Sahi-Bukhari:
Blood Money (Ad-Diyat)
(Chapter: Al-‘Aqila who pay the Diya)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
6903.
حضرت ابو حجیفہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: میں نے حضرت علی ؓ سے پوچھا: کیا تمہارے پاس کوئی ایسی چیز ہے جو قرآن میں یا لوگوں کے پاس نہیں ہے؟ حضرت علی ؓ نے جواب دیا: قسم ہے اس ذات کی جس نے دانہ پھاڑا اور انسان کو پیدا کیا! ہمارے پاس قرآن مجید کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے، ہاں ہمیں بصیرت ملی ہے جو قرآن فہمی کے لیے ہوتی ہے، نیز ہمارے پاس وہ کچھ ہے جو اس صحیفے میں ہے، میں نے کہا: اس صحیفے میں کیا ہے؟ انہوں نے فرمایا: دیت اور قیدیوں کو چھڑانے کے مسائل ہیں، نیز اس میں ہے کہ مسلمان کسی کافر کے بدلے قتل نہیں کیا جائے گا۔
تشریح:
قتل کرنے والے کے عصبہ رشتے داروں پر دیت کی ادائیگی واجب ہوتی ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: ’’دیت، قاتل کے عصبہ رشتے داروں پر لازم ہے۔‘‘ (صحیح البخاري، الدیات، حدیث6910) حدیث میں ہے کہ قبیلۂ ہذیل کی دو عورتوں میں سے ایک نے دوسری کو قتل کر دیا۔ ان میں سے ہر ایک کا خاوند اور بچے بھی تھے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مقتولہ کی دیت قاتل عورت کے ورثاء پر ڈال دی اور اس کے خاوند اور اولاد کو بری قرار دیا۔ (سنن أبي داود، الدیات، حدیث:4575) عصبہ رشتے داروں سے مراد اصحاب الفروض اور اولو الارحام کے علاوہ ہیں۔ واللہ أعلم
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6656
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6903
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
6903
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
6903
تمہید کتاب
لفظ ديات، دية كی جمع ہے۔اس سے مراد" خون بہا"ہے۔ لغوی اعتبار سے یہ مصدر ہے جس کے معنی خون بہا دینا آتے ہیں۔ شرعی اعتبار سے ایسا مال جو کسی جرم کی وجہ سے انسان پر واجب ہو" دیت" کہلاتا ہے۔حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ ابنی اسرائیل میں صرف قصاص فرض تھا،ان کے ہاں دیت نہ تھی۔اللہ تعالیٰ نے اس امت کے لیے فرمایا: (كُتِبَ عَلَيْكُمُ الْقِصَاصُ) مقتولین کے بارے میں تم پر قصاص فرض کردیا گیا ہے۔"(البقرہ2: 178)نیز فرمایا: (فَمَنْ عُفِيَ لَهُ مِنْ أَخِيهِ)"جس کے لیے اس کے بھائی کی طرف سے کوئی چیز معاف کردی جائے۔"(البقرہ2: 178)اس مقام پر عفو سے مراد قتل عمدہ میں دیت قبول کرنا ہے۔(صحیح البخاری، التفسیر، حدیث:4498)حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"جس کسی کا کوئی آدمی مارا جائے تو اسے دو اختیار ہیں:یا تو وہ دیت وصول کرے یا قاتل کو مقتول کے بدلے میں قتل کردیا جائے۔"یعنی قصاص اور دیت واجب ہے لیکن ان دونوں میں اختیار ہے۔(صحیح البخاری، اللقطۃ،حدیث:2434) دیت کے وجوب میں بنیادی شرط یہ ہے کہ قتل ناحق ہو،یعنی مقتول کو کسی شرعی وجہ سے قتل نہ کیا گیا ہو بلکہ بلا وجہ اسے موت کے گھاٹ اتار دیا گیا ہو۔حربی کافر،حد یا قصاص کی بنا پر قتل کرنے سے دیت ساقط ہوجاتی ہے۔وجوب دیت کے چند اسباب ہیں جن کی تفصیل حسب ذیل ہے:٭اس سے مراد کسی کو جان سے مارنا ہے۔