باب : اگر کوئی ذمی کافر کو بےگناہ مارڈالے تو کتنا بڑا گناہ ہوگا
)
Sahi-Bukhari:
Blood Money (Ad-Diyat)
(Chapter: The sin of a person who killed an innocent Dhimi)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
6914.
حضرت عبداللہ بن عمرو ؓ سے روایت ہے وہ نبی ﷺسے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: جس کسی نے ایسے شخص کو مارا جس نے عہد کیا گیا تھا، وہ جنت کی خوشبو نہیں سونگھنے گا، حالانکہ جنت کی خوشبو چالیس برس کی مسافت سے پائی جاتی ہے۔
تشریح:
(1) معاہد سے مراد وہ غیر مسلم ہے جس کی حفاظت کا ذمہ مسلمانوں پر عائد ہوتا ہو،یعنی وہ اسلامی حکومت کا شہری ہو،خواہ سربراہ مملکت کی طرف سے جزیہ یا صلح پر اسے امان دی گئی ہویا کسی مسلمان نے اسے پناہ دے رکھی ہو،ان سب صورتوں میں کسی کافر کو ناجائز نہیں مارا جائے گا۔ (فتح الباري:323/12) (2) اگر کوئی غیر مسلم اسلامی حکومت میں رہتے ہوئے جارحانہ کارروائی کرتا ہے تو اس کا نوٹس لینا حکومت کا فرض ہے۔ اسی طرح اگر اسلامی ملک کی سرحدوں پر کافر لوگ باغیانہ کارروائیوں میں مصروف رہتے ہوں یا مسلمانوں کے جان ومال کو نقصان پہنچاتے ہوں تو ان کا سدباب کرنا بھی اسلامی حکومت کا اولین فرض ہے۔ مسلمانوں رعایا کو قانون ہاتھ میں لے کر کسی قسم کی کارروائی نہین کرنی چاہیے۔ (3) حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے مہلب کے حوالے سے لکھا ہے کہ اگر کوئی مسلمان کسی ذمی یا معاہد کو قتل کر دے تو مسلمان کو قصاص کے طور پر قتل نہیں کیا جائے گا کیونکہ اس حدیث میں اس کے قتل پر اخروی وعید ہی بیان کی گئی ہے، دنیاوی سزا کا اس میں کوئی ذکر نہیں۔ (فتح الباري: 234/12) اس کے متعلق ہم آئندہ کسی وقت گفتگو کریں گے۔ بإذن اللہ تعالیٰ
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6666
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6914
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
6914
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
6914
تمہید کتاب
لفظ ديات، دية كی جمع ہے۔اس سے مراد" خون بہا"ہے۔ لغوی اعتبار سے یہ مصدر ہے جس کے معنی خون بہا دینا آتے ہیں۔ شرعی اعتبار سے ایسا مال جو کسی جرم کی وجہ سے انسان پر واجب ہو" دیت" کہلاتا ہے۔حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ ابنی اسرائیل میں صرف قصاص فرض تھا،ان کے ہاں دیت نہ تھی۔اللہ تعالیٰ نے اس امت کے لیے فرمایا: (كُتِبَ عَلَيْكُمُ الْقِصَاصُ) مقتولین کے بارے میں تم پر قصاص فرض کردیا گیا ہے۔"(البقرہ2: 178)نیز فرمایا: (فَمَنْ عُفِيَ لَهُ مِنْ أَخِيهِ)"جس کے لیے اس کے بھائی کی طرف سے کوئی چیز معاف کردی جائے۔"(البقرہ2: 178)اس مقام پر عفو سے مراد قتل عمدہ میں دیت قبول کرنا ہے۔(صحیح البخاری، التفسیر، حدیث:4498)حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"جس کسی کا کوئی آدمی مارا جائے تو اسے دو اختیار ہیں:یا تو وہ دیت وصول کرے یا قاتل کو مقتول کے بدلے میں قتل کردیا جائے۔"یعنی قصاص اور دیت واجب ہے لیکن ان دونوں میں اختیار ہے۔(صحیح البخاری، اللقطۃ،حدیث:2434) دیت کے وجوب میں بنیادی شرط یہ ہے کہ قتل ناحق ہو،یعنی مقتول کو کسی شرعی وجہ سے قتل نہ کیا گیا ہو بلکہ بلا وجہ اسے موت کے گھاٹ اتار دیا گیا ہو۔حربی کافر،حد یا قصاص کی بنا پر قتل کرنے سے دیت ساقط ہوجاتی ہے۔