتیں ہیں،اس سے وہاں قسم نہ لیں۔ابو طالب نے اسے معاف کرکے مستثنیٰ کردیا۔ اس کے بعد ان کا دوسرا آدمی آیا اور اس نے کہا:ابو طالب!آپ نے سواونٹوں کی جگہ پچاس آدمیوں سے قسم کا مطالبہ کیا ہے،اس طرح ہر شخص پر دواونٹ پڑتے ہیں،یہ دو اونٹ میری طرف سے قبول کرلیں اور مجھے اس مقام پر قسم اٹھانے کے لیے مجبور نہ کریں جہاں قسم اٹھائی جاتی ہے۔ابو طالب نے اس کا مطالبہ بھی منظور کرلیا اور دو اونٹ لے کر اسے قسم اٹھانے سے مستثنیٰ کردیا۔پھر اڑتالیس آدمیوں نے قسمیں اٹھالیں۔حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! ابھی اس واقعے کو پورا سال بھی نہیں گزرا تھا کہ اڑتالیس آدمیوں میں سے ایک بھی ایسا نہ رہا جو آنکھ ہلا سکتا ہو،یعنی وہ سب مرگئے۔(صحیح البخاری، مناقب الانصار، حدیث:3845) بہرحال قسامت میں پہلے مدعی حضرات سے قسم لی جائے گی۔اگر وہ انکار کریں تو پھر مدعیٰ علیہ گروہ کو قسم اٹھانے کے لیے کہا جائے گا اور محض کسی کے دعویٰ سے قسامت واجب نہ ہوگی جب تک شبہ نہ مل جائے یا کوئی علامت نہ پائی جائے،نیز قسامت صرف انسانی خون میں ہوتی ہے حیوانات میں نہیں ہوگی۔بعض حضرات نے قسامت سے اس بنا پر انکار کیا ہے کہ اس میں شرعی اصولوں کی خلاف ورزی پائی جاتی ہے،وہ اس طرح کہ دلیل پیش کرنا مدعی کاکام ہے اور قسم تو مدعیٰ علیہ اٹھاتا ہے لیکن قسامت میں مدعی سے قسم لی جاتی ہے؟اس کا جواب یہ ہے قسامت کو معاملات میں خصوصی حیثیت حاصل ہے،اس لیے اسے عام دلائل سے خاص کردیا گیا ہے کیونکہ اس میں انسانی جانوں کی حفاظت اور مجرموں کے لیے زجروتوبیخ ہے۔حاصل کلام یہ ہے کہ قسامت مشروع ہے۔اس کے خلاف کمزور سہاروں سے اس پر عمل نہیں چھوڑا جاسکتا۔واضح رہے کہ قسامت میں غیر مسلم کا اعتبار بھی کیا جائے گا جیسا کہ آئندہ احادیث میں آئے گا۔امام بخاری رحمہ اللہ کے نزدیک قسامت میں قصاص نہیں بلکہ دیت دی جائے گی کیونکہ قصاص کے لیے اس کا واضح ثبوت ہونا چاہیے لیکن قسامت میں گواہ نہیں ہوتے۔حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کے آثار اسی غرض کے لیے پیش کیے گئے ہیں۔
اور اشعث بن قیس نے کہا کہ نبی کریم ﷺنے فرمایا تم اپنے دو گواہ لاؤ ورنہ اس( مدعیٰ علیہ) کی قسم( پر فیصلہ ہوگا) ابن ابی ملیکہ نے بیان کیا قسامت میں معاویہ رضی اللہ عنہ نے قصاص نہیں لیا( صرف دیت دلائی) اور عمر بن عبدالعزیز نے عدی بن ارطاۃ کو جنہیں انہوں نے بصرہ کا امیر بنایا تھا ایک مقتول کے بارے میں جو تیل بیچنے والوں کے محلہ کے ایک گھر کے پاس پایاگیا تھا لکھا کہ اگر مقتول کے اولیاءکے پاس کوئی گواہی ہو( تو فیصلہ کیا جاسکتا ہے) ورنہ خلق اللہ پر ظلم نہ کرو کیوں کہ ایسے معاملہ کا جس پر گواہ نہ ہوں قیامت تک فیصلہ نہیں ہوسکتا۔
حدیث ترجمہ:
حضرت بشیر بن یسار سے روایت ہے انہوں نے کہا: انصار کےایک صاحب حضرت سہل بن ابی ثمہ ؓ نے بتایا کہ ان کی قوم کے چند لوگ خیبر گئے اور وہاں انہوں نے اپنے میں سے ایک شخص کو مقتول پایا۔ جہاں مقتول ملا تھا وہاں کے لوگوں سے انہوں نے کہا: تم نے ہمارے ساتھی کو قتل کیا ہے۔ انہوں نے کہا: ہم نے قتل نہیں کیا اور نہ ہم قاتل ہی کو جانتے ہیں۔ پھر یہ لوگ رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے اور کہا: اللہ کے رسول! ہم خیبر گئے تھے، وہاں ہم نے اپنے میں سے ایک مقتول کو پایا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”تم میں سے جو بڑا ہے وہ بات کرے۔“ نیز آپ نے فرمایا: ”تم اس پر گواہ پیش کرو جس نے قتل کیاہے۔“ انہوں نے کہا: ہمارے اس کے متعلق کوئی گواہ نہیں ہے۔ آپ ﷺ فرمایا: (”اگر تمہارے پاس گواہ نہیں) تو وہ (یہودی) قسم کھائیں گے۔“ انہوں نے کہا: ان (یہود) کی قسم پر ہمیں اعتماد نہیں، چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے یہ پسند نہ فرمایا کہ مقتول کا خون رائیگاں جائے تو آپ نے صدقے کے اونٹوں میں سے اونٹ دیت میں دیے۔
حدیث حاشیہ:
(1) ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’وہ لوگ تمھارے ساتھی کی دیت ادا کریں گے یا جنگ کے لیے تیار ہو جائیں۔‘‘ آپ نے مزید فرمایا: ’’کیا تم لوگ قسم اٹھا کر اپنے ساتھی کے خون کے حق دار بنو گے؟‘‘ انھوں نے کہا: ہم کس طرح قسم اٹھائیں جبکہ ہم وہاں موجود نہیں تھے اور نہ ہم نے کچھ دیکھا ہی ہے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’پھر وہ پچاس قسمیں اٹھا کر تم سے خود کو بری کرلیں۔‘‘ انھوں نے کہا: ہم کافروں کی قسموں کا کیسے اعتبار کریں؟ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے پاس سے اس کی دیت ادا کر دی۔ (صحیح البخاري، الجزیة، حدیث:3173) مقصد یہ ہے کہ جھگڑا ختم کرنے کے لیے ایسے معاملات میں بیت المال سے دیت ادا کر دی جائے۔ جب بیت المال نہ ہو تو حکومت اپنے خزانے سے مقتول کا خون بہا ادا کر دے۔ (2) امام بخاری رحمہ اللہ کا اس حدیث سے مقصود یہ ہے کہ قسامت میں قصاص کے بجائے دیت دینے پر فیصلہ ہوگا جیسا کہ مذکورہ حدیث میں وضاحت ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ کا موقف یہ معلوم ہوتا ہے کہ قسامت میں قسم لینے کا آغاز مدعی علیہ سے کیا جائے گا جیسا کہ پیش کردہ حدیث میں ہے۔ ہمارے رجحان کے مطابق پہلے مدعی سے دلیل کا مطالبہ کیا جائے، اگر اس کے پاس دلیل نہ ہو تو انھیں پچاس قسمیں اٹھانے کا کہا جائے۔ اگر وہ قسمیں نہ اٹھائیں تو مدعی علیہ سے قسم لی جائے جیسا کہ ایک روایت میں اس کی وضاحت ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تم قاتل پر دوگواہ پیش کرو تو اسے تمھارے حوالے کر دیا جائے گا۔‘‘ انھوں نے کہا: اللہ کے رسول! ہم گواہ کہاں سے لائیں مقتول تو یہودیوں کے دروازے کے پاس برآمد ہوا ہے؟ آپ نے فرمایا: ’’تم پچاس قسمیں اٹھاؤ کہ ہمارے آدمی کو فلاں آدمی نے قتل کیا ہے۔‘‘ انھوں نے کہا: اللہ کے رسول! جس بات کا ہمیں یقین نہیں ہم اس کے متعلق قسم کیسے اٹھائیں؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’پھر یہودی پچاس قسمیں اٹھا کر اپنے الزام سے بری ہو جائیں گے۔‘‘ انھوں نے کہا: اللہ کے رسول! ہم یہودیوں سے کیوں قسمیں لیں؟ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جھگڑا نمٹانے کے لیے اپنے پاس سے دیت ادا کر دی۔ (سنن النسائي، القسامة، حدیث:4724) ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدعی سے گواہوں کا مطالبہ کیا تو انھوں نے عرض کی: اللہ کے رسول! وہاں تو مسلمان نہیں رہتے جو ہمارے حق میں گواہی دیں، وہاں تو یہودی بستے ہیں جو اس سے بھی بڑے کام پر جرأت کر سکتے ہیں، یعنی جھوٹی قسم اٹھا سکتے ہیں۔ (سنن أبي داود، الدیات، حدیث:4524)