اس کی تین قسمیں ہیں:٭قتل عمد: غیر مستحقِ قتل کو مار دینے کی نیت سے ایسے آلے کے ذریعے سے مارنا جس سے عام طور پر آدمی مرجاتا ہو،مثلاً: بندوق، تلوار یا تیر وغیرہ سے قتل کرنا۔٭قتل شبہ عمد:کسی آدمی کو ایسی چیز سے مارنا جس سے عموماً انسان مرتا نہیں،مثلاً:چھڑی یا کنکری سے کسی کو ماردیا جائے۔اس میں قصاص نہیں بلکہ دیت ہے۔٭قتل خطا:کسی کو غلطی سے مارنا۔ اس کی کئی صورتیں ہیں،مثلاً:٭گولی تو شکار کی طرف چلائے لیکن کسی انسان کو لگ جائے اور وہ اس سے مرجائے۔٭کسی نے اپنی ضرورت کے لیے کنواں کھودا لیکن کوئی اس میں گر کر مرجائے۔٭کسی ہنگامے میں کسی مسلمان کو کافر سمجھ کر مارے جیسا کہ غزوۂ احد میں حضرت یمان رضی اللہ عنہ قتل ہوئے تھے۔٭ٹریفک کے حادثے میں کسی گاڑی کے نیچے آکر یا اس کی ضرب سے مرجائے۔قتل خطا میں قرآن کریم کی تصریح کے مطابق دیت اور کفارہ دونوں واجب ہیں۔کسی کو جان سے مار دینا،اس میں دیت کی مقدار سو اونٹ یا ان کی قیمت کے برابر رقم ہے جو قاتل کے وارث مقتول کے ورثاء کو ادا کریں گے،چنانچہ حدیث میں ہے: "کسی بھی جان کے قتل میں سواونٹ دیت ہے۔"(سنن الدارمی:2/188) ایک روایت میں ہے کہ جن کے پاس سونا ہے ان پر ایک ہزار دینار دیت ہے۔حضرت عمرِ فاروق رضی اللہ عنہ نے دیت یوں مقرر کی تھی:جن کے پاس سونا ہے ان پر ایک ہزار دینار، جن کے پاس چاندی ہے ان پر بارہ ہزار درہم اور جن کے پاس حُلّے( ریشمی لباس) ہیں ان پر دوسوحلوں کی ادائیگی ہے۔(سنن ابی داود، الدیات، حدیث:4542)بہرحال دیت میں اصل اونٹ ہیں،ان کے علاوہ جو کچھ بھی دیا جائے وہ اونٹوں کی قیمت کے مطابق دیا جائے۔دیت کا دوسرا سبب قتل کے علاوہ کسی پر زیادتی کرنا ہے،اس کی تین قسمیں ہیں:٭اعضاء کو ضائع کرنا،یعنی کسی کو ہاتھ پاؤں یا کسی اور عضو سے محروم کردیا۔٭اعضاء کی کارکردگی سے محروم کرنا،یعنی کسی قوت گویائی، قوت سماعت یا قوت سوچ وبچار سے محروم کرنا۔٭کسی کو زخمی کرنا، یعنی سر،چہرے یا جسم کے کسی دوسرے حصے کو زخمی کرنا۔ان کے متعلق دیت کی تفصیل کتب فقہ میں موجود ہے۔بہرحال امام بخاری رحمہ الہ نے اس عنوان کے تحت قتل،قصاص اور دیت کے چیدہ چیدہ مسائل بیان کیے ہیں جن کی ہم آئندہ وضاحت کریں گے۔اس عنوان کے تحت چَوَن(54)کے قریب مرفوع احادیث بیان کی گئی ہیں جن میں سات(7)معلق اور باقی موصول ہیں۔ان میں چالیس (40)مکرر اور(14)چودہ خالص ہیں۔چند احادیث کے علاوہ باقی احادیث امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی بیان کی ہیں۔مرفوع احادیث کے علاوہ صحابۂ کرام اور تابعین عظام سے اٹھائیس(28)آثار بھی مروی ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے ان احادیث وآثار پر بتیس(32)چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کرکے متعدد مسائل واحکام اخذ کیے ہیں۔بہرحال امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان میں دیگر مسائل کے علاوہ قتل ناحق کی سنگینی کو بڑی تفصیل سے بیان کیا ہے اور بتایا ہے کہ اس قسم کے قتل میں ابدی طور پر جہنم مین رہنے کی وعید ہے۔اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس سے محفوظ رکھے۔قارئین سے گزارش ہے کہ وہ ہماری بیان کردہ معروضات کو سامنے رکھتے ہوئے ان احادیث کا مطالعہ کریں تاکہ امام بخاری رحمہ اللہ کی قوت اجتہاد کا ادراک ہو۔دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہم سب کو قیامت کے دن محدثین کرام رحمہ اللہ کے پاکیزہ گروہ میں سے اٹھائے۔ آمین