وجوب دیت کے چند اسباب ہیں جن کی تفصیل حسب ذیل ہے:٭اس سے مراد کسی کو جان سے مارنا ہے۔اس کی تین قسمیں ہیں:٭قتل عمد: غیر مستحقِ قتل کو مار دینے کی نیت سے ایسے آلے کے ذریعے سے مارنا جس سے عام طور پر آدمی مرجاتا ہو،مثلاً: بندوق، تلوار یا تیر وغیرہ سے قتل کرنا۔٭قتل شبہ عمد:کسی آدمی کو ایسی چیز سے مارنا جس سے عموماً انسان مرتا نہیں،مثلاً:چھڑی یا کنکری سے کسی کو ماردیا جائے۔اس میں قصاص نہیں بلکہ دیت ہے۔٭قتل خطا:کسی کو غلطی سے مارنا۔ اس کی کئی صورتیں ہیں،مثلاً:٭گولی تو شکار کی طرف چلائے لیکن کسی انسان کو لگ جائے اور وہ اس سے مرجائے۔٭کسی نے اپنی ضرورت کے لیے کنواں کھودا لیکن کوئی اس میں گر کر مرجائے۔٭کسی ہنگامے میں کسی مسلمان کو کافر سمجھ کر مارے جیسا کہ غزوۂ احد میں حضرت یمان رضی اللہ عنہ قتل ہوئے تھے۔٭ٹریفک کے حادثے میں کسی گاڑی کے نیچے آکر یا اس کی ضرب سے مرجائے۔قتل خطا میں قرآن کریم کی تصریح کے مطابق دیت اور کفارہ دونوں واجب ہیں۔کسی کو جان سے مار دینا،اس میں دیت کی مقدار سو اونٹ یا ان کی قیمت کے برابر رقم ہے جو قاتل کے وارث مقتول کے ورثاء کو ادا کریں گے،چنانچہ حدیث میں ہے: "کسی بھی جان کے قتل میں سواونٹ دیت ہے۔"(سنن الدارمی:2/188) ایک روایت میں ہے کہ جن کے پاس سونا ہے ان پر ایک ہزار دینار دیت ہے۔حضرت عمرِ فاروق رضی اللہ عنہ نے دیت یوں مقرر کی تھی:جن کے پاس سونا ہے ان پر ایک ہزار دینار، جن کے پاس چاندی ہے ان پر بارہ ہزار درہم اور جن کے پاس حُلّے( ریشمی لباس) ہیں ان پر دوسوحلوں کی ادائیگی ہے۔(سنن ابی داود، الدیات، حدیث:4542)بہرحال دیت میں اصل اونٹ ہیں،ان کے علاوہ جو کچھ بھی دیا جائے وہ اونٹوں کی قیمت کے مطابق دیا جائے۔دیت کا دوسرا سبب قتل کے علاوہ کسی پر زیادتی کرنا ہے،اس کی تین قسمیں ہیں:٭اعضاء کو ضائع کرنا،یعنی کسی کو ہاتھ پاؤں یا کسی اور عضو سے محروم کردیا۔٭اعضاء کی کارکردگی سے محروم کرنا،یعنی کسی قوت گویائی، قوت سماعت یا قوت سوچ وبچار سے محروم کرنا۔٭کسی کو زخمی کرنا، یعنی سر،چہرے یا جسم کے کسی دوسرے حصے کو زخمی کرنا۔ان کے متعلق دیت کی تفصیل کتب فقہ میں موجود ہے۔بہرحال امام بخاری رحمہ الہ نے اس عنوان کے تحت قتل،قصاص اور دیت کے چیدہ چیدہ مسائل بیان کیے ہیں جن کی ہم آئندہ وضاحت کریں گے۔اس عنوان کے تحت چَوَن(54)کے قریب مرفوع احادیث بیان کی گئی ہیں جن میں سات(7)معلق اور باقی موصول ہیں۔ان میں چالیس (40)مکرر اور(14)چودہ خالص ہیں۔چند احادیث کے علاوہ باقی احادیث امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی بیان کی ہیں۔مرفوع احادیث کے علاوہ صحابۂ کرام اور تابعین عظام سے اٹھائیس(28)آثار بھی مروی ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے ان احادیث وآثار پر بتیس(32)چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کرکے متعدد مسائل واحکام اخذ کیے ہیں۔بہرحال امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان میں دیگر مسائل کے علاوہ قتل ناحق کی سنگینی کو بڑی تفصیل سے بیان کیا ہے اور بتایا ہے کہ اس قسم کے قتل میں ابدی طور پر جہنم مین رہنے کی وعید ہے۔اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس سے محفوظ رکھے۔قارئین سے گزارش ہے کہ وہ ہماری بیان کردہ معروضات کو سامنے رکھتے ہوئے ان احادیث کا مطالعہ کریں تاکہ امام بخاری رحمہ اللہ کی قوت اجتہاد کا ادراک ہو۔دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہم سب کو قیامت کے دن محدثین کرام رحمہ اللہ کے پاکیزہ گروہ میں سے اٹھائے۔ آمین