ترجمۃ الباب:
حضرت اشعث بن قیس ؓبیان کرتے ہیں کہ نبی ﷺنے فرمایا: تم اپنے دو گواہ لاؤ بصورت دیگر اس(مدعی علیہ) کی قسم پر فیصلہ ہوگا۔ ابن ابو ملکیہ نے کہا: قسامت میں حضرت معاویہ ؓ نے قصاص نہیں لیا(صرف دیت دلائی)۔ حضرت عمر بن عبدالعزیز نے اپنے بصرہ کے امیر عدی بن ارطاۃ کو ایک مقتول کے بارے میں لکھا جو گھی بیچنے والوں کے محلے میں ایک گھر کے پاس پایا گیا تھا،اگر مقتول کے وارث کوئی گواہی پیش کریں تو ٹھیک بصورت دیگر لوگوں پر ظلم نہ کرنا کیونکہ ایسے معاملے کے متعلق قیامت تک فیصلہ نہیں ہوسکتا۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے ابونعیم نے بیان کیا، کہا ہم سے سعید بن عبید نے بیان کیا، ان سے بشیر بن یسارنے، وہ کہتے تھے کہ قبیلہ انصار کے ایک صاحب سہل بن ابی حثمہ نے انہیں خبر دی کہ ان کی قوم کے کچھ لوگ خیبر گئے اور (اپنے اپنے کاموں کے لیے) مختلف جگہوں میں الگ الگ گئے پھر اپنے میں سے ایک شخص کو مقتول پایا۔ جنہیں وہ مقتول ملے تھے، ان سے ان لوگوں نے کہا کہ ہمارے ساتھی کو تم نے قتل کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ نہ ہم نے قتل کیا اور نہ ہمیں قاتل کا پتہ معلوم ہے؟ پھر یہ لوگ نبی کریم ﷺ کے پاس گئے اور کہا یا رسول اللہ! ہم خیبر گئے اور پھر ہم نے وہاں اپنے ایک ساتھی کو مقتول پایا۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ تم میں جو بڑا ہے وہ بات کرے۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ قاتل کے خلاف گواہی لاؤ۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے پاس کوئی گواہی نہیں ہے۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ پھر یہ (یہودی) قسم کھائیں گے (اور ان کی قسم پر فیصلہ ہوگا) انہوں نے کہا کہ یہودیوں کی قسموں کا کوئی اعتبار نہیں۔ آنحضرت ﷺ نے اسے پسند نہیں فرمایا کہ مقتول کا خون رائیگاں جائے چنانچہ آپ نے صدقہ کے اونٹوں میں سے سو اونٹ (خود ہی) دیت میں دیئے۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Sahl bin Abi Hathma (RA) : (a man from the Ansar) that a number of people from his tribe went to Khaibar and dispersed, and then they found one of them murdered. They said to the people with whom the corpse had been found, "You have killed our companion!" Those people said, "Neither have we killed him, nor do we know his killer." The bereaved group went to the Prophet (ﷺ) and said, "O Allah's Apostle (ﷺ) ! We went to Khaibar and found one of us murdered." The Prophet (ﷺ) said, "Let the older among you come forward and speak." Then the Prophet (ﷺ) said, to them, "Bring your proof against the killer." They said "We have no proof." The Prophet (ﷺ) said, "Then they (the defendants) will take an oath." They said, "We do not accept the oaths of the Jews." Allah's Apostle (ﷺ) did not like that the Blood-money of the killed one be lost without compensation, so he paid one-hundred camels out of the camels of Zakat (to the relatives of the deceased) as Diya (Blood-money).