تمہید باب
عاقلہ، عاقل کی جمع ہے۔اس کے معنی ہیں: دیت دینے والا۔دیت کو عقل کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے کیونکہ دیت کے اونٹ مقتول کے ورثاء کے گھر باندھے جاتے ہیں۔عقل کے معنی روکنا اور باندھنا بھی ہیں۔عقل بھی انسان کو فواحش ومنکرات اور بے حیائی سے روکتی ہے۔کثرت استعمال کی وجہ سے عقل کا استعمال دیت پر کیا جاتا ہے اگرچہ دیت اونٹ کی صورت میں نہ ہو۔ چونکہ برادری،قاتل سے قتل کو روکتی ہے،اس لیے اسے بھی عاقلہ کہا جاتا ہے۔دیت برادری سے اس لیے لی جاتی ہے کہ شاید قاتل کے سارے مال سے پوری نہ ہوسکے اور اگر دیت کے بغیر قاتل کو چھوڑ دیا جائے تو مقتول کا خون رائیگاں اور ضائع جاتا ہے۔(فتح الباری:12/306)
حضرت ابو حجیفہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: میں نے حضرت علی ؓ سے پوچھا: کیا تمہارے پاس کوئی ایسی چیز ہے جو قرآن میں یا لوگوں کے پاس نہیں ہے؟ حضرت علی ؓ نے جواب دیا: قسم ہے اس ذات کی جس نے دانہ پھاڑا اور انسان کو پیدا کیا! ہمارے پاس قرآن مجید کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے، ہاں ہمیں بصیرت ملی ہے جو قرآن فہمی کے لیے ہوتی ہے، نیز ہمارے پاس وہ کچھ ہے جو اس صحیفے میں ہے، میں نے کہا: اس صحیفے میں کیا ہے؟ انہوں نے فرمایا: دیت اور قیدیوں کو چھڑانے کے مسائل ہیں، نیز اس میں ہے کہ مسلمان کسی کافر کے بدلے قتل نہیں کیا جائے گا۔
حدیث حاشیہ:
قتل کرنے والے کے عصبہ رشتے داروں پر دیت کی ادائیگی واجب ہوتی ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: ’’دیت، قاتل کے عصبہ رشتے داروں پر لازم ہے۔‘‘ (صحیح البخاري، الدیات، حدیث6910) حدیث میں ہے کہ قبیلۂ ہذیل کی دو عورتوں میں سے ایک نے دوسری کو قتل کر دیا۔ ان میں سے ہر ایک کا خاوند اور بچے بھی تھے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مقتولہ کی دیت قاتل عورت کے ورثاء پر ڈال دی اور اس کے خاوند اور اولاد کو بری قرار دیا۔ (سنن أبي داود، الدیات، حدیث:4575) عصبہ رشتے داروں سے مراد اصحاب الفروض اور اولو الارحام کے علاوہ ہیں۔ واللہ أعلم
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے صدقہ بن الفضل نے بیان کیا، کہا ہم کو ابن عیینہ نے خبر دی، ان سے مطرف نے بیان کیا، کہا کہ میں نے شعبی سے سنا، کہا کہ میں نے ابوجحیفہ سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ میں نے حضرت علی ؓ سے پوچھا، کیا آپ کے پاس کوئی ایسی چیز بھی ہے جو قرآن مجید میں نہیں ہے اور ایک مرتبہ انہوں نے اس طرح بیان کیا کہ جو لوگوں کے پاس نہیں ہے۔ اس پر انہوں نے کہا کہ اس ذات کی قسم جس نے دانے سے کونپل کو پھاڑ کر نکالا ہے اور مخلوق کو پیدا کیا۔ ہمارے پاس قرآن مجید کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔ سوا اس سمجھ کے جو کسی شخص کو اس کی کتاب میں دی جائے اور جو کچھ اس صحیفہ میں ہے۔ میں نے پوچھا صحیفہ میں کیا ہے؟ فرمایا خون بہا (دیت) سے متعلق احکام اور قیدی کے چھڑانے کا حکم اور یہ کہ کوئی مسلمان کسی کافر کے بدلہ میں قتل نہیں کیا جائے گا۔