حضرت عبداللہ بن عمرو ؓ سے روایت ہے وہ نبی ﷺسے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: جس کسی نے ایسے شخص کو مارا جس نے عہد کیا گیا تھا، وہ جنت کی خوشبو نہیں سونگھنے گا، حالانکہ جنت کی خوشبو چالیس برس کی مسافت سے پائی جاتی ہے۔
حدیث حاشیہ:
(1) معاہد سے مراد وہ غیر مسلم ہے جس کی حفاظت کا ذمہ مسلمانوں پر عائد ہوتا ہو،یعنی وہ اسلامی حکومت کا شہری ہو،خواہ سربراہ مملکت کی طرف سے جزیہ یا صلح پر اسے امان دی گئی ہویا کسی مسلمان نے اسے پناہ دے رکھی ہو،ان سب صورتوں میں کسی کافر کو ناجائز نہیں مارا جائے گا۔ (فتح الباري:323/12) (2) اگر کوئی غیر مسلم اسلامی حکومت میں رہتے ہوئے جارحانہ کارروائی کرتا ہے تو اس کا نوٹس لینا حکومت کا فرض ہے۔ اسی طرح اگر اسلامی ملک کی سرحدوں پر کافر لوگ باغیانہ کارروائیوں میں مصروف رہتے ہوں یا مسلمانوں کے جان ومال کو نقصان پہنچاتے ہوں تو ان کا سدباب کرنا بھی اسلامی حکومت کا اولین فرض ہے۔ مسلمانوں رعایا کو قانون ہاتھ میں لے کر کسی قسم کی کارروائی نہین کرنی چاہیے۔ (3) حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے مہلب کے حوالے سے لکھا ہے کہ اگر کوئی مسلمان کسی ذمی یا معاہد کو قتل کر دے تو مسلمان کو قصاص کے طور پر قتل نہیں کیا جائے گا کیونکہ اس حدیث میں اس کے قتل پر اخروی وعید ہی بیان کی گئی ہے، دنیاوی سزا کا اس میں کوئی ذکر نہیں۔ (فتح الباري: 234/12) اس کے متعلق ہم آئندہ کسی وقت گفتگو کریں گے۔ بإذن اللہ تعالیٰ
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے قیس بن حفص نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالواحد بن زیاد نے، کہا ہم سے حسن بن عمرو فقیمی نے، کہا ہم سے مجاہد نے، انہوں نے عبداللہ بن عمرو ؓ سے، انہوں نے آنحضرت ﷺ سے، آپ نے فرمایا جو شخص ایسی جان کو مارڈاے جس سے عہد کر چکا ہو (اس کی امان دے چکا ہو) جیسے ذمی کافر کو تو وہ جنت کی خوشبو بھی نہ سونگھے گا (چہ جائے کہ اس میں داخل ہو) حالانکہ بہشت کی خوشبو چالیس برس کی راہ سے معلوم ہوتی ہے۔
حدیث حاشیہ:
اس میں وہ سب کافر آگئے جن کو دارالاسلام میں امان دیا گیا ہو خواہ بادشاہ اسلام کی طرف سے جزیہ یا صلح پر یا کسی مسلمان نے اس کو امان دی ہو لیکن اگر یہ بات نہ ہو تو اس کافر کی جان لینا یا اس کا مال لوٹنا شرع اسلام کی رو سے درست ہے۔ مثلاً وہ کافر جو دارالاسلام سے باہر سرحد پر رہتے ہوں، ان کی سرحد میں جا کر ان کو یا ان کی کافر رعیت کو لوٹنا مارنا حلال ہے۔ اسماعیلی کی روایت میں یوں ہے کہ بہشت کی خوشبو ستر برس کی راہ سے معلوم ہوتی ہے اور طبرانی کی ایک روایت میں سو برس مذکور ہیں۔ دوسری روایت میں پانچ سو برس اور فردوس دیلمی کی روایت میں ہزار برس مذکور ہیں اور یہ تعارض نہیں اس لیے کہ ہزار برس کی راہ سے بہشت کی خوشبو محسوس ہوتی ہے تو پانچ سو یا سو یا ستر یا چالیس برس کی راہ سے اور زیادہ محسوس ہوگی۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Abdullah bin 'Amr (RA) (RA) : The Prophet (ﷺ) said, "Whoever killed a Mu'ahid (a person who is granted the pledge of protection by the Muslims) shall not smell the fragrance of Paradise though its fragrance can be smelt at a distance of forty years (of traveling)."